مذہبی مضامین

جمعتہ الوداع کی شرعی حیثیت از محمد ہاشم القاسمی

جی۔این۔کے اردو، 13 مئی

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال) 

موبائل فون :=9933598528 

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے، بڑے خوش نصیب اور سعادت مند ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس مبارک مہینہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں، اس کی عنایتیں اور برکتیں سمیٹنے میں کامیاب رہے ، اور جنہوں نے اپنے رب سے اپنے گناہ بخشوا کر جہنم کی آگ سے آزادی کا پروانہ حاصل کر لیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنے کا حکم فرمایا ہے، اس لیے کہ شب قدر کی رات میں اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ مبارک پر تئیس سالوں میں نازل ہوئی، یہ قرآن کریم کی سمائے دنیا میں نزول کی رات شمار ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس رات کی عبادت کو ایک ہزار راتوں سے افضل قرار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان راتوں میں پوری دنیا کے مسلمان رات بھر اللہ کی عبادات میں مصروف عمل رہتے ہیں، اسی طرح انہی آخری عشرے کے ایام میں ایک یوم، جمعہ بھی آتا ہے، جسے عام زبان میں ہم “جمعۃ الوداع” کہتے ہیں۔ اس موقع پر بیشتر افراد خود کو زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت میں مشغول رکھنا چاہتے ہیں۔ عبادت و ریاضت میں مشغول ہونا تو اچھی بات ہے، لیکن یہ دھیان رکھنا ضروری کہ اسلام میں “جمعۃ الوداع” یعنی رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو اس ماہِ مبارک کے دیگر جمعوں پر کوئی فوقیت یا فضیلت نہیں دی گئی ہے۔ یعنی جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جمعۃ الوداع کو عبادت کرنے کا ثواب رمضان کے دیگر جمعوں سے زیادہ ہوتا ہے، تو وہ غلط فہمی کے شکار ہیں۔ واضح رہے کہ جمعۃ الوداع سے متعلق ایک خاص خطبہ کو لے کر بھی کچھ لوگوں میں بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ بعض مساجد کے ائمہ جب عام جمعہ کے خطبہ، جمعتہ الوداع میں پڑھ کر نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو عوام میں چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ امام صاحب نے الوداع کا خطبہ نہیں پڑھا وغیرہ وغیرہ لہذا اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ایشیا کی سب سے بڑی دینی تعلیمی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ نمبر 48405 دیکھنا چاہیے جس میں اس سوال کا صاف ستھرا جواب دیا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیں ” سوال : الوداع جمعہ کا خطبہ کب سے شروع ہوا تھا، سب سے پہلے کس نے پڑھا تھا؟ اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ کیا الوداع جمعہ کے حقوق اور خطبہ الگ ہونے چاہئے؟ یا پھر کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتا ہے؟” اس کے جواب میں لکھا گیا ہے کہ ” الوداع جمعہ کا خطبہ کب سے شروع ہوا، سب سے پہلے اس خطبہ کو کس نے پڑھا، اس کی صراحت مجھے نہیں مل سکی۔ البتہ اس خطبہ کا وجود قرون مشہود لہا بالخیر میں نہیں تھا، فقہاء نے اس خطبہ کے پڑھنے کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس خطبہ کی کوئی فضیلت ثابت نہیں بلکہ علماء نے اس کو مکروہ و بدعت تک لکھا ہے۔ اس لیے رمضان کے آخری جمعہ میں بھی عام خطبہ ہی پڑھا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔” جمعۃ الوداع اور جمعۃ الوداع کے مخصوص خطبہ کے بارے مزید وضاحت کے لیے دارالافتاء، جامعۃ العلوم الاسلامیہ (پاکستان) کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ سوال کیا گیا ہے کہ” شریعت میں “الوداعی جمعہ” کی کیا حیثیت ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اس کی تیاری کرتے تھے؟ نیز جمعۃ الوداع میں جو مخصوص خطبہ پڑھا جاتا ہے صحیح ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں!” اس کا جواب یوں دیا گیا ملاحظہ فرمائیں “رمضان المبارک کے آخری جمعہ کی تیاری اور بطور “جمعۃ الوداع” منانا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء کرام سے ثابت نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو جاگ کر عبادت میں گزارتے تھے، پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے، لیکن آخری جمعہ کے لیے نئے کپڑے سلوانا، تیاری کرنا یا خاص عبادت کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ نیز ” الوداع والفراق والسلام یا شهر رمضان” وغیرہ کے الفاظ سے خطبۃ الوداع پڑھنا حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کو اکابر اہلِ فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے۔ ابوالحسنات حضرت مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے ’مجموعۃ الفتاوی‘ اور ’خلاصۃ الفتاوی کے جلد نمبر و صفحہ نمبر (329/4) کے حاشیہ میں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے ’فتاوی رشیدیہ‘ (ص: 123) میں، اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ’امداد الفتاوی‘ جلد نمبر و صفحہ نمبر (685/1)میں، اورحضرت مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے ’فتاوی دارالعلوم دیوبند‘ جلد نمبر و صفحہ نمبر (96/5) میں اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ نے ’فتاوی محمودیہ‘ مطبع ڈابھیل گجرات کے جلد نمبر اور صفحہ نمبر (296/8)، اور مطبع میرٹھ کے جلد نمبر و صفحہ نمبر (416/12) میں، اور مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے ’امداد المفتیین‘ (ص: 404) میں بدعت اور مکروہ لکھا ہے۔ (بحوالہ فتاوی قاسمیہ) فقط واللہ اعلم۔‘‘ جمعتہ الوداع اور آخری جمعہ سے متعلق عوام الناس میں پھیلی ہوئی چند غیر مستند باتوں میں سے، ایک دعا بھی شامل ہے، جو حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے، وہ یہ ہے “حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں ماہ رمضان میں جمعتہ الوداع کے دن پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا: اے جابر، یہ رمضان کا آخر ی جمعہ ہے، اسے وداع کرو۔ اور یہ کہو” اے اللہ! اسے ہمارے روزوں کا آخری زمانہ نہ قرار دے، اگر اسے آخری قرار دیا تو ہمیں اپنی رحمت سے سر فراز کر اور محروم نہ کر” مذکورہ روایت اہل سنت کی حدیث کی کسی معتبر کتابوں میں تو کہیں موجود نہیں ہے ، البتہ اہل تشیع روافض کی بعض کتابوں میں مذکور ہے، اور وہیں سے منتقل ہوکر کتب مواعظ میں جگہ لی ہے، اس لئے اس بچنے کی کوشش کرنی چاہئے. اس میں کوئی شک نہیں کہ ﷲ کے نزدیک ہفتے کے سات دنوں میں سب سے افضل اور ممتاز جمعہ کا دن ہے، جسے ہفتہ کی عید بھی کہا گیا ہے، لیکن اس میں رمضان کے آخری جمعہ کی کو تخصیص نہیں ہے. بتایا جاتا ہے کہ اس دن میں پانچ ایسی خصوصیات ہیں جو اور دنوں میں نہیں ہیں (1) اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ (2) اسی دن وہ خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجے گئے۔ (3) اسی دن آپ علیہ السلام کی وفات ہوئی۔ (4) اسی دن میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اپنے رب سے جو حلال اور طیب چیز چاہتا ہے وہ اس کو ضرور عطا کی جاتی ہے۔ (5) اسی دن قیامت آئے گی۔ خدا کے مقرب فرشتے، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ، دریا غرض کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو یوم جمعہ سے 

لرزتے اور ڈرتے نہ ہوں۔ ” (ابن ماجہ) دراصل دنیا کی ہر قوم اور ملت میں ہفتے میں سے کوئی ایک دن باقی دنوں سے افضل اور مقدس ہوتا ہے۔ اس دن کو خصوصی اور قومی دن سمجھا جاتا ہے اور اس میں پوری قوم اپنے اپنے مقام پر جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کرتی ہے۔ چنانچہ یہود نے جمعہ اور اتوار کے درمیانی دن یعنی ہفتہ کو افضل الایام اور اجتماعی عبادت کا دن قرار دیا ہے۔ چنانچہ یہ قوم ہفتہ کے دن عبادت کے لیے اپنے عبادت خانوں میں جمع ہوتی ہے۔ مسیحی اقوام نے افضل الایام اور اجتماعی عبادت کا دن اتوار کو قرار دیا ہے اور وجہِ فضیلت یہ تجویز کی کہ اتوار کا دن تخلیقِ کائنات کی ابتدا کا دن ہے۔ اس دن کی بدولت آسمان و زمین وجود میں آئے اور انسانوں کو بھی وجود ملا، لہٰذا تشکر و عبادت کا خصوصی دن وہ ہونا چاہیے جس روز تخلیقِ کائنات کی ابتدا ہوئی ہے، اور وہ اتوار ہے۔ لیکن ’’اسلام‘‘ میں جمعتہ المبارک کو ایک خاص فضیلت اور امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فضائل جمعہ کے بارے میں ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے: (1) اُن تمام دنوں میں جن میں سورج نکلا ہے، جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔(2)جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے۔ اسی دن ان کی لغزش معاف ہوئی، اسی دن قیامت برپا ہوگی۔ ہر جاندار جمعہ کے دن سورج نکلنے تک قیامت کے خوف کی وجہ سے کان لگائے رہتا ہے۔ مشرق سے طلوعِ آفتاب کے بعد یہ خوف ختم ہوجاتا ہے۔ انسان اور جنات غافل رہتے ہیں۔ جمعہ کے دن غروبِ آفتاب تک ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ اس ساعت میں وہ اللہ تعالیٰ سے جو مانگتا ہے، عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ جمعہ کی آخری ساعت ہے۔ ایک صحیح حدیث میں وہ ساعت امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز کے ختم ہونے تک ہے۔ علامہ زرقانی نے اس ساعت کے بارے میں 42 اقوال نقل کیے ہیں، پھر کہا کہ سب میں راجح وہی قول ہے کہ وہ امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز ختم ہونے تک ہے۔ یہی درست ہے کیونکہ شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس ساعت کی خود نشاندہی فرمائی ہے۔ہمارے کرنے کے کام یہ ہے کہ ہر جمعہ کے دن عصر کے بعد اس درود شریف کا اسّی مرتبہ پڑھنے کا اہتمام کیا جائے” اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحِمَّدِنِ النَّبِّیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰی آلِہٖ وَسَلِّمْ” حدیث میں آتا ہے جوشخص اسّی مرتبہ اس درود پاک کے پڑھنے کا اہتمام کرتا ہے، اس کے اسّی سال کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور اس کے لیےاسّی سال کی عبادت کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ جمعہ کے دن کی خصوصی فضیلتیں احادیث سے ثابت ہیں، رمضان المبارک چونکہ خود بھی برکت اور دعاء کی قبولیت کا مہینہ ہے ،اس لئے اس ماہ کے جمعہ میں برکت اور قبولیت کی توقع زیادہ ہے، لیکن اس اعتبار سے رمضان کے تمام جمعہ برابر ہیں، آخری جمعہ کی خصوصیت نہیں ہے۔ اسی سلسلے کا ایک فتویٰ معہ سوال و جواب من وعن نقل کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ ہمیں اپنے من چاہی کرنے چاہئیں یا کتاب و سنت کے مطابق جس کی رہنمائی علماء فرماتے ہیں اس پر عمل پیرا ہونا چاہئے؟ دیکھئے ” سوال کا متن:

جمعۃ الوداع کی کیا حقیقت ہے؟ کیا شریعت میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کی کوئی الگ سے فضیلت آئی ہے؟

جواب کا متن:

جمعہ کے دن کی خصوصی فضیلتیں احادیث سے ثابت ہیں، رمضان المبارک چونکہ خود بھی برکت اور دعاء کی قبولیت کا مہینہ ہے ،اس لئے اس ماہ کے جمعہ میں برکت اور قبولیت کی توقع زیادہ ہے، لیکن اس اعتبار سے رمضان کے تمام جمعہ برابر ہیں، آخری جمعہ کی خصوصیت نہیں ہے۔

عوام میں رمضان المبارک کا آخری جمعہ بڑی اہمیت کے ساتھ مشہور ہے، اور اس کو ”جمعة الوداع“ کا نام دیا جاتا ہے، لیکن احادیثِ شریفہ میں ”آخری جمعہ“ کی کوئی الگ سے خصوصی فضیلت ذکر نہیں کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ دلائل: کما فی فتاوی بنوری تاؤن:

(فتوی نمبر: 143909200815) 

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب. دارالافتاء 

الاخلاص، کراچی.) اسلام سوال جواب میں اس موضوع پر ایک مفصل جواب ملا ملاحظہ فرمائیں. سوال

کیا رمضان کے آخری جمعہ کے بارے میں جمعۃ الوداع کہنا بدعت ہے؟ میں نے ایک بھائی کو درسِ میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے، کیا اس جمعہ کے متعلق خاص احادیث نہیں ہیں؟ یہ بھی بتلائیں کہ صحیح ثابت بات کیا ہے؟

جواب. “جمعۃ الوداع” نامی اصطلاح شریعت میں نہیں ہے، یہ خود ساختہ اصطلاح ہے، چنانچہ اس سے متعلقہ مخصوص نمازیں اور اس دن کو منانے کا طریقہ سب کا سب ہی خود ساختہ اور بدعت ہوگا۔ کتاب و سنت اور سلف صالحین کے آثار میں جو چیز صحیح ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جو فرائض اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر نماز، روزہ وغیرہ کی صورت میں فرض کیے ہیں انہی کی پابندی کی جائے، اور اسی طرح ان نوافل کو بھی ادا کرنے کا استحبابی طور پر اہتمام کیا جائے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ادا کیا ہے۔اس کے علاوہ لوگوں کی طرف سے بنائے گئے تمام نت نئے طریقے بدعت اور مسترد ہیں۔

دوم: اس نام سے متعلقہ بدعات کی شکلیں اور صورتیں مختلف ہیں، یا لوگوں نے اس کی مخصوص فضیلت بھی بنائی ہوئی ہے، ہر علاقے میں الگ الگ اس قسم کی چیزیں پائی جاتی ہیں، مثلاً: اول: رمضان کے آخری جمعہ میں بہت سے عوام الناس اور بدعات میں ملوث لوگ مخصوص نماز ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس نماز کے ادا کرنے سے چھوٹ جانے والی فرض نمازوں کا گناہ مٹ جاتا ہے، تو ایسی نماز بے بنیاد اور بدعت ہے۔ سوم: برصغیر کے بہت سے مسلمان “جمعۃ الوداع” کو بڑا اہمیت والا مذہبی اور دینی تہوار سمجھتے ہیں کہ اس دن میں اکٹھے ہوں اور آپس میں ملیں، اس کے لیے شہر کی بڑی بڑی مساجد میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں اور اس جمعہ میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد جمعہ کے لیے جمع ہوتی ہے۔

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس جمعہ کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے یا عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے، حقیقت یہ ہے کہ صرف اسی جمعہ کو نہیں بلکہ جب بھی اذان ہو ہر جمعہ اور نماز با جماعت میں حاضر ہونا واجب ہے، با جماعت نماز سے وہی پیچھے رہ سکتا ہے جس کا کوئی عذر ہو۔ چہارم: رمضان کے آخری جمعہ سے تعلق رکھنے والی خود ساختہ عبادات میں “صلاۃ الفائدہ” بھی شامل ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے صلاۃ الفائدہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ 100 رکعت نماز ہے، بعض کہتے ہیں کہ چار رکعت نماز ہے اسے رمضان کے آخری جمعہ میں پڑھا جاتا ہے، تو کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ اور اس نماز کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا: “یہ بات صحیح نہیں ہے، صلاۃ الفائدہ نامی کوئی نماز نہیں ہے، ویسے تو ہر نماز میں ہی فائدہ ہو تا ہے، فرض نماز کی ادائیگی سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے؛ کیونکہ ایک عبادت کی فرض قسم اسی عبادت کی نفل قسم سے افضل ہوتی ہے۔ لیکن اس جمعہ کے لیے ساتھ خاص نماز صلاۃ الفائدہ کے بارے میں یہی ہے کہ یہ بدعت ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔انسان کو لوگوں میں عام ہو جانے والی بے اصل اور بے دلیل نمازوں اور اذکار سے دور رہنا چاہیے کہ یہ احادیث سے ثابت نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ عبادات میں بنیادی اصول ممانعت ہے، لہذا کسی کے لیے بھی اللہ تعالی کی عبادت کے لیے کوئی ایسا طریقہ اپنانے کی کوئی اجازت نہیں جو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سنت میں بیان نہ کیا ہو۔ انسان کو جب کسی عمل کے بارے میں شک ہو کہ یہ عبادت ہے یا نہیں؟ تو اصل یہی ہے کہ وہ عبادت نہیں ہے، تا آنکہ اس عمل کے عبادت ہونے کی دلیل مل جائے۔” ختم شد “مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین” (14/ 331) پنجم: کچھ لوگ “یتیم جمعہ” کے نام سے بھی ایک جمعہ مناتے ہیں شریعت میں اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے، نیز رمضان کے آخری جمعہ کی دیگر ایام کے مقابلے میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، نہ ہی “یتیم جمعہ” کے ساتھ بیماریوں سے شفا ملنے کا کوئی معاملہ تعلق رکھتا ہے۔ اور نہ ہی اس دن کوئی مخصوص عبادت ہے۔

واللہ اعلم. دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب و سنت کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین. ***

   

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ