ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر 11
افسانہ :”سنگِ میل”
مصنف : قیّوم خالد (شکاگو)
”تو آپ قیصرابراہیم کے بڑے بھائی ہیں“
اس کے بیٹھتے ہی اُنہوں نے سوال کر ڈالا۔
”جی ہاں“
وہ کُچھ بوکھلاسا گیا۔ اِنٹرویو اس طرح شُروع ہوگا اُس نے سوچا بھی نہ تھا۔”
آپ کی کوالیفیکشن“۔
اُنہوں نے فائل اُلٹتے ہوئے پوچھا
”انٹر میڈیٹ“”
بس! کوئی معقول وجہہ؟“
”نا مساعد حالات کی بِناپر مُجھے تعلیم کا سِلسِلہ مُنقطع کرنا پڑا“۔ اس نے عُذر پیش کیا۔
”کہاں کہاں نوکری کی آپ نے“۔
وہ اِس سے کچھ زیادہ متاثر نظر نہیں آرہے تھے۔”پایونیر پرنٹرس۔ اور اس کے بعد ایک کیمیکل کمپنی میں کام کیا تھا۔“
”وہاں کیا کام آپ کے ذمہ تھا؟۔“
”جی ٹائپسٹ تھا“۔
”آپ نے ٹائپسٹ کا اگزام پاس کیا ہے؟۔“
”جی ہاں۔ ہائرگریڈ اگزام پاس ہوں۔“
”اسپیڈ کیا ہے آپ کی“؟۔
”80 لفظ فی منٹ۔ اور تھوڑا بہت شارٹ ہینڈ بھی جانتا
ہوں۔“”تھوڑا بہت سے آپ کا کیا مطلب ہے۔ شارٹ ہینڈ پُوری طرح آنا چاہیے۔ ورنہ اس کا آنا نہ آنا دونوں برابر ہیں آپ کُچھ ڈکٹیشن شارٹ ہینڈ میں اور کُچھ لانگ ہینڈ میں لینے سے تورہے۔“وہ خاموش رہا۔ اس سے کوئی جواب بن نہیں پڑا۔ ”آپ کل سے آفس جائن کرلیجئے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب سے اپنائنمنٹ لیٹر لے لیجئے۔ وقت کی پابندی کیجئے۔ اگرآپ آج ساڑھے د س بجے آجاتے تو آج ہی سے ڈیوٹی جائن کرسکتے تھے۔“ وہ کیا کہہ سکتا تھا۔ وہ تو انٹرویو کے انتظار میں صبح سے ہی باہر بیٹھا ہوا تھا۔ اُنہیں ہی دو بجے کے بعد انٹرویو لینے کا وقت مِلا تھا۔”یہ فائل سکریٹری صاحب کو دے دیجئے۔ غالباً آپ سگریٹ بہت پیتے ہیں۔ بہت بدبُو آرہی ہے۔“اُس نے جواباً کچھ نہیں کہا۔ وہ جانے کیلئے اٹھا تو وہ کہنے لگے ”
ہمیں اُمید ہے کہ آپ اپنے بھائی قیصرابراہیم کی طرح دل لگا کرمحنت سے کام کرینگے اور ہمیں شکایت کا موقع نہیں دینگے۔اُس نے کمرے سے نکلتے ہوئے سوچا کیا وہ کبھی اپنے چھوٹے بھائی قیصرابراہیم سے آگے نکل سکے گا۔ یا صرف اُسکی پرچھائی کی طرح ہی زندگی بسرہوگی۔ بچپن سے لیکر آج تک قیصر اُس سے دو قدم آگے ہی رہا اور وہ لاکھ جتن کرنے کے باوجود اُسکے ساتھ قدم ملا کر نہ چل سکا۔ بچپن سے دونوں ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے۔ اِسکول کی زندگی کے پورے دس سال اُس سے پیچھے نہ ہوجانے کی کوشش میں کٹ گئے۔ جہاں قیصر کا شمار جماعت کے پانچ چھ ذہین بچوں میں ہوتا وہیں اسکا کوئی شمار نہ تھا۔ وہ مُشکِل تمام پاس ہوکر اگلی جماعت میں پہنچ پاتا تھا۔ اِس وجہہ سے آخر آخر میں اُسے پڑھائی سے نفرت سی ہوگئی تھی۔ وہ اپنے آپ کو کھیل کے میدانوں میں نمایاں کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن یہاں بھی قیصر آگے ہی تھا۔ اسکول کی کِرکٹ کا وائس کیپٹن اور بہترین فاسٹ باؤلر تھا۔میٹرک کا اِمتحان دونوں نے ساتھ ہی دیا۔ قیصر نے میٹرک کا اِمتحان فرسٹ ڈیوژن میں پاس کیا تو وہ بمُشکِل تمام تھرڈ ڈیوژن لاسکا۔ پپّا نے نتیجہ دیکھ کر کہا تھا۔ مجھے قیصر سے زیادہ تمہاری فِکر تھی۔ ڈرتھا کہ کہیں تُم میٹرک میں ہی نہ رہ جاؤ۔ دونوں ساتھ پڑھنے کی وجہہ سے تُم اِتنے نمبرلاسکے۔ اکیلے ہوتے تو اِتنے نمبربھی نہ آتے۔ اُسکی ساری خوشی کافور ہوگئی۔جب مزید تعلیم کی بات نکلی توپپّانے دُکھ کے ساتھ قیصرسے کہا تھاکہ میری دِلی خواہش تھی کہ تُمہیں اِنجینئرنگ کی تعلیم دلواؤں لیکن مجبور ہوں۔ چاہتا ہوں کہ تُم جلد سے جلد پیروں پر کھڑے ہوجاؤ اور ذِمہ داری کا بوجھ اُٹھاؤ۔ مُجھے زِندگی بھر افسوس رہیگا کہ میں تمہیں اِنجینئرنگ کی تعلیم نہیں دِلاسکا۔ جہاں تک اُسکا تعلق تھا اُسے پپّا نے آرٹس سے انٹرمیڈیٹ میں داخلہ کروادیا تھا کہ کامرس بھی اُس سے چلنا مُشکِل تھا۔ اُسکا دل بھی پڑھائی سے اُچاٹ ہوگیا تھا کہ اُس سے کوئی توقعات وابستہ نہیں تھیں۔ اِنٹرمیڈیٹ اُس نے دو سال ناکام ہونے کے بعد پاس کیا۔ بس ایک چیزمیں وہ قیصر سے آگے رہا۔ Type کے دونوں اِمتحان اُسنے قیصر سے پہلے پاس کئے تھے۔ اِنٹرکے بعد اُسنے پانچ سوروپیہ ماہوارکی نوکری کرلی تھی۔ اُسے ایک طمانیت کا۔احساس ہوا کہ وہ بھائی سے پہلے کمانے لگا ہے۔ لیکن جلد ہی طمانیت کا یہ احساس بھی مِٹ گیا۔ قیصر نے نہ صرف بی کام جائن کرلیا بلکہ پارٹ ٹائم جاب سے اُتنے ہی پیسے کمانے لگا جتنے وہ دِن بھرعرق ریزی کرکے کماتا تھا۔ بی کام مُکّمل کرنے کے بعد وہ اِس پرائیویٹ کالج میں کام کرنے لگا تھا۔پرچھائیوں کے اِس کھیل میں کِتنے ہی حادثہ ہوئے۔
پپّا اپنے آپ کو زِندگی کی اس دوڑ سے لاتعلُق کر چکے تھے زِندگی کی کڑوی حقیقتوں سے اُنھوں نے آنکھیں مُوند لیں اک رات سوئے تو پھر جاگے ہی نہیں۔انکی زندگی کی سب صبحیں اور شامیں ختم ہو چکی تھیں – گھرکا سارا اِنتظام قیصر نے سنبھال لیا۔ وہ خُود بھی غیر یقینی حالات کا شکار رہا۔ نوکریاں مِلتی رہیں چُھوٹتی رہیں۔ اُسے اِس نوکری کی سخت ضرورت تھی کہ وہ پچھلے دو ماہ سے بیکار تھا۔ اِس نوکری کے دِلانے میں بھی اُسکے ایک دوست اور بھائی کا ہاتھ تھا۔ انکی کوششوں کے بغیر یہ عارضی نوکری کا مِلنا بھی مُحال تھا۔(۲)شام کو اُسکا دوست آدھمکا۔ وہ خُود اُس سے جاکر مِلنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ یہ دوست بھی بڑا عجیب تھا۔ دوستوں سے مِلنے کے بارے میں اِسکا ایک فلسفہ تھا۔ جِس دِن اُسے یہ دنیا ٹہری ٹہری سی لگتی اور زِندگی بے معنی سی لگتی اُس دن وہ دوستوں کو ڈُھونڈ نے نکلتا۔ زِندگی میں اِتنی بھاگ دوڑ ہونیکے باوجود کبھی کبھی اُسے یہ دنیا ساکت سی لگتی۔ یہ آج کے دور کا کولمبس تھا۔ دُنیا کا اک اک کونہ دریافت ہوچُکا ہے لیکن اِسکے نزدیک ابھی اِنسانوں کی کھوج باقی تھی۔”آج تُم پہلی اور آخری مرتبہ پرنسپل کے روم میں بیٹھ کر آرہے ہو“ اِقبال نے تفصیل سُن کر کہا۔”کیا مطلب؟“یہی کہ پرنسپل صاحب جب نان ٹیچنگ اسٹاف کو اپنے اجلاس میں بُلاتے ہیں تو اُنہیں بیٹھنے کیلئے کُرسی پیش نہیں کرتے اور یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ آپ خُود بھی بیٹھنے کی جرأت نہیں کرینگے‘نان ٹیچنگ اسٹاف پرزیادہ برہم بھی ہوتے رہتے ہیں۔”شائد پرنسپل ریمارکس بھی کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں“۔
اُس نے سگریٹ کا واقعہ سناکر کہا۔”یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔آپ پاجی ہیں بے وقوف ہیں۔ آپ نالائق گدھے ہیں غصّہ میں یہ سب کچھ روا ہے“”نالائق گدھے؟ گویا دنیا میں لائق گدھے بھی ہوتے ہیں“ اُسنے کہا”ہاں ہوتے ہیں۔ پرنسپل صاحب بھی تواِسی دُنیا کے رہنے والے ہیں“اِقبال نے کہا۔ دونوں ہنس پڑے”اچھا چائے پلاؤ گے یا نہیں؟“
ابھی تھوڑی دیر میں آجائیگی۔ تمہارے آنے کی اِطّلاع ہوتے ہی ممّی بغیر کُچھ کہے سُنے چائے چڑھادیتی ہیں۔ چائے پیکر اُس نے سگریٹ سلگائی اوردو تین کش لیکرراکھ پیالی میں جھاڑدی یہ اُسکی پرانی عادت تھی۔ وہ کئی بار منع کرچکا تھا۔ نفاست پسند ممّی کواس حرکت سے سخت نفرت تھی۔”اپنے کالج میں سیاست کُچھ زیادہ ہی چلتی ہے۔ بہتر ہیکہ تُم کچھ پہلے ہی سے جان لو“ پھر اِقبال فرداً فرداً کئی لوگوں کا غائبانہ تعارف کرانے لگا۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب بہت نیک اور سیدھے ہیں۔ اِتنے سخت نہیں ہے جِتنے نظر آتے ہیں۔ اُنکی شخصیت ناریل سی ہے۔ اوپر سے سخت اندرسے نرم۔ ہاں وقت کی پابندی کے معاملے میں بہت سخت ہیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے اگر اُنکی ٹوپی میز پر رکھی ہوئی ہے اور وہ دونوں ہاتھوں سے سرسہلاتے ہوئے بیٹھے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ پرنسپل صاحب کی ڈانٹ سُنکرآرہے ہیں۔ ایسے میں اُن سے بات کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔عظمت بھائی بہت دلچسپ آدمی ہیں۔جب تم پہلی بار انہیں عظمت بھائی کہوگے تو وہ چونکینگے اور تمہیں یُوں گُھورکردیکھیں گے کہ گویا تم نے اُنکی عُمر میں دس بارہ سال کا اِضافہ کردیا ہو۔ کم عُمرلوگوں میں خُودکوہم عُمر سمجھنا اُنکی عادت ہے۔ آپ کے ساتھ ہنسیں گے۔ لطیفے سُنائیں گے۔ سگریٹ پیش کرینگے۔ حیدرآبادی انداز سے سلام کرکے آپ اُن کے سگریٹ کیس سے دو ایک سگریٹ بھی اُٹھالے سکتے ہیں۔چاندی کے سگریٹ کیس کی تعریف کیجئے توخوش ہوجائیں گے پھر محروم سی ہنسی کے ساتھ خُودہی بتائیں گے کہ یہ کِسی کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ اب یہ پُوچھنے نہ بیٹھ جانا کہ یہ تحفہ کِس نے دِ یا تھا۔سلیم میں ابھی بچپن ہے۔ مذاق میں دھول دھپہ پراُترآتا ہے۔ اُس سے ذرا فاصلہ رکھ کر مِلناچاہیے۔یُوسف سے بچ کر رہنا یہ بہت بڑا چالباز ہے۔ تُمہارے سامنے دُوسروں کی بُرائی کریگا۔ لیکن اُسکے سامنے کبھی کسی کی بُرائی کرنے کی کوشش مت کرنا۔ ایک کے لفظوں کے دھتورے دُوسرے کے دِل کی زمین میں بونااُسکی فطرت ہے۔ تُمہارے سامنے وہ پرنسپل صاحب کو تک گالیاں دیگا۔ لیکن اگر تُم پرنسپل صاحب کے بارے میں کچھ کہوگے تو وہ بات پرنسپل صاحب تک پہنچ جائیگی۔ اِسے دوچار لیکچررزکا بھی اعتماد حاصل ہے۔ تُمہیں تو بہت بچ کررہنا چاہیے وہ تمہاری جگہ اس ویکنسی پراپنے سالے کا اپائنٹمنٹ کرانا چاہتا تھا۔اِن تعارفات کی وجہ سے جو خاکہ اِسکے ذہن میں کالج کابنا تھا وہ صاف نہیں تھا۔ سارے رنگ گُڈمُڈ ہوگئے تھے۔
اِتنے سارے لوگوں سے غائبانہ تعارف سے اُسے وحشت سی ہونے لگی‘ اور یہ تاثر دوسرے دن تک بھی اسکے ذہن پر مُسّلت رہا۔ جب دفتر میں اُسکا تعارف لوگوں سے کرایا گیا تو اُسے بِالکُل یاد نہیں رہا کہ اِقبال نے کس کے بارے میں کیا کہا تھا۔ البتہ ایک چہرہ اُسکے ذہن میں تازہ تھا۔ وہ تھا یُوسف کا چہرہ جو اسکے بجائے کسی اور کو اس پوسٹ پر رکھانا چاہتا تھا۔ یُوسف بہت خلوص سے مِلا۔ گرمجوشی سے مُصافحہ کرنے کے بعد وہ بولا۔ ”آج تو مِٹھا ئی ہونی چاہیے۔“
”آج تو پہلی بار کالج آیا ہوں۔ تنخواہ ملنے پر مِٹھا ئی کِھلاونگا“ اسنے وعدہ کیا”نہیں یار۔ ہم تو تُمہارے اَپائنٹمنٹ کی خُوشی میں مِٹھا ئی کھانا چاہتے ہیں۔ اگر تنخواہ کی مِٹھا ئی کِھلانا چاہتے ہو تو ہر ماہ کِھلانا پڑیگا“ یُوسف نے اِصرار کیا۔اِقبال نے اسے دیکھ کر آنکھ ماری۔ لنچ میں اُسے سب کو اپنی طرف سے چائے پلانی پڑی تب کہیں جاکر اسے چُھٹکارہ ملا۔پانچ چھ دن میں ماحول کی اجنبیت کُچھ کم ہوئی۔ وہ اپنے کام کو سمجھنے لگا۔ جو صاحب چُھٹّی پر گئے تھے وہ سینئیر کلرک تھے۔ اِنکی جگہ پراِقبال کوترقی دی گئی تھی۔ اوراِقبال کی جگہ پراُسے رکھا گیا تھا۔ اِس شرط پر کہ جب وہ چُھٹّی سے واپس آجائنگے تواِقبال کی ترقی واپس لے لی جائیگی اوراُسے برخواست کردیا جائیگا۔جو صاحب چُھٹّی پر گئے تھے اُنکا نام محمود تھا۔ ان کے بارے میں پوری جانکاری نہ ہوسکی تھی۔ انکے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں ہوتی تھی۔ گاہے گاہے سرسری ذکرآجاتا تھا۔ ہاں جب بھی کوئی کام اقبال ٹالنے کی کوشش کرتا۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کہتے۔“
تُمہاری جگہ محمود ہوتا تو یہ کام فوری کردیتا۔“ اُسکے پوچھنے پر اقبال نے بتایا ہاں محمود بھائی ہر کام منٹوں میں کردیا کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا۔آج نہیں تو کل یہ کام ہمیں ہی کرنا ہے۔ پھر ٹالنے سے کیا فائدہ۔ اِسے کام کرتے ہُوئے پندرہ بیس دن گزر گئے تھے۔ ایک دِن سپرانٹنڈنٹ صاحب نے کہا کہ محمود کے پاس سے چُھٹّی کی درخواست نہیں آئی ہے۔ پہلی تاریخ پرچُھٹّی ختم ہوجائیگی۔ شائد وہ پھر سے نوکری جائن کرلے۔ اِسکے دِل کو ایک دھکّا سا لگا۔دس بارہ دِن میں یہ نوکری ختم ہوجائیگی پِھروہی نوکری کی تلاش ہوگی اور ہم ہونگیں۔ کیا میری ساری زندگی خانگی کمپنیوں کی نوکریاں کرتے چھوڑتے گُزر جائیگی۔دو دِن اُسے ایک اِضطراب سا رہا۔ کالج کا ماحول جِس سے وہ کُچھ کُچھ مانوس سا ہوگیا تھا۔ یکایک اجنبی سا لگنے لگا۔ جب اِسکے ساتھی گفتگو کرتے‘ ہنستے‘ لطیفوں پر قہقہہ لگاتے تو اُسے ایسا محسوس ہوتا کہ یہ آوازیں بہت دُور سے آرہی ہیں اوراِنکا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کُچھ دن بعد جب سپرنٹنڈنٹ صاحب نے اِطّلاع دی کہ چُھٹّی کی درخواست آگئی ہے تو اُسے اپنی نوکری کی طرف سے اِطمینان ہُوا۔پہلی تاریخ کو اِقبال نے آکر اُس سے کہا۔
”چلو محمود بھائی کے پاس چلتے ہیں۔“ ہرمہینہ ُانکی تنخواہ میں ہی اُنکے گھر پہنچاتا ہوں۔ دفتر سے وہیں چلیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے گھر تنخواہ پہنچنے سے پہلے اُن کے گھر پہنچ جائے“۔ یکایک اُسے احساس ہُوا کہ ُان سے مِلنے کی خواہش اُس کے دِل میں کئی دِن سے پل رہی ہے۔دروازہ اُنکے چھوٹے بھائی نے کھولا۔ ایک ضعیف و نا تواں جِسم پلنگ پر پڑا ہُوا تھا جِسکی آنکھوں میں زِندگی کی چمک ابھی باقی تھی۔ اُنہوں نے لیٹے لیٹے گرمجوشی سے ہاتھ مِلایا۔ اُس سے ہاتھ مِلاتے وقت ایک مدہم سی مُسکراہٹ اُنکے ہونٹوں پر پھیلی ہوئی تھی۔ اِقبال نے تعارف کرایا۔ آپ ہیں جواّد اِبراہیم۔ آپ کی جگہ پر یہ کام کر رہے ہیں۔”آپ سے مِل کرمسّرت ہوئی“۔
اُنہوں نے بمُشکِل کہا۔ شائد اُنھیں گُفتگُوکرنے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ اِقبال نے چُپکے سے اُنکے ہاتھ پرتنخواہ کا لِفافہ رکھ دیا۔ اُنہوں نے اِشارے سے اپنے بھائی کو بُلاکر کہا۔”اپنی بھابی کو دیدینا۔ کہدینا ابھی سے اپنے آپ کو عادی کرلے۔ اگلے ماہ سے صِرف آدھی تنخواہ آئے گی“۔ ہُنوزاُنکے ہونٹوں پردھیمی سی مُسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ یہ سُنکراُسکے چہرے پرایک پرچھائی سی گُزرگئی۔ اگلے مہینہ ِاقبال کِس ہِمّت سے آدھی تنخواہ لاکردیگا۔ دو بچّے پردہ کے پیچھے سے نمودارہوئے۔ اِقبال سے دونوں کُچھ مانوس تھے۔ بچّی اِقبال کے اِشارے پراُسکے پاس چلی آئی اوراُسکے جیب میں لگے ہوئے قلم سے کھیلنے لگی۔ لڑکا ایک خالی کرسی کی پُشت پکڑ جُھولنے لگا۔اِس سے پہلے کہ کوئی منع کرتا وہ چاروں خانہ چت گِرا ہوا تھا۔ دُوسرے ہی لمحہ وہ ”کچھ نہیں ہُوا‘ کچھ نہیں ہُوا امجد بہادر بچّہ ہے“ کہتا ہُوا اورخِفّت مِٹانے کیلئے مُسکراتا ہُوا اندربھاگ گیا۔ وہ سوچنے لگا یہ جُملہ ماں یا باپ نے کہا تھا ہوگا اُسے تسّلی دینے کیلئے جب وہ پہلی بار گِرا تھا۔ اب بچّے نے خُود یہ جُملہ اپنا لیا ہے۔ اپنی ہِمّت بڑھانے کیلئے۔ شائد اُسکا دِل و ہیں اٹکا ہُوا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ پھر واپس آگیا اورمحمود بھائی سے پوچھنے لگا ”پّپا پِھر گِروں؟“۔”حوصلہ ہے تو ضرُورگِروبھائی“ اُنہوں نے جواب دیا۔”آپ کا بچّہ کافی ہِمّت والاہے“
اِس نے پہلی بار گُفتگُو میں حِصّہ لِیا ”اب تواِسے زِندگی میں یُونہی گِرنا اورگِرکرسنبھلنا ہے“ انہوں نے کہا“ ماحول بوجھل سا ہوتا جارہا تھا۔ ”اچّھااب ہم چلتے ہیں محمود بھائی“ اِقبال نے اُٹھتے ہوئے کہا۔”نہیں انکل چائے پی کرجانا“۔ بچّی نے اِقبال کے جیب میں قلم رکھتے ہوئے کہا۔ دونوں چائے پی کر ہی اُٹھے۔”تمام لوگوں سے مِلنے کیلئے جی بُہت چاہتا ہے لیکن نقاہت بُہت بڑھ گئی ہے“۔ محمودبھایئ نے کہا۔ ”ویسے کوئی بھی اب مِلنے نہیں آتا ایک سپرانٹنڈنٹ صاحب کبھی کبھی آجاتے ہیں اوردوسرے تُم ہو“چھوٹابھائی باہر تک چھوڑنے کیلئے آیا۔ ڈاکٹر بھی اب مایوس ہوگئے ہیں۔ کینسرسینہ سے گلے کی طرف پھیل رہا ہے۔ بہت جلد بات کرنے کی صلاحِیت سے بھی بھائی محرُوم ہوجائینگے“۔
چھوٹے بھائی کا گلہ ُرندھ گیا۔رُخصت ہوتے وقت تِینوں نے خاموشی سے ہاتھ مِلایا جیسے تِینوں گُونگے ہوں۔”جب مُصیبت آتی ہے توہر طرف سے آتی ہے۔ بیماری کیساتھ ساتھ محمود بھائی کی معاشی پریشانیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں اب آدھی تنخواہ والی چُٹّھی چل رہی ہے پِھر بغیر تنخواہ والی چُٹّھی کا دورآئے گا۔ پھرایک دِن نوکری ختم ہوجائیگی۔“ اِقبال چند فرلانگ چلنے کے بعد بولا اُسکا دل بار بار بھرآرہا تھا۔”دوستوں نے محمود بھائی کو بہت جلد بُھلادیا۔“اُسکا بھی یہی خیال تھا کہ دوست اُن کا ذکرکرنے میں بُخل سے کام لیتے ہیں۔ یہاں اپنے اپنے رونے سے ہی کِسے فُرصت ہیکہ دُوسروں کی بات کیجائے۔(۳)ایک دِن گیارہ بجے کے قریب دفترمیں اطلاع آئی کہ محمود بھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔ پرنسپل صاحب نے ایک تعزیتی میٹنگ مُنعقد کی اورکالج برخواست کردیا۔ تدفین ظہرمیں تھی۔”آج چُٹھی موقع سے مِلی ہے۔ ایک بہت ضروری کام تھا وہ نِبٹا لُونگا ایک نے کالج سے نِکلتے ہُوئے کہا۔مُجھے بھی نیند بہت آرہی ہے۔ کام کرنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا اب جاکر خُوب سوجاؤنگا“دُوسرے نے کہا۔
”اُٹھنا مت بُھولنا۔ ورنہ کل بھی ایک تعزیتی میٹنگ رکھنی پڑے گی“ ”لیکن ابھی چُھٹّی مِلی کہاں ہے۔ تدفین میں بھی تو شِرکت کرنا ہے آدھا دِن تو بِیت ہی جائے گا“۔ کِسی نے یاد دلایا”آدھے دن کی چُھٹّی کےعوض اِس کڑی دھوپ میں قبرستان جانے سے تو بہتر ہیکہ دفتر میں پنکھے کھول کر بیٹھے رہیں“ ایک نے کہا۔”آدھا دِن کہاں۔ تدفین ختم ہونے تک تِین تو بج ہی جائنگے“ ایک اکاؤنٹنٹ نے حِساب جوڑا۔قبر ڈھانکنے سے پہلے محمود بھائی کی صورت دکھائی گئی اُنکے ہونٹوں پر وہ مدھم سی مسکرہٹ اب مُنجمِد ہوچُکی تھی۔ آج وہ گُونگے ہوچُکے تھے۔ لیکن اللہ کا ان پر یہ کرم رہا کہ جِیتے جی انھیں گُونگے پن کا عذاب نہیں سہنا پڑا۔ زبان سوجائے اور احساس جاگتا رہے تو زِندگی عذاب ہوجاتی ہے۔ یہ عذاب اُنکے مِلنے والوں کو بھی اُٹھانا پڑتا۔ اُنکے سامنے بات کرتے ہوئے بھی جُرم کا احساس ہوتا۔باقی دِن بے کیف سا گُزرا۔ شام کو جب بیٹھے بیٹھے طبیعت بے زار ہونے لگی تو جوّاد اِقبال کے پاس چلا گیا۔دونوں جاکر کوثر کیفے میں بیٹھ گئے۔”اب تو تُمہاری ترّقی مُستقل ہوگئی ہے“ اُسنے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے اِقبال سے کہا۔ اِقبال کچھ بھی نہ سُن سکا کیوں کہ اُسی لمحہ جیوک باکس سے ایک اذّیت ناک قہقہہ گُونجا۔ بے ہنگم شور سے اپنی آواز بچاتے ہوئے اُسنے اپنی بات دہرائی۔ اِقبال معنی خیز انداز میں مُسکرایا“۔
اور تُمہاری نوکری بھی سمجھو پکّی ہوگئی۔“ وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ اپنی نوکری کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے۔ دونوں خاموشی سے بیٹھے رہے وہ خالی پیالی سے کھیلنے لگا۔ وہ اِقبال کو اُسکی ترّقی کی مُبارکباد دینا چاہتا تھا۔ لیکن اُس کے ذہن میں ایک گِرہ سی پڑگئی تھی جو کُھل نہیں رہی تھی۔ اِقبال دُھوئیں کے مرغولے بنانے میں مصروف تھا۔ میز پر پڑی ہوئی ڈبیہ سے سگریٹ نکالتے ہوئے اُسنے سوچا۔ چلو آج ڈھنگ کی نوکری تو مِل گئی۔ زِندگی کا ایک سنگِ مِیل تو طے ہُوا۔ ایک مرحلہ تو طے ہُوایکایک اُسے مُجرِمانہ احساس ہوا کہ جِسے وہ سنگِ مِیل سمجھ رہا ہے وہ سنگِ مِیل نہیں بلکہ ایک قبر ہے۔ ایک کچّی تازہ قبر۔٭٭٭٭٭٭