جی این کے اردو
2/ جنوری 2023
خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کی صحت یابی کے لئے دعا فرمائیں*
محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل نمبر:= 9933598528
خادم القرآن، حضرت مولانا غلام محمد وستانوی مدظلہ ان دنوں سخت علیل چل رہے ہیں، ہر جگہ ان کی صحت یابی کے لئے اجتماعی اور انفرادی دعاؤں کا اہتمام کیا جا رہا ہے، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم نے ان کے لڑکوں کے نام تحریری عیادت فرائی ہیں. جس میں انہوں نے لکھا. “عزیزانِ مکرم جناب مولانا حذیفہ وستانوی و جناب مولانا اویس وستانوی صاحبان سلمکم اللہ ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.
آپ کے واٹسپ اور سوشل میڈیا سے والد بزرگوار اور ہمارے شوریٰ کے اہم رکن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی مدظلہ العالی کی مسلسل علالت کی اطلاع مل رہی ہیں اس سلسلہ میں میری فون پر بھی گفتگو ہو چکی ہے، حضرت کی مسلسل علالت سے تشویش ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے آپ کے سایہ کو ادارہ اکل کنواں کو اور دیگر سینکڑوں اداروں پر قائم و دائم رکھے. دارالعلوم میں بھی حضرت کی صحت یابی کے لئے دعا کرائی جا رہی ہے. حضرت کے مفید مشورے اور آپ کی سرپرستی مجلس شوریٰ میں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اور آپ کے پائدار فیصلے ادارے کو قوت اور استحکام فراہم کرتے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ حضرت کو مکمل صحت عطا فرمائے، اور آپ آنے والے شوریٰ کے اجلاس میں صحتیابی کے ساتھ شرکت فرما کر مفید مشوروں سے نوازیں. والسلام ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند. ٢٣/١/٢٠٢٣ء “.
حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب مدظلہ نے بھی ایک ویڈیو پیغام میں حضرت کی جلد صحت یابی کے لئے دعاؤں کے اہتمام کرنے کی درخواست فرمائی ہیں. ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد صحت یاب فرما کر علم دین کی خدمت اور ترویج و اشاعت اسلام کے لئے آپ کے سایہ کو امت مسلمہ کے سروں پر تادیر قائم رکھے آمین.
خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کی پیدائش 1 جون 1950ء کو ایک چھوٹا سا گاؤں “وستان” سورت، گجرات میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد اسماعیل ہے۔ مولانا محمد غلام وستانوی صاحب نے قرآن مجید اپنے وطن “کو ساری” ہی کے مدرسہ قوۃ الاسلام میں پڑھا، اس کے بعد آپ اپنے نانیہال “ہتھورن” سورت، گجرات اور مدرسہ شمس العلوم بڑودہ میں ابتدائی کتابیں مختلف اساتذۂ کرام سے پڑھیں۔ 1964ء میں گجرات کے مشہور ومعروف مدرسہ فلاح دارین ترکیسر میں داخل ہوئے اور مسلسل آٹھ سال رہ کر 1982ء کے اوائل میں سند فراغت حاصل کی۔ ان کے اساتذۂ کرام فلاح دارین ترکیسر میں حضرت مولانا احمد بیمات، مولانا عبد اللہ کاپودروی، مولانا شیر علی افغانی اور مولانا ذو الفقار علی رحمھم اللہ جیسے نامور علماء شامل ہیں۔ مدرسہ فلاح دارین سے فراغت کے بعد مزید علمی پیاس بجھانے کے لیے 1982ء کے اواخر میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور تشریف لائے ۔ وہاں حافظ حدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃاللہ سے صحیح البخاری اور دیگر اساتذۂِ دورۂ حدیث سے دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھ کر 1973ء میں سند فراغت حاصل کی۔
فراغت کے بعد گجرات کے قصبہ “بوڈھان” (سورت ضلع کے ایک گاؤں) میں انہوں نے کل دس دن پڑھایا، اس کے بعد 1973ء کے اواخر میں دار العلوم کنتھاریہ (بھروچ) تشریف لے گئے اور وہاں ابتدائی فارسی سے لے کر متوسطات تک کی مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھائیں۔کنتھاریہ کے زمانۂ قیام ہی میں 1980ء میں جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کی بنیاد ڈالی، جس کی ابتدا ’’مکرانی پھلی محلہ‘‘ سے کی گئی، ابتدا میں ان کا قیام کنتھاریہ میں ہی رہا، اس دوران مولانا یعقوب خانپوری (ناظم مکاتب و ناظم تعمیرات) اور ان کے برادر حافظ محمد اسحاق (نائب مہتمم) نظامت سنبھالتے رہے۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ یہاں رہتے ہوئے مکمل نظم وضبط دشوار ہوگا تو پھر استعفی دے کر مستقل اکل کوا تشریف لے آئے، جب سے اب تک رئیس الجامعہ کے عہدے پر فائز ہیں۔جامعہ اکل کنواں کی بنیاد کا پس منظر کے بارے مولانا فرماتے ہیں کہ ” جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے قیام سے پہلے میرا ایک دعوتی تبلیغی سفر یہاں کا(اکل کنواں) اپنے دوستوں کی دعوت پر ہوا تھا، اس وقت جب میں یہاں آیا تو مکرانی پھلی میں مہمان ٹھہرا، دیکھاکہ مسجد بھی غیر آباد ہے، قرب و جوار میں مکاتب بھی سسک رہے تھے، نہ ہونے کے برابر تھے، عوام خاص طور پر مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی قابل رحم تھی، میں دو رات یہاں رہا، جمعہ کی نماز اکل کوا کی جامع مسجد میں پڑھی جو بہت چھوٹی سی تھی، وہاں نماز سے قبل میرا بیان ہوا، اس دوران میرے دل میں اللہ کی جانب سے ایک مضبوط خیال آیا کہ یہاں بیٹھ جاؤ، اس کے بعد میں گجرات لوٹا اور اپنے تمام اکابرین کو میں نے خط لکھا کہ میں نے ایسی ایسی جگہ دیکھی ہے، آپ کا کیا خیال ہے، تو سبھی کا یہی جواب آیا کہ تم وہاں بیٹھ جاؤ، چناں چہ جب بزرگوں کا حکم ہوا تو میرا یہاں آنا جانا زیادہ ہوگیا، جب آنا جانا زیادہ ہوا تو سب سے پہلے میرے یعقوب دادا نے کہا کہ میں تین ایکڑ زمین دیتا ہوں، زمین مل جانا بہت بڑی بات تھی، دوسرے جمعہ کو حاجی سلیمان صاحب نے کہا کہ میں بھی تین ایکڑ زمین دیتا ہوں، اور یوں چھ ایکڑ زمین ہوگئی، پہلے تو مدرسہ کے ٹرسٹی حاجی شفیع صاحب سے کہا کہ ہم یہاں کے مقامی مکاتب کو مضبوط کریں گے، اور جو مکاتب چل رہے تھے اس کے اساتذہ کی تنخواہ میں اضافہ کردیا، اس کے بعد میرے نانا ساؤتھ افریقہ رہتے تھے وہ جماعت میں آئے اور جامعہ کے بارے پتہ چلا تو انہوں نے مجھے بیس ہزار روپے دیئے، تو اس سے میں نے ایک عارضی عمارت “مکرانی پھلی” میں بنائی، یہ اکل کوا کا ایک محلہ ہے.
1980 میں مکتب شروع ہوا اور 1981 میں دار الاقامہ شروع ہوگیا، طلبہ رہنے لگے، سب سے پہلے اپنے دوست مولانا یعقوب شاد کو ناظم بنایا اور اپنے بھائی حافظ اسحاق کو مدرس بنایا، طلبہ کی تعداد بڑھتی رہی اور میرا آنا جانا لگارہا۔ میرا عربی سے ذوق تھا اس لئے ان دنوں میں نے رابطہ عالم اسلامی سے رابطہ کیا، تو انہوں نے فارم بھیجا اور لکھاکہ کہ سعودی سفارت خانہ سے تصدیق کراکر بھیجیں، وہ فارم پُر کرکے میں نے درالعلوم کنتھاریہ جہاں میں پڑھا تھا اس کا بھی اور اپنا بھی بھیجا، اس کے بعد بہت جلد میرے پاس سعودی سفارت خانہ سے بلاوا آیا، ہم وہاں گئے اور انہوں نے ہمیں ایک لاکھ بیس ہزار رو پے دیئے، اس روپیہ کے بعد میرے یہاں وسعت پیدا ہوئی ۔
جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں کی ابتدا ایک استاذ اور چھ بچوں سے ہوئی تھی۔ آج اس ادارہ کے احاطہ میں 16 ہزار طلبہ دینی اور عصری علوم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں اس ادارہ کے زیر اہتمام جو مکاتب، مدارس، اسکول اور کالج چل رہے ہیں ان میں سات ہزار سے زائد اساتذہ اور دو لاکھ کے قریب طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہسپتال، ووکیشنل سینٹرس اور دوسرے فلاحی ادارے الگ ہیں۔
حفظ قرآن کے فروغ اور مسابقہ کی سطح پر مولانا وستانوی کی خدمات ہندوستان بھر میں نمایاں ہے اور آپ کے کاموں کو ملک بھر میں سراہا جاتا ہے، اس پر انہوں فرمایا کہ “ایک مرتبہ میں عمرہ کے سفر پر تھا، وہاں میرے فلاحی کچھ احباب آئے ہوئے تھے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ مسابقے میں آئے ہیں ، یہاں دنیا بھر سے لوگ مسابقہ قرآن میں شریک ہونے کیلئے آتے ہیں، میں نے پوچھا یہ مسابقہ کیا ہوتا ہے ، تو انہوں نے کہاکہ سعودی عرب جو عالمی پیمانے کا مسابقہ کراتی ہے اس میں ہم لوگ آئے ہیں، وہاں انٹر کانٹر ہوٹل میں یہ سارا منظر میں نے دیکھا اور میرے دل میں جذبہ پیدا ہو اس کے بعد حرم شریف میں آکر میں نے دعا کی” یا اللہ مجھے بھی یہ خدمت کرنے کی توفیق نصیب فرما” اس کے بعد میں نے رابطہ کیا اور دوسرے سال مجھے بھی دعوت ملی، لیکن سوئے اتفاق انہیں دنوں کویت اور عراق کی جنگ چل رہی تھی اس لئے ممبئی سے واپس آنا پڑا ، لیکن اگلے سال پھر دعوت ملی اور ہم وہاں گئے۔اور جامعہ کے دو طالب علم نمایاں کامیابی حاصل کی ” اس کے بعد سے پورے ملک میں مسابقۃ القرآن کا آغاز کیا جو ہر تین سال کے بعد تا ہنوز جاری ہے.
85 ایکڑ قطعہ زمین پر تعمیر جامعہ اشاعت العلوم کے احاطہ میں چار بڑی مساجد ہیں۔ مولانا کے بڑے صاحبزادے مولانا حذیفہ وستانوی نے بتایا کہ ان کے ادارہ کے پاس کل سات سو ایکڑ زمین ہے۔ ادارہ کا تمام تعلیمی نظام مولانا حذیفہ وستانوی ہی دیکھتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی اویس وستانوی دیگر امور کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ جس مسجد میں، ہم نے نماز ادا کی اس کے کلیدی ہال میں ساڑھے تین ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ بھری مسجد میں فجر کی سنت اور فرض کے درمیان جب بڑی عمر کے طلبہ قدرے آواز کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں تو ایک عجیب روحانی منظر ہوتا ہے۔
جامعہ میں تجوید و قرات کے ساتھ قرآن پاک کی تعلیم و تفسیر کو اولیت دی جاتی ہے۔ باقاعدہ ایک بہت بڑی عمارت میں دارالقرآن قائم ہے۔ اس کا نظام بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ نوٹس بورڈ پر ہر دن کی تازہ معلومات درج ہوتی ہے کہ آج کتنے بچے درجات میں حاضر ہیں، کتنے غیر حاضر، چھٹی پر یا بیمار ہیں، کتنے اساتذہ حاضر ہیں، غائب یا بیمار یا رخصت پر ہیں۔ مرکزی مسجد سے متصل ایک کثیر منزلہ چوکور عمارت ناظرہ اور ابتدائی درجات کیلئے ہے جہاں چھ ہزار چھوٹے بچے پڑھتے ہیں۔ ان کی رہائش اور نمازوں کی ادائیگی کا نظم اسی عمارت میں ہے۔
جامعہ کے وہ طلبہ جو عالمیت، فضیلت اور افتاء کا کورس کرتے ہیں وہ سرکاری ادارہ این آئی او ایس کے ذریعہ بارہویں کا امتحان بھی پاس کر لیتے ہیں۔ اب اگر وہ چاہیں تو جامعہ کے مختلف کالجوں سے حسب منشا پاس، آنرس، ٹکنکل، میڈیکل اور طب یونانی کے کورسز بھی کر سکتے ہیں۔ جامعہ نے ایک بہت وسیع وعریض رہائشی پرائمری اور ہائی اسکول بھی تعمیر کیا ہے۔ اور یہی ایک اسکول نہیں ہے، متعدد اسکول ہیں۔
دینی اور دنیاوی علوم کا ایسا امتزاج بلکہ حسین سنگم پیدا کیا گیا ہے کہ سڑک کے ایک طرف مدرسے اور دوسری طرف کالجوں کی عمارتیں ہیں۔ درمیان میں پہاڑوں کے سلسلے ‘ست پڑا’ کی طرف جانے والی شاہراہ ہے۔ یہاں چاروں طرف آدی باسی قومیں آباد ہیں۔ یہی شاہراہ گجرات کے اس مقام تک پہنچ جاتی ہے جہاں حکومت کے ذریعہ ساڑھے تین ہزار کروڑ روپیہ خرچ کرکے ‘اسٹیچو آف یونٹی’ کھڑا کیا گیا ہے۔
اکل کوا گاؤں کی کل آبادی 12 ہزار ہے۔ یعنی اس سے بڑا گاؤں تو جامعہ اشاعت العلوم میں آباد ہے جہاں 16 ہزار طلبہ ہیں۔
اس ادارے کا قیام 1980 میں عمل میں آیا تھا اور صرف 42 سالوں کے عرصے میں اس ادارے نے ترقی کے ایسے نقوش ثبت کئے ہیں جس کی نظیر ملنا مشکل ہے، جامعہ اشاعت العلوم کے بانی و مہتمم اور اس پوری تحریک کے روح رواں مولانا غلام محمد وستانوی صاحب ہیں، آپ کی تعلیمی خدمات کا شہرہ پوری دنیا میں ہے اور عصری و دینی تعلیم میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے حوالے سے آپ دنیا بھر میں خصوصیت کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں.
جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں میں صرف درجہ حفظ قرآن کریم کے سو سے زائد درسگاہیں ہیں جس میں تین ہزار سے زیادہ بچے قرآن کریم حفظ کرتے ہیں.
جامعہ میں حفظ اور ناظرہ سے لے کر عالمیت، فضیلت اور افتاء تک کے مختلف اداروں کے علاوہ رہائشی پرائمری اور ہائی اسکول، بی ایڈ اور ڈی ایڈ کالج، آئی ٹی آئی، پالی ٹیکنک کالج، فارمیسی کالج، یونانی کالج، لا کالج، میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج بھی قائم ہیں۔ اکل کوا کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی درجنوں کالج قائم ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں کیلئے الگ الگ ہاسٹل ہیں۔ ایک 300 بستروں پر مشتمل ہسپتال بھی ہے جس میں مفت علاج ہوتا ہے۔ یہاں ہر روز تین درجن سے زیادہ آپریشن ہوتے ہیں۔ کالج کے طلبہ کو بنیادی دینی تعلیم اور مدارس کے طلبہ کو بنیادی انگریزی، سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہاں پڑھانے والے استاذوں اور ان کے اہل خانہ کیلئے احاطہ کے اند رہی ساڑھے پانچ سو سے زیادہ کوارٹرس تعمیر کئے گئے ہیں۔ تمام اساتذہ یہیں مقیم رہتے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کو ناشتہ اور دو وقت کا کھانا جس حسن انتظام سے تقسیم کیا جاتا ہے وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جامعہ میں دنیا کا سب سے بڑا ڈائننگ ہال اور جدید ترین سہولیات سے آراستہ ‘ماڈرن کچن’ تعمیر ہو رہا ہے۔ اس ڈائننگ ہال کے بیچ میں کوئی ستون نہیں ہوگا۔ اس میں 12 ہزار طلبہ بیک وقت کھانا کھا سکیں گے۔ جب اس ہال کو کانفرنس کیلئے استعمال کیا جائے گا تو بیک وقت 25 ہزار سامعین اور ناظرین کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی۔
جامعہ کی دن دونی رات چوگنی ترقیات کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ “پہلے سے اس طرح کا کوئی پروگرام نہیں تھا، کوئی خاکہ نہیں تھا، بس افراد ملتے گئے کام بنتا گیا، لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا، اس وقت ایک بہت اچھے آدمی اے جی شیخ صاحب، ریٹائرڈ بی ڈی او تھے، انہوں نے آئی ٹی آئی کی تحریک شروع کی تھی ۔
جامعہ کے نصاب تعلیم کے بارے ان کا کہنا ہے کہ “ہمارے یہاں کا نصاب تعلیم دونوں اداروں سے ماخوذ ہے ، فقہ میں دارالعلوم دیوبند کا نصاب تعلیم لیا گیا ہے، اور ادب عربی میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا نصاب شامل کیا گیا ہے، اس کے علاوہ عالم عرب کی کئی اہم یونیور سٹیوں سے بھی یہاں کے نصاب میں کچھ شامل کیا گیا ہے، اور حالات کے مطابق جدید فقہ اور عربی ادب کی تعلیم یہاں ترجیحی طور پر دی جاتی ہے ۔
دینی علوم اور عصری علوم یکجا کرنے کے فوائد پر مولانا کا کہنا ہے کہ “اس کے بہت فوائد ہیں، قوم کے بچے ڈاکٹر س، ایجینئرس بن رہے ہیں، عصری تعلیم سیکھ رہے ہیں اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عصری تعلیم وہ دینی ماحول میں سیکھ رہے ہیں ۔ لیکن اس میں بھی ہم سو فیصد کامیاب نہیں ہیں ، ان کے ساتھ ہم سختی نہیں کرسکتے ہیں ، ان بچوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے علاوہ ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے ، یہ بچے جس نظام اور سسٹم سے آتے ہیں انہیں رکھنا ہی بہت مشکل ہے ، ایک جگہ میں نے انٹرویو میں کہاکہ “ہمارے بارے میں بعض لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ مولانا صاحب نے یہ کیا کیاکہ دینی مدرسہ میں انہوں نے کالج بنا رکھا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ یہ کیا کیا مولانا نے کہ انگریزی پڑھنے والوں کو دین سکھارہے ہیں”۔ یہ دونوں غلط فہمی میں ہیں، عصری اداروں کا نظام الگ ہے، دینی ادارے کا نظام الگ ہے ، دونوں مستقل ہے۔ ایک کی وجہ سے دوسرے کو کوئی زک اور نقصان نہیں پہونچ سکتا ہے۔ کالج حکومت کے نظام کے مطابق چلتے ہیں” مولانا مزید فرماتے ہیں کہ “اس وقت دنیا کے حالات ایسے ہیں کہ بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے واقف کرانا بہت ضروری ہے ، جو کالجز ، علی گڑھ ،جامعہ ملیہ اور ہم نے قائم کئے ہیں وہ اور ہونے چاہیئے ، ہر صوبے اور ضلع میں اس طرح کالجز ہونے چاہیئے جہاں اسلامی ماحول میں عصری تعلیم دی جائے ۔ یوپی میں مسلمانوں کا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے ، بہار میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے ، بنگال میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے ، مدارس اپنی جگہ کام کررہے ہیں لیکن مسلمانوں کے عصری ادارے نہیں ہیں ، سچر کمیٹی کی رپوٹ کہتی ہے کہ مدارس میں صرف دو فیصد مسلم بچے پڑھتے ہیں تو پھر 98 فیصد کہاں ہیں ، ان کی تعلیم کا ہم نے کیا انتظام کیا ہے ، اس لئے بہت ضروری ہے کہ مسلمان اپنا تعلیمی ادارہ قائم کریں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس مال نہیں ہے ، معاملہ یہ ہے کہ جن کے پاس مال ہے انہیں دلچسپی نہیں ہے ، جنہیں دلچسپی ہے ان کے پاس اسباب نہیں ہے ، اس لئے سرمایہ کاروں اور کام کرنے والوں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔
1998ء میں مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کو مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کا رکن بنایا گیا تھا، اور حضرت مولانا مرغوب الرحمن بجنوری رحمۃاللہ علیہ کے انتقال کے بعد مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند کے اجلاس منعقدہ 11-10 جنوری 2011 میں آپ کو ایشا کی عظیم درس گاہ دارالعلوم دیوبند کا مہتمم بنایا گیا تھا، لیکن صرف سات ماہ بعد کچھ ناگزیر وجوہات کے بنا پر منصب اہتمام سے استعفی دینا پڑا تھا. دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ اہتمام سے استعفیٰ کے بعد آپ نے فرمایا کہ “
دارالعلوم دیوبند سے ہمارا روحانی، قلبی اور علمی تعلق ہے وہ ہمیشہ برقرار رہے گا، جہاں تک اہتمام سے استعفی کی بات ہے وہ ہمارا فیصلہ تھا، ہاں یہ ضرور ہے کہ طلبہ کا غلط استعمال کیا گیا، دارالعلوم دیوبند میں کچھ لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر سیاست کی اور اس عظیم ادارے کی عظمت کو نقصان پہونچایا۔”
آپ معروف بزرگ حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی رحمۃاللہ علیہ سے تزکیہ نفس اور بیعت و اصلاح کے دامن سے وابستہ ہوئے اور انہی سے خلافت بھی حاصل فرمایا، بندہ ناچیز کئی بار آپ کے حلقہ ذکر میں شامل ہو کر مصافحہ کا شرف حاصل کر چکا ہے.
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عاجلہ دائمہ مستمرہ عطا فرمائے آمین ***