ادبی خبریں

اردو کارواں ممبئی کی جانب سے مرزا غالب کو خراج عقید ت

”غالب کے خطوط ان کے عہد کی ادبی، تہذیبی،سماجی،معاشرتی دور کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔“ خواجہ کوثر حیات

اردو شاعری کے امام مرزا غالب کو 15 فروری انکی برسی پر اردو کارواں ممبیء و اورنگ آباد کی جانب سے خراج عقیدت پیش کیا گیا. پروفیسر سرور ساجد (علیگڑھ وومنس کالج)، خلیق الزماں (نقاد و ادیب) اور پرنسپل خواجہ کوثر حیات اورنگ آباد نے گفتگو میں حصہ لیا. انوشکا نکم معروف گلوکارہ نے غالب کی غزلوں کو اپنی آواز دی.

پروگرام کی ابتداء میں اردو کارواں کا تعارف اور پروگرام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی گئی.

پروفیسر سرور ساجد نے غالب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ غالب نمائندہ شاعر ہیں ان کے فکری عناصر منفرد ہیں اس سلسلے میں انہوں نے غالب کے کیء اشعار بطور مثال پیش کیے. غالب کے فکری عناصر کے تعلق سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “ان کے کلام میں ندرت پائی جاتی ہے اور غالب کے اشعار عہد حاضر کے تقاضوں سے میل کھاتے ہیں. “
انہوں نے مزید کہا کہ” جب بھی آپ مطالعہ غالب کریں گے تب آپ ایک نیےء غالب سے متعارف ہوں گے۔”
غالب کے یہاں کہیں کہیں تنگ نظری بھی نظر آتی، ہے مگر وہ اپنے عیب کا بھی برملا اظہار اپنی شاعری میں کرتے نظر آتے ہیں.

لیق الزماں نصرت نے غالب کے حق گوئی اور بے باکی کے تعلق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ” ایسا بہت کم نظر آتا ہے کہ کوئی فنکار کوئی ادیب یا کوئی شاعر اپنے ذات کے تعلق سے بات کرے, وہ ہمیشہ اپنے ذات کو صیغہ ء راز میں رکھنا چاہتا ہے لیکن غالب نے اس بات کی کبھی پرواہ نہیں کی، انھوں نے گر مےء کشی کا ذکر کیا تو فاقہ مستی کا بھی ان کے یہاں پر ذکر نظر آتا ہے، ان کے ہاں جذبہ خودداری بھی دکھائی دیتی ہے، انہوں نے زمانے کی پرواہ کبھی نہیں کی۔آپ نے غالب اور ذوق کے مابین نوک جھونک کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ غالب ایک سچا اور بے باک شاعر تھا۔

خواجہ کوثر حیات نے کہا کہ کہ غالب اور اقبال اردو شاعری کے دو اہم ستون ہیں. ان کا منطقی اور استدلالی عنصر ان کی شاعری میں نظر آتا ہے، اردو کلام سے سے زیادہ فارسی کلام پر غالب کو ناز تھا ان کے خطوط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “غالب کا انداز فکر ان کی طرز نگارش بہت بلند تھی، اردو ادب میں غالب امام کی حیثیت آج بھی رکھتے ہیں”. انہوں نے ان کے دلکش لب و لہجے پر بھی بات کی نیز غالب کے خطوط کی سادہ نثر کے سلسلے میں بھی غالب کے کئی خطوط بطور مثال پیش کیے. ان کے خط پڑھتے ہوئے کبھی لبوں پر مسکراہٹ کبھی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور حقیقت کا رنگ جا بجا نظر آتا ہے پھر چاہے دہلی کے لٹنے کا تذکرہ ہو یا زندگی کا درد، ان کے خطوط اپنے عہد کی عمدہ عکاسی ہے. لسانی مہارت پر کامل خطوط ان کے یہاں ملتے ہیں ان کے خطوط انشاپردازی کا بھی بہترین نمونہ ہیں۔

معروف غزل سنگر انوشکا نکم نے اس موقع پر مرزا غالب کی دو غزلیں یہ نہ تھی ہماری قسمت اور ہزاروں خواہشیں ایسی کہ… سنا کر محفل کو مسحور کر دیا

اردو کارواں کے صدر فرید احمد خان نے غالب کے تعلق سے تصیل فراہم کرتے ہوئے کہا کہ غالب ہر صدی کا شاعر ہے اگرچہ ان کو زندگی میں کچھ قدر ملی مگراس سے زیادہ پرستار ان کے بعد ہر دور میں موجود رہے ہیں اور آج بھی ہیں. انہوں نے مزید کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ غالب شناسی بڑھتی جا رہی ہے، لوگوں نے غالب نہ صرف یہ کہ سمجھنے کی کوشش کی بلکہ غالب کی زندگی کے ہر پہلو پر تحقیق کی ہے، مگر ابھی ان کے تعلق سے بہت کام کرنا باقی ہے، انہوں نے نقش دیوار غالب کا ذکر بھی کیا جو شہر ممبئی کے قلب میں واقع ہے۔

اردو کارواں کے نائب صدر شعیب ابجی جو اس ادبی نشست کی نظامت بھی کر رہے تھے انہوں نے اردو غزل کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوے کہا کہ “غالب کی شاعری نے اردو ادب پر ایسا نقش چھوڑا ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا”. انہوں نے غالب کی فی البدیہہ غزل کا بھی تذکرہ کیا اور ان کی نثر نگاری پر بھی روشنی ڈالی.

شبانہ خان جنرل سیکرٹری اردو کارواں نے تنظیم کا تعارف دیتے ہوئے کہا کہ “اردو کارواں اس کوشش میں ہمیشہ پیش پیش ہے کہ آنے والی نسلوں کو اردو زبان تہذیب و ثقافت اور اردو زبان کے ذریعے قوم کی تاریخ کا علم ہوسکے, اس لئے کہ آنے والی نسلوں کو اگر ہم یہ تمام چیزیں وراثت میں نہ دے سکے تو آنے والی نسلیں نہ صرف یہ کہ اپنی مادری زبان سے محروم رہ جائیں گی بلکہ اپنی تاریخ تہذیب اور ثقافت سے بھی محروم رہ جائیں گی”. اس موقع پر انہوں نے غالب کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “اس پروگرام کا انعقاد کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں پر یہ عیاں ہو کہ غالب نہ صرف کلاسیکل شاعر ہیں، بلکہ اردو اور فارسی زبان کا ایک ادارہ ہیں، اور اردو ادب کے اس عظیم سرمایہ کے تعلق سے نوجوان نسل کو معلوم ہو نا ہی چاہیے. “

رسم شکریہ کے فرائض نفیسہ شیخ رابطہ کار اردو کارواں نے ادا کیا، اس ادبی نشست میں اردو کارواں ممبئی و اورنگ آباد کے اراکین کے علاوہ اساتذہ اور طلباء اور طالبات اور عاشقان غالب کی ایک بڑی تعداد موجود تھی.

غالب کے شیدائیوں میں کیء اہم نام ہیں جو مہاراشٹر کے مختلف شہروں سے اس آن لائن ادبی نشست میں شریک تھے۔جن میں عمران امین سر، ڈاکٹر پرویز شہریار ،ڈاکٹر امن،ڈاکٹر عطا عابدی ،ڈاکٹر سمیہ باغبان ،ڈاکٹر سواپنیل چاپیکر،اراکین بزم تلمیذ ادب و بزم روءداد ادب اور اردو ادب سے گریجویشن و پوسٹ گریجویش کرنے واے طلباء و اراکین مجلس عاملہ اردو کارواں ممبئی و اورنگ آباد شامل تھے۔

مصنف کے بارے میں

کوثر حیات

ایک تبصرہ چھ