کالم نگار

سفراء مدارس کا احترام کریں از محمد ہاشم القاسمی

جی این کے اردو، 3/جون 2023

*سفراء مدارس کا احترام کریں *

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال) 

فون نمبر :=9933598528 

سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد اسلام کی ڈوبتی نیاں کو پار لگانے کے لیے ہندی مسلمانوں کی دینی، علمی و فکری رہنمائی کے لئے جن بندگانِ خدا نے توجہ اور فکر کی، انہیں تاریخ “اکابرِ دیوبند” کے نام سے جانتی ہے، ان اکابرین کی روحانی بصیرت میں مدارس ہی ایک ایسا فکری کارخانہ تھا جن کا باز آباد کاری تحفظ اسلام کے لئے تسلسل کے ساتھ افرادی قوت فراہم کرنے کا واحد ذریعہ تھا، جو اسلام کی ترجمانی اور دفاع کا فریضہ پوری قوت اور دینی غیرت وحمیت کے ساتھ انجام دینے کے اہل تھے اور چونکہ یہ مدارس حکومت کے تعاون کے اثر سے آزاد ہونے کی وجہ سے انہیں یقین تھا کہ کوئی طاقت ان کے ضمیر کا سودا نہیں کر سکیں گے، اسی جذبہ کے تحت دارالعلوم دیوبند اور مختلف مدارس کا قیام عمل میں آیا، اور چونکہ اس کوشش کے پیچھے ان اکابرین کا بھر پور اخلاص کا جذبہ کار فرما تھا، اس لئے یہ پودے تناور ہوتے گئے اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی اس کے اثرات محسوس کئے جانے گئے۔

 برِصغیر ہند و پاک میں خاص طور پر 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد حکمران برطانوی سامراج نے مدارس ومساجد کو ویران کرنے کی کوشش کی تو یہی علماء اور صوفیاء آگے بڑھے، انہوں نے مدارس و مساجد کو آباد کیا اور صاحبِ حیثیت اور با ثروت مسلمانوں نے انہیں مالی اعانت کی۔ اِن دونوں طبقوں کے جہاد بالنفس، اور جہاد المال، کی بدولت فروغ علم دین اور اشاعتِ اسلام کا کام جاری رہا ۔

 آج اس ملک کی زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے جتنے دینی و علمی ادارے اپنے فیوض و برکات سے لاکھوں بندگانِ خدا کو سیرابی بخش رہے ہیں وہ اکثر و بیشتر انھیں اکابر علماء دیوبند کے اخلاصِ بیکراں، شبانہ روز کی محنتِ شاقہ، عدیم المثال فہم و بصیرت اور دور اندیشی و باطن کی بصیرت کا عکسِ جمیل ہیں۔

کوئی کچھ بھی کہ لیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی بقا کا واحد ذریعہ مدارس اسلامیہ ہی ہیں۔ مدارس ہیں تو مساجد آباد ہیں، پوری دنیا میں دعوت و تبلیغ کا نظام مدارس کے دم سے قائم ہے، مدارس ہے تو خانقاہیں ہیں، مدارس ہیں تبھی ملی جماعتیں اور تنظیمیں ہیں، مدارس ہیں تبھی یونیورسٹیوں اور کالجوں تک میں دین زندہ ہے اور دینی حوالے سے باشعور افراد پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس ٹوٹے پھوٹے نظام کے ساتھ بھی مدارس اسلامیہ ملت کا سب سے بڑا اور قیمتی اثاثہ ہیں ۔ جس دن ہندوستان میں ان مدارس کا وجود ختم ہوا تو کفر والحاد کی آندھیوں سے اپنی نسلوں کو محفوظ رکھ پانا مشکل ہو جائے گا۔ اسی لیے ہر محاذ پر اسلام دشمن طاقتوں کی آنکھوں میں مدارس اسلامیہ ہی شہتیر کی طرح چبھ رہے ہیں۔ 

 مدارس اسلامیہ مسلمانوں کے دین ایمان کے تحفظ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ پچھلے ڈیڑھ سوسال میں ان مدارس نے نہایت خاموشی کے ساتھ وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو بڑی سے بڑی تنظیم اور بڑے سے بڑا ملک انجام نہ دے سکا، جب کہ حالت فقر و فاقہ میں مدارس اسلامیہ کے علماء کرام اپنا بھی ایمان بچاتے ہیں اور اپنی ذات سے وابستہ سیکڑوں افراد کے ایمان کی سر حد پر جواں مردی کے ساتھ پہرے بھی دیتے ہیں،  

حضرت مولانا شاہ سید اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے میرٹھ کے ایک جلسہ میں فرمایا تھا کہ “تم علما کو اپنا محتاج سمجھتے ہو تو ان کو (چندہ) دینا بند کر دو، جلسہ کرکے سب لوگ اتفاق کرلو (اور) اپنی امداد روک لو۔ الحمدلله ہم کو کچھ پرواہ نہیں، ہم میں سے کچھ چاول کی دکان کرلیں گے کچھ آٹا دال کی، کچھ اور چیزوں کی، مگر اس حالت میں تم اپنی اور اپنی اولاد کی فکر کرو، پچاس سال بعد تمہاری اولاد کا کیا حشر ہوگا۔؟ کچھ یہودی ہو گی، کچھ نصرانی، کچھ آریہ، معاذالله ! کیونکہ ان آفات سے مانع(روکنے والی) دینی تعلیم ہے اور اس صورت میں علماء تعلیم کے لیے فارغ نہ ہوں گے، ان کے پاس پڑھانے کا وقت نہیں ہو گا وہ اپنی دکان پر بیٹھے ہوں گے۔” ( العلم والعلماء /86)

 دنیا کا سب سے مشکل ترین کام دوسرے کی جیب سے مال نکال کر بے یار و مددگار ملت اسلامیہ کے نونہالوں اور مستقبل کے رازی و غزالی کے لیے کام کرنا ہے، یہاں سب سے پہلے اپنے نفس کو مارنا پڑتا ہے، جذبات کو دفنانا پڑتا، غصہ کو پینا پڑتا ہے، اور اپنی غیرت کو کچلنا پڑتا ہے۔ 

 تب جا کر اس سلسلے میں اہل مدارس عوام کو ذمہ دار مانتے ہوئے شکوہ کرتے ہیں، کہ سفراء مدارس کی خستہ حالی کے ذمہ دار مسلم عوام ہیں، لیکن دراصل ان کی اس بد گمانیوں کی اصل وجہ کچھ غیر مصدقہ مدارس کے سفرا کی بد دیانتی، اور بے اصولی رہی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر عوام نہ صرف سفراء مدارس کے قدر دان ہیں، بلکہ تاجروں کی بڑی تعداد عملی طور پر بھی ہر زمانے میں مدارس، مکاتب، مساجد، مقابر، دینی مجالس کے تعاون میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہے، اور سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں تمام رفاہی کام انھی مسلم تاجروں، دنیا داروں اور خیر خواہوں کی ہی مرہون منت ہیں۔

مدارس میں پائی جا نے والی امانت داری اور احتیاط پر حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی کی تحریر کا ایک اقتباس ذیل میں نقل کیا جاتا ہے”راقم السطور ایک صاحب ثروت انگریزی داں طبقے اور مدارس اور اہل مدارس دونوں طرح کے لوگوں کے بہت قریب رہنے اور غور کرنے کے بعد بہت ذمہ داری سے یہ با ت کہہ سکتا ہے کہ اما نت و دیانت اور اللہ کے یہاں جوا ب دہی کے سلسلہ میں، گئے گزرے سے گزرا ایک عالم دین جس قدر حساس ہوتا ہے، دوسرا محتاط سے محتاط غیر عالم نہیں ہو سکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ تمام فرمان جو حقوق العباد کے سلسلہ میں کوتاہی اور خیانت کے سلسلہ میں ہیں، اس کے سا منے ہیں، وہ اپنا اثر ضرور دِکھاتے ہیں۔

 دیانت و امانت کے سلسلے میں اہل مدارس کی طرف سے اس غلط فہمی کے سلسلے میں راقم السطور ایک با ت اکثر عرض کیا کرتا ہے کہ یہ حقیر سال کے شب و روز سفر میں گزارتا ہے اور یہ سفر اکثر اہل مدارس کے حکم پر مدرسوں میں حاضری کے عنوان سے ہی ہوتے ہیں، کسی مدرسے میں حاضری ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر ایک پلاٹ لے کر چھپر یا ٹین کے شیڈ ڈال کر شروع کردیا گیا ہے، دوسری بار حاضری ہوئی تو معلوم ہو تا ہے کہ بلڈنگ بن گئی ہے، اور دوسرے پلاٹ کا بیعانہ دے دیا گیا ہے، تیسری بار حاضری ہوئی تو معلوم ہوتا ہے کہ استنجا خانہ اور مطبخ وغیرہ بن گئے ہیں، غرض سینکڑوں میں کوئی ایک دو مدرسے ایسے ہوتے ہیں، جو سالوں سال اپنی حالت پر باقی رہتے ہیں۔

  مسلسل بڑھتی مہنگائی کے دور میں سالانہ اخراجات پورا کرنے کے بعد، مدرسوں میں یہ ترقی اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ مدرسے میں جو چندہ دیا جاتا ہے وہ دیانت کے سا تھ لگایا جاتا ہے، اس کے باوجود یہ ذہن بنا لینا کہ دیانت وامانت کے سلسلہ میں ذمہ دارانِ مدارس میں نہ صرف یہ کہ احتیاط نہیں ہے، بلکہ بے حسی ہے، کیسا بڑا ظلم ہے؟”(ماہنامہ ارمغان پھلت، جولائی ۲۰۱۳ء)

 علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی فرد یا جماعت کی دینی یا دنیوی ضرورتوں میں تعاون تین طرح سے کیا جاسکتا ہے، پہلی صورت یہ ہے کہ از خود ضرورت مند کی ضرورت پوری کردی جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ کسی سے اس کی ضرورت پوری کرنے کی سفارش کردی جائے، اور تیسری صورت یہ ہے کہ کسی ایسے آدمی کی نشاندہی کردی جائے جو اس کی ضرورت پوری کر سکتا ہو، الغرض تعاون کرنے والا بہر صورت ثواب کا مستحق ہوتا ہے. 

 رمضان المبارک کے پر بہار موقع پر صاحب ثروت، علم دوست اور دینی درد رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ سفراء مدارس کا احترام کریں سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکیں، تمام مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے سفراء کے ساتھ جو حقیقی معنوں میں مدارس اسلامیہ کی خدمت کرتے ہیں، مہمانوں جیسا سلوک کریں، علماء کرام ہندوستان کے کونے کونے سے شہر دہلی، ممبئی، کولکاتہ، چنئی، گجرات، بنگلور، پونہ، بھوپال، پٹنہ، رانچی، جمشید پور وغیرہ کا سفر کرتے ہیں، تعب و تھکن کے باوجود رمضان میں روزہ کی حالت میں در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، اس کے بعد کبھی انہیں کل بلایا جاتا ہے تو کبھی پرسوں پر ٹالا جاتا ہے اور کبھی تو بلا کر بھگا دیا جاتا ہے، دھتکار دیا جاتا ہے، ذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا جاتا ہے. الحفیظ الامان. 

 تجربہ شاہد ہے کہ جب تک آپ مدارس میں چندہ دیتے ہیں سفراء آپ کے یہاں حاضری دیتے ہیں کل دینا بند کردیں کوئی نہیں جائے گا اس لئے کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ جب بھی کوئی مدارس کے سفیر آپ کے یہاں جائے انہیں فوراً چندہ دیکر شکریہ کے ساتھ رخصت کردیں کہ یہ تو آپ کا احسان ہے کہ آپ ہماری زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ہمارے پاس آئے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنی زکوٰۃ خود آپ تک پہنچا دیتے، لیکن ہماری سستی اور کوتاہی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو پایا، ایک مہتَم بالشان فریضے کی ادائیگی میں آپ نے ہمارا تعاون کیا اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے. موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آنے والے بیس سے پچیس سال ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے مزید مشکلات بھرے ہو سکتے ہیں۔ بہرحال یہ بات بھی ہر صاحب ایمان کو معلوم ہے کہ اسلام کے روز اول سے آج تک متعدد اوقات میں مختلف طریقوں سے ظاہری اور باطنی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی ناگفتہ بہ حالات کا مسلمانوں کو سامنا رہا ہے۔ جس وقت جیسے مناسب لگا اللہ کی توفیق سے مسلمانوں اور علماء نے ان کا مقابلہ کیا اور حالات سے نکل کر آگے بڑھتے رہے۔ آج کی تاریخ میں ہندوستان کے مسلمان مسائل کے شکار ہیں لیکن مجموعی طور پر دنیا بھر میں دین اسلام کا بول بالا ہے اور مقبول ترین مذہب کے طور پر ابھر رہا ہے. 

 واضح رہے کہ مدارس کے لئے عوام کا چندہ یا مسلمانوں کے سماجی اور رفاہی کاموں کے لئے مسلمانوں کے صدقات، عطیات اور زکوٰۃ ہی اصل ذرائع آمدنی ہیں، جس کی وجہ سے یہ تمام ادارے اور تنظیمیں اپنے اپنے اغراض ومقاصد کے اعتبار سے خدمات انجام دے پاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں یہ اچھی طرح سے سمجھنا پڑے گا کہ مسلم مخالفین مائکرو پلانگ یعنی باریک بینی کے ساتھ منصوبہ بندی کے ذریعہ مدارس اور مسلمانوں کے غیر سرکاری اداروں کے ذرائع آمدنی پر مستقل ضرب کاری کی کوششیں کر رہے ہیں۔ چنانچہ عوام کا ایک بڑا طبقہ جو پہلے کھل کر اور زیادہ سے زیادہ تعلیمی ورفاہی کاموں میں تعاون کرتا تھا، اب وہ متعدد وجوہات کی بنا پر خاطر خواہ تعاون سے کترا رہا ہے. اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ موجودہ حالات بعض جہتوں سے تقریباََ اسی طرح ہیں جو برطانیہ کے غلبہ کے وقت پیدا ہوئے تھے، آج بھی اسلامی تشخصات کو نقصان پہنچانے کی سعی سیاسی پارٹی ہی نہیں بلکہ خود حکومت کی طرف سے اعلانیہ طور پر کی جا رہی ہے، مسجدوں کو صنم خانوں میں بدلنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے، اسلامی شعار کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، شہروں، محلوں اور سڑکوں کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں، ملک کی تاریخ از سر نو لکھی جا رہی ہے، افسوس کہ جس قوم نے ملک کی آزادی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں، اُن سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ مانگا جا رہا ہے، علماء ومدارس جو آزادی کی لڑائی میں پیش پیش تھے، ان کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کئے جا رہے ہیں، اور جن لوگوں کو آزادی کی لڑائی میں ایک کانٹا بھی نہیں چبھا، اُن کو ملک کا ہیرو قرار دیا جا رہا ہے، اس لئے یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں مدارس کی جو ضرورت واہمیت تھی، آج اس سے بڑھ کر ہے، اس لئے مدارس کا تحفظ، ان کا استحکام اور ان کو مفید تر بنانے کی کوشش پوری ملت اسلامیہ ہند کا فریضہ ہے۔***

   Photo from Md Hashim Alqasmi

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ