افسانہ افسانوی نثر

شب گزیدہ کی پاک محبت (افسانہ) افسانہ ، افسانہ ایونٹ 2022 زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر،20

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر

افسانہ ایونٹ 2022

افسانہ نمبر _20

بینر :- عمران یوسف

افسانہ :۔ شبِ گزیدہ کی پاک محبت
فریدہ نثار احمد انصاری ۔
دوحہ،قطر

کہتے ہیں “محبت ‘انسانیت کی معراج ہے اور وہی محبت جب ہوس کی دلہن بن جائے تب اس ذلت و پستی سے زمین بھی خود کو گناہ گار محسوس کرتی ہے اور انسان جسے ابتدائے آفرینش ” اشرف المخلوقات ” کے خطاب سے نوازا گیا وہ اقبال سے ادبار کی گہرائیوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔

آج ” عید بیلس ” کا جشن منایا جا رہا تھا ۔یہ اس وقت کا قصہ ہے جب دریائے فرات کے کنارے شہرِ بابِل اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ دنیا کو ایک بدکار جشن کی دعوت دے رہا تھا۔اسی کے مشرقی ساحل پر ” نہر کباد” پر آباد” کبر ” نامی یہودیوں کی بستی تھی۔جس کے نام پر ” تل ابیب” کا موجودہ شہر آباد یے۔

یہ ایک ایسا دور تھا جہاں شاہی سرپرستی میں اصنامی تہذیب بامِ عروج پر تھی۔لوگ اپنے ظرف و شرف سے تہواروں کو منعقد کرتے تھے۔انہی میں “عیدِ بیلس ” اپنی خصوصی نوعیت رکھتا تھا ۔تمام مرد وزن جن میں شاہی خاندان کی بیگمات اور دوشیزائیں تک فطرت کے تقاضوں یعنی آرزوئے جسم کے غلام بن جاتے تھے۔اس رات ہر ایک کو کھلی چھوٹ ہوتی کہ وہ اپنے محبوب منتخب کر کے تمام رات دادِعیش منا سکے۔اُس دیجوری شب ، کسی معقول وجہ کے بِناء کوئی قانون کسی مرد کی خواہش کو رد نہیں کر سکتا تھا۔کاہن اعظم کے اعلان پر ہیکلوں، مندروں، عبادت گاہوں اور تمام خلوت گاہوں کو استعمال کرنے کی مکمل آزادی تھی۔کاہنوں کو بھاری رقوم دے کر آسانیاں فراہم کی جاتی تھیں۔تہذیبِ انسانیت کا یہ انتہائی دور تھا۔

لیکن اس دورِ روسیاہ میں بھی ربِ کائنات نے اچھوتی و حقیقی محبتوں کو اوجِ ثریا عطا فرمایا تھا ۔محبتیں ہر دور میں زندہ و تابندہ رہتی ہیں۔ہر کوئی بدکار نہیں ہوتا۔ یہ خدائے وحدہُ کی دین ہے کہ چاہے زمانہ کسی بھی دور سے گزرے لازوال محبتوں کا عکس تاریخ کے صفحوں میں ہمیں دِ کھائ دیتا ہے۔

بابِل کے ساحل کی اس بستی میں دو ایسے خاندان بھی تھےجن کے مردوزن ” عیدِ بیلس” یا ” جشنِ زہرہ” کے علاوہ کسی اور جشن میں یکجا نہیں ہوتے تھے نہ ہی شادی بیاہ کے معاملات سر انجام دیتے تھے۔انہی کے دو چراغ اپنی محبت کے چراغ کو ہتھیلیوں سے چھپائے پورے ایک سال تک عید بیلس کا انتطار کرتے تھے۔ان کا انتظار و عشق اچھوتا تھا۔ ہوس و تصنع ان کو چھو کر نہ گزرتا۔

مطربہ و رعدتاب کا عشق اپنی بلندیوں کو چھو چکا تھا ،دونوں رشتہءازدواج میں بندھنا چاہتے تھے لیکن آپسی جھگڑوں نے اس نیک مقصد پر نفی کی مہر لگا دی تھی۔ایک دوسرے کی قربت کے سوا کسی اور کو اپنانا انھوں نے اپنے لئے معیوب کر لیا تھا۔خاص و عام میں یہ بات گردش کر رہی تھی کہ دونوں نے اس اچھوتے عشق کو رہتی دنیا تک امر رہنے کے لئے دنیا کی لذتوں اور عیش و آرام کو اپنے لئے معتوب کر رکھا تھا۔

اور آج ” عیدِ بیلس ” کا جشن تھا ۔دونوں نے اپنی آنکھوں میں اس رات کے انتظار کے لئے روشن دیپ جلائے تھے۔دل کی ہر دھڑکن اپنے محبوب کی یاد ،اس کی رفاقت کو سینت سینت کر رکھنے کے لئے بےتاب تھی۔جہاں ہر ایک خود کو بہترین ملبوسات و شوخی کی حشر سامانیوں سے آراستہ کر رہا تھا وہیں رعدتاب و مطربہ کے ہوش ربا نغمے اس رات کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے۔دونوں کی ورافتگی کا بس یہ عالم کہ ایک دوسرے کی دید ہو جائے اور ان کی عید ہوجائے۔

آفتاب نے اپنی کرنوں کو واپس بلا کر اپنی رخصتی کا اعلان دھرتی کے باسیوں کو پہنچایا اور بابِل کے معبد اکور کےمحراب نما فلک بوس دروازے سے لوگ جوق در جوق داخل ہونے لگے۔لوگ اس دروازے کے آگے بونے نظر آتے تھے۔اندر وسیع و عریض تماشاہ گاہ تھی جہاں منتخب گایوں اور ایک شاہی بیل کے ملاپ کے بعد جشن کا آغاز ہوتا تھا۔تماشائی دائرے کی صورت میں جمع تھے۔تب ہی کاہنِ اعظم کے اعلان پر گھنٹیوں اور نرسنگوں سے جشن کا استقبال کیا گیا اور بدکاری کی شب نے خاص و عام کو اپنے ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیا۔

جہاں بدکاری کی ردا نے ماحول کو لپیٹ رکھا تھا وہیں چاندنی رات میں فرات کے ساحل پر نیلگوں پانیوں کے قریب مطربہ و رعدتاب عشق کے جذبوں کو دل کی عمیق گہرائیوں کو چھپائے اپنی محبت کو معتبر کر رہے تھے۔ انھیں ان بدکاریوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔

مطربہ نے سرگوشی کی :” رعدتاب محبت تو اعزاز کی انتہا ہوتی ہے۔ربِ کائنات کا عطیہ ہوتی ہے پھر لوگ کیوں شیطان کے گرویدہ ہوتے ہیں؟ کیوں اپنی تسکین کے لئے کاہن مذہب کا سہارا لیتےہیں؟ عشق تو ایک آئینہ ہے جس میں دو محبت کرنے والے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں۔محبت اجالوں کی شمع ہے لیکن یہ رات کی تاریکی میں اسے بجھا دیتے ہیں۔”

رعد تاب نے مطربہ کی غزالی آنکھوں میں جھانک کر کہا :” شیطان نے اکثریت کو اپنے چنگل میں پھانس کر گمراہ کر رکھا ہے۔معصومیت اور حیا کی چادر سمیٹ لی گئی ہے۔تم دیکھ لینا تہذیبوں کی اس ذلالت کو ختم کرنے ایک انقلاب آئے گا کیوں کہ جب روئے زمین پر شرک اپنی انتہا پر پہنچتا ہے تو سب کچھ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ عنقریب ایسا ہی ہوگا۔میں نے سنا ہے سائرس اعظم بابِل کی جانب فوج کشی کے درپے ہے۔”

مطربہ نے مخروطی لبوں کو دبا کر سسکی لی اور گویا ہوئی :” اے کاش! ایسا ہو یہ بدکاریاں روئے ہستی سے ناپید ہوجائیں۔”

اور پھر مطربہ کےہوش ربا نغموں سے رات بھیگ گئ۔ چکور چاند کو پا تو چکا تھا لیکن ملن ناممکن تھا۔پیر فلک آسمان گواہ تھا اس نے کئ ایسی محبتیں دیکھ رکھی تھیں ۔

رعد تاب :” مطربہ میرے چاند کو دیکھ آسمان کا چاند بھی شرما گیا دیکھ تو کیسے دبیز بادلوں میں چھپ گیا۔”

مطربہ کی کھلکھلاتی ہنسی سے فضا گونج اٹھی، ستاروں کی دمکتی مسکراہٹ نے رات کو منور کر دیا ۔سرگوشی کرتے ہوئے شرما کر اس نے رعد تاب کی آنکھوں میں جھانکا اور گرتی اٹھتی پلکوں میں سجے آنسو محبوب کے دامن کو تر کر گئے ۔

” میرے محبوب! میں نے اپنی ہر آتی جاتی سانسیں تیرے نام لکھ دی ہیں۔”

اور وہ ٹوٹ کر اسے دیکھنے لگا ،گویا نینوں کے دوکٹوروں میں ان لمحوں کو پلکوں کے زندان میں پابند سلاسل کر دے گا ۔۔دور آسمان کے سیارے بھی دمک دمک کر اس پاک محبت کی رفاقت کا ساتھ دے رہے تھے۔

وقت نے کبھی رکنا سیکھا تھا جو اب رُکتا ۔دونوں کے دل کہہ رہے تھے ” کاش! کہ یہ وقت ٹھہرجاتا!! ” اب مہتاب نے بھی اپنی روپہلی چاندنی سے واپسی کا تذکرہ کیا۔ صبح کاذب سپیدی کی ایک لکیر نے دونوں کے بچھڑنے کا اعلان کر دیا ۔ایک سال کی لمبی جدائی چار پلوں کا ساتھ او ربّا۔۔لمبی جدائی !!!۔

ابھی تو ملے نہ تھے، ابھی تو ٹھیک سے ایک دوسرے کو دیکھا نہ تھا، ابھی تو تشنگی ویسے ہی قائم تھی۔ ہچکیوں کے درمیان دونوں نے صدق دل سے اگلے سال ملنے کا وعدہ کیا۔

رعدتاب کا دل روتے ہوئے گنگنا رہا تھا

اب کی بار پونم میں آئے گی جو تو ملنے

ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے

دھڑکنیں بچھا دیں گے شوخ تیرے قدموں پہ

ہم نگاہوں سے تیری آرتی اتاریں گے

لیکن قدرت کو بھی کچھ اور منظور تھا ۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک بار پھر لمبی جدائی کی گرہیں پیار کے ریشمی دھاگے کی زینت بنیں ۔دو سچے پیار کرنے والے ملن کے نام پر اس بدکار ،سیاہ رات کا پھر سے انتظار کریں۔ آسمان پر رات کا آخری ستارہ چمک چمک کر تھک کر رخت سفر باندھ رہا تھا کہ دریائے فرات کے پانی میں تلاطم آیا ، ایک بڑی سی موج ساحل کی طرف بڑھی ۔پیار کے راہی بچھڑنے کے خوف سے ایک دوسرے کو دیکھنے میں محو تھے کہ یہی پل تو اس آنے والے سال کا سرمایہء حیات تھے۔بچھڑنے والوں کو اپنے اطراف و جوانب کی کب فکر ہوتی ہے کہ ایک بڑی سی موج نے دونوں محبت کے ماروں کو سمیٹ کر بچھڑنے کے درد سے آزاد کر دیا۔

صبح صادق جب شراب و شباب کا نشہ اترا اور ان کی گمشدگی کی باتیں عام ہوئیں تب لوگ ساحل کی جانب دوڑے مگر وہاں مطربہ کا حنائی دوپٹہ اور رعدتاب کا رومال ان کے روٹھ کر جانے کا پتہ بتا رہا تھا۔ایک دل جلا دل کو جلا کر بول اٹھا کہ” دونوں کے پاک جذبوں نے قربان ہو کر دریائے فرات کی طغیانی کو روکا ورنہ اس بد کار رات کا خمیازہ شہر کو ڈوب کر دینا ہوتا۔”

اس رات صدق دل کی دعاؤں کو ایجاب قبولیت حاصل ہوئی اور کچھ دنوں میں ہی سائرسِ اعظم نے شہرِ بابِل پر فوج کشی کر گناہوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ