جی این کے اردو ڈیسک
27 / نومبر 2022
سلمان عبدالصمد
متصوفانہ طرز تبلیغ اور قطر کا ’’فیفائی” مفاد۔
متصوفانہ طرز تبلیغ اور قطر کا ’’فیفائی” مفاد۔
قطر کی یہ خوش بختی ہے کہ اسے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی نصیب ہوئی۔ اب تک فٹبال کے22 عالمی مقابلے ہوئے مگر ایشیائی ممالک کو فقط دوسری دفعہ میزبانی کا موقع ملا ہے،جب کہ قطر پہلا مسلم ملک ہے جہاں فٹبال کا عالمی مقابلہ جاری ہے۔اس لیے قطرکی میزبانی کئی لحاظ سے قابل ذکر ہوجاتی ہے۔اول یہ کہ قطر تقریبا تیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا ساملک ہے، اس کے باوجود وہ ورلڈ کی میزبانی کی ریس میں کامیاب رہا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک مسلم ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی سبب ہے کہ اس نے ورلڈ کپ کے تئیں اپنے قوانین کی تبدیلی میں بھی اسلامی شعائر کا بڑی حد تک خیال رکھا ہے جس پر اشکالات بھی ہوئے ۔
کھیل شروع ہونے سے قبل قطر پر جو الزامات عائد کیے گئے اور انسانی حقوق کی پامالی کے تئیں اس پر دنیا بھر میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس میں عالمی سیاست کی منفی ذہنیت کی کارفرمائی ہے۔ظاہر ہے ان الزامات سے قطر کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس طرح میزبانی کے لیے کی جانے والی تیاریوں پر کسی حد تک حرف بھی آیا۔اب جب کہ کھیل جاری ہے تو قطر کی اسلام نوازی اور شدت پسندی کو پیش کرکے اس کا چہرہ مسخ کیا جارہا ہے۔اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے عالمی سطح پر قطر کا نام روشن ہوگا یا شدت پسند اور بنیاد پرست ملک کہہ کر اس کی معیشت وتجارت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی،تاکہ سیاحت وتجارت کے تئیں بہت سے ممالک قطرسے دوستی کا ہاتھ نہ ملائیں۔
بارہ برس قبل قطر کو فیفا ورلڈ کپ کی ذمے داری سونپی گئی تھی ۔ ایک دہائی سے قبل سے جو ملک صرف ایک ماہ جاری رہنے مقابلے کی تیاری کرے تو اس کی حوصلہ مندی اور مستقبل آشنائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ اس جدو جہد میں ملک کا اقتصادی مستقبل بڑی حد تک مضمر رہتا ہے۔یہی سبب ہے کہ ایک دہائی سے قطرکو مختلف سطح پر بہتر کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں ۔اسٹیڈیمز، آرام گاہیںاور دیگر تفریحی مقامات کی تعمیر وتزئین کا کام مسلسل ہوتا رہا۔جس طرح دوسرا الیکشن پہلے الیکشن سے مصارف کے مدنظر بہت مہنگا ہوتا ہے اسی طرح عموماً پہلے فیفا ورلڈ کپ سے دوسرا عالمی مقابلہ بدرجہا مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ 1990میں اٹلی میں منعقدہ ورلڈ کپ میں 4ارب ڈالر وںکا صرفہ آیا تھا ۔1988میں 2ارب 33 کروڑ ڈالروں خرچ ہوئے۔ 2018میں 11 ارب اور 60 کروڑ ڈالرز کا مصارف تھا، جب کہ 2022 میں ہونے والے عالمی کپ کے خرچے کا اندازہ 220 ارب تک لگایا جارہا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ میزبان ممالک کوفیفا کمیٹی بھی کچھ فنڈ دیتی ہے تاہم میزبانوں کا بھی خرچ ہوتا ہے۔ میزبان ممالک اقتصادی مفادات کے مدنظر اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں ۔ قطر کے خرچ کے پیچھے بھی ایک لمبی داستان ہے ۔ داستان بس ادھوری رہ جائے ، اس لیے عالمی اداروں اور میڈیا گھرانوں نے قطرکو نشانہ تنقید بنایا اور آج بھی بنارہے ہیں۔ یہاں تک کھلاڑیوں کے اندر بھی احتجاج کی کیفیت دیکھی جارہی ہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قطر میں تعمیرات کے دوران ہزاروں افراد غیر فطری موت کے شکار ہوئے،جب کہ قطری حکومت نے ان دعووں کو”شرمناک اور ہتک آمیز” قرار دیا ہے۔اقوامِ متحدہ کی انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) یونینز اور دنیا کی حکومتوں نے قطر پر تنقید کی۔برطانوی اخبار دی گارڈین نے لکھا کہ 2011 سے2020 کے دوران ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے 6500 اہلکار ہلاک ہوگئے۔ حالاں کہ قطر کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کی تنصیبات سے متعلق فقط 37اموات ہوئیں۔آئی ایل او کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں غیر ملکی ورکرز کی 50 اموات ہوئیں اور 500 افراد شدید زخمی ہوئے۔
میڈیا رپورٹ اور قطر کے دعوؤں میں اس قدر تفاوت اور تضاد ہے کہ تجزیہ نگار کے لیے بھی کچھ کہہ پانا مشکل ہے۔البتہ دونوں اعداد وشمار کی رسہ کشی سے ایک سیاسی ہڑبونگ کا منظرنامہ ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی قطر کے تئیں عالمی سیاست کے مخرب عزائم کا اشاریہ تیار ہوجاتا ہے۔
اب جب کہ فیفا ورلڈ کپ کی شروعات ہوچکی ہے تو کھیل کے پردے میں قطر پر فروغِ اسلام کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے۔اس میں شک نہیں کہ قطر کی میزبانی،انسان دوستی، تحائف کی دل کشی اور انتظامی امور کی نرمی نے بہت سے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا ہے۔مذہبی نقطہ نظر سے یہ دینِ اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے۔اس پر اہل اسلام کی خوشی حق بہ جانب ہے مگر خوشی کے اظہار میں معمولی ہنگامہ آرائی بھی مناسب نہیں۔کیوں کہ ایک طرف کھیل شروع ہونے سے قبل ہی عالمی سیاست ایک مسلم ملک قطر پر ترچھی نگاہ رکھے ہوئی تھی اور اب دوسری طرف تبلیع اسلام کے تناظر میں اس کو بدنام کیا جارہا ہے۔اس لیے قرآن کی یہ آیت یاد آتی ہے؛ ادع الی سبیل ربک با الحکمۃ…جس طرح ہمارے لیے اسلام کا فروغ ضروری اور محبوب ہے اسی طرح ایک اسلامی ملک کے مستقبل کی حفاظت بھی لازم ہے۔عالمی سطح پر قطر کے اقتصادی اور تہذیبی سروکار کو مثبت باور کرانے میں اہل اسلام کی حکیمانہ اور متصوفا نہ حکمت عملی مناسب ہوسکتی ہے ۔صوفیا نے اشاعت اسلام کے لیے عملی معاملات کو مقدم رکھا۔گویا انھوں نے تبلیغ وترسیل میں زبان قال سے زیادہ زبان حال کو ہتھیار بنایا۔زبان قال نے حسن تدبیر سے مل کر تکثیری سماج کو منظم ومستحکم کیا۔اس لیے ملی مفاد اور قطرکے فیفائی مفادات کو مدغم کرتے ہوئے ایک معتدل رویہ خوشن کن ہوسکتاہے۔
اس میں شک نہیں کہ فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے ممالک کئی سطح پر فایدہ اٹھاتے ہیں۔ عالمی مسابقوں سے سیاحت وثقافت اور معیشت و سلطنت کو مضبوطی ملتی ہے۔ اگر ہم موجودہ فیفا ورلڈ کپ کو مذہنی رنگ دیں گے تو قطر بھی سوالات کے گھیرے میں آجائے گا اور خود ہندوستان کے عوام سے بھی متعدد سوالات ہوسکتے ہیں۔کیوں کہ ہندوپاک کے میچ کے دوران ہم ہمیشہ تلقین کرتے ہیں کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے ۔ سیاست ومذہب سے اس کا کوئی رشتہ قائم نہ ہوپائے۔اس لیے بشمول قطر پوری دنیا میں اہل اسلام کے لیے حکمت وتدبر کارویہ ہی سود مند ہوگا۔ تاکہ آج فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے قطر مستفید ہو سکے اور آئندہ اہل اسلام اپنے عزائم کو تکمیل سے آراستہ کرتے رہیں۔
موبائل:9810318692
قطر کی یہ خوش بختی ہے کہ اسے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی نصیب ہوئی۔ اب تک فٹبال کے22 عالمی مقابلے ہوئے مگر ایشیائی ممالک کو فقط دوسری دفعہ میزبانی کا موقع ملا ہے،جب کہ قطر پہلا مسلم ملک ہے جہاں فٹبال کا عالمی مقابلہ جاری ہے۔اس لیے قطرکی میزبانی کئی لحاظ سے قابل ذکر ہوجاتی ہے۔اول یہ کہ قطر تقریبا تیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا ساملک ہے، اس کے باوجود وہ ورلڈ کی میزبانی کی ریس میں کامیاب رہا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک مسلم ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی سبب ہے کہ اس نے ورلڈ کپ کے تئیں اپنے قوانین کی تبدیلی میں بھی اسلامی شعائر کا بڑی حد تک خیال رکھا ہے جس پر اشکالات بھی ہوئے ۔
کھیل شروع ہونے سے قبل قطر پر جو الزامات عائد کیے گئے اور انسانی حقوق کی پامالی کے تئیں اس پر دنیا بھر میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس میں عالمی سیاست کی منفی ذہنیت کی کارفرمائی ہے۔ظاہر ہے ان الزامات سے قطر کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس طرح میزبانی کے لیے کی جانے والی تیاریوں پر کسی حد تک حرف بھی آیا۔اب جب کہ کھیل جاری ہے تو قطر کی اسلام نوازی اور شدت پسندی کو پیش کرکے اس کا چہرہ مسخ کیا جارہا ہے۔اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے عالمی سطح پر قطر کا نام روشن ہوگا یا شدت پسند اور بنیاد پرست ملک کہہ کر اس کی معیشت وتجارت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی،تاکہ سیاحت وتجارت کے تئیں بہت سے ممالک قطرسے دوستی کا ہاتھ نہ ملائیں۔
بارہ برس قبل قطر کو فیفا ورلڈ کپ کی ذمے داری سونپی گئی تھی ۔ ایک دہائی سے قبل سے جو ملک صرف ایک ماہ جاری رہنے مقابلے کی تیاری کرے تو اس کی حوصلہ مندی اور مستقبل آشنائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ اس جدو جہد میں ملک کا اقتصادی مستقبل بڑی حد تک مضمر رہتا ہے۔یہی سبب ہے کہ ایک دہائی سے قطرکو مختلف سطح پر بہتر کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں ۔اسٹیڈیمز، آرام گاہیںاور دیگر تفریحی مقامات کی تعمیر وتزئین کا کام مسلسل ہوتا رہا۔جس طرح دوسرا الیکشن پہلے الیکشن سے مصارف کے مدنظر بہت مہنگا ہوتا ہے اسی طرح عموماً پہلے فیفا ورلڈ کپ سے دوسرا عالمی مقابلہ بدرجہا مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ 1990میں اٹلی میں منعقدہ ورلڈ کپ میں 4ارب ڈالر وںکا صرفہ آیا تھا ۔1988میں 2ارب 33 کروڑ ڈالروں خرچ ہوئے۔ 2018میں 11 ارب اور 60 کروڑ ڈالرز کا مصارف تھا، جب کہ 2022 میں ہونے والے عالمی کپ کے خرچے کا اندازہ 220 ارب تک لگایا جارہا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ میزبان ممالک کوفیفا کمیٹی بھی کچھ فنڈ دیتی ہے تاہم میزبانوں کا بھی خرچ ہوتا ہے۔ میزبان ممالک اقتصادی مفادات کے مدنظر اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں ۔ قطر کے خرچ کے پیچھے بھی ایک لمبی داستان ہے ۔ داستان بس ادھوری رہ جائے ، اس لیے عالمی اداروں اور میڈیا گھرانوں نے قطرکو نشانہ تنقید بنایا اور آج بھی بنارہے ہیں۔ یہاں تک کھلاڑیوں کے اندر بھی احتجاج کی کیفیت دیکھی جارہی ہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قطر میں تعمیرات کے دوران ہزاروں افراد غیر فطری موت کے شکار ہوئے،جب کہ قطری حکومت نے ان دعووں کو”شرمناک اور ہتک آمیز” قرار دیا ہے۔اقوامِ متحدہ کی انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) یونینز اور دنیا کی حکومتوں نے قطر پر تنقید کی۔برطانوی اخبار دی گارڈین نے لکھا کہ 2011 سے2020 کے دوران ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے 6500 اہلکار ہلاک ہوگئے۔ حالاں کہ قطر کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کی تنصیبات سے متعلق فقط 37اموات ہوئیں۔آئی ایل او کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں غیر ملکی ورکرز کی 50 اموات ہوئیں اور 500 افراد شدید زخمی ہوئے۔
میڈیا رپورٹ اور قطر کے دعوؤں میں اس قدر تفاوت اور تضاد ہے کہ تجزیہ نگار کے لیے بھی کچھ کہہ پانا مشکل ہے۔البتہ دونوں اعداد وشمار کی رسہ کشی سے ایک سیاسی ہڑبونگ کا منظرنامہ ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی قطر کے تئیں عالمی سیاست کے مخرب عزائم کا اشاریہ تیار ہوجاتا ہے۔
اب جب کہ فیفا ورلڈ کپ کی شروعات ہوچکی ہے تو کھیل کے پردے میں قطر پر فروغِ اسلام کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے۔اس میں شک نہیں کہ قطر کی میزبانی،انسان دوستی، تحائف کی دل کشی اور انتظامی امور کی نرمی نے بہت سے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا ہے۔مذہبی نقطہ نظر سے یہ دینِ اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے۔اس پر اہل اسلام کی خوشی حق بہ جانب ہے مگر خوشی کے اظہار میں معمولی ہنگامہ آرائی بھی مناسب نہیں۔کیوں کہ ایک طرف کھیل شروع ہونے سے قبل ہی عالمی سیاست ایک مسلم ملک قطر پر ترچھی نگاہ رکھے ہوئی تھی اور اب دوسری طرف تبلیع اسلام کے تناظر میں اس کو بدنام کیا جارہا ہے۔اس لیے قرآن کی یہ آیت یاد آتی ہے؛ ادع الی سبیل ربک با الحکمۃ…جس طرح ہمارے لیے اسلام کا فروغ ضروری اور محبوب ہے اسی طرح ایک اسلامی ملک کے مستقبل کی حفاظت بھی لازم ہے۔عالمی سطح پر قطر کے اقتصادی اور تہذیبی سروکار کو مثبت باور کرانے میں اہل اسلام کی حکیمانہ اور متصوفا نہ حکمت عملی مناسب ہوسکتی ہے ۔صوفیا نے اشاعت اسلام کے لیے عملی معاملات کو مقدم رکھا۔گویا انھوں نے تبلیغ وترسیل میں زبان قال سے زیادہ زبان حال کو ہتھیار بنایا۔زبان قال نے حسن تدبیر سے مل کر تکثیری سماج کو منظم ومستحکم کیا۔اس لیے ملی مفاد اور قطرکے فیفائی مفادات کو مدغم کرتے ہوئے ایک معتدل رویہ خوشن کن ہوسکتاہے۔
اس میں شک نہیں کہ فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے ممالک کئی سطح پر فایدہ اٹھاتے ہیں۔ عالمی مسابقوں سے سیاحت وثقافت اور معیشت و سلطنت کو مضبوطی ملتی ہے۔ اگر ہم موجودہ فیفا ورلڈ کپ کو مذہنی رنگ دیں گے تو قطر بھی سوالات کے گھیرے میں آجائے گا اور خود ہندوستان کے عوام سے بھی متعدد سوالات ہوسکتے ہیں۔کیوں کہ ہندوپاک کے میچ کے دوران ہم ہمیشہ تلقین کرتے ہیں کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے ۔ سیاست ومذہب سے اس کا کوئی رشتہ قائم نہ ہوپائے۔اس لیے بشمول قطر پوری دنیا میں اہل اسلام کے لیے حکمت وتدبر کارویہ ہی سود مند ہوگا۔ تاکہ آج فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے قطر مستفید ہو سکے اور آئندہ اہل اسلام اپنے عزائم کو تکمیل سے آراستہ کرتے رہیں۔
موبائل:9810318692
کھیل شروع ہونے سے قبل قطر پر جو الزامات عائد کیے گئے اور انسانی حقوق کی پامالی کے تئیں اس پر دنیا بھر میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس میں عالمی سیاست کی منفی ذہنیت کی کارفرمائی ہے۔ظاہر ہے ان الزامات سے قطر کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس طرح میزبانی کے لیے کی جانے والی تیاریوں پر کسی حد تک حرف بھی آیا۔اب جب کہ کھیل جاری ہے تو قطر کی اسلام نوازی اور شدت پسندی کو پیش کرکے اس کا چہرہ مسخ کیا جارہا ہے۔اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے عالمی سطح پر قطر کا نام روشن ہوگا یا شدت پسند اور بنیاد پرست ملک کہہ کر اس کی معیشت وتجارت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی،تاکہ سیاحت وتجارت کے تئیں بہت سے ممالک قطرسے دوستی کا ہاتھ نہ ملائیں۔
بارہ برس قبل قطر کو فیفا ورلڈ کپ کی ذمے داری سونپی گئی تھی ۔ ایک دہائی سے قبل سے جو ملک صرف ایک ماہ جاری رہنے مقابلے کی تیاری کرے تو اس کی حوصلہ مندی اور مستقبل آشنائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ اس جدو جہد میں ملک کا اقتصادی مستقبل بڑی حد تک مضمر رہتا ہے۔یہی سبب ہے کہ ایک دہائی سے قطرکو مختلف سطح پر بہتر کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں ۔اسٹیڈیمز، آرام گاہیںاور دیگر تفریحی مقامات کی تعمیر وتزئین کا کام مسلسل ہوتا رہا۔جس طرح دوسرا الیکشن پہلے الیکشن سے مصارف کے مدنظر بہت مہنگا ہوتا ہے اسی طرح عموماً پہلے فیفا ورلڈ کپ سے دوسرا عالمی مقابلہ بدرجہا مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ 1990میں اٹلی میں منعقدہ ورلڈ کپ میں 4ارب ڈالر وںکا صرفہ آیا تھا ۔1988میں 2ارب 33 کروڑ ڈالروں خرچ ہوئے۔ 2018میں 11 ارب اور 60 کروڑ ڈالرز کا مصارف تھا، جب کہ 2022 میں ہونے والے عالمی کپ کے خرچے کا اندازہ 220 ارب تک لگایا جارہا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ میزبان ممالک کوفیفا کمیٹی بھی کچھ فنڈ دیتی ہے تاہم میزبانوں کا بھی خرچ ہوتا ہے۔ میزبان ممالک اقتصادی مفادات کے مدنظر اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں ۔ قطر کے خرچ کے پیچھے بھی ایک لمبی داستان ہے ۔ داستان بس ادھوری رہ جائے ، اس لیے عالمی اداروں اور میڈیا گھرانوں نے قطرکو نشانہ تنقید بنایا اور آج بھی بنارہے ہیں۔ یہاں تک کھلاڑیوں کے اندر بھی احتجاج کی کیفیت دیکھی جارہی ہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قطر میں تعمیرات کے دوران ہزاروں افراد غیر فطری موت کے شکار ہوئے،جب کہ قطری حکومت نے ان دعووں کو”شرمناک اور ہتک آمیز” قرار دیا ہے۔اقوامِ متحدہ کی انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) یونینز اور دنیا کی حکومتوں نے قطر پر تنقید کی۔برطانوی اخبار دی گارڈین نے لکھا کہ 2011 سے2020 کے دوران ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے 6500 اہلکار ہلاک ہوگئے۔ حالاں کہ قطر کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کی تنصیبات سے متعلق فقط 37اموات ہوئیں۔آئی ایل او کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں غیر ملکی ورکرز کی 50 اموات ہوئیں اور 500 افراد شدید زخمی ہوئے۔
میڈیا رپورٹ اور قطر کے دعوؤں میں اس قدر تفاوت اور تضاد ہے کہ تجزیہ نگار کے لیے بھی کچھ کہہ پانا مشکل ہے۔البتہ دونوں اعداد وشمار کی رسہ کشی سے ایک سیاسی ہڑبونگ کا منظرنامہ ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی قطر کے تئیں عالمی سیاست کے مخرب عزائم کا اشاریہ تیار ہوجاتا ہے۔
اب جب کہ فیفا ورلڈ کپ کی شروعات ہوچکی ہے تو کھیل کے پردے میں قطر پر فروغِ اسلام کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے۔اس میں شک نہیں کہ قطر کی میزبانی،انسان دوستی، تحائف کی دل کشی اور انتظامی امور کی نرمی نے بہت سے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا ہے۔مذہبی نقطہ نظر سے یہ دینِ اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے۔اس پر اہل اسلام کی خوشی حق بہ جانب ہے مگر خوشی کے اظہار میں معمولی ہنگامہ آرائی بھی مناسب نہیں۔کیوں کہ ایک طرف کھیل شروع ہونے سے قبل ہی عالمی سیاست ایک مسلم ملک قطر پر ترچھی نگاہ رکھے ہوئی تھی اور اب دوسری طرف تبلیع اسلام کے تناظر میں اس کو بدنام کیا جارہا ہے۔اس لیے قرآن کی یہ آیت یاد آتی ہے؛ ادع الی سبیل ربک با الحکمۃ…جس طرح ہمارے لیے اسلام کا فروغ ضروری اور محبوب ہے اسی طرح ایک اسلامی ملک کے مستقبل کی حفاظت بھی لازم ہے۔عالمی سطح پر قطر کے اقتصادی اور تہذیبی سروکار کو مثبت باور کرانے میں اہل اسلام کی حکیمانہ اور متصوفا نہ حکمت عملی مناسب ہوسکتی ہے ۔صوفیا نے اشاعت اسلام کے لیے عملی معاملات کو مقدم رکھا۔گویا انھوں نے تبلیغ وترسیل میں زبان قال سے زیادہ زبان حال کو ہتھیار بنایا۔زبان قال نے حسن تدبیر سے مل کر تکثیری سماج کو منظم ومستحکم کیا۔اس لیے ملی مفاد اور قطرکے فیفائی مفادات کو مدغم کرتے ہوئے ایک معتدل رویہ خوشن کن ہوسکتاہے۔
اس میں شک نہیں کہ فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے ممالک کئی سطح پر فایدہ اٹھاتے ہیں۔ عالمی مسابقوں سے سیاحت وثقافت اور معیشت و سلطنت کو مضبوطی ملتی ہے۔ اگر ہم موجودہ فیفا ورلڈ کپ کو مذہنی رنگ دیں گے تو قطر بھی سوالات کے گھیرے میں آجائے گا اور خود ہندوستان کے عوام سے بھی متعدد سوالات ہوسکتے ہیں۔کیوں کہ ہندوپاک کے میچ کے دوران ہم ہمیشہ تلقین کرتے ہیں کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے ۔ سیاست ومذہب سے اس کا کوئی رشتہ قائم نہ ہوپائے۔اس لیے بشمول قطر پوری دنیا میں اہل اسلام کے لیے حکمت وتدبر کارویہ ہی سود مند ہوگا۔ تاکہ آج فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے قطر مستفید ہو سکے اور آئندہ اہل اسلام اپنے عزائم کو تکمیل سے آراستہ کرتے رہیں۔
موبائل:9810318692