افسانہ افسانوی نثر

سپھل یاترا از ڈاکٹر صوفیہ شیریں، افسانہ نمبر 9، افسانہ ایونٹ زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر

2022 ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ ایونٹ

9 افسانہ نمبر

بینر :- عمران یوسف

افسانہ :-سپھل یاترا

ڈاکٹرصوفیہ شیریں

قومی شاہراہ نمبر 6جسے عام فہم زبان میں Bombay Road بھی کہتے ہیں، پر روزانہ نہ جانے کتنی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور نہ جانے کتنی موت کی آغوش میں سوتی ہیں۔ آئے دن اس شاہراہ پر غفلت کے ماروں کی دبی کچلی لاش پڑی ہوتی ہے۔ آخر کو شاہ راہ ہے، شاہی ہونے کی قیمت تو لے گی ہی،شاہ راہ ہے اس لئے بنادئے کچھ لیتی بھی نہیں۔کلکتہ سے بمبئی تک لمبی یہ سڑک کے دونوں کنارے پر بھوک مٹانے کے کئی سادھن دستیاب ہیں۔

بھوک ۔۔۔۔۔۔جی ہاں! بھوک، چاہے ناف کے اوپر کی ہو یا نیچے کی، محبت کی ہو یا عزت کی، دولت کی ہو یا شہرت کی، انسان کو چین سے جینے کہاں دیتی ہے۔ زندگی کا پہیہ اسی بھوک کے گرد گھوم رہا ہے۔ خان پارکنگ میں بھی اس بھوک نے ایک دنیا بسا رکھی ہے۔ اسی بھوک نے چھ ہزار ماہانہ پر نصیر کو یہاں بارہ گھنٹے کی چوکیداری پر مامور رکھا ہے۔

”ارے اونصرو! کہاں مرگیا؟ کس کی دلالی کرنے چلا گیا؟ ابے گیٹ کھول۔

“بارہ پہیوں والی لاری کے ڈرائیور نے چلاتے ہوئے نصیر کو آواز لگائی۔ ساتھ ہی ڈرائیونگ سیٹ والی کھڑکی سے سر نکال کر جھانکا۔ اپنی سرخ انگارہ جیسی آنکھوں کو گھما کر دور تک دیکھا۔ نصیر کا کہیں پتہ نہ تھا۔ رات بھر جاگ کر گاڑی چلاتے ہوئے اس کا دماغ ویسے ہی تھکان اور نیند سے جھنجھلایاہوا تھا، اس پر مین گیٹ پر نصیر کی غیر حاضری نے اس کی جھنجھلاہٹ میں مزید اضافہ کردیا۔ وہ کود کر لاری سے اترا اور چھوٹا دروازہ کھول کر پارکنگ ایریا میں داخل ہوا۔ اس سے پہلے کہ اس کے منھ سے ایک اور گالی نکلتی اس کی نظر نصیر پر پڑگئی جو پاخانے سے ازار بند باندھتے ہوئے نکل کر اس کی طرف تیزی سے چلا آرہا تھا۔

”آرہا ہوں بھئی، کاہے مرے جارہے ہو، نوکری نہ ہوئی آپھت ہوگئی۔ انسان جرا آرام سے ہلکا بھی نہیں ہوسکتا۔“

”ہلکا ہونے کے لئے یہی ٹیم ملا ہے،چل جلدی کھول، کتنی دیر سے گاڑی باہر کھڑاکیا ہوا ہوں۔

“نصیر نے بڑا دروازہ کھول کر کوپن کاٹا اور رجسٹر میں لاری کا نمبر اور داخلے کا وقت درج کردیا۔ کل رات سے اب تک ساٹھ گاڑیاں باہر گئیں تھیں اور بیس گاڑیاں آئیں تھیں۔ زیادہ تر گاڑیاں رات کو نکل جاتیں اور صبح کو آکر پارک ہوجاتیں۔ خان پارکنگ میں یہی روز کا معمول ہے۔

جھارکھنڈ کے شمالی حصے میں سہارا سٹی کے مخالف جانب ڈلما پہاڑ کے دامن میں خان پارکنگ دو ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے جہاں مختلف جگہوں سے آنے والی پھلوں، سبزیوں اور مچھلیوں سے لدی کبھی خالی گاڑی بھی چند گھنٹوں کے لئے آکر رکتی ہیں۔ ڈرائیور اور اسٹافس ضروریات سے فارغ ہوتے ہیں، نہاتے دھوتے، کھانا پکاتے ٗکھاتے اور آرام کرتے ہیں۔ پارکنگ کے پچھلے حصے میں ان کے لئے بڑا سا حمام خانہ بھی ہے جہاں بیک وقت بیسوں لوگ غسل کرسکتے ہیں۔ حمام خانے کے جنوبی حصے میں پارکنگ کے آخری سرے پر سرچنگ لائٹس لگی ہیں۔ فصیلوں کے باہری حصے میں داخلی دروازے کے داہنی جانب آدی باسیوں نے چائے ناشتہ کی کئی دوکانیں لگا رکھی ہیں جب کہ بائیں جانب قطار سے میکینک شاپس ہیں۔ پارکنگ کے اندر مین گیٹ سے ملحق ایک طرف منیجر کا آفس اور دوسری طرفچوکیداروں کی آرام گاہ ہے۔ پارکنگ ایریا میں ہمہ وقت دھول مٹی اڑتی رہتی ہے یا گالی گلوچ کی بوچھار ہو تی رہتی ہے۔ ایسے ماحول میں گذشتہ نو سالوں سے نصیر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے۔ اس کی طرح بھانو اوررام کھلاون بھی چوکیداری میں لگے ہوئے ہیں۔ آٹھ بج چکے ہیں پر دوسری شفٹ کا چوکیدار بھانو ابھی تک نہیں آیا۔ ساڑھے آٹھ کے قریب بھانو آیا تو نصیر اس پر چڑھ دوڑا۔

”اتنا دیر ی کیسے ہوا؟ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرکے اب تیرا بھی ڈیوٹی کرنا پڑے گا۔“

”جراسا دیر کیا ہوگیاہم سے،تو بلبلانے لگا۔ ادھر ہنومان جی کی ہتیا ہوگئی ہے اور تو ہے کہ بس گھر جانے کے لئے مرا جارہا ہے۔

“بھانو گارڈ یونیفارم کی آستین اٹھاتے ہوئے پھنکارا۔”کس کا ہنومان جی؟کون سا ہنومان جی؟ بوجھو ول مت بوجھا، ہم کو کھل کے بتا کہ کیا ہوا۔“

پورا بات سننے کا تو تیرے پاس وکھت ہی نہیں ہے۔ بس ڈیوٹی ختم ہوا اور تو گھر بھاگا۔“

”ارے! نہیں، نہیں۔ بتانا! کیا ہوا؟“نصیر کی آنکھوں میں تجسس ابھر آیا۔”وہی ڈلما پہاڑ سے ہنومان جی کھیلتے کھیلتے جرا ادھر آگئے۔ ایک ٹرک والا ان کو کچل کے نکل گیا۔ سالا۔۔۔۔

روج کا ہوگیا ہے۔ کبھی انسان تو کبھی جانور اور آج تو حد ہوگیا ہنومان جی کو ماردیا۔“”اوہ! اچھا۔ اچھا۔۔۔۔ سمجھا پہاڑ پر سے ہائی وے پر کوئی بڑا والا بندر آگیا ہوگا۔“نصیر کا سارا تجسس جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

وہ دل ہی دل میں بولا۔”کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ نہیں چوہا نہیں ٗ بندر۔“

نہیں نصرو ٗبندر مت بول ان کو۔ پہاڑ پر بسنے والے سب بندر ہم لوگ کے ہنومان جی ہیں۔ ہنومان جی رام جی کے بھکت تھے اور ہم ان کے بھکت ہیں۔”ہنومان جی کی پوری سینا ٗبستی میں گھس کرجو چاہے کھالے، جو چاہے لے لے، مجال ہے کوئی برا مان لے، شاکشات بھگوان گھر آئیں تو کاہے کوئی برا مانے، لیکن اب ہم برا مان گئے ہیں۔ ہنومان جی کا مرت شریر لے کر سب آدی باسی سڑک کنارے بیٹھ گئے ہیں۔ ہر آنے جانے والی گاڑی کو سو سو روپئے دینا ہوگا اور آس پاس کے ہر دوکان دار کو بھی، تاکہ پورے ویدھی ودھان کے ساتھ ان کا انتم سنسکار ہوسکے۔“

”کیا اول جلول بک رہا ہے بے؟“ ہائے وے کے کنارے انتم سنسکار کیسے ہوگا؟نصیر نے اپنے جانتے میں بڑے پتے کی بات کہی۔”انتم سنسکار اگنی دان دے کر نہ ہوسکے گا تو وہیں دپھنا دیں گے، ہنومان جی کا سمادھی بنادیں گے۔“

”ہاں ای ٹھیک رہے گا۔ اچھا ہم نکلتا ہے گھر جلدی پہنچنا ہے۔ تو تو جانتا ہے جس دن نائٹ ڈیوٹی ہوتا ہے اس دن جورو بھنائے رہتی ہے۔“

نصیر سائیکل چلاتے ہوئے سہارا سٹی کے بغل والے راستے سے ہوکر آزاد بستی چلا گیا، جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی بسی ہوئی ہے۔ راستے میں کمبل والے بابا کو اٹھنی دینا نہ بھولا۔ کئی سالوں پہلے ایک مجذوب سہارا سٹی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں نہ جانے کہاں سے آکر گھومنے لگا تھا۔ کوئی اسے روٹی دے دیتا تو کوئی پیسے۔ کسی نے ایک سرد رات اسے کمبل دے دیا جسے وہ گرمی میں بھی اوڑھے رہتا تب سے وہ کمبل والے بابا کے نام سے مشہور ہوگیا۔ کہتے ہیں جس کی طرف بھی وہ نظر بھر کر دیکھ لے اس کی قسمت ہی بدل جاتی ہے۔ نصیر بھی اپنی قسمت بدل جانے کا انتظار کررہا تھا۔دوسرے دن ہی بھانو کام پر نہیں آیا۔ نصیر کو اس کے حصے کی ڈیوٹی بھی کرنی پڑی۔ جب گاڑیوں کی آمدورفت کم ہوجاتی تو نصیر دروازے سے ملحق چھوٹے سے کیبن میں کچھ دیر آرام کرلیتا۔ مسلسل کئی گھنٹوں کی ڈیوٹی سے اس کے اعصاب جواب دے رہے تھے۔ مزاج میں تھکان اور چڑچڑاپن لئے وہ سوچ ہی رہا تھا۔

”آج منیجر سے بات کر ایسی نوکری کو لات ماردوں گا۔ چھ ہزار روپیہ میں ہوتا کیا ہے؟ وہ تو ادھر ادھر سے کچھ بنالیتا ہوں ورنہ اتنے پیسے میں کیا سنسار چلے اور کیا بچے پڑھیں؟“

کہ ٹھیک آٹھ بجے بھانو ہنستا گنگناتا چلا آیا۔”تیری ماں کی………….کس کے کوٹھے میں گھس کے بیٹھا تھا کہ تھوبڑا چمک رہا ہے۔؟“

”ہی ہی ہی۔۔۔۔۔ کچھ نہیں نصرو۔۔۔۔ وہ بستی میں میلہ لگا ہے نا۔ تینوں وکھت اچھا اچھا کھانا، حلوہ پوری، بھاجی،لڈو، پکوان پہ پکوان، کھا کھا کے شریر سے آتما تک کھوس ہوگئی ہے۔ پورے جنم میں اتنا اچھا کھانا نہیں کھایا جتنا دو دن میں کھالیا“

بھانو پیٹ پر ہاتھ اور ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولے گیا۔”ہوں ں ں۔۔۔ لگتا ہے کسی بڑا آدمی کا بیاہ تھا۔“

نصیر نے منھ میں آئے ہوئے پانی کو گھونٹتے ہوئے پوچھا۔”ابے نئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کل یوگ میں کون دانی پوری بستی کو چار وکھت مجے دار پکوان کھلائے گا؟ ای سب تو ہنومان جی کی کرپاہے۔ بھگوان ہی ایسا چمتکار کرسکتے ہیں۔“

”بھگوان؟ چمتکار؟ کا مطلب“

”ارے بکلول! وہ جو ہنومان جی کا سمادھی بنانے کے لئے بستی کا سارا آدی باسی دھرنے پر بیٹھا تھا نا! بھگوان کی کرپا سے اتنا دھن اکٹھا ہوگیا کہ ان کی سمادھی بھی بن گئی اور پرساد میں پوری بستی نے دو دن کا بھوجن بھی کرلیا۔ سچ بتارہا ہوں نصرو! تیج تیوہار میں بھی اتنا مجا نہیں آیا جتنا ہنومان جی کی انتم یاترا کو سپھل بناکے آیا۔“نصیر سمجھنے سے قاصر تھا کہ بھانو کی آنکھیں شردھا سے چمک رہی ہیں یا مزہ سے۔ دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے۔ اچانک بھانو نے کام پر آنا بند کردیا۔ اس کی جگہ ایک نیا چوکیدار راجو آگیا۔ اتفاق سے وہ بھانو کی آدی باسی بستی سے ہی تعلق رکھتا تھا۔ ایک دن نصیر نے اس سے بھانو کے متعلق پوچھ ہی لیا

۔”ارے کچھ نہ پوچھو بھیا۔ بھانو کا تو پانچوں انگلی گھی میں او سر کڑاہی میں ہے۔ اس نے بستی کے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی بنائی اور چندہ اکٹھا کر ہنومان جی کا مندر بنالیا ہے۔ ہر آنے جانے والی گاڑی مندر میں پیسے ضرور پھینکتی ہے تاکہ اس کی یاترا سپھل ہو۔“

”ہاہا ہاہا ۔۔۔۔۔۔ بھانو کی گاڑی تو چل پڑی۔ چلو بھئی اس بات پہ ایک ایک کپ گرما گرم چائے ہوجائے۔“

”نئیں بھیا ہم کو دیری ہورہا ہے۔ اتنا سردی میں نائٹ ڈیوٹی کرکے تو ہمارا جان ہی نکل گیا۔“

راجو یونیفارم بدلتے ہوئے بولا۔”۔

ابھی نئے ہو نا! دھیرے دھیرے تم کو عادت پڑجائے گا۔ چلو چائے پیتے جاؤتاکہ تھوڑا گرمی آجائے۔“

دونوں ٹہلتے ہوئے دوکان پر پہنچے جہاں پہلے سے ہی کافی بھیڑ تھی۔ لوگ کسی موضوع پر آہستہ آہستہ باتیں کر ر ہے تھے۔ نصیر نے آگے بڑھ کر پوچھا۔”کاہوا؟ اتنا بھیڑ کاہے ہے؟“

چائے والا جھٹ چولہے سے چائے کی کیتلی اتار کر پیالی میں چائے انڈیلتے ہوئے بولا:”تم کو نئیں معلوم نصرو بھیا! وہ کمبل والے بابا تھے نا! کل رات سردی سے ٹھٹھر کر مر گئے۔“

”اچھا!۔۔۔۔ ایسا کیا؟“نصیرنے ہاتھ بڑھا کر چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے کہا، پل بھر کو اس کی آنکھوں میں بجلی کی سی چمک پیدا ہوئی،وہ ادھر ادھر نظر دوڑانے لگا۔

”کیا دیکھ رہے ہو بھیا؟“

راجو نے پوچھا۔”مجار کے لئے جمین دیکھ رہا ہوں۔“

ختم شدہ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ