سماجی مضامین

اب میں ڈاکٹر بن سکتی ہوں ” درس گاہ” میرے خوابوں کو قوت پرواز دے رہی ہے از محمد انیس الرحمٰن خان

پیش کش: جی این کے اردو

اب میں ڈاکٹر بن سکتی ہوں
” درس گاہ” میرے خوابوں کو قوت پرواز دے رہی ہے


محمد انیس الرحمٰن خان، دہلی
anis8june@gmail.com
7042293793
“میں ایک اچھی ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں،تاکہ غریبوں کا علاج مفت میں کرسکوں،علاج نہ ملنے کی وجہ سے میرے ماموں ہم سے بہت دور چلے گئے، میری امی کہتی ہیں کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آسکتے۔میں اپنے ماموں کو واپس تو نہیں لاسکتی مگر اب کسی کو علاج نہ ملنے کی وجہ سے بہت دور نہیں جانے دوں گی۔”آنکھوں میں چمک،اعتماد سے بھرپور لہجہ اور پُر جوش انداز میں آٹھ سالہ مُسکان سے اس کی درس گاہ میں درج بالا جملہ سننے کا پُرکیف منظر ہی کچھ عجیب تھا۔یہ منظر تب اور دوبالا ہوگیا جب یہ معلوم ہواکہ مُسکان ہی نہیں یہاں تعلیم حاصل کرنے والا اس کا دس سالہ بھائی بھی اس کا ہم خیال ہے۔ مُسکان سے دو سال بڑا محمدعارف بھی خود اعتمادی سے لبریز لہجے میں کہتا ہے کہ “ہم لوگ جس علاقے میں رہتے ہیں وہ انتہائی پسماندہ علاقہ شمار کیا جاتا ہے، یہاں زیادہ تر لوگ مزدوری کرکے غربت میں زندگی گزارتے ہیں، لوگوں کے پاس کھانے کو پیسے نہیں ہیں تو بہتر علاج کے لئے پیسے کہاں سے لائیں گے؟ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر بن کر میں مردوں کا علاج کروں اور میری بہن مُسکان عورتوں کا۔جب ڈاکٹر بن جائیں گے تو ہم لوگ غریبوں کا علاج مفت میں کریں گے اور امیروں سے پیسے لیں گے تاکہ غریبوں کی دوا علاج فری میں کرسکیں۔”
مذکورہ بچوں کی گفتگو سن کر میرے تجسوس میں اضافہ ہوا تو میں نے ان کے والدین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ درس گاہ کے ذمہ داران سے معلوم ہوا کہ ان کی والدہ محترمہ کوثربانوایک غریب مگر باحوصلہ خاتون ہیں وہ لوگوں کے گھر وں میں صفائی اور کھانا بناکر اپنے تین بچوں کی تعلیم کے ساتھ چارافراد کا خرچ چلارہی ہیں۔ محترمہ کوثر بانو نے بتایاکہ ” میرے والد معاشی اعتبار سے کمزور تھے وہ مٹھائی بنانے کا کام کیا کرتے تھے ہم بھائی بہنوں سے بہت پیار کرتے تھے،تعلیمی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے ہم لوگ بہتر تعلیم حاصل نہ کرسکے، گھر پر مختصر سی اردو اور قرآن پا ک کی تعلیم حاصل کی، سن بلوغت کو پہنچتے ہی ابانے اپنی حیثیت سے ایک بہتر رشتہ دیکھ کر میری شادی کر دی۔ مگر شادی کے بعد بھی غربت سے میرا ناطہ ٹوٹ نہ سکا۔میں نے اسی کو اپنی قسمت تسلیم کرتے ہوئے اپنا راستہ خود بنانے کا فیصلہ کیا، تب سے آج تک میں لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنے بچوں کے بہتر پرورش کی کوشش میں لگی ہوں۔میرا خواب ہے کہ میرے بچے تعلیم یافتہ ہوکر نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنائیں بلکہ اپنے معاشرے اور ملک کی فلاح وبہبود میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ اسی مقصد کے لئے میں نے بچوں کا داخلہ “درس گاہ ” میں کرایا ہے،مختصر سی مدت میں ہی تعلیم کااثر بخوبی میرے بچوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی کے طور پر نظر آرہا ہے۔ میرے بچے درس گاہ میں مذہبی تعلیم کے ساتھ انگریزی تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں۔ “کوثر اپنے جذبات پر قابو کرکے مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ “میرے بچے جب انگریزی زبان میں مجھ سے ناشتہ مانگتے ہوئے کہتے کہ” موم پلیز گیو می بریک فاسٹ” توانگریزی کا جملہ سن کر طبیعت باغ باغ ہوجاتی اور نئے جوش کے ساتھ پھر سے میں اپنے کام میں مشغول ہوجاتی ہوں، جب کام سے فارغ ہوکر رات میں بچوں سے ملتی ہوں تو پاتی ہوں کہ میرا بیٹا محمد عارف اپنی بہن مُسکان کو قرآن کا قاعدہ پڑھا رہا ہے،جب بچوں سے کھانے کی دعا، سونے کی دعااور کلمے سنتی ہوں تو اپنے رب کے شکرانہ کے طور پر آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑتے ہیں، دل سے دعا نکلتی ہے کہ مولیٰ کریم اپنے فضل وکرم سے “درس گاہ” کو نظر بد سے محفوظ رکھے، جس نے مختصر سے وقفہ میں میرے خوابوں کو قوت پرواز دی ہے۔ “
درس گاہ کے سرپرست سید محمد شائق اقبال چشتی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ “در اصل اس تعلیم گاہ کا پورا نام “درس گاہ کوچنگ اینڈ اوپین اسکولینگ”ہے۔ اس کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ یہاں کا تعلیم یافتہ بچہ جب مصلیٰ پر کھڑا ہوتو تجوید کے ساتھ قرآن شریف پڑنے والا امام ہو اور جب اسٹیج پر کھڑا ہوتو انگریزی زبان کا شاندار مقرر ہونے کے ساتھ دردِ دل رکھنے والا ایک بہترین انسان بھی بنے۔جس علاقے میں یہ درس گاہ قائم کی گئی ہے وہ کرناٹک کے بیجاپور کا انتہائی پسماندہ علاقہ ہے جہاں کے لوگ خود محنت کش ہیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کو بھی اس سے آگے نہیں دیکھ پاتے ہیں، اس لئے ہم لوگوں کی کوشش ہے کہ یہاں تعلیم کی شمع روشن کرکے ان کے مستقبل کو تابناک بنایاجائے۔یہی وجہ ہے کہ جو بچے اپنے تعلیمی سلسلہ کو منقطع کر چکے ہیں ان کے لئے اوپن اسکولینگ کا اہتمام بھی ہے جس میں کم وقت میں بچوں کو تیار کرکے بورڈ کا امتحان دلانا بھی شامل ہے۔اتنا ہی نہیں یہاں مقابلاجاتی امتحانات جیسے آئی اے ایس، کے اے ایس،ایس ایس سی، آرمی وغیرہ کی بھی ماہر اساتذہ کی نگرانی میں تیاری کرائی جاتی ہے “
آج کا تعلیمی نظام بچوں کو بہتر انسان بنانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے والی مشین بنانا بن چکاہے۔ایسے میں اگر ریاست کرناٹک کی بات کی جائے تویہاں کے زیادہ تر سرکاری اسکول دو طرح کے ہیں ایک اردو میڈیم اور دوسرا کنٹرمیڈیم۔ایسے میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ضروری اور بنیادی انگریزی زبان کمزورپڑجاتی ہے۔جس کی وجہ سے اکثر بچے پسماندگی اور احساس کمتری کے شکار ہوکر تعلیم سے بدل ہوجاتے ہیں۔اور زندگی بھر دوسروں کا بوجھ اُٹھانے والے بن کر اپنی زندگی کا بوجھ برداشت نہیں کرپاتے۔ ایسے میں مذکورہ درس گاہ کے ذریعہ جو بچے اردو یا کنڑمیڈیم کے اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں ان کی انگریزی زبان کو بہتر کرکے زمانے کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع فراہم کرنا ایک بڑا کارنامہ ثابت ہوگا۔ تاکہ معاشرے کے غریب بچے بھی ڈاکٹر، انجینیر، وکیل،سائنس داں، آئی اے ایس،آئی پی ایس، کے اے ایس، ایس ایس سی اور دیگرمقابلاجاتی امتحانات کی کامیابی کے بعد ملک و قوم کے لئے سود مند ثابت ہوسکیں۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ