ادبی خبریں

انور آفاقی کی کتاب میزان فکر وفن تحقیق و تنقید کا عمدہ نمونہ ہے: پروفیسر عبدالمنان طرزی

جی این کے اردو

المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام انور آفاقی کی کتاب ”میزانِ فکر و فن“ پر گفتگو

دربھنگہ(نمائندہ)۹۲ اپریل

بروز اتوار شام چار بجے المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی زیر اہتمام معروف شاعر و افسانہ نگار انور آفاقی کی کتاب ”میزانِ فکر و فن“ پر ایک پرگرام کا انعقاد کیا گیا ۔ اس پروگرام کی صدارت پروفیسر عبدالمنان طرزی نے کی جبکہ بطور مہمان خصوصی پروفیسر احتشام الدین نے شرکت کی۔ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے بحسن و خوبی نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ اپنی تمہیدی گفتگو میں ڈاکٹر آزاد نے انور آفاقی کی کتاب ”میزانِ فکر و فن“ کی گونا گوں خصوصیات کا ذکر کیا۔کتاب کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحی نے کہا کہ کتاب کے مضامین توجہ طلب ہیں ۔ ملت کالج کے شعبہ اردو کے استادڈاکٹر شاہنواز عالم نے کتاب کے مشمولات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں جو مضامین اور تبصرے شامل ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ تنقید و تحقیق کے فنی لوازمات سے واقف ہیں ۔تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر سید احتشام الدین نے کہا کہ ڈاکٹر انور آفاقی سنجیدگی سے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ ایڈووکیٹ صفی الرحمن راعین نے کہا کہ انور آفاقی نے ڈاکٹر ہرگانوی ، ڈاکٹر طرزی ، سید محمود احمد کریمی، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ڈاکٹر احسان عالم ، ڈاکٹر منصور خوشتر وغیرہ کی تخلیقات پر فکر انگیز مضامین تحریر کیے ہیں۔ انور آفاقی اپنے مضامین میں معروضی انداز اختیار کرتے ہیں۔ سید محمود احمد کریمی نے کہا کہ انور آفاقی کی تحریر میں جامعیت ، حقیقت بیانی اور تاریخی شواہد کی جلوہ سامانی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نے انور آفاقی کی تحقیقی صلاحیت پر روشنی ڈالی ۔ پروگرام کے صدر پروفیسر عبدالمنان طرزی نے انور آفاقی کو ان کی نئی کاوش پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس کتاب کو ان کی ادب کے تئیں دیرینہ وابستگی سے تعبیر کیا۔انھوں نے مزید کہا کہ انورآفاقی میں ایک ماہر و مشاق محقق کی تمام خوبیاں موجود ہیں اور یہ کتاب ان کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا بہترین نمونہ ہے۔انھوں نے اپنے منظوم تاثرات میں کہا کہ :انور جناب لائے ہیں میزانِ فکر و فننسریں ہے کوئی نقش تو کوئی ہے نسترنآفاقی اُن کے نام کا حصّہ ہے ثانویآفاقیت شعار ہے کاوش جناب کیاظہارِ مُدّعا کا سلیقہ ہے خوب ہیتاثیر سے بیان کا رشتہ ہے خوب ہیاس مذاکرے میں آن لائن شرکت کرتے ہوئے پونے مہاراشٹر سے معروف شاعر اور ادیب نذیر فتح پوری نے کتاب پر یہ قطعہ پیش کیا:آفاقیت ہے آپ کے فن شعور میں۔لفظ و بیاں پہ آپ کو حاصل ہے دسترسمغرور واہ واہی پہ ہوتے نہیں کبھی۔تعبیر ڈھونڈتے ہیں یہ دیرینہ خواب کی معروف شاعر و ناقد جناب شمیم قاسمی نے پٹنہ، بہار سے آن لائن شرکت کی اور کہا ہر چند کہ اس سے اقبال کے تئیں آپ کی ادبی و ذہنی وابستگی عیاں ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سر اقبال کی سن پیدائش کو آپ نے فوکس کرتے ہوئے بعض شک و شبہات و گمراہ کن اطلاعات کا ازالہ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان نے اس موقع پر کہا کہ ”میزان فکر و فن “ ہاتھوں میں ہے۔ آپ نے ایک نہایت خوبصورت انجمن سجائی ہے۔ ایسے کئی نادر روزگار شخصیات اور ان کے فن کا بہترین انداز میں تعارف کروایا جن سے میں واقف نہیں تھا۔ اظہار خضر نے کہا کہ آپ ایک سنجیدہ اور محنت سے لکھنے والے قلمکار ہیں ۔ ادبی گروہ بندیوں سے دور ادب اور آرٹ کے تئیں آپ کی سپردگی لائق تحسین ہے۔ نئی نسل کے نمائندہ شاعر اور شعبہ اردو نتیشور کالج کے استادڈاکٹر کامران غنی صبا نے “میزانِ فکر و فن ” کے مضامین اور تبصروں پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ انور آفاقی ایک معتبر شاعر اور افسانہ نگار بھی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں بھی تخلیقیت ہے۔ معروضیت اور تخلیقیت کے امتزاج سے پیدا ہونے والے آفاقی نور کا نام انور آفاقی ہے۔الہ آباد سے ڈاکٹرصالحہ صدیقی اور سری نگر سے ڈاکٹرغلام نبی کمار نے انور آفاقی کی ادبی خوبیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ آپ ایک اچھے ادیب کے ساتھ اچھے انسان بھی ہیں۔ آپ کی تحریریں قارئین کو یقینی طور پر متاثر کرتی ہیں۔ انور آفاقی کے اظہار تشکر پر پروگرام کا اختتام ہوا۔ ٭٭٭

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ