جی۔این۔کے اردو، 13 مئی
لیلۃ الجائزۃ یعنی انعام کی رات
محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل فون := 9933598528
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جہاں تہواروں میں بھی نہ لہو و لعب ہے اور نہ تخریب اخلاق اور انسانیت سوز نظارے بلکہ خاکساری و خشیت الٰہی کے خوشنما جلوے ہیں۔ ایثار و مساوات کے مجسمے اور ہمدردی و غم خواری کے شاندار نمونے ہیں۔ اور اتحاد و اتفاق کی جیتی جاگتی عملی تصویر نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کا طرۂ امتیاز یہ ہوتا ہے کہ وہ خوشی و مسرت کے مواقع پر بھی اپنے رب کو فراموش نہیں کرتے بلکہ سب سے پہلے اسی کی بڑائی و کبریائی کے گن گاتے ہیں۔ اسلام کا پیروکار ہمیشہ اپنی دنیا کی آسائشوں کے بجاے آخرت کے لیے ہر لمحہ فکر مند رہتا ہے۔ عید خوشی کے اجتماعی اظہار کا خوبصورت نام ہے جس میں سب لوگ شریک ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی مسرت اسی بات میں ہوتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشی نصیبی حاصل ہو جائے. شریعتِ اسلام نے انسانی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے سال میں دو دن خوشی و مسرت کے لیے تجویز کیے ہیں، لیکن یہ ایام دنیا کے عام تہواروں کی طرح محض رسمی تہوار نہیں، بلکہ انعامات خداوندی کی شکر گزاری کے ایام ہیں، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں: (۱) جس دن گناہ سے محفوظ رہے اور کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔ (۲) جس دن دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے اس کی وہ عید ہے۔(۳) جس دن دوزخ کے پُل سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔ (۴) جس دن دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے۔ (۵) جس دن اپنے رب کی رضا کو پالے اور اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کرے وہ عید کا دن ہے”۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بہ طور تہوار مناتے اور ان میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے دریافت فرمایا’’ یہ دو دن، جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ ہم عہدِ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ یہ سُن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرّر فرما دیے ہیں، (1)یوم عیدالاضحٰی اور (2) یوم عیدالفطر۔‘‘( ابو داؤد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عیدین کے موقعے پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دینے کے ساتھ، دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ نیز، ان مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندۂ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا۔
احادیثِ میں شبِ عید اور یومِ عید کی بہت فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’ جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے، تو اُسے آسمانوں پر’’ لیلۃ الجائزہ‘‘یعنی’’ انعام کی رات‘‘ کے عنوان سے پکارا جاتا ہے اور جب صبحِ عید طلوع ہوتی ہے، تو حق تعالیٰ جل شانہ فرشتوں کو تمام بستیوں میں بھیجتا ہے اور وہ راستوں کے کونوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے، جسے جنّات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سُنتی ہے، پکارتے ہیں کہ’’ اے اُمّتِ محمدیہ اس کریم ربّ کی بارگاہِ کرم میں چلو، جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے۔‘‘ چنانچہ جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو اللہ ربّ العزّت فرشتوں سے فرماتا ہے’’ اُس مزدور کا کیا بدلہ ہے، جو اپنا کام پورا کرچُکا ہو؟‘‘ وہ عرض کرتے ہیں’’ اے ہمارے معبود! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری اور اُجرت پوری پوری عطا کردی جائے‘‘، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اے فرشتو! تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ مَیں نے اُنہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا فرمادی‘‘ اور پھر بندوں سے ارشاد ہوتا ہے کہ’’ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزّت و جلال اور بلندی کی قسم! آج کے دن آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، عطا کروں گا۔دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے، اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میرے عزّوجلال کی قسم! مَیں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رُسوا نہ کروں گا۔ مَیں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘(الترغیب والترہیب) خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے ماہِ صیام پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا۔پورے ماہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھی اور بارگاہِ ربّ العزّت میں مغفرت کے لیے دامن پھیلائے رکھا۔یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اب اُنھیں مزدوری ملنے کا وقت ہے۔ عید کے اس پُرمسرّت موقعے پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نمازِ عید سے فارغ ہوکر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظرایک بچے پر پڑی، جو میدان کے ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور پیار سے اس کے سر پر دستِ شفقت رکھا، پھر پوچھا’’ کیوں رو رہے ہو؟ ‘‘بچّے نے کہا’’ میرا باپ مر چُکا ہے، ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے، میرے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے، نہ پہننے کو کپڑا۔‘‘یتیموں کے ملجاﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،فرمایا کہ’’ اگر میں تمہارا باپ، عائشہؓ تمہاری ماں اور فاطمہؓ تمہاری بہن ہو، تو خوش ہو جائو گے؟‘‘ کہنے لگا’’ یارسول اللہﷺ! اس پر مَیں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔‘‘حضورِ اکرمﷺبچّے کو گھر لے گئے۔(بعض روایات میں یہ واقعہ کچھ اور الفاظ میں بھی بیان کیا گیا ہے) حضرت معروف کرخی رحمۃاللہ علیہ اکابر صوفیاء میں شامل ہیں، ایک عید پر نخلستان میں گری کھجوریں چُن رہے تھے۔ایک شخص نے پوچھا ’’ایسا کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ تو فرمایا’’مَیں نے ایک لڑکے کو روتے دیکھا، تو اُس سے پوچھا’’ تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘لڑکا بولا’’ مَیں یتیم ہوں۔ یہ لڑکے اخروٹوں سے کھیل رہے ہیں اور میر ے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اخروٹ خرید کراُن کے ساتھ کھیل سکوں۔‘‘ اس لیے مَیں کھجوریں چُن رہا ہوں تاکہ اُنہیں فروخت کرکے اُس یتیم بچّے کو دوں تاکہ وہ بھی کھیلے. عید کے دن ایک دوسرے کو مبارکباد دینے میں کوئی برائی نہیں ہے، اس کیلئے کوئی بھی اچھے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، بلکہ اس کیلئے افضل ترین الفاظ ” تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ” ہیں؛ کیونکہ یہ الفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہیں۔ چنانچہ جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام عید کے موقع پر جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو کہتے: ” تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ”۔ حافظ ابن حجر نے ” فتح الباری ” میں اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا: “عید کی نماز سے واپس آنے کے بعد اگر کوئی اپنے بھائی سے کہہ دے کہ: ” تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ، وَغَفَرَ اللهُ لَنَا وَلَكَ ” اور آگے سے جواب میں بھی اسی طرح کے الفاظ کہے تو کیا یہ مکروہ ہے؟ ” تو انہوں نے کہا: “یہ مکروہ نہیں ہے” (المنتقى شرح الموطأ ” ) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں: “عید کے دن مبارک باد دیتے ہوئے نماز عید کے بعد ایک دوسرے کو یہ کہنا کہ: ” تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ ” یا “اللہ تعالی آپکو بار بار عیدیں نصیب کرے” اس طرح کے دیگر دعائیہ کلمات کہنا ، متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے کہ وہ ایسا کیا کرتے تھے، ائمہ کرام نے اس بارے میں رخصت ہی دی ہے، جیسے کہ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: “میں کسی کو عید کی مبارکباد یتے ہوئے پہل نہیں کرتا، لیکن اگر کوئی مجھے مبارکباد دے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں، کیونکہ جواب دینا واجب ہے” مبارکباد دینے سے متعلق احادیث میں کہیں بھی حکم نہیں ہے، اور نا ہی اس سے کہیں ممانعت موجود ہے، اس لئے مبارکباد دینا اور نہ دینا دونوں طرح درست ہے” (مجموع الفتاوى) عید کے دن کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، یہ اہتمام گھر میں یا گھر سے باہر کسی ہوٹل وغیرہ میں بھی ہو سکتا ہے، تاہم کسی ایسے ہوٹل میں کھانے کا اہتمام نہ کریں جہاں پر شراب نوشی ہو، یا وہاں موسیقی کی آواز آ رہی ہو، یا پھر مرد و زن کا مخلوط ماحول ہو۔ عید کے دنوں میں معصیت سے خالی کھیل کود میں رخصت ہے”
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: عید کے دنوں میں اہل خانہ کیلئے ہر قسم کی فراوانی کریں تا کہ اس کا دل خوشگوار ہو جائے، بدن کو عبادت سے کچھ راحت دیں، اور آج کے دن نفلی عبادت سے دوری بہتر ہے، نیز اس میں یہ بھی ہے کہ: عید کے دنوں میں اظہار مسرت دینی شعائر میں سے ہے” (فتح الباری ) شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں “عید کے دنوں میں یہ کام بھی کیا جاسکتا ہے کہ لوگ آپس میں تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں، اکٹھے ہو کر اظہار مسرت بھی کرتے ہیں، اس عادت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ عید کے دن ہیں، بلکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر داخل ہوئے تو آگے انہوں نے مکمل حدیث بیان کی اس میں یہ بھی ہے کہ -الحمد للہ- شریعت میں لوگوں کی آسانی و سہولت کے پیش نظر ایسی چیزیں موجود ہیں جو عید کے دنوں میں مسرت و شادمانی کا سامان پیدا کرتی ہیں ” (مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین) اسی طرح ” الموسوعة الفقهية ” میں ہے کہ ” عید کے دنوں میں اہل خانہ پر ہر قسم کی فراوانی کرنا لازمی امر ہے، جس سے دل خوشگوار ہو جائے، بدن کو عبادت سے کچھ راحت دیں، اسی طرح عید کے دنوں میں اظہار مسرت اس دین کے شعائر میں سے ہے، عید کے دنوں میں کھیل کود کرنا مسجد یا کسی اور جگہ جائز ہے، بشرطیکہ کھیل کود کا انداز وہی ہو جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے جس میں حبشی لوگوں کی نیزہ بازی کا ذکر ہے” دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے اور آپ کے نیک اعمال قبول فرمائے، اور ہم سب کو دین و دنیا کی حقیقی خوشی اور خیر سے نوازے، آمین. ***