ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _10
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :- قاتل از شاہینہ یوسف
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
وہ راستے میں قمیص کی سلوٹیں دور کرنے میں اس طرح لگا تھا کہ اُسے اس بات کا ہوش بھی نہیں رہا کہ و ہ گاڑی کے نیچے آنے والا ہے۔”بابا آپ یہ کیا کر رہے ہیں‘گاڑی کے نیچے آجاتے تو؟آپ کہاں بچ جاتے“۔زبیدہ نے بغیر رُکے بابا سے اس طرح سے یہ سب باتیں کہیں کہ جیسے وہ سچ میں اس بابا کی ذاتی بیٹی تھی۔”بیٹا مجھے کہاں موت بھی آکر ان غموں سے جن سے میں جوجھ رہاہوں‘نجات دے پائے گی“۔
”خدا بچائے بابا! آپ کیوں ایسا کہہ رہے ہیں‘آپ کن غموں سے جوجھ رہے ہیں۔“یہ سب سنتے ہی بابا زارو قطار سے رونے لگا۔
”کیا ہوا بابا؟ میں نے کوئی غلط بات کہی؟۔
”نہیں نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے آپ نے کچھ غلط نہیں کہا۔دراصل اس نام سے میرا لختِ جگر بیٹا دانش مجھے پکارتا تھا۔کیا ہو ا آپ کے بیٹے کو؟ زبیدہ نے جیسے حق جتا کربابا سے پوچھا۔یہ سب سنتے ہی بابا جیسے الگ ہی دنیا میں داخل ہو گیا اور کہنے لگا:”
ایک وقت ایسا تھا جب ہم بادشاہوں جیسی زندگی گزار رہے تھے‘میری بیوی‘میری دوبیٹیاں اور میرا اکلوتا لختِ جگر بیٹا دانش۔ہماری زندگی پر ہمسایہ رشک کیا کرتے۔ہمارے گھر کی درو دیواریں‘قالین‘فرنیچر جیسے کسی شاہانہ محل کی نمائندگی کرتے۔میرا بیٹا گریجویشن کے دوسرے سال میں تھا اور وہ اس قدر پڑھنے میں ہوشیار تھا کہ سب لوگ اُس کی ذہانت سے بے حد متاثر تھے۔لیکن۔۔۔۔۔لیکن کیا بابا‘میں نے بابا کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
”ایک دن وہ اس بات پر بہ ضد ہوا کہ وہ اپنے دوست کے یہاں پڑھنے جایا کرے گا۔یہ سنتے ہی جیسے اُس کی ماں اور میں بوکھلا گئے‘نہیں نہیں بیٹا‘تمہارے دم سے ہی اس گھر میں رونق ہے‘یہ محل‘یہ باغات‘یہ چیزیں تمہاری ہی تو ہے۔تم دوست کے یہاں چلے جاؤ گے تو اس گھر میں کیا رہے گا؟ تمہاری بہنوں کی بھی جان تم ہی میں بستی ہے۔یہ سب سنتے ہی ہمارا لختِ جگر قہقہ زن ہوا۔ماں بابا آپ پریشا ن نہ ہو‘میں صرف کچھ دن اپنے دوست کے یہاں صرف اور صرف پڑھنے کی خاطر جا رہا ہوں۔ہمیشہ کے لیے تھوڑی جا رہاہوں۔تم ایسا کرو تم ہی اپنے دوست کو یہاں بلاؤ‘اُس کے گھرمیں تو بھی دوسرا بھائی اپنے والدین کے پاس ہے۔ماں مجبور میں ہوں کیوں کہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے میرے ہی کئی دن ضائع ہوگئے اُس نے تو اپنا کام برابر کیا ہے۔پھر بھلا اُس کے والدین اُسے کیوں کر یہاں آنے کی اجازت دیں گے۔“
یہ سب کہتے کہتے بابا جیسے بے سُن ہونے لگا اور ایک گہری خاموشی میں چلا گیا۔بابا آپ ٹھیک تو ہیں نا؟میں نے بابا کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔ہاں ہاں بابا بتائیے:
”ہم نے دانش کی خوشی میں ہی خوشی جان کر اُسے دوست کے یہاں رہنے کے لیے اجازت دے دی۔کچھ دن کا کہہ کر میرا بیٹا جیسے ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گیا۔وہ اب بہت کم گھر آنے لگا‘خدا جانے وہ دوست کے یہاں ہی رہا کرتا یا کہیں اور۔وہ اس قدر تبدیل ہونے لگا کہ ہم میں اتنی ہمت نہ تھی اُسے یہ سب دریافت کرتے۔
”مما آپ کہاں ہیں؟اُس نے ایک دن گھر آ کر پوچھا‘بیٹا شکر ہے اللہ کا تم اب گھر واپس آئے‘ارے نہیں نہیں مما میں کچھ لمحوں کے لیے یہاں آیا ہوں۔لیکن تمہارے امتحان تو کب کے ختم ہوگئے ہیں۔ماں نے جلدی سے اُسے کہہ دیا۔ماں وہ مجھے اور بھی کئی کام ہوتے ہیں پڑھائی سے متعلق‘بیٹا جیسے تم اس سے پہلے اپنے گھر میں ہی تھے‘ویسے ہی اپنے گھر میں ہمارے درمیان رہ کر اب بھی پڑھا کرو‘ہمارا تمہارے سواہے ہی کون؟بیٹیاں ہیں وہ کل کو اپنے اپنے گھر چلی جائیں گی۔ٹھیک ہے ماں میں کل سے گھر واپس ا ٓؤں گا۔یہ سنتے ہی ما ں بے حد خوش ہوگئی اور اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا‘اجی سنتے ہو ہمارا دانش کل سے واپس آئے گا۔ہاں ہاں بیگم سُن رہا ہوں۔“یہ سب کہتے کہتے جیسے بابا کے چہرے پر سچ مچ کی خوشی اُمڈ آئی۔
میرا بیٹا دوسرے دن واپس گھر آیا‘اور ہماری جیسے دنیا ہی بدل گئی‘ہم پھرسے اُسی شاد و مسرت کے ساتھ رہنے لگے۔لیکن ایک عجیب سی تبدیلی جو کہ پہلے پہلے ہمیں اپنا وہم ظاہر ہوا اُس میں دیکھنے کو ملی‘وہ ہر دن چار بجے سے سات بجے تک گھر سے کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے نکلا کرتا اور وہاں سے واپس آکر جلدی سے کھانا کھا کر نیند کی آغوش میں چلا ا جاتا۔اجی مجھے لگتا ہے دانش کی طبیعت کچھ دنوں سے شاید ٹھیک نہیں ہے ہمیں اُسے کسی اچھے ڈاکڑکو دکھا نا ہوگا۔یہ بات اپنے بیٹے سے جوں ہی ہم نے کی وہ آگ بگولہ ہوگیا۔”آخر مجھے کیا ہوا ہے؟اچھا بھلاتو تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔صبح کی چائے پیتے پیتے دانش نے جواب دیا۔
دن گزرتے گئے اور ایک دن میری بیوی کو دعوت کے لیے جانا تھا۔وہ لگاتار الماری میں کچھ کھنگالتی رہی‘کیا ہوا بیگم کیا ڈھونڈ رہی ہو‘وہ میرے گہنوں میں کنگن نہیں مل رہے‘وہیں دیکھو‘ وہیں رکھے ہوں گے۔اسی طرح کافی ڈھونڈنے کے بعد بھی ان کا پتہ نہ چلا۔ہم نے بچوں سے بھی پوچھ گچھ کی‘لیکن کوئی سُراغ نہ ملا۔اس کے بعد میری بیگم نے باقی گہنوں کی جگہ تبدیل کر کے انہیں کسی اور جگہ رکھ دیا۔
ایک دن میں اُسی وقت جو میرے بیٹے کے نکلنے کا وقت تھا‘گھر سے نکلا۔لیکن مجھے کہیں سے بھی اپنے بیٹے کا سُراغ نہیں ملا‘وہ مانوجیسے ہوا میں اُڑ گیا۔
میں نا اُمید گھر پہنچا ابھی کچھ ہی گھنٹے ہوئے تھے کہ پڑوسن گھر آئی اور پریشانی کی حالت میں کہنے لگی کہ کسی لڑکے نے دریا میں چھلانگ ماری ہے‘اُس کے ایسا کہتے ہی میرا ماتھا ٹھنکا‘یہ خبر سنتے ہی ہم سب گھر والے دوڑے اور ہمارے سر پر آسمان تب گِرا جب ہم نے اپنے بیٹے کو لاش کی صورت میں دیکھا۔”ہائے میرے بیٹے یہ کیا ہو گیا؟۔”آخر تمہیں ایسا کرنے ی ضرورت کیوں کر آن پڑی“میرے بیٹے کے ساتھ جو باقی لڑکے تھے اُن سے پوچھ تاچھ کے بعد پتہ چلا کہ یہ روز کسی شخص سے کچھ ایسی چیزیں لیتا اور اس کے عوض اُسے ایک موٹی رقم عنایت کرتا‘ہم نے کئی بار اسے اس بات کے بارے میں پوچھالیکن وہ ہر دن کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے بات کو ٹال دیتا
‘آج اس نے ہم سے بھی ایک ہزار روپیے مانگے لیکن ہمارے پاس دینے کو نہ تھے اور آج پیسو ں کی کوئی صورت بن نا پانے پر اس نے اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیا‘مزید ہم نے اسے روکنے کی بے حد کوشش کی لیکن ہم ناکام ہوگئے۔
یہ سب کہتے کہتے بابا جان پھر سے ایک بار زارو قطار رونے لگے‘لیکن میرے پاس تسلی کے کلمات کے سوا اُس کو دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔۔۔۔اور وہ یہ کلمات لینے سے بھی پہلے ہی چل دیا۔اس کے بعد وہ سڑک سے اس قدجلدی چلا گیا جیسے اُس کا بیٹا آگے منتظر تھا۔آخربابا کے گھر کی بربادی کے ساتھ ساتھ اُس لڑکے کا قاتل کون تھا‘میں یہ سوال اپنے آپ سے کئی بار پوچھنے لگی۔