حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کون سا دین اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ملت اسلام جو نرمی و سہولت آمیز شریعت ہے (بحوالہ سلسلہ احادیث صحیحہ ) امن کے مقابلہ میں جارحانہ فکر ایک منفی سوچ کے تحت ردعمل کا نتيجہ ہوتا ہے جارحانہ سوچ انفرادی ہو یا اجتماعی اپنے آپ میں ایک قلیل ذہن کی مثال ہے الاسلام میں جارحانہ سوچ کی کوٸی جگہ نہیں تمام دوسرے ممکنات و امکانات کو نظر انداز کرنے کا دوسرا اور آخری نام جارحانہ اقدام ہے اگر آپ کے پاس علمی و قلمی صلاحيت نہیں تو آپ کا آخری ہتهيار یا تو جاہلانہ الفاظ ہے یا منمانی قسم کی دھاندلی۔ایک صاحب نے گفتگو کے دوران راقم الحروف سے کہا اللہ تعالی کافروں کو نیست و نابود کریں ۔ میں نے مختصر الفاظ میں اس صاحب کو اعتراض جتایا کہ آپ جاہلانہ بولی بول رہے ہیں نہ کہ عالمانہ میں نے کہا اگر ہم اپنی شجرہ نسب دیکھیں تو کچھ صدیوں پہلے ہمارے پُوروَج باپ دادا کافر ہی تو تھے یہ اللہ تعالی کا فضل و احسان ہمارے اوپر ہیں کہ ہم تبليغ کے ذریعہ مسلمان ہوٸے اُس وقت کے داعی اگر ہم جیسے مدعو کے بارے میں یہی راٸے رکھتے کہ یہ کافر ہیں تو آج ہم کیوں کر مسلمین میں سے کہلاتے اللہ رب الحکمت اپنے کلام پاک میں مشرکین مکہ کو اللہ تعالی کی راہ حسن گفتار حکمت و دانائی کے ساتھ مدعو کرنے کی ترغیب دیتےہوئے نصیحت فرماتے ہیں اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو بے شک آپ کا رب اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بٹھک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو خوب جانتا ہے ۔ سورہ النحل 125 حسن گفتاری کی عمدہ مثال اس سے بڑی اور کرامتی کیا ہوسکتی ہے کہ کشمیر میں میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ جو شاہ ہمدان کے عنوان سے مشہور تھے اور ان کا لقب امیر کبیر تھا جو بر صغیر آئے اور اس کے بعد بالخصوص کشمیر میں سات سو سال قبل آمد ہوئے میر سید علی ہمدانی ہمدان کے ایرانی بادشاہ کا فرزندہ ارجمند ہونے کے علاوہ امیر کبیر کے ملقب سے جانا جاتا تھا تبلیغ کے دوران ان کی تعمیر کردہ مشہور مساجد میں سے چند کے نام خانقاہ معلیٰ جو دریائے جہلم کے سات متصل ہے اور درگاہ شاہ ہمدان سرینگر وغیرہ ان کی تبلیغی گفتار میں ذاتی کردار نمایاں کمال ادب اور حسن بصیرت کے ساتھ نورانی چہرہ اور کسی قسم کی جار حانہ اقدام نہیں بلکہ تبلیغ کی وسعت کی خاطر صنعت کا فروغ دعوت دین کے ساتھ ساتھ آپ نے صنعت سازی بھی کی اور کشمیر میں تبلیغ جس کی وجہ سے قالین سازی یا پشمینا سازی عام لوگوں میں پھلاو ہوا دین سازی کے ساتھ صنعت سازی کرنا اپنے آپ میں درشاتا ہے کہ اس سے دعوت دین کو ہموار کرنا تھا نہ کہ اصل مقصود کی حیثیت سے صنعت سازی اصل اور بنیادی وجوہات یہی ہے کہ ہمارے اندر دعوتی رجحان کا فقدان ہے ہوا یہ ہے کہ مسلمانوں میں دوسری اقوام کی خاطر جو ان کے پاس دعوتی ماڑل تھا دوسری قوموں کے حوالے سے اپنی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اس سے دعوت دین خالی مجروح ہی نہیں بلکہ اس سے اقدامی جارحانہ فکر وجود میں آئی جس کا دوسرا نام رد عمل والی نفسیات ہے جو ایک صحت مند قوم کے لیے مفید نہیں دعوتی میدان میں مخالف سمت سے کتنی ہی جارحت کا سامنا ہوں فریق مقابلہ فریق کافر یا مشرک کے الفاظ بول کر داعی کا مقصود فوت نہ کیئجے یہ طرز فکر بہت ہی نقصان دی اور غیر مفید ہے کہ میں اسی وقت صحیح یا اسلامی ہوسکتا ہوں جب دوسروں کو غلط اور غیر اسلامی ثابت کرسکوں داعی کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ لفظ کافر و مشرک کے الفاظوں ترک کرکے داعی و مدعو کا ماحول ہموار کریں ۔ بہر کیف اللہ تعالی کے دعوتی مشن سے جڈ کر اہتمام حجت کا فریضہ پیغمبروں کے بعد ہم پر لازم ہیں کہ اس فریضہ کا اہتمام روز قیامت تک کریں تاکہ دعوت دین کی حجت پوری ہو۔۔ مثبت سوچ کی ایک مثال حسب معمول میں صبح سویرے کام پر جارہا تھا کہ ایک سِکوٹی اور ایک تویرا گاڑی میں تصادم ہوا کوٸی مالی و جانی نقصان نہ ہوا ۔ سکوٹی پر تین نوجوان سوار تھے ۔ سکوٹی سے گرتے ہی تینوں نوجوانوں نے جب ہوش سنبھالا تو تویرا گاڑی کے ڈرائيور پر یہ تینوں نوجوان اس طرح حملہ آور ہوٸے کہ اگر ڈرائيور دانش مندی نہ دکھاتے تو پھر اللہ ہی حافظ۔ ڈرائيور نے تینوں نوجوانوں کو یہ کہہ کر چپ کریا کہ میری ہی غلطی تھی یا میری ہی غلطی ہے ۔ نوجوانوں نے جب یہ اعترافِ غلطی کے بول سنے تو ان کے جوانی کا جوش ایک ہی لمحہ میں منہدم ہوا اور کہ تیزی سے جو ان کے سانسے چلرہی تھی ایک دم تھم گٸی ۔اور اپنی مٹھیوں کو دانتوں سمیت مضبوطی سے دبا کر اپنی شرارت کی بڑھاس نکالییہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ معمولی بات پر بگڑ جاتا ہے چاہے شعوری ہو یا غیر شعوری اگر آپ خود سے یہ جانتے ہے کہ آپ اکثر لا شعوری میں جیتے ہے آپ جوش کے وقت ہوش نہیں رکھ پاتے بعد ازاں اپنی عقل پر ہی ماتم کرتے ہے۔ ایسے لوگوں کو پیشگی طور ہميشہ اس کے لٸے آمادہ تیار (prepare) رہنا چاہیے کہ اپنے اندر مثبت فکر والے انسان کو جگا کر رہے تاکہ وہ منفی فکر کے اوپر غالب رہکر منفیت مثبت میں تبدیل کرے۔نتيجہ مذکورہ بالا کہ مثبت سوچ کے تحت معافی مانگ کر ابتدائی مرحلہ میں ہی رفع دفع کردینا۔ شریعت اسلام میں اس کو پست اخلاق کے مقابلہ میں برتر یا اعلیٰ اخلاق کہتے ہے اور حسنِ اخلاق سے بھی تعبير کیا جاتا ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں اس لٸے بیجا گیا ہوں کہ حسن اخلاق کی تکمیل کروں ایک حدیث میں یہ آیا ہیں کہ تین چیزیں اللہ تعالی کے نزدیک اعلیٰ اخلاق سے ہے ۔ جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو ۔ جو تم کو دینے سے مرحوم رکھے تم اس کو دو اور جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو ۔ اختصار سے اگر سمجھا جاٸے تو مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرے کو اپنے مقابلہ میں دوسرا فریق مت سمجٸے بلکہ یہ سمجٸے کہ وہ بھی میرے ہی طرح ایک انسان ہے آپ کی حسن اخلاق سے اس کے اندرون سے بھی آپ جیسا اخلاقی انسان جاگے گا ۔ اعلیٰ اخلاق وہ ہے جس میں آدمی فریق ثانی کے رویہ سے اوپر اٹھ کر معاملہ کرتا ہے ۔ اور یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کے اخلاق بغير لفظی تکرار کے مثبت والے ہوں نہ کہ منفی سوچ کے تحت جوابی اخلاقالطاف حسین حالی کا وہ شعر یاد آگیا جو انہوں نے اپنے مخالفين کے بارے میں لکھا تھا ۔کیا پوچھتے ہو کیوں کر سب نکتہ چین ہوٸے چپ ۔سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا۔بات کو گوار کرنا بولنے سے بہتر ہے اگر آپ بھی جواب میں بول پڑیں تو ممکن ہے کہ آپ بھی بد اخلاقی کے حدیں لانگ لے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا بہترین عمل کون سا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا اچھے اخلاق اگر آپ رازِ حیات کو جاننا چاہتے ہیں تو آپ بااخلاق بن جائیں آپ اپنے اخلاقی رویوں کی وجہ سے معاشرتی تعلقات کا ایک وسیع جال بچھا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
طالب علم ناصر منصور ۔۔۔۔اومپورہ ھوسنگ کالونی 9906736886