پیش کش: جی این کے اردو
ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ_ 2022
افسانہ نمبر_ 24
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :- ” دھند میں لپٹی کرن”
ناہیدطاہر
ریاض،سعودی عرب
کالج میں میرا پہلا دن تھا۔کلاس روم لڑکیوں سے کچاکچ بھری ہوئی تھی میں نے اپنا مختصر سا تعارف پیش کیا۔ لڑکیوں نے مسرت اورکافی گرم جوشی کے ساتھ تالیاں بجاتے ہوئے میرا خیر مقدم کیا تھا۔ مجھے بے انتہا مسرت ہو رہی تھی۔ ایک لڑکی جو سب سے حسین اور چنچل تھی کھڑی ہوئی اورشُوخ چشمی سے گویا ہوئی۔
کچھ دنوں بعد وہ میرا راستہ روک کر کہنے لگی۔
”آپ سے رابطہ ،آپ سے انسیت ، آپ سے محبت ہی میری زندگی کا اثاثہ ہے۔آپ نہیں توکچھ نہیں ۔۔۔!!“
وہ جیسے پاگل ہوگئی تھی۔میں نے کہا،
”ٹھیک ہے محترمہ ! آپ کا جنون سر آنکھوں پر لیکن ایک شرط ہے!!“
”وہ کیا۔۔۔ ؟“
”سر آپ بہت ہینڈسم ہیں “
میں حیرت سے اس بے باک لڑکی کا چہرہ تکتا رہا۔میں ایک باوقار خاندان کا نورچشم تھا۔میری پرورش ایک ایسے گاؤں میں ہوئی تھی جہاں کی مٹی میں شرم و حیا کا عنصر کافی مقدار میں پایا گیا تھا۔میری پیشانی پر شکنوں کے درمیان پسینے کی بوندیں بھی ابھر آئیں۔لڑکی کھلکھلائی تو تمام لڑکیاں بھی محظوظ ہوتی ہوئیں کھلکھلا کر اس کا ساتھ دینے لگیں۔جواب میں؛ میں نے ایک ناگوار مسکراہٹ کے ذریعے خاموشی کی تلقین کرتا ہوا کتاب کی جانب طلباء کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کیا۔
یہ پہلا دن تھا۔بس اس دن کے بعد مجھے یہاں کئی اقسام کی لڑکیوں کو جاننے کا موقع ملا۔
سنا تو تھا کہ مردوں پر بھونرے کی مثال صادق آتی ہے لیکن یہاں یہ بات بالکل الٹ تھی۔
وہ شریر و شُوخ سی لڑکی جس کا نام پوجا تھا بس میرے پیچھے ہی پڑ گئی تھی۔جب وہ اپنی حدود تجاوز کر گئی تو میں اس کی حرکتوں سے خار کھاتا ہوا ،اسے تنہائی میں سمجھانے کی کوشش کیا،
”محترمہ ! آپ ایک اونچے خاندان کی چشمِ چراغ ہو۔ایسی غیر اخلاقی حرکات آپ کو زیبا نہیں دیتیں۔ بہتر ہے ،آپ اپنی توجہ پڑھائی کی جانب مبذل کرلیں کیونکہ یہ سال آپ کے لئے نہایت اہم ہے۔“
”سر ! دل بڑا ضدی ہے عشق کی محاذ پر کھڑا جنگ کا اعلان کرچکا ۔اب اس دل کا کیا کروں ؟“
اس نے کافی ڈھٹائی سے استفسار کیا تھا۔میں بڑی بے بسی سے اس کے خوبصورت سراپے کو دیکھتا رہا
”اس پیار سے میری طرف نہ دیکھیں پیار ہوجائے گا“
وہ ہمیشہ کی طرح شُوخی سے گنگناتی ہوئی دلکش انداز میں کھلکھلائی
”بہت بدتمیز ہو“
”محبت نے بنا دیا۔“
”خدا کا خوف کرو۔“
”میں بھگوان کو مانتی ہوں۔“
” میں ایک شادی شدہ مرد ہوں !!“
”آپ کی بیوی فوت ہوچکی ۔۔۔اگر وہ زندہ ہوتیں تب بھی کوئی فرق نہیں ہوتا کیونکہ آپ کے مذہب نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے۔“
”مجھے کوئی دوسرا کام نہیں؟ احمقانہ حرکتوں سے مجھے بدنام نہیں کرو۔“
”بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ “
وہ ڈھٹائی سے کہتی کھلکھلا ئی۔
اس نے تجسس اور دلچسپی سے پوچھا۔
”حقیقی عشق تک رسائی حاصل کرلو پھر مجھ تک پہنچنے کی جسارت کرنا۔“
”حقیقی عشق؟“
”ہاں ۔۔۔! اب یہ مت پوچھنا کہ وہ کیا ہوتا؟بس تلاش کرو۔“
میں اپنی شریک حیات اور دیڑھ سالہ بیٹا ، خالد سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔میری اس قدر چاہت کے باوجود میری شریکِ حیات بے وفا ثابت ہوئی تھی۔ زندگی کے حسین موڑ پر اس نے اچانک میرا ساتھ چھوڑ دیا اور ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور چلی گئی۔جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا ہے۔
پوجا نے میری زندگی کا چین وسکون چھین رکھا تھا۔وہ لڑکی عمر کے اس دوراہے پر کھڑی تھی جہاں پیار کا مطلب صرف فلمی ہوتا ہے۔
بات ،لڑکی کے جنون تک محدود رہتی تو کوئی حرج نہ تھا۔ بات تو تب بگڑتی چلی گئی ،جب کالج میں آئے دن افواہوں کا بازار گرم ہونے لگا۔ پہلے ہی معاشرے کے دماغ زنگ آلود تھے۔تعصب ! آپسی محبت و بھائی چارگی کے جذبوں کو کچل رہا تھا میں نے سوچا کہ اس ملازمت کو ترک کردوں اور گاؤں واپس چلا جاؤں لیکن بے روزگاری کا خوف قدموں کی زنجیر بن گیا
ایک کرشمہ ہوا ، پوجا نے اپنا نام بدل کر سکینہ رکھا اور کالج میں تبلیغ شروع کردی۔سب اس لڑکی کا مذاق اڑاتے ہوئے اس کا نام میرے نام سے جوڑ رہے تھے۔کالج کے چند شریر طلباء نے اس کا نام پریم دیوانی بھی رکھ دیا تھا وہ سن کر ہنستی۔
”ہاں میں محبت میں پاگل ہوں۔مجھے اچھا لگتا ہے جب لوگ پریم دیوانی کہتے ہیں۔“
وہ اب حجاب کی بے حد پابند ہوگئی تھی۔دھیرے دھیرے میرے دل میں اس کی محبت جگہ بناتی چلی گئی۔میں بار بار اس کے سامنے پہنچ جاتا۔ مسکرا کر اس کی جانب دیکھنے لگتا مگر وہ ایک نگاہ بھی مجھ پر ڈالنا گوارا نہیں کر رہی تھی۔جبکہ اسکی محبت میرے نام سے مشہور تھی۔اب میں اس کی محبت میں تڑپ رہا تھا۔
ایک دن اچانک ہی وہ اپنے پڑوسی کرشنا نامی شخص سے شادی کرلی۔میں نے سنا تھا کہ اس شخص کے تین عدد بچے بھی ہیں۔مجھے اس لڑکی کے اس غلط فیصلے پر بہت دکھ اور افسوس ہوا۔دل کے کسی خانے میں وہ ایک کسک بن کر رہ گئی۔۔۔
اس سانحہ کے بعد میں بہت اداس رہنے لگا۔اپنے گاؤں بھی بہت ہی کم جاتا۔بیٹے سے بھی ہفتوں ملاقات نہیں ہوتی آخر میری والدہ ماجدہ نے زبردستی میری شادی کردی۔اس طرح سکینہ کی یاد میں کمی واقع ہوئی ۔ پھر میں اسے مکمل بھول سا گیا۔
ریٹائرڈمنٹ کا پیسہ آیا تو میرے بیٹے خالد نے ایک سرپرائز تفریح پیکیج بک کیا اور ہم امریکہ چلے گئے۔شکاگو میں سات دن اور کولوراڈو میں تین دن کا قیام تھا۔ اس طرح دس دنوں کا پروگرام تھا۔
میرا بیٹا ایک کامیاب انجینئر بن گیا تھا۔بیٹی جو دوسری بیوی کے بطن سے تھی وہ زیرِ تعلیم تھی۔ہم چاروں کا قافلہ بے حد انجوئے کرتا ہوا کولوراڈو پہنچا۔
یہ شہر بہت خوبصورت تھا۔دسمبر کے ماہ یہاں چوبیس گھنٹے برفباری ہوتی تھی۔ہم لوگ دن بھر گھومتے اور سرِ شام ہی آتش دان کی جلتی لکڑیوں کی تپش میں صوفے یا بستر میں دبک جاتے ۔
چونکہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ دودھیا برف ماحول میں اپنا حُسن بکھیر رہی تھی۔سورج کی تپش آج کچھ بڑھ گئی تھی جس کے سبب دودھ جیسی برفیلی وادیاں قطرہ قطرہ پگھل کر فنا ہونے کی کوشش کرتی محسوس ہوئیں ۔
جمعہ کا دن تھا۔میں نے جب ویٹر سے سنا کہ نمازِ جمعہ کے لیے مسجد میں خواتین کا خاص انتظام ہوتا ہے۔ہم لوگ مسجد پہنچ گئے۔ خطبہ چل رہا تھا ، کوئی بزرگ انڈین تھے جو امامت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔خطبہ بہت متاثر کن تھا جو دلوں کو جھنجھوڑ رہا تھا۔میری آنکھیں نم ہوئیں۔میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرنے پر مجبور ہوا۔میرے بچے بہت ماڈرن تھے۔انھیں دین سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔بس نام کے مسلمان تھے۔
نماز کے بعد یہاں کی کمیٹی کے لوگوں نے کچھ ناشتے کا انتظام کیا تھا۔مرد وخواتین ساتھ بیٹھے ناشتے سے شغل کرتے نظر آئے۔
میں اپنی بیوی کے پہلو میں بیٹھا ، خاموشی سے چائے کی چسکیاں لیتا رہا۔اچانک میری سماعت سے ایک مانوس آواز ٹکڑائی۔وہ کسی حدیث کا حوالہ دیتی ہوئی کسی خاتون کو سمجھا رہی تھی۔میں بے چین ہوا۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس حجاب میں قید ، میک اب سے عاری چہرہ۔ میری آنکھیں حیرت سے جیسے پھیل گئیں۔جب وہ اپنی بات مکمل کرلی تو میں اس کے پیچھے پہنچا اور دھیرے سے پوچھا،
”آپ سکینہ ؟“
”سر آپ؟ “
اس نے ایک ہی نظر میں مجھے پہچان لیا تھا۔ اس کے چہرے پر خوب صورت مسکان پھیل گئی جو ہمیشہ کی طرح بھلی لگ رہی تھی۔اس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔اس کی آنکھوں میں گزشتہ دنوں کی محبتیں تھیں اور ناہی کسی قسم کی انسیت!!
اس کی چمکتی آنکھوں میں میری محبت اور ہجر کا کوئی کمزور دیا بھی جلتا دکھائی نہیں دیا۔
”میں نے ریسرچ کیا تھاجب آپ نے کہا تھا کہ حقیقی عشق کو پانا ہوگا ۔۔۔۔پاگلوں کی مانند میں سوچتی رہتی کہ آخر یہ حقیقی عشق ہوتا کیا ہے؟ “
حال و احوال کے رسمی مراحل سے گزرنے کے بعد اس نے اچانک ماضی کے بند دریچے وا کرتی ہوئی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی ، اس راز کو عیاں کرتی چلی گئی جس کے تئیں میں تمام زندگی سلگتا رہا تھا۔میں بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گیا۔
”سر ! یقین کریں حقیقی عشق حاصل کرنے کی چاہ نے مجھے پاگل بنادیا تھا۔ چاہتی تھی جلد سے جلد اسے حاصل کرلوں تاکہ کوئی راہ آپ تک پہنچ سکے۔“
”پھر میں نے ایمان باللہ کو پالیا۔۔۔۔ایمان باللہ جس کا مطلب یہ احساس نہیں کہ صرف خدا موجود ہے بلکہ یہ عقیدہ اور یقین کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا تصور ہی ہماری زندگی و حیات کا ایک اہم محور ہے جس کے گرد چکر کاٹنا ہی اصل کامیابی کہلاتی ہے۔۔۔ اگر ہم میں یہ نہیں تو کچھ نہیں۔تب مجھے ہر بات آسانی سے سمجھ آتی چلی گئی ۔ یہ باتیں سمجھنے میں شاید اس لیے بھی آسانی ہوئی کہ ہر انسان فطرت پر پیدا ہوا ہے۔ اس ضمن میں نبی نے بھی فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
میں نے آپ کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت کی تپش محسوس کی تھی لیکن مجھے احساس ہوا کہ جب رب العالمین نے ہمیں مسلمان بنایا ہمارے لیے قرآن بھیجا ، نبی کی سنتیں عطا کیں تو ہمیں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا بھی نہایت ضروری ہوگا اور ساتھ ہی دین کی تبلیغ بھی ۔
ابراہیم جو کبھی کرشنا تھے مجھ سے بہت متاثر تھے۔
محبت کی ایک قربانی سے کرشنا کی مکمل فیملی دین کی دولت سے سرفراز ہوسکتی تھی۔اس خیال نے میرے وجود میں ایک جنون سا بھر دیا پھر میں نے قدم اٹھایا۔اتنا کہہ کر وہ ہانپنے لگی۔تھکن اس میں قطعی نہیں بلکہ کامیابی کا سرور سا محسوس ہوا۔
”میں آپ کو اپنے شوہر سے ملاتی ہوں۔“
اس نے آواز دے کر اسی امام کو قریب بلایا جن کے خطبے سے میں بہت متاثر تھا۔
میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوئے۔
دھند میں لپٹی پتلی سی کرن نے چہار سو توحید کا اجالا پھیلا رکھا تھا۔
ختم شد
٭