افسانہ افسانوی نثر

التجا (افسانہ) از اقرا یونس،افسانہ ایونٹ 2022 زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر، افسانہ نمبر 17

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو افسانہ فورم کشمیر

افسانہ ایونٹ 2022

افسانہ نمبر 17

بینر :- عمران یوسف

افسانہ :- التجا از اقرا یونس (وزیر آباد)

لال فراک پہنے دو پونیوں کے ساتھ اس کی بیٹی گول گول گھوم رہی تھی اور ساتھ ہی اپنی توتلی زبان کے ساتھ گا بھی رہی تھی

دب دب مد پہ اتھا تھوال

مائی تیلی تونریا

فضہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر مسکرا دی ۔ اسے اس پہ ڈھیروں پیار آیا جب ایک دم گڑیا بھاگتی آئی اور ماں کے گرد اپنا ننھا حصار بنا کے پوچھنے لگی:

“ماما میں نے تولن بننا” (میں نے دلہن بننا)

وہ ایک دم ہنسی

جب سے وہ لوگ شادی سے آئے تھے تب سے گڑیا کئی بار یہ فرمائش کر چکی تھی ۔

اپنے ماموں کی شادی پہ اس نے پہلی دفعہ ایسے دلہن کو دیکھا تو اس کے ننھے دماغ نے دلہن کا ایک عکس بنایا تھا ۔

کیونکہ دلہن کے جوڑے جیسا ہی جوڑا اس کا بنایا

گیا اور وہ ساری تقریبات میں دلہن کے ساتھ رہی ۔

اب جب بھی اس جوڑے کو پہننے کی فرمائش کرنی ہوتی تو ایسے ہی کہتی۔

“بیٹا وہ دھونے والا ہے جب دھو کے استری کریں گے تب پہنیں گے تو زیادہ پیارا لگے گا ۔”

وہ سمجھداروں کی طر ح سر ہلا دیتی اور پھر سے کھیل میں مگن ہو جاتی

ادھر وہ اپنے کھیل میں مگن ہوتی ادھر فضہ اپنے خیالوں میں اسے دلہن بنے دیکھ کر اشک بار ہو جاتی

لیکن پھر خود ہی خود کو ڈانٹتی

پاگل ہو کیا ابھی تو وہ چھوٹی سی ہے تم خوامخواہ ہلکان ہو رہی ہو اور پھر نم آنکھوں سے اپنے آپ پہ مسکرا دیتی۔

لیکن پھر بھی ہمیشہ وہ ایسے ہی جذباتی ہو جاتی

گڑیا کے ساتھ چلتے پھرتے اس کے ننھے سوالوں کے جواب دیتے وہ خواب اس کے ساتھ ہی چلتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔

کافی دنوں سے اس کی طبیعت بوجھل تھی ۔وہ پھر بھی کاموں میں مصروف رہی لیکن ایسا زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا ۔

ایک صبح جب اس کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو ہسپتال لے جایا گیا ۔

ہسپتال والوں نے مختلف ٹیسٹ کروانے کا کہا ۔

تب تک بس نیند آور ادویات سے ہی اس کو بہلایا گیا

نیند سے بوجھل آنکھوں سے وہ اپنی بیٹی کا دھندلا چہرہ دیکھتی جیسے جیسے اس کا چہرہ دھندلا رہا تھا اس کا خواب واضح ہونے لگا تھا۔

رپورٹس آ گئیں۔۔۔۔۔جن سے اسے بے خبر رکھا گیا لیکن وہ اپنی کیفیت سے با خبر تھی ۔

ڈاکٹر نے کہا مریض کو اس کی حالت سے آگاہ کرنا لازم ہے ۔

آگہی کا عذاب جان لیوا تھا جس سے اس کا وہ خواب جس کا رنگ اب دلہن کے جوڑے جیسا گہرا ہو چکا تھا وقت کی راکھ میں دبی چنگاری سے سلگ رہا تھا

۔۔۔۔۔۔۔

اس کا ہاتھ روانی سے کاغذ پر چل رہا تھا جب اسے ایک دم چیخ سنائی دی ۔

نہیں تم۔۔۔۔۔تم میرے ساتھ ایسے کیسے کر سکتے ہو ابھی تو میں نے اپنی بیٹی کی شادی دیکھنی ہے اسے دلہن بنے دیکھنا ہے۔

وہ وقت ابھی بہت دور ہے

دیکھو میں نے اس کے لیے بہت سی چیزیں لے کے رکھی ہیں جو میں تب اسے دینا چاہتی ہوں

وہ تمام چیزیں اس تک پہنچ جائیں گی

لیکن میں اس سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی ہوں جو اس کو زمانے کی کڑی دھوپ سے بچائیں گی

وقت انسان کو سب سیکھا دیتا ہے اسے بھی سیکھا دے گا

ہاں وقت سیکھا دیتا ہے لیکن میں چاہتی ہوں جیسے میں نے دکھ اٹھا کے سیکھا ویسے نہیں

کوئی کب تک کسی کا دکھ اٹھاتا ہے

میں اٹھاوں گی۔۔۔۔۔۔ میں کوئی دکھ اس تک آنے نہیں دوں گی

لیکن مجھے کہانی مکمل کرنی ہے

کہانی کار چاہے تو کہانی بدل سکتا ہے

ہاں بدل سکتا ہے اگر وہ چاہے

دیکھو میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں اس معصوم کو دیکھو کیا تمہیں اس پہ ترس نہیں آتا

ترس کھاوں تو کہانیاں ہی کرداروں کی مرضی سے لکھنے لگوں پھر میں کیسا کہانی کار ہوا پھر تو روایت ہی الٹ جائے

ایک بار۔۔۔۔۔کیا میرے لیے میری بچی کے لیے یہ روایت الٹ نہیں سکتی

کسی کے لیے بھی نہیں

بدلی ہے میں نے دیکھا ہے وہ ہماری ہمسائی جو موت کے قریب تھی۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔وہ اب تک زندہ ہے

ہاں اس کی کہانی ایسے ہی لکھی گئی تھی

اگر وہ بچ سکتی ہے تو میں کیوں نہیں تم تو قادر ہو جو چاہو کر سکتے ہو

ہاں جو میں چاہوں گا وہی ہو گا

اس نے امید قائم رکھی لیکن دل تھا کہ کہیں چین نہ پاتا تھا اس کے بس میں ہوتا تو قلم اپنے ہاتھ میں لے لیتی۔

آہ!

لیکن کردار کو نہ چاہتے ہوئے بھی نبھانا پڑتا ہے ہونی ہو کے رہتی ہے جو راہ مقرر ہو اس سے فرار کے لاکھ راہ نکال بھی لیے جائیں تو وہیں جا کے رکتے ہیں جہاں کہانی کار لے جانا چاہتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔

آج گھر میں ہر طرف چہل پہل تھی سب لوگوں کو بلایا گیا خاندان یا خاندان سے باہر کوئی ایسا نہ تھا جو نہ آیا ہو ۔

اس نے اپنی بیٹی کو دیکھا جو لال جوڑا پہنے ابھی کمرے سے نکلی تھی اس کا دل چاہا جا کے اس کا ماتھا چومے لیکن وہ رک گئی۔

اس نے اپنی بہن کو دیکھا جو گڑیا کا ہاتھ پکڑ کے اس کے پاس لا رہی تھی ۔گڑیا نے اپنے ہاتھوں سے اسے چھوا تو ایک آنسو اس کی آنکھ میں جم گیا۔

سب اس کی تعریف کر رہے تھے وہ کہنا چاہتی تھی تعریف تو دلہن کی کی جاتی ہے ۔ وہ کوئی دلہن تھوڑی تھی جو سب اس کے روپ کو سراہ رہے تھے ۔

اس کی بیٹی کے ہاتھ میں گلاب تھا ۔جو وہ اپنی ماں کے لیے لائی تھی ۔اس کی بیٹی جو لال جوڑے میں خود بھی گلاب ہی لگ رہی تھی اس نے وہ گلاب ماں کے پاس رکھ دیا۔

کسی نے اس کا بازو پکڑ کر ایک طرف کیا تو وہ رونے لگی وہ ہمیشہ ایسے ہی رویا کرتی تھی اب بھی وہ چیخ رہی تھی ۔

جب اس کے رونے کی آواز چاروں طرف گونجی تو وہ جان گئی ڈولی اٹھنے والی ہے کہانی کار نے اپنی کہانی کا انجام لکھ ڈالا جس سے وہ دونوں اب تک بے خبر تھیں ۔

کلمہ شہادت کی گونج نے جیسے حقیقت کی ضرب لگائی اور وہ ایک دم چونکی۔

زمین سے کندھوں تک کا سفر بہت کٹھن تھا ہر ہجرت ہی کٹھن ہوتی ہے

ایک ہجرت اس نے ماں باپ کو چھوڑ کر کی ۔اب وہ پھر سے مسافر ہو گئی۔

اپنی ڈولی سے اس نے مڑ کر دیکھا ۔

اس کی بیٹی وہی لال جوڑا پہنے اب زمین پر بیٹھی تھی اور آنسووں کے قطرے اس کے ننھے ہاتھوں پہ گر رہے تھے۔ جب اس کی خالہ نے اسے اٹھا کے اپنے گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔

کہانی کار نے کہا وہ قادر ہے موت لکھنے پر اور موت اس کے حکم کی غلام ہے کوئی آنسو کوئی التجا اس کو حکم عدولی پہ اکسا نہیں سکتی کسی کردار کے جانے پہ کہانی رکتی نہیں مڑ جاتی ہے کسی اور سمت۔۔۔۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ