جی این کے اردو، 24 / مئی 2023
غزل__فیضان الحق
مسلک شعر کا سودائئ سرمست ہوں میں
ساغر ہوش میں ڈوبا ہوا بد مست ہوں میں
رقص کرتی ہیں مرے گرد جنوں کی پریاں
مسند عشق پہ بیٹھا ہوا من مست ہوں میں
دخل رکھتا ہوں فضاؤں میں ہوا کی صورت
غار سے اٹھتا ہوا نعرۂ یک لخت ہوں میں
رشک کرتا ہے جہاں بخت کی خوش روئ پر
ایسی تقلید سے بچتا ہوا بد بخت ہوں میں
پیرہن زیست کا اوڑھے ہوئے پھرتا ہے جہاں
اور اسی پیرہن زیست کا زربفت ہوں میں
شاہد ہوش بھی دیتے ہیں جنوں کا طعنہ
کیا خبر ان کو در عشق کا در بست ہوں میں
رونق خلد بڑھانے کو نکل آیا ہوں
روش ہجر مٹاتا ہوا گل گشت ہوں میں
کس سلیقے سے لیے جاتا ہوں الزام سبھی
سچ ہی کہتا ہے جہاں مجھ کو کہ کم بخت ہوں میں
نیستی کا ہے تصور مجھے لاحق کیوں کر
میرے مولا تری تخلیق کا گر ہست ہوں میں!