افسانہ افسانوی نثر

“جہاں دھوپ وہاں چھاؤں” پرویز یوسف، افسانہ ایونٹ 2022 زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر، نمبر 12

ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ ایونٹ2022

و

افسانہ نمبر. 12

بینر :- عمران یوسف

افسانہ _ جہاں دھوپ وہاں چھاؤں

پرویز یوسف

ریسرچ اسکالر شعبہ اردو سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر

وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی زندگی میں انہیں کوئی روکنے،ٹوکنے والا،ان سے ناراض ہونے والا اور انہیں پیار کرنے والا کوئی موجود ہو۔ہمارے محلے میں بھی ایک گھر ایسا ہی تھا عبدالحمید اگرچہ زیادہ مالدار نہ تھا لیکن پھر بھی ان کا گھرانا ہنسی خوشی سے رہتا،پانچ بچوں سے ان کے گھر کا آنگن چہک اُٹھتا تھا۔عبد الحمید اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی سرفراز کرانا چاہتا تھا۔”ابو ہمیں روز پڑھنے کو کہتے ہو کبھی ہمیں دو گھڑی آزادی سے بھی کھیلنے نہیں دیتے“۔میرے جگر کے ٹکڑے آنے والے کل کے لیے ہی تو میں یہ کر رہا ہوں۔اپنے لیے نہیں بلکہ تمہارے لیے،وقت گزرنے پر میری باتیں یاد کر کر کے اپنی آنکھوں کو نم کیا کرو گے۔

عبد الحمید پہلے سے ہی ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔اُس سے بار بار دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی محسوس ہوا کرتیں لیکن وہ بال بچوں کو محسوس ہونے نہیں دیتا۔بچوں کے ساتھ دورانِ گفتگو وہ گر پڑا ”ارے ابو کیا ہوگیا“۔نادیہ نے باپ کو اُٹھانے کی کوشش کر لی لیکن وہ اسی آن میں دم توڑ بیٹھا تھا،نادیہ چلاتے چلاتے اپنی امی کو بلاتی رہی۔وہ بھی باہر آگئی اور حمید کو جھنجوڑنے لگیں۔اس طرح ان کی دنیا چند سیکنڈ میں اُجڑ گئی۔باہر لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔تجہیز و تکفین کے بعد دیگر رسومات ادا ہوئیں۔چہارم پر سبھی رشتہ دار گھروں کو روانہ ہوگئے اور پھر یہ بچے اور ان کی ماں اکیلے گھر میں رہ گئے۔پھر دوبارہ کوئی رشتہ دار یا ہمسایہ ان کے در پر نمودار نہ ہوا۔بس اللہ کا ہی سہارا اور ساتھ تھا۔ہاں کئی آسودہ حال رشتہ دار بھی ان کی مالی معاونت کرتے رہے اور ساتھ ہی کئی انجمنیں اور اوقاف بھی ان کی معاونت کرتے۔دن گزرتے گئے،تین لڑکیا ں اور دو لڑکے بڑے ہوتے گئے۔پہلی لڑکی نادیہ دسویں میں آگئیں اور باقی چاروں کی عمروں میں ایک ایک سال کا تفاوت تھا۔نادیہ کچھ بڑی تھی لیکن چار بچے نہایت کم عمر تھے۔چاروں بچے روز دوسرے بچوں کے پاس نئے نئے پوشاک،نئی نئی چیزیں دیکھ کر اپنی والدہ کو تنگ کرتے۔”کیوں نہیں لاتی ہو ہمارے لیے وہ سب چیزیں جو سب بچوں کے پاس ہوتی ہیں۔امی ہم اتنے غریب کیوں ہیں؟“۔”ماں سے ایسے سوالات نہیں کیے جاتے“۔نادیہ ہر وقت بھائی بہنوں کو سمجھایا کرتی۔

میرا گزر روز اس گھر سے ہوجاتا۔میں ان بچوں کی باتیں روزسنتا،ان باتوں کو سنتے سنتے میرا کلیجہ پک جاتا۔اس گھر میں مجھے جس بچے کی باتیں اچھی لگتی وہ احمد تھا۔وہ روز ماں سے پوچھتا ماں ہر دن ہمارے گھر کیوں لوگ صرف اور صرف یہ کہنے آتے ہیں کہ نادیہ اور صادیہ کو ہم رکھیں،احمد،ندیم اور کامیہ کو دوسرے رشتہ دار لے جائیں گے۔ہم کیوں نہ اپنے گھر میں اپنی مرضی سے جئیں“۔”میں۔۔۔۔۔کماؤں گا!میں اس گھر کا چراغ روشن رکھوں گا۔۔۔۔“۔”میرے لعل اللہ سب بہتر کرے گا۔میں ان کی باتیں سنُ کر اللہ سے کبھی مخاطب ہو کر کہتا اے مولیٰ کیا یہ ہمیشہ محتاج اور دوسروں کے دانوں پر پلتے رہیں گے۔“خیر چند سال ہوگئے۔احمد نے جِلد سازی کا کام کرناشروع کیا۔ساتویں جماعت کے بچے میں اس طرح کا شعور پا کر میں بے حد متاثر ہو گیا۔میں ایک دن آفس کے لیے صبح گاڑی میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ دھکم دھکا کی وجہ سے مجھے کچھ سوجھا ہی نہیں کہ کون سی سیٹ پر بیٹھوں،آخری سیٹ پر جگہ ملی۔میرا کلیجہ یہ دیکھ کر چھلنی ہوگیاکہ چھوٹا لڑکا احمد ہاتھ میں چار ماچس لیے ہر شخص سے مخاطب ہو کر پکارتا صاحب ”لے لو ماچس “لیکن جوں ہی وہ لڑکا میرے پاس پہنچا،اُس کی کمائی حاصل کرنے کی خوشی پل بھر کے لیے غائب ہوگئی۔وہ اس قدر شرمندگی محسوس کرنے لگا جیسے اُس سے کسی نے کوئی غلط فعل کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔”ارے بیٹا تم اپنا کام کرتے رہو،اس میں شرمندگی کی کیا بات،انسان کبھی کبھی نہ جانے کیوں اُن کاموں میں شرمندگی محسوس کرتا ہے جن کا انجام دینا فخر کی بات ہوتی ہے۔حلال کی روزی روٹی کمانا اس میں کیا شرمندگی۔کبھی کبھی کوئی شخص بڑے سے بڑا گناہ کرنے سے بھی نہیں کتراتا اور شرماتا۔

سال گزرتے گئے احمد نے مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ دسویں جماعت کا متحان بھی امتیازی نمبرات کے ساتھ پاس کر لیا۔میں اس کی کامیابی کی خبر سُن کر باغ باغ ہوگیا۔میں نے دوسرے دن اس لڑکے کو فجر کی نماز کے وقت مسجد کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے دیکھا۔میں اس کے پاس پہنچ کر اس سے پوچھنے لگا ”اب کیا ارادہ ہے،کہاں ایڈمیشن کرو گے،احمد کی آنکھوں سے اشک ٹپ ٹپ گرنے لگے۔مجھے اپنے سوال پر تعجب ہوا کہ شاید میں نے کوئی غلط فقرہ تو زبان سے ادا نہ کیا۔“کیا ہوا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی۔ارے نہیں سر،بس ایڈمیشن کی بات پر مجھے رونا آگیا۔دراصل ہمارے گھر کی حالت سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ہمارے پاس کہاں اتنے پیسے ہیں جو میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔ارے ایسا نہیں سوچتے،اللہ ضرور کوئی نہ کوئی راہ نکالے گا۔میں نے بہت کوشش کی کہ کچھ رقم دے کر احمد کی مدد کروں لیکن وہ اس قدر خوددار تھا کہ اس سے مجھ سے مدد لینا گوارا نہ تھا۔خیر میں نے اس بچے کو دلاسہ دے کر نماز ادا کی اور گھر کی راہ لی۔خوش قسمتی سے میرا اسی اسکول میں تبادلہ ہوگیا اور میں نے اس بچے کے ایڈمیشن میں اس کی واقفیت کے بغیر اس سے مدد کی۔سال گزرنے میں دیر نہیں لگتی۔دو سال بعد ہی احمد بارہویں جماعت میں بھی اچھے نمبرات لے کر کامیاب ہوگیا۔میں ذاتی طور پر اتنا خوش ہوگیا کہ اُچھلنے لگا،باچھیں کھل اٹھیں۔وہ اب بڑا ہوگیا تھا۔خیر میں بھی آفس کے کام سے ایک سال کے لیے کلکتہ چلا گیا۔

واپس آکر ایک دن میں اس بچے سے راستے میں ملا۔ارے سر آپ،ارے تمہارے آنکھوں میں آنسوں کیسے اور کالج جا رہے ہو کیا؟سر میں نے کالج میں ایڈمیشن نہیں کیا۔چار ہزار روپیے کالج کی فیس بھرنی تھی،ارے مجھے فون کرتے،میرے گھر والوں کو بتاتے،کوئی بات نہیں سر ایک سال ضائع ہونے سے کیا ہوتا ہے۔دو دن بعد میں نے اس بچے کا داخلہ کالج میں کروایا۔میں نہ جانے کیوں اس بچے کی پریشانی سے خود پریشان ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔

”بھائی جان!آپ کو ہوا کیا ہے،آپ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں؟۔“بہن نے پوچھا۔میرے دل ودماغ پر ایک بھاری بھرکم بوج تھا میں نے بہن سے اُس لڑکے کا سارا واقع بیان کیا۔یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے،آپ دل ملول نہ ہوں۔کسی کو مال دے کے آزمایا جاتا ہے اور کسی کو مال و دولت سے محروم رکھ کے،خیر میں کئی روز تک اس لڑکے کی تکلیف کے بارے میں سوچتا رہا۔صبح اور شام کے وقت یہ لڑکا ریڑی پر ملتا اور دن بھر کالج میں۔زمانہ گزرتا گیا۔اس لڑکی کی حالت بھی کسی قدر تبدیل ہوتی گئی اور اس نے پوسٹ گریجویشن میں داخلہ لیا۔پوسٹ گرویشن سے فارغ ہو کر لیکچرار کے فرائض انجام دینے لگا۔ بعد ازیں ایک رابطہ کار کے فرائض انجام دیتا رہا۔اس کے بعد میر اجب بھی اس سے کبھی سامنا ہوتا میری آنکھوں کے سامنے اس کی ریڑی اور اس کے معصوم ہاتھوں میں ماچس کے ڈبے نظر آتے۔میں اس سے دیکھتا ہی رہتا اور سوچتا کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔وقت وقت ہی کی بات ہے کہ کانٹوں میں سے ہی پھول نکل آتے ہیں۔واقعی اگر کانٹے نہ چبھتے تو پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے۔ایک وقت کا یتیم اور بے سہارا معصوم بچہ جو بازا ر میں یا تو ریڑی پہ سبزی فروخت کرتا یا پھر ماچس بھیجتا وہی آج ایک گزیڈیڈ آفسر بن گیا تھا،جب میں اس سے کبھی دیکھتا تو خوشی محسوس ہوجاتی اور اس سے گلے لگا لیتا۔رب کے جو فیصلے ہوتے ہیں وہ بندے کے لیے فایدہ بخش اور اٹل ہوتے ہیں۔جہاں چھاؤں وہاں دھوپ۔وقت کی ہر شئے غلام وقت کا ہر شئے پے راج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ