ادبی خبریں

ترجمہ مختلف علوم و فنون اورتہذیبوں کے درمیان پل کا کام کرتا ہے: پروفیسر زماں آزرزہ

،جی این کے اردو


شعبہ اردو، پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ میں پروفیسر محمد زمان آزردہ کا خصوصی خطاب


چنڈی گڑھ: شعبہ اردو ،پنجاب یونیورسٹی ،چنڈی گڑھ کے زیر اہتمام’ ترجمہ کی اہمیت و معنویت’ کے موضوع پر اپنے خصوصی خطاب میں پروفیسر محمد زمان آزردہ (کشمیر)نے کہا کہ ترجمہ مختلف علوم و فنون اور تہذیبوں کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے۔جس کے ذریعے قاری ایک نئی دنیا سے روشناس ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ ترجمہ ایک مشکل فن ہے لیکن اصل متن کا علم نہ ہونے کے سبب قارئین کی بڑی تعداد مختلف علوم و فنون سے تشنہ رہ جاتی ہے۔ترجمہ کے ذریعے نہ صرف معلومات کو ایک زبان سے دوسری زبان تک پہنچا یا جاسکتا ہےبلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک تک اور ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک رسائی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

پروفیسر محمد زمان آزردہ نےمزید کہا کہ ترجمہ کی خوبی یہ ہونی چاہیے کہ ترجمہ پڑھنے والے قاری کو اصل متن کی قرائت کا لطف حاصل ہو۔ترجمہ محض ایک زبان سے دوسری زبان کو بدلنے کا نام نہیں بلکہ تہذیبوں کا ایک ایساسفر ہے جو پڑھنے والے کو ایک بالکل مختلف زبان اور نئی تہذیب سے روشناس کرائے ۔انہوں نے ترجمہ کے دوران آنے والی مشکلات پر بھی روشنی ڈالی۔اوراُن کے آسان اور عام فہم حل بھی بتائے ۔جلسے کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترجمہ صرف اطلاعاتی نوعیت کا نہیں ہونا چاہے بلکہ ترجمہ کرنے والے کو اپنی زبان پر متن کی زبان سے زیادہ دسترس ہونی چاہئے ۔

آخر میں ڈاکٹر ذوالفقار علی نے مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

پروفیسر ریحانہ پروین ،شمس تبریزی،ڈاکٹر ذرین فاطمہ ،ڈاکٹر للی سورن،پروفیسر کملیش موہن کے علاوہ کثیر تعداد میں ریسرچ اسکالرز ،طلبا و طالبات نے شرکت کی۔

روسی زبان کے شعبہ سے پروفیسر پنکج مالویہ نے کہا کہ اصل متن اور ترجمہ کی زبان دونوں میں مترجم کی اچھی گرفت ہونے کے ساتھ ساتھ جس موضوع سے متعلق ترجمہ کیا جارہا ہے،اس پر بھی پوری مہارت ہونی چاہیے، مترجم کو اس بات کا بخوبی علم ہونا چاہئے کہ کب اور کہاں کون سے لفظ کا استعمال کرنا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ مترجم کو کبھی کبھی اصل متن کے ترجمے کے ساتھ ساتھ اس زبان کی اصطلاحات اور اس کے کلچر کو سمجھنے کے لیے غیر ملک کا سفر بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔پنکج مالویہ نے مزید کہا کہ جب ایک اچھا ترجمہ پڑھنے والے کے سامنے آتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ ایک نئے ادب اور تہذیب سے واقف کراتا ہے بلکہ اُس کےلیےجہانِ معانی کے در بھی کھول دیتا ہے ۔

صدرشعبہ اردو ڈاکٹر علی عباس نے اپنی تعارفی تقریر میں کہا کہ موجودہ دور میں ترجمے کے فن سے ہر طالب علم کو واقف ہونا چاہیے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ طالب علم ایک وقت میں کم از کم چار ایسی زبانیں جانتا ہو جو ایک دوسرے سے علاقائی اور تہذیبی اعتبار سے بالکل مختلف ہوں،خواہ وہ زبانیں قومی ہوں یا بین الاقوامی ۔ ڈاکٹر عباس نے آگے کہا کہ ترجمہ کے دوران سب سے زیادہ مشکل اُس وقت آتی ہے جب رسم و رواج اور تہذیبی اصطلاحات کو کسی غیر زبان میں منتقل کیا جاتا ہے۔اس کے لیے مترجم کو چاہیے کہ اپنی تہذیب میں موجود زبان کی ان اصطلاحات کو کام میں لائے جو غیر زبان کی تہذیب ،رسم و رواج یا سماج سے زیادہ قریب ہو ۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک اچھاترجمہ علاقائی ادب کو عالمی منظر نامہ پر لا سکتا ہے۔،جس کی مثال حال ہی میں ہندی ناول ” ریت سمادھی” ہے جس کے انگریزی ترجمہ کو بُکر پرائز سے نوازا گیا۔


مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ