تاریخی

تاج محل بھوپال ،از محمد ہاشم القاسمی

GNK URDU 17 April 2024


محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل فون :=9933598528
آپ لفظ تاج محل سے مغالطہ نہ کھائیں۔ “تاج محل بھوپال ” جس کا اصل نام “راج محل” ہے۔ اس کو محترمہ سلطان شاہ جہاں، بیگم بھوپال نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ تاج محل بھوپال کی تاریخی تاج المساجد کے قریب واقع ہے۔ تاج محل بھوپال کی تعمیر کا آغاز 1871ء میں ہوا تھا اور اِس کی تکمیل 13 سال بعد 1884ء میں ہوئی تھی ۔ اِس کی تعمیر پر 30 لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔ یہ محل اپنے زمانے میں تعمیر کیے جانے والے بہترین محلات میں سے ایک تھا۔ محل کے طرزِ تعمیر میں اسلامی طرز تعمیر، برطانوی طرز تعمیر، فرانسیسی طرز تعمیر، ہندو طرز تعمیر اور مغلیہ طرز تعمیر کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ اُس وقت کی دنیا میں سب سے بڑی تعمیر تھی. (مستفاد وکیپیڈیا) بھوپال ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کی راجدھانی ہے۔ شہر بھوپال کو جھیلوں کا شہر ، بیگمات کا شہر، اور مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کی تاج المساجد بہت ہی خوبصورت مسجد مانی جاتی ہے۔ تاج المساجد کا سنگ بنیاد ریاست کی تیسری خاتون فرمانروا خلد مکانی نواب شاہ جہاں بیگم نے 1886ء میں رکھا، شاہ جہاں بیگم بھوپال کی وہ خاتون حکمراں ہیں، جنہیں اپنے ہم نام مغل بادشاہ شاہجہاں کی طرح عمارت سازی کا بڑا شوق تھا، ان کے اس تعمیری ذوق کا ثبوت، تاج محل، عالی منزل، بے نظیر، گلشن عالم جیسی منفرد عمارتیں ہیں اور ان میں سب سے نمایاں تاج المساجد ہے، جس کی تعمیر کے لئے بیگم صاحبہ نے اپنے خزانہ کا منہ کھول دیا تھا، اس میں استعمال کیلئے آگرہ کا پتھر، بھوپال لایا گیا، متھرا اور جے پور کے کاریگر مامور ہوئے، ستون اور جنگلوں پر نہایت خوبصورت نقاشی کی گئی، دالانوں کے کتبے سنگ موسیٰ سے پچکاری کرکے تیار ہوئے، بلوری فرش انگلینڈ سے تیار کرکے منگوایا گیا، مسجد کو زینت بخشنے کیلئے جھاڑ و فانوس اور شیشہ کا دوسرا سامان بیلجیم کی ایک معروف کمپنی سے بیش قیمت رقمیں صرف کر کے تیار کرایا گیا، مسجد کا نقشہ لاہور کی شاہی جامع مسجد کو سامنے رکھ کر جزوی تبدیلی کے ساتھ مرتب ہوا اور اس عظیم الشان تعمیری منصوبہ پر عمل کا رنگ بھرنے کیلئے خوش بختی سے “اللہ دلائے” نام کا مشہور اور اپنے دور کا تجربہ کار ماہر تعمیر میسر آ گیا، جس طرح آگرہ کے تاج محل کی تعمیر کیلئے شیراز نامی ماہر تعمیرات جہانگیر کو مل گیا تھا، اسی طرح عہد شاہجہاں کے بھوپال کے تمام محلات و مساجد پر اللہ دلائے کے دستِ شہ کار آفریں کا اثر نظر آتا ہے۔ پندرہ سال تک جاری رہنے والی تعمیر سے مسجد کے دونوں مینار نصف کے قریب، اس کی چھت و محرابیں، جنوبی و مشرقی دالان، شمالی دالان کے صرف ستون اور مشرقی و مغربی برجیاں ہی تعمیر ہوپائیں تھیں کہ بیسویں صدی آتے آتے 1901ء میں شاہجہاں بیگم کی وفات ہوگئی اور وہ مسجد کو مکمل کرنے کی حسرت دل میں لئے دنیا سے رخصت ہوگئیں۔انہوں نے تاج المساجد کیلئے بلور کے مصلے، کلس، فوارے اور زنانہ حصے کیلئے بلوری فرنیچر منگوایا تھا جو سب کرسٹل کٹ تھا، بیگم صاحبہ کی یہ آرزو تھی کہ مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر رسم افتتاح کی تقریب منعقد ہوتو اس میں تعمیری کام انجام دینے والے سارے عملے کاریگر و مزدور وغیرہ کو دو دو ماہ کی اجرت نقدی کی صورت میں اور اتنی ہی قیمت کے جوڑے بیڑے تقسیم کئے جائیں اور اس کیلئے ہزاروں کی تعداد میں اطلس، کمخواب اور مشروع کے تھان خرید کر توشہ خانے میں جمع کرلئے گئے تھے۔ لیکن بیگم صاحبہ کی آنکھیں بند ہوتے ہی مسجد کا کام رک گیا ، اس کے خارجی میدان میں پڑے ہوئے تراشیدہ پتھر، منتظر رہے کہ مسجد کی تعمیر میں ان کا استعمال ہو۔
اہل نظر اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ نواب صدیق حسن خاں کی حوصلہ مند بیگم نواب شاہجہاں صاحبہ کی زندگی وفا کرتی اور ان کی حیات میں تاج المساجد مکمل ہوجاتی تو مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے بنوائے ’’تاج محل‘‘ کی طرح اس مسجد کا شمار عجائبات میں نہ سہی فن تعمیر کے جلال وجمال کے نقش حسیں میں ضرور ہوتا، لیکن پچاس برس تک یہ ادھوری مسجد جو عبادت الٰہی سے آباد ہونے والی تھی، جہاں اللہ اکبر، قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گونجنے والی تھیں، وہی مسجد ویرانی کا شکار ہوکر ، ناپسندید عناصر کی پناہ گاہ بنی رہی۔ شاہ جہاں بیگم کی بیٹی نواب سلطان جہاں چونکہ اپنی والدہ سے ناراض تھیں، لہذا انہوں نے ماں کے اس ادھورے کام کو مکمل نہ کیا، ان کے بیٹے نواب حمیداللہ خاں کی ہمت بھی جواب دے گئی اور وہ بھی اپنی نانی کے اس زبردست منصوبے کو تکمیل تک نہ پہونچا سکے۔ پورے پچاس سال بعد 1950ء میں یہ کام جو بادشاہوں نے شروع کیا تھا لیکن ان کے وارث مکمل کرنے سے قاصر رہے۔ بقول مولانا عبدالماجد دریابادی “ایک بوریہ نشیں، علماء کی صف کے صاحب عزم وہمت فردِ فرید کی قسمت میں لکھا تھا کہ وہ اس کام کو پورا کریں لہذا خاندانِ مجددیہ کے چشم وچراغ اور رشد و ہدایت کے مینار حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب مجددی رحمۃاللہ علیہ نے اپنے لائق مرید مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری کو ہدایت کی کہ وہ مسجد کی تعمیر کا کام از سر نو شروع کریں اور مولانا محض اللہ کے بھروسے ندوۃ العلماء لکھنؤ جیسی اہم دینی درس گاہ کے اہتمام کی ذمہ داری چھوڑ کر اپنے مخلص رفقاء کو ساتھ لیکر تاج المساجد کی تعمیر میں مصروف ہوگئے۔ تائید غیبی اور نصرت خداوندی نے ایسا کرشمہ دکھایا کہ اس ویران مسجد میں نہ صرف دارالعلوم تاج المساجد کی بنیاد پڑ گئی بلکہ تعمیر مسجد کا کام بھی شروع ہوگیا اس وقت علامہ سید سلیمان ندوی ریاست بھوپال کے قاضی القضاۃ تھے، آپ کی ہمت افزائی نے بھی شاگرد کے حوصلوں کو جلا بخشی، مولانا عمران خاں نے مسجد کی تعمیر اور دارالعلوم کی تنظیم میں اپنی ساری صلاحیتیں جھونک دیں۔ملک اور دنیا کی سرحدوں کے فاصلے ان کی ہمت کے آگے سمٹ گئے، عرب وعجم، یوروپ وایشیا اور افریقہ تک سارے جہان کا خود سفر کر کے یا اپنے سفیروں کو پہونچا کر مسلمانان عالم کو مسجد کی تعمیر میں شریک کیا یہاں تک کہ 1986ء میں اصحاب خیر کے تعاون سے مسجد تکمیل کو پہونچی، چھتیس سال کی شب روز محنت، ہزاروں کاریگروں و مزدوروں کی مشقت، لاکھوں بندگانِ خدا کے مالی تعاون اور ہزاروں اہل اللہ کی دعاؤں کے طفیل میں دو کروڑ کے سرمایہ سے قدیم و جدید فنِ تعمیر کا یہ پروجیکٹ مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر میں جہاں مساجد کے تمام روایتی خد وخال کا لحاظ رکھا گیا، وہیں اس کی ہئیت کو دلکش بنانے کی بھی پوری کوشش کی گئی۔ مسجد کے مرکزی ہال یعنی جماعت خانے کا رقبہ تقریباً 24 ہزار مربع فٹ، جبکہ چھت اس کے تین گنا حصہ پر پھیلا ہوا ہے، ہر مینارہ کی بلندی 206 فٹ اور قطر تقریباً 28 فٹ ہے اور گنبد40 فٹ پر محیط ہیں۔ مسجد کے شمال وجنوب میں پتھروں کی خوبصورت جالیوں سے آراستہ پردہ نشین خواتین کیلئے دو علاحدہ حصے بھی تعمیر کئے گئے ہیں جو سنگ تراشی کا شاہکار کہے جاسکتے ہیں۔ مسجد کی شہرت اور عظمت کو پوری دنیا میں متعارف کرانے میں یہاں 54 سال تک منعقد ہونے والے تبلیغی اجتماع کا بھی اہم حصہ ہے۔ جس میں ہر سال ہند اور بیرون ہند سے لاکھوں بندگان خدا شرکت کرتے تھے، بحیثیت مجموعی تاج المساجد آج ایشیا کی مایہ ناز مسجد ہی نہیں اپنے بانی اور معمار کے حوصلے نیز فن تعمیر کے شاہکار کا درجہ بھی رکھتی ہے.
بھوپال میں بیگمات کی حکومت ایک صدی سے زائد رہی ہے، اسی مناسبت سے اسے” بیگمات کا شہر” بھی کہا جاتا ہے. ہندوستان کی اس شاہی ریاست پر چار بیگمات نے بڑی لیاقت و فراست سے حکمرانی کی ہیں ۔ (1) نواب قدسیہ بیگم، (2)نواب سکندر جہاں بیگم، (3) نواب شاہجہاں بیگم اور (4) نواب سلطان جہاں کی حکومت کی رہی ہے. آخری نواب بیگم نے بالآخر حکومت کی عنان اپنے بیٹے نواب حمید اللہ خان کے سپرد کی جو کہ بھوپال کے آخری نواب ثابت ہوئے۔ آپ نے 1915ء میں علی گڑھ کالج سے بی۔ اے پاس کیا۔ مئی 1926ء میں والدہ کی تخت سے دستبرداری کے بعد ریاست کی زمام حکومت سنبھالی۔ کئی برس تک ریاستی حکمرانوں کے ایوان “چیمبر آف پرنسز” کے چانسلر رہے۔لندن میں منعقد گول میز کانفرنس میں ریاستی حکمرانوں کی نمائندگی کی۔ مئی 1959ء میں ہندوستانی حکومت نے بھوپال کو اپنی نگرانی میں لے لیا اور نواب صاحب کا وظیفہ مقررکر دیا۔ نواب حمید اللہ خاں روشن خیال حکمران اور بیدار مغز سیاست دان تھے۔ کھیلوں سے بہت شغف تھا۔ پولو کے بین الاقوامی کھلاڑی تھے. (وکیپیڈیا) آج بھوپال ضلع کی مجموعی آبادی 2,371,061 افراد پر مشتمل ہے، آج بھی
بھوپال کے ماحول میں مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ نفرت کی مسموم لہریں محسوس نہیں ہوتیں۔ تقسیم ہند سے پہلے کی طرح ہندو اور مسلمان اب بھی ایک دوسرے کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ شاید وہ بھارت کے بعض دوسرے شہروں میں رہنے والے کچھ لوگوں کی طرح متعصب، تنگ ذہن اور تنگ نظر نہیں ہیں، اپنا بُرا بھلا سمجھتے ہیں، اور شعور رکھتے ہیں۔***

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ