2022 ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ ایونٹ
افسانہ نمبر 5
“نم آنکھوں کے خواب”
مصنفہ : کنیز باھو (سرگودھا پاکستان)
”بابا!میرا موبائل گرکر بند ہوگیا۔یہ دیکھیں بالکل کام ہی نہیں کر رہا۔“مناہل کی جان پہ بنی ہوئی تھی۔متفکر سی چہرے پہ اداسی کے آثار لیے کھولنے کی آخری ناکام کوشش کے بعد فون ابا کو پکڑا کر بولی۔ وہ جانتی تھی اس کے ابا کے پاس ہر مسئلہ چٹکیوں میں حل کرنے کا ہنر ہے۔ ” منی !ایک کپ چاۓ پلادو ۔۔۔دیکھ لیتے ہیں،نمونے کی اتنی مجال میری شہزادی کو پریشان کیا“مجھے اس چند انچ کی بلا سے حسد تو پہلے ہی تھا آج خوفزدہ ہوگیا۔اندیشوں کے ناگ ڈسنے لگے۔کہیں یہ خاموش زہر رشتے کی بنیادیں نہ کھوکھلی کرجاۓ۔ یہ شوقیہ مشغلہ میرے چمن کی اکلوتی نازک کلی کی معصومیت ناچھین لے۔میں شروع ہی سے ایسا تھا کہ ہر اس چیز ،اس انسان سے خوفزدہ ہوجاتا جو میری بیٹی کو ایک بہادر شیرنی بننے میں رکاوٹ ڈالے۔اسے ایسی چٹان بنانا چاہتا تھا جس کے اندر کسی بھی طوفان سے مردانہ وار ٹکراجانے کا حوصلہ ہو۔اسکی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ کوئی جذبہ کوئی احساس اس کی کمزوری نہ بنے۔ وہ کمزوری سے لڑ جاۓ یااپنے اندر اس کمزوری کا خوف ختم کردے۔ میرے کندھے غیرت کا بوجھ اٹھا کہ تھک چکے تھے ۔میں چاہتاتھا مناہل میرا بیٹا بن کر بوجھ بانٹ لے۔” واجد صاحب بس سیٹنگ خراب تھی, سافٹ وئیر دوبارہ انسٹال کردیا ہے ۔ اب کوئی مسئلہ نہیں ہوگا“ڈیوٹی کے بعدمکینک کی دوکان سے موبائل لیے مارکیٹ کی طرف چلاگیا۔ اچانک موبائل پر “بپ“ ہوئی اور سکرین روشن ہوگئی جسے نظرانداز کرکے میں خریداری میں مشغول رہا ۔کچھ دیر کے وقفے کے بعد مسلسل بپ بپ ہونا شروع ہوگئی۔۔۔
میری سنجیدہ طبیعت مُجھے کھوج پر مائل نہ کرسکی کیونکہ میں بغیر اجازت کسی کی پرائیویسی میں مداخلت کو انتہائی غیر اخلاقی حرکت سمجھتا تھا۔ یہ مناہل کی امانت تھی جس کی تعمیر شخصیت میں اعتماد ،بھروسے کی پنیری لگائی ہوئی تھی۔مسڈ کال کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں پریشان ہوگیا۔ وسوسے ستانے لگے۔” شاید کوئی ایسی بات ہوجس کی وجہ سے مناہل پریشان تھی۔جو فقط ماں سے ہی بانٹنے والی ہوں۔ کوئی ایسی حدود جو میرے اور میری بیٹی کے درمیان حائل ہوں“ اسی فکر میں موبائل کھول کرتازہ پیغام پڑھنے لگا۔” میں ابو کی وجہ سے بہت پریشان ہوں “
”مناہل کی پریشانی کا باعث میں ہوں لیکن کیوں؟ “ آخری تفصیل پڑھ کہ مجھ پہ پہاڑ آگرا ،قدم تھم گئے ،پاٶں اتنے وزنی ہوگئے کہ مجھ سے یہ لاش اب گھسیٹی نہ جاسکے گی کاش زمین میں ہی دھنس جاؤں ۔۔۔۔۔ یہیں ڈھیر ہوجاٶں ۔۔۔۔میری روح کے بخیے ادھڑگئے ۔۔۔زخم تازہ ہوکر آخری بار رسنے کے لیے بے تاب ہوگئے۔۔۔ یادوں کا جھکڑ چل پڑا۔میں نے کب کب یہ قدم گھسیٹے تھے خود کو پتھر کا مجسمہ بننے سے روکنے کے لیے۔ نمرہ کہتی تھی :” مرد پتھر ہوتے ہیں “
” بے حس ہوتے ہیں “۔۔۔۔۔” زمینی خدا ہوتے ہیں “”مرد کو درد نہیں ہوتا“نمرہ کاش تمھارے ساتھ میں بھی دفن ہوجاتا ،تم مجھے مناہل کی ذمہ داری نہ سونپ جاتیں۔۔۔ تم اچھی رہ گئیں جو منوں مٹی تلے سوگئیں۔۔۔
زمین کے اوپر آج میرا وجود پتھر ہوگیا ہے جس کا بوجھ یہ زندہ لاش نہیں اٹھا پارہی ۔۔ وہ صبر کے گھونٹ جنہیں پی کر میں رو نہ سکا ،آنکھوں کے خشک سمندر جن کا شکوہ نہ کرسکے آج ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گٸے۔سترہ سال کی عمر میں کانوں میں لفظ ”طلاق “ کا پہلا صور پھونکا گیا ۔۔۔ بے سروساماں باپ کے ظلم کا نشانہ بنی اپنی مجبور ماں کو اذیت بھری زندگی سے آزادی کا پروانہ ملنے پر ، چھت اور رشتوں کی محرومی کادکھ لیے آبائی گھر سے اپنے بوجھل قدم گھسیٹ لیے ۔میرے کندھوں پہ ماں اور بہن کی ذمہ داری آگئی جس نے مجھے بچپنے سے یکلخت جوان کردیا۔ میرا وجود متحرک پرزہ بن گیا جو دن رات کی پرواہ کیے بغیر محنت کی بھٹی میں تپتا ماں کیلٸے ہر آسائش ،ہر خوشی کا سامان کرنے لگا۔میں نے ماں کی نم آنکھوں کا خواب جینا شروع کردیا ۔۔۔
خود کو ایسا مرد بنانا چاہا جس کے ساتھ کسی بھی رشتے میں منسوب عورت خود کو خوش قسمت سمجھے۔ جس معاشرے میں گالی مرد کا خاصہ سمجھی جاۓ پہچان سمجھی جاۓ ، عورت کی عزت نہ کرنا،حقیر ذات پاٶں کی جوتی سمجھنا،شک کی نگاہ سے دیکھنا بہت معمولی سمجھاجاتا ہے ۔میں اسی معاشرے کی پیداوار تھا لیکن ماں مجھے کیونکہ کبھی پیار سے اللہ کا انعام کہہ دیتی ،کبھی مجھے سیرت رسول ﷺ سے روشنی دکھاتی ،،،،مجھے جیسے لاج رکھنے کیلٸے چن لیا گیا۔ میں وہ پھول بن گیا جس کی مہک میری ماں کی زخمی روح کو اندر تک سرشار کردیتی ۔۔۔وہ سایہ رحمت مجھے اپنی ممتا کی چھاٶں میں چھپاۓ ،مسحور ہوجاتا۔*************”بھائی وہ مجھ سے محبت کرتا تھا ۔۔مرتے دم تک ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا اس نے ۔۔۔۔جب اس کا دل بھر گیا، کوئی اور من بھاگئی ۔۔۔ بہانہ بناکر مجھےچھوڑدیا کہ گھر والے نہیں مانتے“میری اکلوتی بہن حفصہ کی آنکھوں سے نکلتے آنسو میری روح پر گررہے تھے ۔۔لمحہ بھرکو تو میرے اندر جاگتی بھائی کی غیرت نے سر اٹھایا ،میرے پاٶں زمین پر جم گئے تھے۔۔۔ میری بہن کی روح کو ایک مرد نے زخمی کیا تھا ۔میں بھی مردانہ غیرت کی وجہ سے اسے تکلیف دیتایہ میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا۔۔۔۔میں نے اپنے اندر کی عورت کو جگایا، بہن کا دکھ سہیلی کی طرح بانٹنے لگا۔”واجد بھائی ! وعدہ کرو آپ دریافت کا پرندہ نہیں بنیں گے کبھی ۔۔۔
عورت کو کھلونا نہیں سمجھیں گے ظالم مردوں کی طرح “میں چونک گیا حیرت چھپاکے بولا” گڑیا نہ مرد ظالم ہوتا ہے نہ عورت ظالم ہوتی ہے ۔۔ظلم ایک پرنالہ ہے جس کے نیچے مرد وعورت دونوں بھیگتے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ عورت چونکہ نازک مخلوق ہے اور حساس ہے، سہہ نہیں پاتی ،عصمت کی چادر تھلے بھیگ کر گندی ہوجاتی ہے “میں نے اپنی نگرانی شروع کردی تھی ، اپنے اندر سے وہ تمام عناصر نکالنے اور دبانے لگ گیا جو کسی نہ کسی طرح مجھے ظالم مردوں کی صف میں شامل کرتے۔*****اکیلی ڈری سہمی لڑکی کا اس طرح سفر کرنا اور پھر مسلسل روتے رہنا حیران کن تھا۔ بس اڈے کی طرف جاتے دیکھا ۔پتاچلا کہ ساری کشتیاں جلاۓ ،گھر سے اکیلی ہی بھاگ رہی ہیں ۔معاملہ محبت کا نہ تھا عدم برداشت کا تھا۔مجھے حفصہ یاد آگئی ۔وہ بھی میری بہن کی طرح کسی کی عزت ،کسی کی غیرت تھی۔نمرہ کا والد نشہ کرتا تھا اور نشے میں نمرہ اور اسکی والدہ کو مارپیٹ کرتا۔ وہ ہمارے محلے میں نٸے کرایہ دار آۓ تھے۔ اس دن مار برداشت نہ کرسکنے پر اس کے قدم گھرکی دہلیز پار کرگئے تھے۔ میں اسے سمجھاکر ساتھ لیے اسکے گھر واپس چھوڑ آیا۔ملاقات کا سلسلہ چلتا رہا ۔ کتھارسس نے اُسے اب اتنا مضبوط کردیا تھا کہ دوبارہ کوئی انتہائی قدم اٹھاتے ہوۓ ہزار بار سوچتی۔۔۔وہ مجھ سے مانوس ہوتی جارہی تھی یہاں تک کہ ایک دن مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کردیا۔نمرہ اور میں نے ایک دوسرے کو تمام کمزوریوں ،خوبیوں سمیت نکاح کے بندھن میں سادگی سے باندھ لیا ۔۔۔مجھے پاکر وہ کہتی تھی کہ اسے نئی زندگی مل گئی ،اس نے جینا شروع کردیا ہے ، وہ جانتی نہ تھی کہ وہ اتنی مختصر بہار گزار کر مجھے تنہا کرکےخزاٶں کے حوالے کرجاۓ گی ۔وُہ زچگی میں پیچیدگی کی وجہ سے جان کی بازی ہار کر مجھے مناہل کی صورت میں رحمت تحفے میں دے گئی تھی۔اسکی موت نے میرے قدموں منجمد کردیے لیکن مجھے چلنا تھا مجھے جینا تھا اپنی بیٹی کیلٸے۔
***************
آج زمین پھٹ رہی تھی، قیامت برپا ہوگئی تھی، میں پتھر ہوگیا ،جس کے بوجھ سے زمین لرز گئی۔ میرے جسم سے روح نکل رہی تھی۔ ” تمھارا باپ نفسیاتی مریض ہے “” سنبھل کر رہو، تمھارے باپ کی تم پر گندی نظر ہے۔وہاں سے فرار ہوجاٶ نہیں تو ہوس کا شکار بنو گی۔میرے حساب میں آیا ہے بی بی “یہ کسی عامل کے الفاظ تھے جس کے شکنجے میں میری گڑیا قید تھی ۔۔۔۔وہ میرے لیے پریشان تھی،مجھ سے بہت محبت کرتی تھی میں اس کا باپ کم دوست زیادہ تھا ۔۔۔۔
میری بیماری کی فکر نے اسے شیطانی گڑھوں تک پہنچادیا۔ یہ فقط میری غیرت میرے کردار، کی بات نہ تھی۔۔ عامل کے روپ میں چھپے شیطان تک پہنچ گیا تھا جس نے آج میری عزت سے کھیلنا چاہا کل کسی اور کو شکار کرتا۔میں نے عامل کو قتل کردیا جس کے لیے مجھے پھانسی کی سزا سناٸی گئی ۔۔۔
میری آخری خواہش وہ کتبہ تھا جو آج میری قبر پہ لگا ہے جس پر لکھی حقیقت ضرور سمجھیے۔” مرد برا نہیں ہوتا عورت بری نہیں ہوتی ۔برائی اور شر سارا انسان کے ازلی دشمن شیطان کی طرف سے ہے۔ دنیا میں مرد اور عورت کے درمیان حقوق غصب کرنے اور استحصال کی جنگ ختم ہوجاۓ تو یہ زمین جنت بن جاۓ گی ۔ یہ تب ہوگا جب آدم وحوا مل کر شیطان سے جنگ کے لیے اپنی تمام تر قوتیں استعمال کریں ۔“