افسانہ افسانوی نثر

سگ ریزہ (افسانہ) از سلیم سرفراز، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر، نمبر 7

ولر اردو ادبی فورم کشمیر

افسانہ ایونٹ 2022

7افسانہ نمبر

سگ گزیدہ

سلیم سرفراز،

آسنسول، مغربی بنگال

انڈیارات کا پچھلا پہر تھا جب اس کی طبیعت بگڑی۔تیز بخار چڑھا تھا۔سارے جسم میں لرزش پیدا ہوگئی تھی۔منھ سے لعاب گرنے لگا تھا اور زبان قدرے باہر کی جانب نکل آئی تھی۔اطلاع ملی تو میں نے فوری طور پر ایک شناسا اور تجربہ کار ڈاکٹر سے رجوع کیا۔اس نے بہ نظر غائر اس کا معائینہ کیا اور خاصا فکرمند ہوگیا۔مجھے ایک گوشے میں لےجاکر اس نے سرگوشیوں میں کہا۔

“یہ سگ گزیدگی کا شکار ہوا ہے۔ شاید اس نے ریبیز کے انجکشن نہیں لگوائے اس لیے۔۔۔ “

“لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟

“میں نےکسی قدر حیرت سے کہا۔

“میں یقینی طور پر کہ سکتا ہوں کہ یہ سگ گزیدگی کا شکار نہیں ہوا۔ آپ کی تشخیص بالکل غلط ہے۔

“ڈاکٹر کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھرے۔

اس نے حتمی لہجے میں کہا۔

“میری تشخیص غلط ثابت ہوگئی تو میں یہ پیشہ ہی تج دوں گا۔یہ ضروری نہیں کہ سگ گزیدگی کا شکار یہ حال ہی میں ہوا ہو۔ برسوں بعد بھی یہ مرض ابھر سکتا ہے۔آپ کو یقین نہ ہو تو ایک گلاس پانی لے آئیں۔ “

میں فوراً ہی ایک گلاس میں پانی لے آیا۔ڈاکٹر گلاس پکڑے ہوئے مریض کے قریب چلا آیا۔اس نے گلاس اس کی سمت بڑھاتے ہوئے نرمی سے کہا۔ “لو! پانی پیو۔”

اس نے کانپتے ہاتھ سے گلاس تھام لیا اور آہستہ آہستہ اسے اپنے ہونٹوں کے قریب لے جانے لگا۔ابھی گلاس اس کے ہونٹوں تک پہنچا بھی نہ تھا کہ اس کی نگاہ گلاس میں موجود پانی پر پڑی۔یکایک ایسا لگا جیسے اسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا اور گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گر پڑا۔اس کی آنکھوں میں وحشت ابھر آئی اور اس کے منھ سے نکلتا ہوا لعاب گریبان پر گرنے لگا۔ڈاکٹر نے میری طرف قدرے فخریہ اور ستائشی نگاہوں سے دیکھا تو خوف و حیرت کا مجھ پر بیک وقت حملہ ہوا۔”

دیکھا آپ نے۔۔۔یقینی ہائیڈرو فوبیا۔۔۔۔ “ڈاکٹر کی آواز مجھے کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔”

اب کیا ہوگا ڈاکٹر؟ اس کے علاج کی کوئی صورت۔۔۔ “قدرے توقف کے بعد میری آواز ابھری۔

“نہیں! ” ڈاکٹر نےگہری ناامیدی میں سر کو جنبش دی۔

“تاحال اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔اب یہ ایک یقینی اور اذیت ناک موت کی طرف سرعت سے گامزن ہے۔پوری دنیا میں اس مرض کا شکار کوئی فرد آج تک زندہ نہیں بچا۔یہ شخص بھی زیادہ سے زیادہ چار پانچ دنوں کا مہمان ہے۔

“ڈاکٹر مریض کی زد سے دور اور محفوظ رہنے اور جلد سے جلد ہسپتال میں داخل کردینے کا مشورہ دےکر رخصت ہوگیا۔اس کے جانے کے بعد میں گہری سوچ میں غرق ہوگیا۔ڈاکٹر پر مجھے کامل اعتماد تھا اور پھر اس نے اس پر جو تجربہ کیا تھا اس سے بالکل واضح ہوگیا تھا کہ وہ سگ گزیدگی کا ہی شکار ہوا ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ حادثہ کب پیش آیا کہ مجھے مطلق خبر نہ ہوئی۔ میرے سامنے اس کی مکمل زندگی ورق ورق کھلی کتاب کی مانند تھی۔اس کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جو میری نگاہوں کی دسترس سے باہر رہا ہو پھر اس المیے سے میں کس طرح لاعلم رہ گیا۔میں دیر تک یقینی اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا وہاں کھڑا رہا۔

زمانے کے سردوگرم سے نبردآزما وہ ایک باحوصلہ اور اصول پسند شخص تھا۔اسے اپنی زندگی میں اتنے تلخ تجربے ہوئے تھے کہ اس کے اندازواطوار شدید تلخی در آئی تھی۔اس نے کہا تھا۔

“میرا وجود زبردستی اوردراندازی کی زندہ مثال ہے۔ “

“کیا مطلب؟ “

“میرے والدین کے دو بچے تھے۔انہیں کسی تیسرے بچے کی نہ خواہش تھی اور نہ ہی ضرورت۔ اسی لیے میری ماں ضبط تولید کے لیے مانعِ حمل گولیاں استعمال کرتی تھی۔اس کے باوجود میں اس کے حمل میں در آیا۔میرے وجود کا احساس ہوتے ہی اس نے ڈاکٹر سے رابطہ قائم کیا۔اس نے اسقاطِ حمل کی کچھ دوائیں دیں لیکن میرا سخت جان وجود اس وار کو بھی جھیل گیا۔میرے باپ کے علم میں یہ بات آئی تو وہ بھی خاصا مشتعل ہوا۔دونوں مجھ سے نجات حاصل کرنے کی تدبیر کرنے لگے۔ ایک گائنولوجسٹ سرجن سے رجوع کیا گیا۔اس نے معائنے کے بعد فیصلہ سنایا کہ کچھ زیادہ ہی دن ہوگئے۔ابارشن ممکن تو ہے لیکن اس میں میری ماں کی جان کو خطرہ ہے۔ڈاکٹر سے ایک غلطی ہوئی کہ اس نے یہ بات میری ماں کی موجودگی میں کہہ دی۔اگر وہ صرف میرے باپ سے مشورہ کرتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ بخوشی تیار ہوجاتا۔لیکن میری ماں نے جان کا خطرہ سن کر گہری نفرت سے اپنا پیٹ سہلاتے ہوئے میرے نادیدہ اور ناگوار وجود کا جیسے گلا گھوٹنے کی سعی کی اور شکست خوردہ سی پیچھے ہٹ گئی۔

گرچہ میری پیدائش کے بعد انہوں نے میرے وجود کو بہ حالت مجبوری ہی سہی، قبول کرلیا تھا۔ انہوں نے مجھ پر محبتیں لٹانے کی بھی کوششیں کی لیکن کچھ دنوں بعد دوران حمل ان کے عمل کا علم ہوتے ہی میں ذہنی طور پر ان سے بدظن اور دور ہوتا گیا۔ والدین کی موجودگی کے باوجود مجھ پر یتیمی و یسیری کا احساس غالب ہوتا گیا۔ “نفرت ہو یا محبت ،اس کی تیز بو خانہءدل میں ہی کیوں نہ مخفی ہو، متعلقہ فرد پر آشکار ہو ہی جاتی ہے۔اس کے والدین بھی اس کی کیفیت سے بتدریج آشنا ہوتے گئے اور انہوں نے اس کی شدت پسندی کو زائل کرنے کے لیے اسے خود سے دور رکھنا ہی مناسب سمجھا۔بورڈنگ میں اس نے خود کو قدرے آزاد اور خوشگوارفضا میں پایا اور دل جمعی کے ساتھ تعلیمی مراحل طے کرنے لگا۔فطرتاً ذہین اور حساس تھا۔قبل از وقت سنجیدگی کی پرتیں چڑھی ہونے کے باوجود چہرے پر گہری معصومیت اور جاذبیت تھی۔شاید اسی وجہ سے وہ انگریزی کے استاد دیاشنکر کی نگاہِ انتخاب میں آیا۔اس نے کہا تھا۔

“عمر کی ڈھلان سے اترتے ہوئے وہ ایک مشفق اور محنتی استاد تھے۔ان کے خلوص والتفات سے میں بےحد متاثر ہوا۔میرے لیے ان کا وجود تپتے ہوئے ریگستان میں ایستادہ کسی سایہ دار شجر کی طرح تھا۔میری تعلیم میں بہتری لانے کے لیے انہوں نے اپنے گھر پر بلامعاوضہ ٹیوشن کا آفر دیا جسے میں نے بخوشی قبول کرلیا۔ ان کے گھر آنے پر انکشاف ہوا کہ اس تنہا شخص نے تعلیم جیسے مقدس فریضے کے لیے خود کو وقف سا کردیا تھا۔میری تشنہ لبی کے لیے وہ شیریں دریا ثابت ہوئے اور مجھ پر سیرابی کی کیفیت طاری ہوتی گئی۔اس کیفیت میں سرشار مجھے احساس تک نہیں ہوا کہ کب میرا نرم و نازک جسم ان کے نوکیلے پنجوں میں آیا اور کب ان کے ہوسناک تیز دانت میری شہ رگ میں پیوست ہوئے۔عرصہ دراز تک میں ان کے اس فعل کو کتابِ محبت کا ہی ایک باب تصور کرتا رہا۔جانے کتنی مدت میں مفعول بنا ان کی فعالیت کو خوش دلی سے قبول کرتا رہا۔آخر مجھے شعور ہوا تو میں نے جانا کہ میری سیرابیِ دل کا خراج انہوں نے میرےنرم نرم گوشت سے حاصل کیاتھا۔میں ان کی اسیری سے نکلا تو میرے ذہن میں ایک اور مقدس رشتہ بری طرح مسخ ہوچکا تھا۔ “

بہت دنوں بعد جب وہ بی۔اے فائنل ایئر میں تھا تو اس کی زندگی میں سریکھا داخل ہوئی۔وہ بےحد خوبصورت اور خوش گفتار تھی۔جلد ہی وہ اس کے حسن کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا گیا۔ سریکھا بھی اسے ٹوٹ کر چاہنے لگی تھی۔اسی کی ترغیب پر چشم زدن میں اس نے اس کے بدن کے تمام نشیب و فراز طے کرلیے۔ شروع شروع میں وہ شدید احساس گناہ کا شکار ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر کسی قدر مطمئن ہوگیا کہ جب زندگی کا سفر اسی کی معیت میں طے ہونا ہے تو اس راہ کے اسرار کچھ قبل ہی افشا ہوگئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن اس وقت اس پر گاج گری جب امتحان سے فارغ ہونے کے بعد اس نے سریکھا کے سامنے مستقل ہم سفر بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔وہ بےحد تلخ و ترش لہجے میں گویا ہوئی۔”

تم تنگ نظر لوگوں میں یہی عیب ہے۔ہر پسندیدہ شئے پر مالکانہ حقوق کی مہر ثبت کرنا چاہتے ہو۔تمہاری مردانہ وجاہت پر توجہ مرکوز ہوئی اور چند پرلطف لمحے گذارنے کے لیے تم سے وابستہ ہوگئی۔اب یہ وابستگی ایسی تو نہیں کہ اسے مستقل روگ بنالوں۔زندگی صرف وجاہت کے سہارے نہیں گذاری جاسکتی۔ میں اندر سے شادی کرنے والی ہوں۔ماناکہ وہ تمہاری طرح وجیہ نہیں لیکن اس کے پاس زندگی کی دیگرآسائشیں تو موجود ہیں۔”

سریکھا کے اس روپ نے اس پر سکتے کی کیفیت طاری کردی۔ عرصہ دراز بعد اسے ماسٹر دیا شنکر یاد آئے اور پھر اسے یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ سریکھا کے خدوخال میں ان سے گہری مشابہت کی جھلک تھی۔وہ ایک بار پھر خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگا۔وہ بری طرح دلبرداشتہ ہوا۔کچھ دنوں تک اس پر عجیب سا اضمحلال طاری رہا تھا کہ اسی دوران وویک سریواستو سے ملاقات ہوگئی۔وہ منتشر ذہن کے ساتھ سڑکیں ناپ رہا تھا کہ ایک چوراہے پر “انقلاب زندہ باد ” کے گونجتے نعروں نے اس کے قدم روک لیے۔وہ یوں ہی بےخیالی میں مجمع کی جانب تکنے لگا جو ایک اسٹیج کے گرد جمع تھا۔کچھ ہی دیر بعد اسٹیج پر کھادی کے کرتے پاجامے میں ملبوس چالیس بیالیس سال کا ایک قدآور شخص نمودار ہوا۔مجمع جوش وخروش سے نعرے بازی کرنے لگا۔کچھ ہی دیر میں مائک سے اس کی پاٹ دار آواز ابھری اور وہ اس آواز کے سحر میں کھوتا چلا گیا۔”

ہمیں ایک ایسے سماج کا نرمان کرنا ہے جس میں استحصال نہ ہو۔مذہبی تفریق نہ ہو۔ناانصافی اور نابرابری نہ ہو۔ایسا سماج جس میں کمزور سے کمزور فرد کے حقوق کی بھی حفاظت ہو۔کسی کی حق تلفی نہ ہو۔دولت چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے فائدے ادنیٰ سے ادنیٰ طبقے تک بھی پہنچیں۔کوئی اپنی قوت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کمزوروں پر ظلم وستم نہ ڈھائے۔ ایک شاہراہ امن ہو جس پر برادرانِ وطن بلاتفریق مذہب و نسل اپنی منزل کی سمت گامزن ہوں۔یہ استحصال، یہ تفریق اور یہ خلیج ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔آپ لوگ سماجی انصاف کے نعرے کے ساتھ سماج واد کے پرچم تلے جمع ہوجائیں اور متحد ہوکر اس انقلابی تحریک کو کامیاب بنائیں۔ “

تقریر پراثر تھی کہ لمحہ۔اس کے دل پر خاصا اثر ہوا اور وہ وویک سریواستوجی کے قریب ہوتا چلا گیا۔ سریواستوجی اس کی صلاحیت اور قابلیت سے متعارف ہوئے تو اسے اپنا نجی سکریٹری ہی مقرر کردیا۔وہ خود تو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن عوام کی نبض پر ان کی خاصی گرفت تھی۔ کچھ ہی عرصے میں وہ جدوجہد اور انقلاب کے ایسے پیکر بن گئے تھے کہ استحصال زدہ لوگوں کی پرامید نگاہیں ان پر مرکوز ہوگئی تھیں۔وہ بھی ان سے بےحد متاثر ہوتا چلا گیا تھا کہ ایک ہی جھٹکے میں وہ ان کے سحر سے آزاد ہوگیا۔

ایک دن وہ سریواستو جی سے ملنے پہنچا تو ان کے آفس کے دروازے پر ہی اس کے قدم ٹھٹک گئے۔سریواستو جی اندرکسی سے محوگفتگو تھے۔ ایک بارعب آواز ابھری.

“انتخاب کا وقت سرپر آپہنچا ہے۔ تم یہاں اپنی اور جماعت کی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کرو۔ “

“کوشش تو کررہا ہوں۔پس ماندہ طبقوں اور اقلیتوں میں جماعت نے اچھی خاصی مقبولیت حاصل کر لی ہے۔

“سریواستو جی بولے تو اس آواز نے سخت لہجے میں ان کی تردید کی۔”یہ کافی نہیں ہے۔انہیں اپنی جانب مکمل طور سے کھینچنے کا واحد طریقہ ہے۔خوف۔ان میں خوف پیدا کرو۔اور اس کی سب سے آسان صورت ہے۔ فساد۔۔۔۔ظاہر ہے کہ فساد کا سارا الزام فرقہ پرست جماعت کے سر جائے گا اور اس کے ردعمل میں یہ لوگ ہماری جماعت کے پرچم تلے ہی پناہ لیں گے۔

“لیکن فساد۔۔۔کس طرح؟ “سریواستو جی کسی قدر الجھتے ہوئے بولے تو اس آواز نے جیسے سرکوبی کی۔

“ارے بھئی! فساد کے لیے کتنے ہی آزمودہ نسخے موجود ہیں۔کسی عبادت گاہ کو نجس کروادو یا پھر کسی سڑک کنارے ایستادہ مورتی کی بےحرمتی کروادو۔یا پھر کسی ایک فرقے کی لڑکی کو دوسرے فرقے کے لونڈوں سے اٹھوادو۔ “

“ہاں۔یہ ٹھیک رہے گا۔ “سریواستو جی قدرے جوش میں بولے۔”بہت دنوں سے ایک لڑکی پر نگاہ ہے لیکن وہ اپنی پشت پر ہاتھ ہی رکھنے نہیں دیتی۔کیوں نہ اسے ہی اٹھوالوں؟ “

“ٹھیک ہے۔لیکن وہ لڑکی تمہاری محبت کی داستان سنانے کے لیے زندہ نہیں رہنی چاہیئے۔ “ایک قہقہہ لگا جس میں سریواستو جی بھی شریک تھے۔ وہ شکست خوردہ سا خاموشی سے باہر نکل آیا۔کچھ ہی دنوں بعد وہ لڑکی اغوا ہوئی اور پھر اس کی عصمت دریدہ لاش ملی۔فساد تو چار دن بعد ہی رک گیا لیکن ماحول پر دہشت ہفتوں طاری رہی۔اسی ماحول میں انتخاب ہوا اور توقع کے مطابق سریواستو جی اور ان کی جماعت فتح یاب ہوئی۔اور پھر ڈھیر سارے دن پنکھ لگا کر اڑتے چلے گئے۔اس نے اپنی تعلیمی صلاحیت کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنے کی بےحد تگ ودو کی لیکن بغیر کسی سفارش اور رشوت کے وہ ناکام و نامراد ہی ہوتا رہا۔مجبوراً وہ ایک ایسے نجی اسکول میں پیشہء درس وتدریس سے وابستہ ہوگیا جسے اساتذہ کے قطرہ قطرہ لہو سے سینچا جارہا تھا۔تنہائی کا غلبہ ہوا اور فطری تقاضے نے سر ابھارا تو دوستوں کے اصرار پر اس نے شادی بھی کرلی۔چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے ترستی ہوئی اس کی بیوی ہمیشہ کبیدہ خاطر ہی رہی۔اس کی پیشانی کی ناگوار شکن مٹانے کے لیے وہ دن رات محنت کرتا رہا لیکن ضرورتوں کا ناگ اس کی خوشیوں میں زہر کی آمیزش ہی کرتا رہا۔ایک روز اس کے اسکول میں انتظامیہ کی جانب سے ایک ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ مہمان خصوصی کے طور پر ریاستی وزیرتعلیم کو مدعو کیا گیا تھا۔ان کا استقبال کرنے والوں میں اسے بھی شامل رکھا گیا۔اس کے ذمے وزیرتعلیم کی بیج پوشی تھی جبکہ نئی ٹیچر مس سیما کو ان کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈالنے کی ذمےداری سونپی گئی تھی۔ وقت مقررہ پر وزیرتعلیم تشریف لائے۔ان کی شکل میں سریواستو جی کو دیکھ کر وہ سخت متعجب ہوا۔سریواستو جی بھی اسے دیکھ کرتھوڑےچونکے۔ان کی آنکھوں میں شناسائی کا عکس لہرایا۔

“تم۔۔۔تم کہاں غائب ہوگئے تھے؟ میں تو سمجھا تھا کہ اس فساد میں کہیں تم بھی۔۔۔۔لیکن تم کہاں رہے؟ ہم سے ملے کیوں نہیں؟ “”بس یوں ہی۔۔ “اس نے سر جھکاتے ہوئے الجھی آواز میں کہا۔”اس فساد کے بعد میں بہت دلبرداشتہ ہوا۔ادھرادھر بھٹکتارہا۔””تم کسی دن ہم سے ملنا۔تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ “ان کے گلےمیں مس سیما کے مالا ڈالنے کے بعد وہ آگے بڑھ گئے تو اسے احساس ہوا کہ وہاں موجود منتظمین کی نگاہوں میں یکلخت اس کی وقعت بےحد بڑھ گئی ہے۔ سکریٹری سریواستو جی کو اسٹیج پر پہنچا کر تیزی سے پلٹا اور اسے بڑی تعظیم سے لے جاکر ان کے قریب والی کرسی پر بٹھایا۔ پورے پروگرام کے دوران وہ شدید اضطراب میں رہا۔وداع ہوتے وقت سریواستو جی نے ایک بار پھر ملاقات کی یاددہانی کرائی اور اس نے رسمی طور پر سر کو اثبات میں جنبش دی۔اس رات وہ بےحد کشمکش میں مبتلا رہا۔کئی بار اس نے بغل میں سوئی ہوئی اپنی بیوی کی جانب دیکھا۔اس کے چہرے کی زردی بڑھتی جارہی تھی۔اس کے حمل میں موجود بچے نے اپنی نشوونما کے لیے اس کے خون کو نچوڑنا شروع کردیا تھا۔اپنا خون پلا کر اس کے نطفے کی پرورش کرنے والی اس زردرو عورت کو تکتے ہوئے اس کے اندر شدید احساس جرم پیدا ہوا۔اس احساس کی ضرب سے وہ پہلی بار قدرے شکستہ ہوا اور دوسرے دن ہی صبح سویرے سریواستو جی کے پاس پہنچ گیا۔وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا کہ سریواستو جی اپنے جسم پر کرتا چڑھاتے ہوئے داخل ہوئے اور اس کے سامنے کے صوفے پر پھیلتے ہوئے گویا ہوئے۔”ہاں جی! سناؤ! تمہارے جیسا قابل اور تعلیم یافتہ شخص ابھی تک اس پرائیویٹ اسکول میں کیا کر رہا ہے؟ “”جی! ” اس نے ان کے سرخی مائل چہرے پر نگاہ ڈالتے ہوئے کسی قدر تلخی سے کہا۔”سرکاری ملازمت کے لیے سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ “

“ارے تو ہم کیا مرگئے تھے؟ “وہ کچھ برہمی سے بولے۔”تم تو خود ہی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ورنہ آج کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔تمہیں کیا پتہ کہ تمہارے جیسے وفادار اور قابل آدمی کی ہمیں کتنی ضرورت رہتی ہے۔ “اسی اثنا میں وہ دروازہ ایک بار پھر کھلا جس سے سریواستو جی باہر نکلے تھے اور ایک عورت اپنی ساڑی کا پلّو درست کرتی ہوئی نکلی۔اس عورت کی نگاہ اس پر پڑی تو ایک ثانیے کے لیے ٹھٹھک کر رہ گئی اور پھر گردن جھٹکتی ہوئی ڈرائنگ روم سے نکلی چلی گئی۔وہ دیر تک اس کی پشت کو گھورتا رہا اور پھر سریواستو جی سے استفسار کیا۔”یہ سریکھا تھی نا؟ “

“اچھا تو تم بھی اسے جانتے ہو۔ “وہ بےتکلفی سے مسکرائے۔”تم تو چھپے رستم نکلے۔ “

“لیکن وہ یہاں کیا کر رہی تھی؟ ” وہ ابھی تک متعجب تھا۔”ارے اس جیسی عورت اور کیا کرے گی؟ تم سے کیا چھپانا۔ رات ضرورت محسوس ہوئی تو اسے ہی بلوا لیا تھا۔

“اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا ۔ اس نے استعجاب زدہ لہجے میں کہا۔”اس کا ایک شوہر بھی ہوا کرتا تھا۔اندر کمار۔وہ کہاں ہے؟ “

“لگتا ہے تم اس کے بارے میں مکمل طور سے نہیں جانتے۔اندر کمار ہی تو اسے سپلائی کرتا ہے۔ “انہوں نے لاپرواہی سے کہا تو وہ گنگ سا بیٹھا رہ گیا۔”ہٹاؤ اس فاحشہ کو۔تم اپنی سناؤ۔سویرےسویرے کیسے چلے آئے؟ “اس نے اضطراب میں پہلو بدلا اور پھر قدرے توقف کے بعد ہچکچاتے ہوئے کہا۔”ایک سرکاری ہائی اسکول سے میرے پاس انٹریو لیٹر آیا ہے۔میں جانتا ہوں کہ یہ محض رسمی خانہ پری ہے۔امیدوار کا انتخاب تو پہلے ہی ہوچکا ہوگا۔ “

“ارے ہمارے رہتے کسی اور کا انتخاب کیسے ہو جائے گا؟ تم اسکول کا نام اور پتہ بتاؤ اور پھر سمجھو کہ تم منتخب ہوگئے۔ “انہوں نے بڑے اطمینان سے کہتے ہوئے میز پر رکھا بیل بجایا۔فوراً ہی ایک نوکر حاضر ہوگیا۔چائے ناشتہ لانے کا حکم پاکر وہ چلا گیا تو ایک بار پھر وہ اس سے مخاطب ہوئے۔”ارے ہاں! کل تمہارے اسکول کے پروگرام میں ایک لڑکی تھی نا۔ جس نے میرے گلے میں مالا ڈالی تھی۔کون تھی وہ؟ “”جی۔۔۔وہ نئی ٹیچر مقرر ہوئی ہے۔سیما نام ہے۔بےحد شریف لیکن غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ “

“اسے کسی روز یہاں لے کر آؤ نا۔ “انہوں نے سرسری لہجے میں کہا تو وہ بری طرح چونک اٹھا۔اس نے حیرانی سے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جس پر خباثت بھری مسکان رقص کر رہی تھی۔اسے لگا کہ وہ اندر کمار والی جگہ پر قابض ہورہا ہے۔اس نے جھٹکے سے اٹھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں اپنی بیوی کا کمزور اور مضمحل سراپا تیر گیا اور وہ بیٹھا رہ گیا۔چائے ناشتے سے فارغ ہوکر وہ وداع ہوا تو اس کے قدموں میں لرزش تھی اور ذہن بری طرح منتشر تھا۔اسکول میں بھی وہ خالی الذہن سا رہا۔ٹفن کے وقفے میں وہ ایک گوشے میں بیٹھا لقمے زہرمار کر رہا تھا کہ مس سیما اس کے پاس آ موجود ہوئی۔اس نے کچھ تعجب سے اس کے ‘ہیلو’ کا جواب دیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا۔وہ خلاف توقع بڑی بے تکلفی سے اس سے محو گفتگو ہو گئی۔گفتگو کے دوران اچانک اس نے کہا۔”لگتا ہے وزیر تعلیم سے آپ کی گہری جان پہچان ہے۔ “

“ہاں۔۔ہے تو ۔۔۔! “اس نے گہری نگاہوں سے اس کا جائزہ لیا۔آج وہ کچھ زیادہ ہی سجی سنوری تھی۔ہمیشہ محتاط طریقے سے لباس زیب تن کرنے والی آج لباس کے تئیں قدرے لاپروا سی تھی۔دوپٹہ اس کے سینے سے ڈھلک آیا تھا اور اس کے پوشیدہ اعضا اپنی بلند قامتی کا فخریہ اعلان کر رہے تھے۔اس نے اس کی جانب جھکتے ہوئے اپنی گردن سے اترتی دودھیا گھاٹی کو پوری طرح کشادہ کیا اور اپنے لہجے میں شیرینی گھولتی ہوئی مخاطب ہوئی۔”آپ ان سے میرا تعارف کرادیں گے؟ آپ کو جب فرصت ہو مجھے ان کے پاس لے چلئے۔مجھے ان سے کچھ ضروری کام ہے۔

“وہ اس کی مدبھری آنکھوں سے چھلکتے پیغام کو پڑھ کر بری طرح لرزا۔وہ اس کا اقرار حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو سرتاپا تیار سی تھی۔ اس نے گھبرا کر بڑی سرعت سے کہا۔”ٹھیک ہے۔کل ہی اسکول ختم ہونے کے بعد چلتے ہیں۔ “سیما نے بےساختہ اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دبایا اور نشیلی مسکان بکھیرتی ہوئی چلی گئی۔کچھ ہی دنوں بعد سریواستو جی نے اسے اطلاع دی۔”تمہارا انٹریو تو بےحد کامیاب رہا۔ہم نے انتظامیہ سے کہہ دیا ہے۔ جلد ہی تمہیں تقرری کا پروانہ مل جائے گا۔ “اور پھر اپنی بائیں آنکھ دبا کر مسکراتے ہوئے بولے۔

“مس سیما کو ابھی چار چھے مہینے ٹالیں گے۔اس کے نوخیز حسن میں بلا کی کشش ہے۔نوکری ملتے ہی یہ مینا تو پھُر سے اُڑ جائے گی۔ “کچھ ہی روز بعد اس نے ملازمت جوائن کرلی۔اس کی ملازمت کی خبر سن کر مجھے انتہائی خوشی ہوئی۔مجھے اطمینان سا ہوا کہ ذرا سے سمجھوتے سے اسے زندگی میں تھوڑی فراغت نصیب ہوگئی۔ اب اسکی حاملہ بیوی کسمپرسی کی حالت سے نکل کر ایک صحت مند اور خوشگوار ماحول میں اپنے بچے کو جنم دے گی اور اس کی پیشانی پر موجود مستقل شکن ختم ہوجائے گی لیکن اسی رات اس پر سگ گزیدگی کی کیفیت طاری ہوگئی۔میں حسرت وغم کی تصویر بنا لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھتے ہوئے اذیت میں مبتلا اس کے وجود کو بےبسی سے تکتارہا۔ مجھے شدید حیرت تھی کہ آخر وہ سگ گزیدگی کا شکار کب اور کیسے ہوا؟لیکن بہت دنوں بعد بھی ڈاکٹر کو اس پر قطعی حیرت نہیں تھی کہ وہ کب اور کیسے سگ گزیدگی کا شکار ہوا بلکہ اسے سخت حیرت اس بات پر تھی کہ جو شخص چار پانچ دنوں میں ہی مرجانے والا تھا وہ پانچ سال بعد بھی بالکل نارمل حالت میں زندہ کیسے ہے؟

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ