زبیر رضوی: شخصیت اور خدمات مرتب: عبدالحی
تبصرہ: حقانی القاسمی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔ڈاکٹر عبدالحی نے پوری اردو برادری کی طرف سے ایک فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ یقینا اس کتاب سے زبیر رضوی پر کام کر نے والوں کو بہت روشنی اور رہنمائی ملے گی کیونکہ اس میں بہت سے وہ مضامین شامل ہیں جو پرانے بوسیدہ رسائل میں محفوظ تھے جواب تلاش بسیار کے باوجود شاید ہی مل سکیں ۔بے پناہ مصروفیات کے باوجود انھوں نے ان تمام اشخاص سے رابطہ کی کوشش کی جو زبیر رضوی کے حلقہ احباب میں شامل تھے یا جنھوں نے زبیر رضوی کے حوالے سے مضامین تحریر کیے تھے، انھیں اپنی اس کوشش میں کامیابی بھی ملی اور انھوں نے زبیر رضوی کے تعلق سے اچھا خاصہ ذخیرہ اکٹھا کر لیا۔ یقیناً یہ ان کی بے پناہ محنت اور مشقت کا ہی ثمر ہے کہ بہت بیش قیمت مضامین انھیں حاصل ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب صرف ایک زاویے یا جہت پر مرکوز ومنحصر نہیں ہے۔ جہاں ان کی شخصیت کے حوالے سے مجتبی حسین، جمشید جہاں، سید خالد قادری، حمید سہروردی، آفتاب رضوی، رفعت عزمی، غلام نبی کمار، تالیف حیدر وغیرہ کے مضامین ہیں تو وہیں ان کی شاعری پر لکھنے والوں میں انتظار حسین، بانو قدسیہ، شمس الرحمن فاروقی، باقر مهدی، شمیم حنفی، ندا فاضلی، مخمور سعیدی، بلراج کومل، یوسف سرمت جیسی مقتدر ادبی ہستیاں بھی ہیں۔
ان کے علاوہ ارجمند آرا، پریمی رومانی، صابر، عمیر منظر، عبد السمیع، توصیف خاں، حبیب الرحمٰن، قمر جہاں کے مضامین ہیں ۔زبیر رضوی کی خودنوشت “گر دشِ پا” بھی ایک زمانہ میں بہت مقبول اور معتوب ہوئی اور ادبی رسائل و اخبارات میں اس خودنوشت پر بہت سے منفی اور مثبت تبصرے بھی آۓ۔ اس خودنوشت کی عرصے تک بہت دھوم رہی کہ اس میں زبیر رضوی نے اپنی زندگی سے جڑی ہوئی ایسی سچائیوں کو پیش کیا ہے جسے لوگ عام طور پر پردۂ خفا میں رکھتے ہیں۔ اس خودنوشت کی نثر نہایت مقناطیسی اور جادوئی ہے اور یہ جرات رندانہ کی بہترین مثال بھی ہے کہ اس میں بہت کی زہرہ جبینوں کی داستانیں بلاکم و کاست بیان کی گئی ہیں۔ گردش پا کے حوالے سے اسلم پرویز، محمد نوشاد عالم، تالیف حیدر کی تحریریں شامل ہیں۔ زبیر رضوی کی شناخت کا ایک معتبر حوالہ ان کا مجلہ “ذہنِ جدید” بھی ہے۔ اس تعلق سے غلام نبی کمار اور ڈاکٹر عبدالحی کی مبسوط تحریر میں شامل کتاب ہیں۔ زبیر رضوی سے لیے گئے شہپر رسول، خوشنوده نیلوفر کے انٹرویوز بھی ہیں۔ غضنفر اقبال نے عالمِ خیال میں زبیر رضوی سے بہت دلچسپ انٹرویو لیا ہے۔
خراج عقیدت کے ضمن میں کشور ناہید، احد علی برقی اعظمی، جمال اویسی، مظفر حسین سید، سہیل انجم، سرورالہدی، محمد عباس انصاری، محمد ریحان، منظوروقار، عبدالحی کی نگارشات شامل ہیں۔ اس کتاب میں ذہن جد ید پر ڈکٹر عبدالحی کا خاص فوکس رہا ہے کہ یہ مجلہ بنیادی طور پر ادبی صحافت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واحد رسالہ تھا جس میں فلم ، فنون لطیفہ، مصوری موسیقی رقص تھیٹر اور فوٹوگرافی جیسے موضوعات کو مرکزیت عطا کی گئی تھی ۔ دراصل ذہن جدید نے اس سناٹے کو تو ڑا ہے جو بہت سے رسائل پر عرصے سے طاری تھا۔ اس کے علاوہ زبیر رضوی کا اچھا خاصہ غیر مطبوعہ تخلیقی اور ادبی سرمایہ بھی ہے۔ جس تک رسائی شاید اب آسان نہ ہو۔ اس اعتبار سے ڈاکٹر عبدالحی کی کتاب زبیر رضوی کے تعلق سے جامع اور مکمل ہے کہ اس میں زبیر رضوی کی ادبی علمی اور صحافتی خدمات کے تمام پہلوؤں کا مکمل استقصا کیا گیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جو تشنہ رہ گیا ہو۔ ڈاکٹر عبدالحی نے اس کتاب کے لیے بڑی عرق ریزی کی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ ریاضت رایگاں نہیں جائے گی۔ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ وفورِ محبت و عقیدت اور قدرشناسی کا ایک روشن باب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔