افسانہ افسانوی نثر

بکھرتے آشیانے (افسانہ) زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر، افسانہ نمبر 19

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر 19 بینر عمران یوسف


افسانہ :- بکھرتے آشیانے


افسانہ نگار :- اویناش امن

شہر بہت بڑا اور صوبے کا تجارتی مرکز تھا۔ لہٰذا یہاں روزی روٹی حاصل کرنے کے ذرائع کی کوئی کمی نہ تھی۔ ذریعہ معاش کی تلاش میں ہر کوئی یہاں کھنچا چلا آتا تھا اور اپنی اپنی لیاقت و صلاحیت کے مطابق روزگار حاصل بھی کرلیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ صوبے کی آدھی آبادی اس ایک شہر میں سمٹ آئی ہے۔ ان مہاجرین میں بنجاروں کی کئی ٹولیاں بھی شامل تھیں جو دووقت کی روٹی کا جگاڑ کرنے وقتاً فوقتاً شہر میں آئیں اور پھر یہاں کے مختلف حصوں میں عارضی قسم کے آشیانے بنا کر آباد ہو گئی تھیں۔ یہ بنجارے مختلف پیشوں سے جڑے تھے۔کچھ بندر نچاتے، کچھ رسیوں پر چلنے کے کرتب دکھاتے، کچھ چھوٹی موٹی گھریلو استعمال کی چیزیں بنا کربیچتے، کچھ پتھروں سے سل بٹے تیار کرتے تو کچھ غبارے یا چھوٹے موٹے کھلونے لے کر ریسٹورنٹ یا پارکوں کے انٹرنس پر کھڑے ہو کر فروخت کیا کرتے۔
شہر کے بیچوں بیچ ایک ریلوے لائن تھی جس پر کبھی ریل گاڑیاں اور مال گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ یہ لائن سیدھے ندی کنارے جاتی تھی۔ یہ ندی بہت چوڑی تھی اور صوبے کو تقریباً دو برابر حصوں میں تقسیم کرتی تھی۔ دوسری طرف جانے اور تجارتی امور کی تکمیل کے لیے جہاز ایک وقت میں واحد ذریعہ تھے۔ مگر اب یہ بات پرانی ہوگئی ہے۔ اب ندی پر جگہ جگہ بڑے بڑے پل بن گئے ہیں جن پر کثیر تعداد میں ٹرک اور موٹر گاڑیاں فراٹے بھرتی ہیں۔ جہازوں کا چلنا ندی میں پانی کی کمی کی وجہ سے بند ہو گیا ہے۔ اب کوئی گھاٹ تک جانے کے لیے ریل گاڑی کا استعمال نہیں کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس ریلوے لائن پر ریل گاڑیوں کا چلنا برسوں پہلے بند ہو چکا تھا۔ ایک زمانے سے استعمال میں نہ آنے کی وجہ سے اس پر جگہ جگہ جھاڑ جھنکھاڑ اُگ آئے تھے۔ اس ریلوے لائن کی ایک طرف ایک خستہ حال سڑک تھی جس پر دن بھر میں شاید ہی کسی گاڑی یا راہگیر کا گزر ہوتا۔ سڑک کے پار بڑے بڑے سرکاری بنگلے تھے جن میں منسٹر اور اعلیٰ افسران رہا کرتے تھے۔ ان بنگلوں کے صدر دروازے دوسری جانب پڑنے والی وسیع العریض شاہراہ پر کھلتے تھے۔ لہٰذا یہ پشت کا حصہ قریب قریب متروک ہو چکا تھا۔ سارے بنگلوں کے نالے اسی خستہ سڑک کی جانب کھلتے تھے جن کا گندہ پانی کبھی کبھی نالا جام ہو جانے کی صورت میں سڑک پر بھی بہہ نکلتا تھا۔ ریلوے لائن کی دوسری جانب بھی سرکاری بنگلوں کے پچھواڑوں کی لمبی قطار تھی۔ اس طرح یہ ریلوے لائن شہر کے درمیانی علاقے میں ہو کر بھی شہر سے غیرمتصل معلوم ہوتی تھی۔ اس پٹری پر ریل گاڑی چلنا بند ہونے کے بعد سے ہی بنجاروں کے کچھ کنبے خیمہ ڈال کر آباد ہونے لگے تھے جن کی اب اچھی خاصی تعداد ہو چکی تھی۔ اب ان میں سے کئی نے بانس کی کمانیوں، مٹی اور پھوس سے عارضی ہی سہی نحیف قسم کے گھر بھی تعمیر کر لیے تھے۔
ادھر شہر میں جدھر دیکھو انسانوں کا ہجوم نظر آتا تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مصروف، کسی کو سانس لینے کی فرصت نہیں۔ شہر کی آبادی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور زمین تنگ ہوتی جا رہی تھی۔ اونچے اونچے رہائشی ٹاور بن رہے تھے جس میں رہنے والے نہ تو زمین پر تھے اور نہ آسمان میں بلکہ درمیان میں ہی معلق زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ انہیں خرید پانا اہل ثروت کے ایک خاص طبقے کو چھوڑ بیشتر عوام کے لیے تقریباً ناممکن سا کام تھا۔
پورا شہر چھوٹے چھوٹے دڑبے نما گھروں سے اٹا پڑا تھا۔ تھوڑی وسعت اگر نظر آتی تھی تو انہیں سرکاری بنگلوں میں جہاں ثمردار درخت لگانے سے لے کر کاشتکاری تک کرنے کی افراط جگہ موجود تھی۔
شہر میں آباد بنجاروں کی بستیاں تجاوزات کا حصہ تھیں اور شہر کی خوبصورتی کو گہناتی تھیں۔ یہ بستیاں نالوں کے کنارے، ڈمپنگ یارڈوں کے آس پاس، فٹ پاتھ کنارے اور ایسی ہی دیگر خالی جگہوں پر آباد تھیں جہاں سے انہیں وقتاً فوقتاً پولس اور انکراچمنٹ ہٹاؤ دستہ کے ذریعہ کھدیڑ دیا جاتا تھا اور وہ شہر میں اس کونے سے اس کونے سامان سر پر اٹھا کر بھاگتے پھرتے تھے۔
وہ تو خیر ہو اس خستہ حال سڑک اور اس پر بہتے نالے کے پانی کا کہ کوئی جلدی اس متروکہ ریلوے لائن کا رخ نہ کرتا اس وجہ سے شہر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے اس جگہ کچھ سکون تھا۔
اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا خود کو اسی ریلوے لائن کے درمیان پایا تھا۔ اس ریلوے لائن پر شروع شروع میں آباد ہونے والوں میں سے اس کا باپ بھی تھا جو گھر گھر جا کر سل بٹے کوٹنے کا کام کرتا۔ وہ بیشتر اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ پٹری پر دن بھر اودھم مچاتا پھرتا یا وہاں سے کچھ دور واقع ایک بڑے سے احاطے میں گھس کر کنچے اور گلی ڈنڈا کھیلتا۔ کبھی جی نہ لگتا تو باپ کے ساتھ شہر کی کالونیوں کی خاک چھاننے نکل جاتا۔ مجموعی طور پر اس کے کنبے کے دن قدرے سکون سے گزر رہے تھے مگر یہ سکون آخر کب تک قائم رہنے والا تھا…؟
ان دنوں شہر میں ایک بڑی تقریب کی تیاری زوروں پر تھی جس میں دیس بدیس سے لوگ آنے والے تھے۔ حکومت کا عملہ اس میں پوری مستعدی اور چابکدستی کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ شہر کی صفائی اور حسن کاری کا کام چل رہا تھا۔ بڑے بڑے بلڈوزر شہر میں جگہ جگہ قائم ہوگئی ان بستیوں کو روندتے جا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا بڑے بڑے ڈائناسور اپنے جبڑے کھولے پورے شہر میں گھوم رہے ہوں۔ غیرمزروعہ زمینیں خالی کرائی جا رہی تھیں اور ان کی گھیرابندی کرکے ان میں سجاوٹی پودے لگائے جا رہے تھے۔ پرائیویٹ مکانوں کے سڑک پر نکالے گئے چھجے اور سیڑھیاں مسمار کی جا رہی تھیں۔ ملبے کو بڑے بڑے ٹرکوں میں لاد کر شہر سے باہر پھینکا جا رہا تھا۔ اس درمیان یہ طے ہو اکہ ندی کنارے جانے والی اس غیرضروری ریلوے لائن کوہٹا کر وہاں ایک سڑک تعمیر کرائی جائے تاکہ لوگوں کو آمد و رفت کے لیے ایک نئی سڑک بھی مل جائے اور شہر کے وسط میں بڑی بے کار زمین استعمال میں آجائے۔
خدشوں کے درمیان بسر کرنا تو ان بنجاروں کی فطرت میں شامل ہو چکا تھا۔ اس کا باپ نہ جانے کب سے یہ سنتا آرہا تھا کہ ان کی بستی مسمار کر دی جائے گی، وہاں پر پارک بنے گا، سڑک بنے گی، ریل گاڑی دوبارہ چلے گی ایضاً ایضاً۔وہ ایسی خبروں کا اس قدر عادی ہو چکا تھا کہ ان کا اپنے ذہن پر کچھ اثر نہ لیتا تھا مگر اس دفعہ معاملہ الگ تھا۔ یہ ریاست کی امیج کا سوال تھا۔ حکومت ایسا کوئی نکتہ اٹھا نہ رکھنا چاہتی تھی کہ باہر سے آئے سیاحوں اور ڈیلی گیٹس کے ذہن میں ریاست کے تئیں کوئی منفی تاثر قائم ہو۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ شہر میں پہلی دفعہ کوئی بڑی تقریب منعقد ہونے والی تھی۔ کچھ سال پہلے ایک بڑے لیڈر کا دورہ شہر میں ہوا تھا۔ اس وقت ان بستیوں پر بڑے بڑے پردے ڈال دئے گئے تھے اور اب ان کی بدصورتی پردوں کے پیچھے حائل کر دی گئی تھی۔
ادھر کچھ دنوں سے جب وہ باپ کے ساتھ نکلتا تو دیکھتا کہ بڑی بڑی مشینیں چھوٹے چھوٹے گھروں کو چشم زدن میں گرد میں ملا رہی ہیں اور ان کے باشندے اپنی باقیات سمیٹے اپنے آشیانوں کو مسمار ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ وہ باپ سے پوچھتا— ’’بابا یہ گھر کیوں توڑے جا رہے ہیں تو اس کا باپ اسے بتاتا کہ یہ سرکاری زمین پر بنے ہوئے ہیں۔ اس سے اسے اور بھی الجھن ہوتی جب وہ دیکھتا کہ بڑی بڑی پکی عمارتیں شان سے شہر کے سینے پر کھڑی ہیں۔ وہ پھر پوچھتا کہ انہیں کیوں نہیں توڑا جا رہا تو اس کا باپ بتاتا کہ یہ عمارتیں زمین خرید کر بنائی گئی ہیں۔ یہ امیر لوگ ہیں۔ اس پر اسے اپنے فاقے، جاڑوں کی ٹھٹھرتی اور برسات کی گیلی راتیں یاد آتیں۔ وہ خود کا تیل سے خالی سر، چتھڑوں میں لپٹا بدن اور خالی پاؤں کو دیکھتا تو لرز جاتا— کیا ہمارا گھر بھی ٹوٹے گا؟ باپ جواب دینے کی جگہ ایک سرد آہ بھر کر رہ جاتا۔ ہرچند کہ وہ یہ احساس رکھتا تھا کہ شہر میں اس ریلوے لائن سے زیادہ سکون کی دوسری جگہ نہ تھی، لیکن آنے والے خطرے سے پوری طرح بے خبر بھی نہیں تھا۔
ایک دن چلتے چلتے وہ اپنے باپ سے پوچھ بیٹھا۔
’’باپو ایک بات بتا۔ تو تو کہتا تھا بھگوان سب کو دھرتی پر بھیجا ہے اور دھرتی بھگوان کا ہے تو سب کو جمین کھریدنا کاہے پڑتا ہے؟ جس کے پاس پیسہ نہیں ہے وہ دنیا میں نہیں رہ سکتا؟ سارا جانور، پیڑ پودا پیسہ دے کر جمین پر رہتا ہے؟ بھگوان ہم کو دھرتی پر بھیجا تو رہنے کا انتجام کا ہے نہیں کیا؟‘‘
باپ نے زندگی میں اتنا کہاں سوچا تھا؟ اسے تو لگتا تھا کہ وہ زمین پر دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور ادھر سے ادھر دوڑتے بھاگتے رہنے کے لیے ہی آیا ہے۔بیٹے کی باتوں نے اسے گہری سوچ میں مبتلا کر دیا۔
’’بیٹا بھگوان تو اتنا بڑا جمین بنایا۔ آدمی نا اس کو ٹکرا ٹکرا کرکے بیچتا ہے۔ بڑا شہر ہے نا!‘‘
’’تو باپو جو جمین کھرید نہیں پاوے گا، کہاں رہے گا؟‘‘
’’جنگل میں، پہاڑ پر…‘‘
’’تو ہم اِہاں کاہے رہتے ہیں؟‘‘
’’جنگل میں کاہرین مار کے کھاوے گا؟‘‘ باپ ہنس دیا… وہ بھی ہنس دیا۔
شہر میں تجاوزات ہٹانے کا کام زوروں پر تھا۔ اس ریلوے لائن کے ایک سرے پر بلڈوزروں کی تعیناتی ہو چکی تھی اور کام برق رفتاری سے چل رہا تھا۔ اس کا باپ کسی ایسی جگہ کے انتظام میں لگا تھا جہاں وہ اسے، اس کی دوبڑی بہنوں، شیرخوار چھوٹے بھائی اور اپنی حاملہ بیوی کو لے کر جا سکے۔ اسے اندازہ تھا کہ اس کے آشیانے تک مشینوں کو پہنچنے میں کم از کم ایک ہفتہ تو لگ ہی جائے گا اور اس درمیان کسی نہ کسی جگہ کا جگاڑ ہو ہی جائے گا۔
شہر میں خیمہ ڈالنے کے لیے محفوظ جگہ تلاش کرنا آسان نہیں تھا۔ انتظامیہ کی نگاہوں سے قدرے روپوش جگہیں پہلے ہی کھچا کھچ بھر چکی تھیں۔ وہ جب بھی کام پر نکلتا تو شہر میں گھوم کر کسی محفوظ ٹھکانے کی ٹوہ لیتا رہتا مگر مشینیں اس کی سوچ سے کہیں تیز رفتاری سے کام کر رہی تھیں۔
ایک دن جب اس کا باپ لوٹا تو دیکھا کہ مشینیں اس کی بستی کے گھروں کو یوں نوچ رہی ہیں جس طرح گدھ مردہ جانوروں کے جسم نوچا کرتے ہیں۔ تیز بارش میں اس کا پریوار پٹری کنارے بیٹھا ہے۔ اس کی حاملہ بیوی درد سے کراہ رہی ہے اور اس کی بیٹیاں اپنی ماں اور دودھ پیتے بھائی کو پلاسٹک کے ایک ٹکڑے سے سایہ کرکے بارش سے بچانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ وہ بغل میں بیٹھا رو رہا تھا۔ باپ کو آتا دیکھ دوڑ کر اس سے لپٹ گیا۔ باپ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے… کہاں جائے؟… اس نے بچا کھچا سامان لیا اور چلنے کو تیار ہوا۔
—’’بابو ہم کہاں جائیں گے؟‘‘
—’’پتہ نہیں۔‘‘
سبھی اس کے پیچھے ہو لئے۔ یکایک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’بابو ایک جگہ ہے جہاں ہم جا سکتے ہیں جہاں ہم روز کھیلت ہیں۔نہ کوئے آوے والا نہ جاوے والا نہ ٹوکے والا۔ ایک دم کھالی میدان۔‘‘
باپ کا گزر ادھر سے ہوا تو تھا مگر کبھی اس نے احاطے کے اندر گھسنے کی زحمت نہ کی تھی۔ وہاں اسے کون سے سل بٹے ہاتھ لگنے والے تھے! جب اس نے بیٹے کی بات سنی تو اسے بھی امید کی ایک کرن نظر آئی۔
احاطے کے پاس پہنچ کر ان کے قدم ٹھٹھک گئے۔ اندر بڑا سا شامیانہ لگا تھا اور لاؤڈ اسپیکر پر دیش بھکتی کے گانے بج رہے تھے۔ پورا ماحول آج بدلا ہوا تھا جو اس کے لیے بھی حیران کن تھا۔ اس نے آج تک تواس میدان کو خالی ہی پایا تھا۔
بیٹا یہ جگہ کچھ ٹھیک نہیں… آگے چلتے ہیں۔
جھجھک تو اس کے دل میں بھی تھی مگر کوئی امید بھی ہمراہ تھی جو اسے اندر کھینچ رہی تھی۔’’تو یہیں رک میں اندر دیکھ کر آیا‘‘۔ کہہ کر اس نے اپنے قدم احاطے میں ڈال دیئے۔ اندر شامیانے کے نیچے سیکڑوں کی تعداد میں لال کرسیاں بچھی تھیں۔ میدان کے بیچوں بیچ کھڑے مجسمے کو صاف ستھرا کر چمکایا گیا تھا اور اس کے گلے میں متعدد پھولوں کے ہار پڑے تھے۔ آج اس بڑے لیڈر کا یوم وفات تھا۔ یہ پورا احاطہ اس کی یاد میں وقف تھا۔ لوگ اسے خراج عقیدت پیش کر رہے تھے اور ا س کے کارناموں کو یاد کر رہے تھے۔ وہ یہ دیکھ کر سہم گیا۔ اتفاق سے اس خاص دن کے موقع سے اس کا گزر اس احاطے میں نہیں ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر وہاں کھڑا رہا لیکن کسی نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ وہ آہستہ سے باہر نکل آیا جہاں اس کا باپ بے صبری سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے باہر آکر بتایا کہ اندر بھیڑ تو ہے مگر کسی نے اسے کچھ کہا نہیں۔ اگر وہاں ایک کنارے خیمہ لگا دیا جائے تو شاید ہی کسی کو کوئی اعتراض ہوگا کیونکہ میدان تو تھوڑی دیر میں خالی ہی ہو جائے گا پھر ایک مجسمہ کے لیے اتنے بڑے میدان کی کیاضرورت؟ باپ اب بھی شک میں مبتلا تھا۔ اس نے اپنے باپ کو تذبذب میں دیکھا تو بولا کہ وہ پہلے ایک دو پوٹلیاں اندر جاکر رکھ دے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو سبھی اندر چلے جائیں گے۔
باپ نے سہمتے ہوئے اثبات میں اپنا سر ہلایا۔
وہ سامان لے کر اندر داخل ہوا مگر پہلے کی طرح جب کچھ پل بعد وہ باہر نہیں آیا تو باپ اندر گھسا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ چانٹوں اور گھونسوں سے اس کے بیٹے کی پٹائی کر رہے ہیں۔ اس کی پوٹلیوں کے سامان زمین پر ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں اور اس کی چیخیں لاؤڈ اسپیکر کی آواز میں کھو جا رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔ وہ چیخ پڑا۔ وہ فوراً لپکا اور کسی طرح ہاتھ پیر جوڑ کر بیٹے کو ان لوگوں کی گرفت سے چھڑا کر باہر نکال کر لایا۔
اب وہ سہما ہوا خاموشی سے اپنے باپ کے پیچھے پیچھے چل رہاتھا۔ درد کی شدت نے اس کے قدموں کو لاغر کر دیا تھا اور غموں کی شدت نے اس کے باپ کے قدم بوجھل بنا دئے تھے۔ یہ کنبہ آہستہ آہستہ خدا کی بنائی دنیا میں اپنے حصے کی جستجو میں آگے بڑھ گیا۔
اگلے دن صبح صبح یہ خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جس نے بھی سنا وہ حیران رہ گیا۔ کسی نے رات کے اندھیرے میں احاطے میں گھس کر اس بڑے لیڈر کا سر دھڑ سے جدا کر دیا تھا۔۔۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ