افسانہ افسانوی نثر

کشکول کی قیمت (افسانہ) از واجدہ تبسم گورکو، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر 2022 افسانہ ایونٹ

ولر اردو ادبی فورم کشمیر

افسانہ ایونٹ: 2022

افسانہ نمبر _4

کشکول کی قیمت

واجدہ تبسم گورکو

_ سرینگر کشمیر

بینر __عمران یوسف

میں جب بھی کسی اونچی عمارت کو دیکھتی ہوں ۔ تو مجھے رشک آتا ہے ۔سوچتی ہوں کہ ہمارے پاس یہ سب کیوں نہیں ہے ۔ ان میں رہنے والے لوگوں کو یہ سب کیسے ملا ۔ انہوں نے کون سے ایسے کرم کئے ہیں جو انہیں یہ سب کچھ ملا ہے۔ کیا ان میں رہنے والوں کی زندگی ہم لوگوں سے مختلف ہے؟۔ کیا ان کے جسم کے اجزاء ہمارے جسم کے اجزاء سے زیادہ ہیں؟- کیا یہ کسی اور دنیا کے لوگ ہیں؟- میرے ذہن کو ایسے سوالات ہر وقت اپنی گرفت میں رکھتے تھے ۔

پھر جب میں اپنے پیوند لگے ٹینٹ کے بارے میں سوچتی ہوں ۔ تو خیال آتا ہے کہ شاید یہ لوگ بھی اتنے خوش نہیں ہوتے ہوں گے ۔ جتنے ہم چار لوگ اپنے اس پیوند لگے ٹینٹ میں خوش ہیں ۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ میرے بابا اپنے دھندے کی کمائی سے شراب نوشی کرتے ہیں مگر میری ماں بہت اچھی ہے ۔ وہ ہم بچوں اور بابا کے لئے لوگوں کا دیا ہوا جھوٹا کھانا بچا بچا کے لا کر ہمیں کھلاتی ہیں ۔ اب میں بڑی ہو گئی ہوں اور میں نے بھی بھیک مانگنا شروع کیا ہے ۔ ماں کو میری بہت فکر رہتی تھی ۔ وہ صبح ہوتے ہی جب میں اپنے ہاتھ میں کشکول لئے کام دھندے پر نکلتی ہوں ۔ تو ماں اپنے ایک ہاتھ کی انگلی میرے نرم و گلابی ہونٹوں پر رکھ کر ، دوسرے ہاتھ سے گالوں کو تھپ تھپی لگا کر اپنے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ لا کر کہتی ہیں ۔

” بیٹا سنبھل کے رہنا ۔ زمانہ بہت خراب ہے”۔

پھر دن بھر سڑک سڑک پھرنا ، گاڑیوں کے پیچھے پیچھے دوڈنا ، موج مستی میں جھومنا ۔ جب چاہا کسی کے آگے اپنا کشکول بڑھانا، پیسے مانگنا اور جب چاہا کشکول کو اپنے لگائے ہوئے کندھے سے لٹکتی ہوئی جھولی میں ڈال کر ، بازؤں کو کھلا چھوڑ کر، کسی چائے پکوڑے والے کی دوکان پر جا کر اسے بھی بغیر پیسوں کے چائے پکوڑے مانگ کر آرام سے کسی کھلی جگہ پر بیٹھ کر کھانا مجھے کچھ الگ ہی مزہ دیتا تھا ۔ شام کو دن بھر کی کمائی آرام سے گن گن کر اپنی سانسوں کو لمبا لمبا کھینچ کھینچ کر اپنے ماں بابا اور چھوٹے بھائی کے ساتھ بیٹھ کر عجیب سی کیفیت کا احساس دیتا تھا ۔

دن کو ماں میرے چھوٹے بھائی کو گود میں لے کر کسی بس اسٹاپ پر اپنے بھیک مانگنے والے دھندے میں مصروف ہوتی ہے ۔ بابا کہیں اور ، اور میں کہیں اور ۔ ہمیں ایک دوسرے کی کوئی خبر اور نہ ہی کوئی پرواہ ہوتی ہے ۔ بس صبح نکلنا اور شام کو اپنے ٹینٹ میں ملنا، کھا پی کے مست اور آرام سے سونا ، یہی ہماری زندگی ہے۔

حسب معمول جب میں آج ٹینٹ سے نکلی، تو لگا کہ کوئی آدمی میرا پیچھا کر رہا ہے مگر میں نے اس طرف دھیان نہیں دیا ۔ میں اپنی موج مستی میں جھومتی ، لہراتی ، بل کھاتی نہ جانے کن کن خیالوں میں ڈوبی کچھ گنگناتی چل پڑی ۔ کچھ دور چل کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی انجان آدمی واقعی میں برابر میرا پیچھا کر رہا تھا ۔ مجھے یاد آیا کہ یہ سلسلہ کئی دنوں سے جاری تھا مگر پہلے میں نے اس طرف دھیان نہیں دیا تھا ۔ آج جب میں نے رک کر اسے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کون ہے ؟۔ کہاں سے آیا ہے؟۔ اور میرا پیچھا کیوں کر رہا ہے؟۔

پہلے تو وہ صاف مکر گیا ۔ بعد میں پیار جتانے لگا ۔ میں بھی ایک کم سن ، چلبلی، نافہم ،جاہل اور نادان اس کی باتوں میں آ گئی اور پھر اس کے ساتھ دن گذارا ۔ اس نے مجھے انہی محلوں کے خواب دکھائے جن کو دیکھ کر میرا دل پہلے بھی للچا کر زور زور سے دھڑکتا تھا اور آج بھی اس کی باتوں کو سن کر جیسے میں رانی ہی بن گئی ۔ میں بے حد خوش ہو گئی کیونکہ مجھے وہ ناقابل تسخیر لگنے والا شخص لگا ۔ اس کی باتوں میں اتنی مٹھاس تھی کہ جیسے وہ صدیوں سے ہی میرا ہو ۔

اس طرح اس کے ساتھ رہ کر آج میں نے کچھ نہیں کمایا ۔ شام کو واپسی پر جب ماں بابا نے حسب معمول اپنے اپنے کشکول آگے کئے ، میں شرمندہ ہوئی کیونکہ میرے کشکول میں کچھ نہیں تھا ۔ وجہ پوچھنے پر میں نے بہانہ بنا کے جھوٹ بولا کہ آج کسی نے کچھ نہیں دیا ۔ ہماری فیملی میں کسی نے ایک دوسرے سے آج تک یہ نہیں پوچھا کہ دن بھر کون کہاں ہوتا ہے ۔ اس لئے انہیں لگا کہ شاید کسی نے کچھ نہ دیا ہو گا ۔ پھر کچھ دنوں تک وہ شام کو کچھ روپیہ پیسہ بھی دینے لگا تاکہ میں اپنے ماں بابا کو یہ یقین دلا سکوں کہ میں واقعی میں کچھ کما کے لائی ہوں ۔ اس طرح مجھے اس پر بھروسہ بڑھنے لگا اور میں اب اس کے ساتھ خوشیوں کے ہنڈولے میں بیٹھ کر گزارا کرتی تھی ، لیکن آج جب حسب عادت میں نے اپنا کشکول ہاتھ میں لیا تو میری ماں نے معمول کی طرح ایک ہاتھ کی انگلی میرے نرم و گلابی ہونٹوں پر رکھ کر دوسرے ہاتھ سے گال پر تھپ تھپی لگا کر اپنے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ لا کر کہا ۔

” بیٹا سنبھل کے رہنا ۔ زمانہ بہت خراب ہے “۔ ٹینٹ سے نکلی تو وہ میرا انتظار برابر کرتا دکھائی دیا ۔ میں نے بھی ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا ۔ پھر اس کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرتے کرتے نکل پڑی ، مگر آج وہ مجھے رکشے میں بیٹھا کر کسی نامعلوم جگہ پر لے گیا ۔ کھلایا، پلایا اور پھر نازیبا حرکتیں کرنے لگا ۔ میرے منع کرنے پر اس نے مجھے دبوچا اور اتنا مارا کہ میں بے ہوش گئی اور میرے ہوش آنے تک میں ایک اور دامنی بن چکی تھی ۔

اب میں نہ وہ بڑی بڑی عمارتیں دیکھنے کی تمنا رکھتی ہوں اور نہ میرے اس خوشحال پیوند لگے ٹینٹ میں میرا جی لگتا ہے کیونکہ میں میرے کشکول کی قیمت آج دو مہینے سے الٹیاں کر کے چکا رہی ہوں ۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ