افسانہ افسانوی نثر

آشیانہ (افسانہ) از عادل نصیر، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ نمبر 23

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _23
بینر :- عمران یوسف


افسانہ :-آشیانہ


عادل نصیر

ہش ۔۔ ہش ۔۔ آو ۔ آو ۔
وہ آج بھی روز کی طرح تھیلی سے چاول کے دانے بکھیر کر جنگل کے سب سے بڑے اور پرانے دیودار کے نیچے پرندوں کا خالی پیٹ بھر رہا تھا۔ یہ عمل وہ روز کرتا ۔ اب تو پرندے اسے پہچاننے بھی لگے تھے ۔ اس کے آتے ہی شور مچایا کرتے ۔ اور وہ ان کا شور سن کر بھاگا بھاگا آتا اور کبھی کبھی تو ان سے باتیں بھی کیا کرتا ۔ گاوں والے اس کی یہ حرکت دیکھ کر اسے پاگل سمجھنے لگے تھے اور اسے دیکھتے ہی کہتے ” ارے وہ دیکھو ! عبداللہ چاچا نکلا ہے پرندوں سے باتیں کرنے “
اور ایک شور قہقہوں کا فضا میں گونجنے لگتا۔ مگر وہ بنا کسی کی پرواہ کئے پرندوں کی بھوک مٹاتا رہتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جنگل تو ان ہی پرندوں سے آباد ہے ۔
ایک روز وہ دانہ ڈالنے میں مصروف تھا کہ صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس چند جوان جنگل کا معائنہ کرنے آئے ۔ ان میں سے ایک نے اس بڑے دیودار کی طرف اشارہ کیا اور یوں دوسرے نے اس دیودار پر 1210 نمبر کی مہر ثبت کی۔ عبداللہ یہ سب خاموشی سے دیکھنے کے بعد گھر لوٹ آیا۔
چند روز بعد جب وہ جنگل کی طرف بڑھ رہا تھا تو جنگل سے کافی شور آرہا تھا اور اسی اثناء میں دھڑام کی ایک خوفناک آواز آئی ۔ وہ ڈرا سہما جنگل کی طرف بھاگنے لگا ۔ اس بڑے دیوار کے قریب پہنچ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ بہت سارے درخت گرائے گئے تھے ۔ ہر طرف شاخیں بکھری تھیں۔اب بس وہ آخری دیودار بچا تھا۔
“یہ سب کیا ہورہا ہے؟ ” اس نے حیرانگی سے ایک مزدور سے پوچھا
“یہاں سے نئی سڑک نکلنے والی ہے ” اس نے کافی تند لہجے میں جواب دیا
وہ ادھر ادھر بھاگنے لگا ۔ پرندے بھاگ رہے تھے ۔ کتنے آشیانے ان شاخوں سے نیچے دب کر ختم ہوگئے تھے ۔ اس نے جوں ہی اس دیودار کی طرف نظر دوڑئی تو اسے وہ کسی پرانے اور خالی مکان کی طرح سنسان نظر آ رہا تھا ۔ عبداللہ یہ منظر دیکھ کر زاروقطار رونے لگا اور ادھر ادھر بھاگ کر ان لوگوں پر چلانے لگا۔
“ظالمو ! ہمیں نہیں چاہیے نئی سڑک ، ہمیں جنگل چاہئے، جنگل کے پرندے چاہئے۔ تم ہم سے سڑک کے عوض سانس نہیں چھین سکتے ۔ پڑھے لکھے قاتلو! تم کسی کا گھر نہیں اجاڑ سکتے ۔ اسی ترقی کے نام پر پوکھران اور ہیروشیما کی سوکھی ریت آج بھی نمی کا انتظار کر رہی ہے ۔ ہمیں ترقی نہیں چاہئے ۔”
وہ چلاتا رہا مگر کسی کو اس کی پرواہ نہیں تھی ۔ اسی دوران دھڑام کی آواز آئی اور عبداللہ یہ آواز سنتے ہی غش کھا گیا اور گرتے وقت اس کی آنکھوں نے محض اتنا دیکھا کہ وہ بڑا دیودار لاش کی طرح نیچے پڑا ہے اور اس پر بنے کئ آشیانے تنکہ تنکہ بکھر چکے تھے۔ شام ہوتے ہوتے جنگل کے تمام آشیانے خاک ہوگئے جبکہ پرندے عبداللہ کے ساتھ قبر تک گئے اور اپنی چونچ سے قبر پر مٹی ڈالنے لگے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ