جی این کے اردو 2 جولائی 2023
یکساں سول کوڈ اور مسلم تنظیموں کا موقف *
محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال. رابطہ 9933598528
آزادی کے بعد جب ہندوستان کا آئین و دستور بنایا گیا تو اس وقت سبھی شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ بنایا گیا تھا لیکن اس وقت مسلم رہنماؤں نے اس کی یہ کہہ کر سخت مخالفت کی تھی کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے مسلم پرسنل لاء میں سراسر مداخلت ہوگی جو ہمیں کسی طرح قابل قبول نہیں.
جمیعۃ علماء ہند کی شدید مخالفت کے سبب اسے آئین میں شامل تو نہیں کیا گیا، لیکن اسے آئین کے رہنما اصولوں میں یہ کہہ کر باقی رکھا گیا کہ وقت کے ساتھ مستقبل کی حکومتیں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کی رائے ہموار کرکے ان کو تیار کریں گی۔
چنانچہ وزارت قانون و انصاف کی جانب سے بھیجے گئے یکساں سول کوڈ کی جانچ 22 واں لاء کمیشن آف انڈیا کر رہا ہے۔
ابتدائی طور پر ہندوستان کے 21 ویں لاء کمیشن نے یکساں سول کوڈ کے موضوع کا جائزہ لیا تھا اور 7.10.2016 کو ایک سوالنامہ کے ساتھ اپنی اپیل اور مزید عوامی اپیلیں/نوٹس کے ذریعہ 19.03.2018، 27.03.2014 اور 10.4.2018 کو تمام شراکت داروں سے یکساں سول کوڈ کے بارے میں آراء اور خیالات طلب کی تھیں ۔ ان اپیلوں اور نوٹس کے بعد ، لا کمیشن کو زبردست رد عمل موصول ہوئے ہیں۔ 21 ویں لاء کمیشن نے 31.08.2018 کو “عائلی قوانین کی اصلاحات” پر مشاورتی دستاویز جاری کیا تھا ۔ چونکہ مذکورہ مشاورتی دستاویز کے اجراء کی تاریخ سے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اس لیے موضوع کی مطابقت اور اہمیت اور اس موضوع پر عدالت کے مختلف احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہندوستان کے 22 ویں لاء کمیشن نے اس موضوع پر از سر نو غور و خوض کرنا شروع کر دیا ہے ۔
اسی مناسبت سے، ہندوستان کے 22ویں لاء کمیشن نے یکساں سول کوڈ کے بارے میں وسیع پیمانے پر عوام اور تسلیم شدہ مذہبی تنظیموں سے آراء اور خیالات طلب کرنے کا دوبارہ فیصلہ کیا۔
آزادی کے 75 برس بعد اب بی جے پی کے اقتدار والی کئی ریاستیں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی طرف قدم بڑھا رہی ہیں۔ 1980 میں جب بی جے پی موجودہ شکل میں قائم ہوئی تھی تو اس نے ایودھیا میں رام مند کی تعمیر اور کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو بھی اپنے بنیادی مقاصد کے منشور میں شامل کیا تھا۔
بی جے پی اپنے منشور کے ابتدائی دو مقاصد حاصل کر چکی ہے اور اب صرف یکساں سول کوڈ کا نفاذ باقی بچا ہے جسے وہ مکمل کرنے کے لئے ماہی بے آب کی طرح چھٹ پٹا رہی ہے.
بی جے پی کا نعرہ ہے ’ایک ملک ایک قانون‘۔ اس نعرہ کے پس پردہ عزائم کا جمعیتہ العلما ہند اور مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی مضبوط مسلم تنظیمیں یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کا اعلان کر کے پہلے ہی کر چکی ہیں۔
اور صاف صاف کہہ دیا ہے کہ حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ لانے کی کوشش سے ملک میں خلفشار پیدا ہو گا اور ہم متحد ہو کر حکومت کے فیصلے کی مخالفت کریں گے ۔
ہمارا متحدہ موقف ہے کہ دستور ہند میں سب کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کا حق حاصل ہے.
در اصل یکساں سول کوڈ، جس کے تحت، شادی بیاہ، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے عائلی قوانین کو بلا تفریق مذہب و ملت یکساں بنانا ہے۔
ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اپنی شریعت اور مذہبی ہدایات کے خلاف نکاح و طلاق جیسے معاملات انجام دینا ہوں گے، وصیت اور وراثت کے معاملہ میں بھی شرعی اور مذہبی قانون کے بجائے دوسرے قوانین پر عمل کرنا ہوگا، اسی طرح دوسرے مذہب اور رسم و رواج کے پابند لوگوں کو بھی اپنا مذہب چھوڑنا ہوگا، اپنے رواج کو مٹانا ہوگا اور نئے قانون کا پابند ہونا پڑے گا۔ اس طرح ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘ واضح طورپر ’’مسلم پرسنل لا‘‘ سے مختلف ایک قانون ہے۔ جس کے نفاذ کے بعد ہندوستان میں ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
لاء کمیشن آف انڈیا نے 14جون2023 کو اپنے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعہ عوام سے اور تسلیم شدہ مذہبی تنظیموں سے یکساں سول کوڈ کے تعلق سے رائے طلب کی ہے، رائے دہی کے لئے تیس دنوں کا وقت دیا ہے،14جولائی کومتعینہ تاریخ ختم ہوجائے گی۔ لا کمیشن کا یہ اقدام بالکل غیر ضروری اور سبھی مذاہب اور طبقات کے لیے پریشان کن ہے، اور اس سے ملک میں افتراق اورا نتشار کی کیفیت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، اس لیے مسلم تنظیمیں چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آراء یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت میں وہاں پہونچیں اور لوگ یکساں سول کوڈ کے خلاف بڑھ چڑھ کر اپنا اعتراض درج کرائیں۔ مسلم تنظیموں نے ائمہ کرام سے اپیل کی کہ جمعہ کے خطاب میں اس موضوع کو شامل فرمائیں اور امت میں بیداری لانے کی کوشش کریں۔مسلم تنظیموں کی جانب سے اس کام کے لیے ایک ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے، اسے فوری طور پر ای میل کے ذریعے لا کمیشن کو بھیجیں تاکہ یہ کام بڑے پیمانے پر انجام پا سکے۔ مسلم تنظیموں کی جانب سے با اثر اور آئمہ مساجد سے اپیل کی ہے کہ لوگوں کو بتائیں کہ یکساں سول کوڈ نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ تمام مذاہب اور طبقات کے لوگوں کے لئے نقصان دہ اور ان کی آزادی اور پرسنل لاء پر حملہ ہے، اس لئے ایک ہندوستانی شہری ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم یکساں سول کوڈ کی مخالفت کریں اور لا ء کمیشن کے سامنے اپنا احتجاج درج کرائیں۔
اس سلسلہ میں مفکر ملت حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی دامت بارکاتہم امیر شریعت امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکی ہدایت پر اس مہم سے گاؤں گاؤں کے باشندوں کو جوڑنے کیلئے امارت شرعیہ نے بہار اڈیشہ بنگال وجھارکھنڈ کے ہر ضلع میں بیداری مہم چلارہی ہے اورجگہ جگہ میٹنگ منعقد کرانے کاسلسلہ جاری کیا گیا ہے جس میں مرکزی دفتر امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے ذمہ داران کی شرکت ہو رہی ہے۔ امارت شرعیہ نے ضلع اور بلاک سطح کے ذمہ داران اور ائمہ کرام سے گذارش کی کہ مقامی نوجوانوں کی ہر گاؤں میں ایک ٹیم بنا دیں جو امارت شرعیہ کی نگرانی میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ای میل بھجوانے کا کام کریں. دوسری جانب بڑے پیمانے پر نیم سرکاری یا غیر سرکاری سطح سے مختلف قسم کے اجتماعات کے ذریعہ یونیفارم سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کی ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے ۔ اعتدال پسند اور انتہا پسند قسم کے چھوٹے چھوٹے گروپ بھی تیار ہوچکے ہیں، جو براہ راست یا بالواسطہ یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی جدوجہد کر رہے ہیں، ایسی انجمنیں بھی بن چکی ہیں، جن کا بنیادی موضوع یہی مسئلہ ہے، ایسے افراد، گروپس اور انجمنیں خواہ انھیں مسلم عوام اور قرآن و سنت سے واقف حضرات کا تعاون حاصل نہ ہو اور ان کی آواز مسلم معاشرہ سے بالکل الگ ایک آواز ہو مگر یہ قوتیں اپنی سطح پر کام کر رہی ہیں اور انھیں یہ کہتے ہوئے ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ہمارے ساتھ ہے۔ خود حکومت کے ذمہ داران کا ذہن بھی یونیفارم سول کوڈ کے ساتھ ہے، اور مختلف موقعوں پر ان حضرات کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے ارادوں کا اظہار ہوا ہے، مثلاً جب ہندو پرسنل لا کو نئی شکل دی جارہی تھی تو اس وقت کے مرکزی وزیر قانون مسٹر پاٹسکر نے کہا تھا۔ ’’ہم نے آئین کے نفاذ 26؍جنوری 1950 کے بعد اسپیشل میریڈ ایکٹ ہندو میریج ایکٹ پاس کیے ہیں
1963 حکومت نے ایک کمیشن مقرر کرنا چاہا تھا، جس کا مقصد مسلم پرسنل لا میں تبدیلی پر غور و فکر اور اس کے لیے عملی راہوں کی تلاش تھی ، مسلمانوں کی ہمہ گیر مخالفت کے نتیجہ میں یہ کمیشن مقرر نہیں کیا گیا۔ اور وزیر قانون نے پارلیمنٹ میں یہ کہہ کر بحث ختم کردی تھی کہ حکومت اس وقت (مسلم پرسنل لا) میں کوئی ترمیم کرنا مناسب نہیں سمجھتی۔ یہ جملہ خود بتارہا ہے کہ مسئلہ ختم نہیں ہوا، نہ پالیسی میں فرق آیا، حالات سازگار نہیں ہیں، اس لیے اس پالیسی پر عمل نہیں ہوگا 1972 ء میں مرکزی وزیر قانون مسٹر گوکھلے نے پھر اس پالیسی کا اعادہ کیا تھا اور انھوں نے Adoption ofChildren Bill 1972 (متبنیٰ بل)کو پیش کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ. ’’یہ مسودہ قانون ’یونیفارم سول کوڈ‘ کی طرف ایک مضبوط قدم ہے‘‘۔ مختلف وزراء قانون کے بیانات حکومت کی پالیسی کی نشاندہی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ حکومت ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘ کے سلسلہ میں دستور کے ’’رہنما اصول‘‘ کا پورا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، اور حکومت کی خواہش ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے لیے ہر فرقہ و طبقہ کا ذہن تیار ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر کچھ ایسے حضرات بھی موجود ہیں جن کا ذہن رائے عامہ کے احترام سے خالی ہے اور جو قوت کے سہارے یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنا چاہتے ہیں
آر ایس ایس، بجرنگ دل اور بی جے پی حکومت مسلسل ’یونیفارم سول کوڈ‘ کے نفاذ کی خواہش مند رہی ہے اور ایک عرصہ سے ملک کا ایک طبقہ جس میں بڑی تعداد ہندوؤں کی ہے اور کچھ مسلمانوں کی، اسے نافذ کرنے کے لیے ذہن سازی کی پوری کوشش کررہا ہے۔ کچھ لوگ انتہاپسندوں کی شکل میں قوت کے سہارے ’’یونیفارم سول کوڈ‘‘ کے نفاذ کا مشورہ دیتے ہیں، کچھ لوگ اصلاح کے نام پر اس کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں اور بعض حضرات ناصح و مشفق بن کر حالات کے تقاضوں کی رعایت کی سفارش کرتے ہیں، لیکن یہ سارے طبقے جو مختلف قسم کے مشورے دے رہے ہیں، وہ سب کے سب ایک ہی منزل کے راہی ہیں، ہر ایک کی تجویزیں الگ ضرور ہیں، ان کے لب و لہجہ میں فرق بھی دیکھنے کو ملتا ہے، ان کے دلائل بھی مختلف ہیں لیکن جب گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے تو یہی عقدہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ ان سب کا مقصد ایک ہے اور دیر یا سویر یہ سب ایک ہی جگہ پہنچ جائیں گے. ***