خبریں سیاسی

چار ریاستوں کے انتخابی نتائج سے کانگریس اپنے احتساب کے لیے بہت کچھ حاصل کرسکتی ہے۔

چار ریاستوں کے انتخابی نتائج سے کانگریس اپنے احتساب کے لیے بہت کچھ حاصل کرسکتی ہے۔کیوں کہ ان نتائج کا تعلق فقط ریاستوں سے ہی نہیں بلکہ آنے والے عام انتخابات سے بھی ہے۔ اس لیے پانچ ریاستوں کے نتائج کے مدنظر سیاسی مبصرین بہت سے مسائل ومعاملات کا تجزیہ کریں گے لیکن کانگریس کی شکست کے متعدد ایسے پہلو ہیں جو پارٹی سے سنجیدہ غور وفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔کیوں کہ خانہئ کانگریس کی دیواروں میں پانی بھر چکا ہے:
اندر اندر کھوکھلے ہوجاتے ہیں گھر
جب دیواروں میں پانی بھر جاتا ہے
بلاشبہ ”بھارت جوڑو یاترا“ سے عوامی سطح پر راہل گاندھی مقبول ہوئے۔ انھوں نے بڑی حد تک لوگوں کے دلوں پر دستک دی۔ انھوں نے لوگوں کو سنا اور لوگوں نے انھیں محسوس کیا۔ تقریبا ً 4ہزار کلو میٹر کی یاترا میں راہل گاندھی نے جس دانش مندی کا ثبوت دیا اس سے ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہوا مگرشاید وہ اپنے لیڈروں کے درمیان کوئی مضبوط ساکھ نہیں بناسکے۔ کانگریس کی دیواروں میں پانی بھرا ہوا ہے۔ اس لیے وہ مذکورہ شعر کے مصداق اندر سے کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔ پارٹی کو دو محاذوں پر جنگ درپیش ہے۔ پہلی جنگ یہ ہے کہ وہ کیسے عوامی مقبولیت و حمایت حاصل کرے۔ کیسے وہ ووٹروں سے قریب ہوکر ان کے مسائل کو سمجھے۔ دوسری جنگ آپسی جنگ ہے، جسے خانہ جنگی کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ راہل گاندھی نے بڑی حد تک پہلی جنگ جیتنے کی کوشش کی ہے۔ عوامی مقبولیت نے انھیں اندر سے مضبوط کیا ہے۔ ان کے حوصلوں کو جوان کیا ہے۔
جن پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج سامنے آئے ان میں چھتیس گڑھ اور راجستھان دو ایسی ریاستیں ہیں جہاں کانگریس کو کافی نقصان ہوا۔ اس نقصان کے متعدد وجوہات ہوسکتے ہیں مگر سامنے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس کے اندرون میں اتحاد کی کیفیت نظر نہیں آئی۔چھتیس گڑھ میں وزیر اعلی بھوبیش بگھیل اور سینئر لیڈر ٹی ایس سنگھ کے درمیان جو کشیدگی تھی،نتائج پر اس کا اثر صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ پارٹی کی ساکھ مجروح ہوئی ہی، ساتھ اس کے خاصے مقبول لیڈر وں کوشکست سے دوچار ہونا پڑا۔ بھوبیش بگھیل نے اپنی مدت کار میں کیا کچھ کیا اور کیا کچھ نہیں کیا،یہ الگ سے تجزیے کا موضوع ہے لیکن ٹی ایس سنگھ وزیر اعلی بننے کے لیے جس طرح بیان بازی پر اتر آئے تھے اس سے پارٹی کی ساکھ مجروح ہوئی اور خود بھوبیش بگھیل کی ناکامی سامنے آئی۔
راجستھان کی بات کریں تو وہاں اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کے درمیان گذشتہ پانچ برسوں میں سرد اور گرم جنگ ہمیشہ جاری رہی۔ سچن پائلٹ کے بعض بیانات سے ایسا محسو س ہوتا تھا کہ وہ کانگریس کی حریف پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ نتائج سے کانگریس میں خود کہیں خوشی اور کہیں غم کا ماحول ہوگا۔ دونوں ریاستوں کے معاملات پر یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ راہل گاندھی نے”بھارت جوڑو یاترا“ سے عوام میں یقینا اپنی ساکھ مضبوط کی مگر وہ شاید پارٹی کے آپسی معاملات حل کرنے میں ناکام رہے۔کانگریس کی ناکامی میں خانہ جنگی بھی ایک اہم وجہ ہوسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے لیے عوامی مقبولیت، کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوپارہی ہے۔بی جے پی کے آپسی معاملات بھی بہت اچھے نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ 2014کے عام انتخابات سے پہلے جس طرح وزیر اعظم امیدوار کے لیے رسہ کشی جاری تھی، کم وبیش وہی صور ت حال آج بھی ہے مگر پارٹی نے اس معاملے کو عوامی بنانے سے احتراز کیا۔ اس لیے پارٹی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہ چلنے کے باوجود ہمیں بہت کچھ ٹھیک نظر آرہا ہے۔ کانگریس کے یہاں وزیر اعظم امید وار کا کوئی مسئلہ نہیں مگر وزیر اعلی بننے کے لیے چہروں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔ پھر یہ چہرے وقتاًفوقتاً اپنے الگ الگ چہرے دکھاتے ہیں جن سے بڑے پیمانے پر پارٹی کا نقصان ہورہا ہے۔
”بھارت جوڑو یاترا“نے جہاں راہل گاندھی کو بڑی حد تک سنجیدہ بنایاوہیں وہ بہت زیادہ مقبول ہوئے لیکن اب شاید وہ عوامی مقبولیت کی بھوک میں مبتلا ہوگئے۔انھوں نے کسانوں کے ساتھ دھان بونا شروع کردیا۔ پھر وہ قلی کا کردار نبھانے لگے، انھوں نے ٹرک کا سفر کیا۔ٹریکٹر سے کھیت جوتنا شروع کردیا؛ان سب سے انھوں نے اخباروں میں شہ سرخیاں ضروربٹوریں اوروہ لوگوں سے قریب ہوئے مگر انھوں نے جس تواتر سے یہ کام شروع کردیا اس سے ان کی ساکھ کسی نہ کسی سطح پر کمزور ہونی لگی ہے۔ تصنع اور ڈرامائی کیفیت کا احساس ہورہا ہے۔ قلیوں سے ملنا اور ان کے مسائل سننا بلاشبہ ایک اچھے لیڈر کی علامت ہوسکتی ہے مگر فی الفور قلی کے لباس زیب تن کرلینا سنجیدگی کی نفی کرتا ہے۔ کسانوں کے مسائل پر مسلسل بولنا اور ان سے ملنا یقینا ایک لیڈر کی ہم دردی ظاہر کرتا ہے مگر مسائل سننے کے ساتھ فورا ً دھان بونا شاید قابل قدر عمل نہیں۔ ان کے یہ اعمال سادگی اور سنجیدگی کی طرف اشارہ نہیں کرتے ہیں۔ رہی بات شوق کی تو کبھی کبھار ایسا عمل محمود ہوسکتا ہے مگر سماج کے مختلف طبقات سے ملنے کے بعدان کے پیشے میں شامل ہوجانا کوئی اچھی بات نہیں لگتی۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ راہل گاندھی نے ”بھارت جوڑو یاترا“سے جو مقبولیت حاصل کی انھیں سنبھال کررکھنا پارٹی کے حق میں مفید ہوسکتا ہے۔ پھر اس مقبولیت کو انتخابی کامیابی سے جوڑ نے کے لیے احتساب کرنا ہی دانش مندی ہوسکتی ہے۔کیوں کہ ایک سیاسی لیڈر کی عوامی مقبولیت کا رشتہ انتخابی کامیابی سے مضبوط ہوتا ہے۔پانچ ریاستوں کے انتخاب کے نتائج شاہد ہیں کہ راہل کی عوامی مقبولیت کامیابی کے قدم چومنے کے لیے تیار نہیں۔
یہاں دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال کو بطور مثال پیش کیا جاسکتاہے۔ ان کے اندر عوام میں مقبول بن جانے کا”اصول“ اور عوامی ہم دردی حاصل کرنے کاہنر بدرجہ اتم موجود ہے۔ انھوں نے اپنا سیاسی سفر جس ڈرامائی انداز سے شروع کیا اور لوگوں کے دلوں پر جس طرح دستک دی وہ ہمارے سامنے ہے۔ کجریوال نے شروع میں دھرنوں اور مظاہروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ان کے ذریعے عوامی مقبولیت حاصل کی۔ اس مقبولیت کو انھوں نے انتخابی کامیابی سے جوڑا۔ پھر وہ دھرنوں سے دور ہوگئے اور انھوں نے اصلی سیاست داں کا چولا اوڑھ لیا۔ راہل گاندھی کا یہ امتحان ہے کہ وہ ”بھارت جوڑو یاترا“کی مقبولیت سے سنجیدہ رشتہ قائم رکھ پاتے ہیں یا نہیں؟ عوامی مقبولیت کی بھوک میں وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں یا پھر حالات کے مدنظر کجریوال کے رویوں کو بھی سامنے رکھتے ہیں؟ کیوں کہ موجودہ نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ عام انتخاب کی فضا کیسی ہوگی اورکس طرح یہ میدان مارا جاسکتا ہے۔
سیاسی مبصرین تسلیم کرتے ہیں کہ دیگر ریاستوں کے مقابلے راہل گاندھی نے تیلنگانہ میں سنجیدگی کا زیادہ مظاہرہ کیا۔ان کی اس سنجیدگی سے یہاں کی کامیابی عبارت ہے۔ پھر ان کی عوامی مقبولیت سے کرناٹک میں انقلاب آیا تھا۔ گویا اس طرح ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ راہل کی سنجیدگی اور عوامی مقبولیت کا فائدہ کانگریس کو جنوبی ہند میں ضرور ہوا مگر شمالی ہند میں ان کی مقبولیت کام نہیں آئی۔ اس صورت حال میں ان دونوں خطوں کے لیے الگ الگ خطوط پر کام کرنا کانگریس کی سیاسی پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ دونوں خطوں کی ذہنیت اور مسائل الگ الگ ہیں۔ ساتھ ہی عوامی مقبولیت اور آپس کے نزاعی پہلوؤں پر احتساب لازمی ہے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ