سیاسی کالم نگار مضامین

فلسطینیوں کی نسل کشی پر مسلم ممالک کی مجرمانہ خاموشی، تحریر از ثوبیہ شاہ

shahsobia233@gmail.com

فلسطین کے معاملے میں تمام اسلامی ممالک کیوں خاموش ہیں وجہ اسرائیل کی مدد امریکہ کر رہا ہے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت اور فوجی تعداد بڑھانے میں امریکہ کا ہاتھ ہے جو پوری دنیا بہت اچھے سے جانتی ہے۔ اسرائیل کی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے۔ اس لیے عرب ممالک اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک اسرائیل کے سامنے خاموش ہیں۔ سعودی عرب نے 2015ء میں 37 اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر ایک نئی اسلامی فوج کی بنیاد رکھی۔ سعودی عرب نے جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوج کا سر براہ مقرر کیا اور بعد میں آہستہ آہستہ اسلامی فوج کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ فوج بنانے کا مقصد تھا کسی بھی ملک میں دہشت گردی ہو ان دہشت گردوں سے نمٹا جائے۔ اسلامی ممالک کی اتحادی فوج اس ظلم کے خلاف فوری اقدام کریں یہ الگ بات ہے کہ فلسطین نے کبھی کشمیری مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ مگر وہاں اس وقت بے گناہ عوام ،بوڑھے، بچے اور خواتین شہید ہو رہے ہیں ان کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔

تمام اسلامی ممالک کی متحدہ فوج کی مدد سے فلسطین قوم کا جانی نقصان نہ ہو اور  جو شہر کے شہر کھنڈرات اور قبرستان میں تبدیل نہ ہو۔ بلکہ یہی شہر آباد ھوں۔ تمام اسلامی ممالک کی طاقت ور فوج کے سامنے امریکہ اور اسرائیل کچھ نہیں کر سکے گا۔ بلکہ عیسائی اور یہودی اسلامی فوج کی طاقت سے ڈر جائیں گے۔اکیسویں صدی کے دور میں انسان سوچتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان کو بہت فائدہ حاصل ہو گا اس لیے ہر ملک جدید ٹیکنالوجی والے میزائل اور چھوٹے بم اور ڈرون بنانے میں مصروف ہے۔جس کی مدد سے وہ اپنا اور ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔ہر قوم کو اپنے ملک کی حفاظت اور دفاع کرنے کا حق ہے جہاں یہ جدید ٹیکنالوجی فائدہ پہچا رہی ہے۔ وہی اس جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی حدود اور پالیسیاں بھی ہونی چاہیے۔تاکہ انسانی قیمتی جانوں کا نقصان نہ ہو۔جدید ٹیکنالوجی جیسے ہتھیار اور موبائل فون، لیب ٹاپ ،اور جنگی جہاز بنانے میں اسرائیل بہت آگئے ہیں۔اسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے وہ امریکہ کی مدد کر رہا ہے۔ اسرائیل نے بہت سارے میزائل اور جنگی جہاز بنا کر عرب ممالک ،امریکہ اور بھارت کو بھی دیے ہیں۔فلسطین کے جو شہر ہسپتال،کالج اور تعلیمی ادارے تباہ کیے ہیں اسی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں۔ غزہ شہر کے اندر اور عزہ پٹی پر جو فلسطینی ہسپتال تباہ ہوا اس میں بہت ساری تعداد میں ڈاکٹر، نرس، چھوٹے بچے ،بزرگ اور جوان لوگوں کو شہید کر دیا گیا سب عمارتوں کے ملبے تلے دفن ہیں ۔ان شہید لوگوں کی لاشیں ملبے کے نیچے سے نکالی جا رہی ہیں۔ فلسطینی لوگوں کو بے بس کر دیا گیا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے ایک ذات ہے جو ان مظلوم لوگوں پر ظلم کی انتہا دیکھ رہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اور روز محشر اس بدلے کا حساب لیا جائےگا۔فلسطین کے بے بس بچے، بوڑھے جوان اللہ تعالیٰ سے رو رو کر انصاف مانگ رہے ہیں۔ پھر بھی اسلامی ممالک خاموش ہیں۔ اسرائیل تجارت کے ذریعے سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھا رہا ہے۔اسرائیل میں بہت ساری پروڈکٹ بنائی جاتی ہیں جو تمام اسلامی ممالک اور یورپین ممالک میں استعمال ہو رہی ہیں۔ تمام یورپین ممالک اسرائیل کے اتحادی ہیں۔ اسرائیل تجارت کے ذریعے اپنے تعلقات مضبوط کر رہا ہے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتا ہے۔کہ تمام اسلامی ممالک اسرائیل کو ایک ملک تصور کریں۔ایسا روز قیامت تک نہیں ھو گا کہ  اسرائیل کو ایک ملک کے طور پر مانا جائے ۔جس سر زمین پر اسرائیل نے 1918 میں قبضہ کیا تھا وہ فلسطین کا حق ہے۔ جسے وہ لے کر رہیں گے۔ پچھلی کئ دہائیوں سے فلسطینی سر زمین پر جو خون کی  ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اس سے فلسطین کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ تازہ صورت حال میں اسرائیل نے فلسطین پر ظلم کی جو انتہا کر دی۔ جو بھی ملک فلسطین کے لیے غذائی اجناس، دوائی کمبل، بستر اور دیگر اشیا کا ساز وسامان ٹرک کے ذریعے بھیجتے ہیں۔ اس کو روک کر میزائل کے ذریعے تباہ کر دیتے ہیں۔ غزہ شہر کا راستہ اسرائیل کے شہر سے ہو کر آتا ہے۔ اس لیے ان کے سازو سامان کو تباہ کر رہے ہیں۔اب ان کا بنیادی مقصد ہے۔ فلسطین کی قوم کو بھوک اور پیاس کی قلت سے مارا جائے اسرائیل کا صدر نیتن یاہو انسانیت کے نچلے درجے سے بہت نیچے گر چکا ہے ۔جنگلی جانور شہید فلسطینی بچوں اور بوڑھوں کو کھا رہے ۔جنگلی جانور سر عام سڑکوں پر گھوم رہے اور لاشوں کو اپنے منہ کے ذریعے گھسیٹ کر کچا کھا رہے ہیں۔ یہودی قوم کی ہر کوئی مدد اور حمایت کر رہا ہے وجہ وہ ٹیکنالوجی اور پیسے کے لحاظ سے طاقت ور ہیں۔ فلسطین کمزور ہے مگر وہ بھول رہے ہیں ایک مسلمان کا سب سے طاقت ور ہتھیار اس کا ایمان ہے۔ اس لیے فلسطین قوم اپنے ایمان کی مضبوطی اور اللہ کے بھروسے پر اپنی مدد آپ کے تحت جنگ لڑ رہا ہے۔

2023 میں جب فلسطین کی ایک طاقتور فوجی اور سیاسی تنظیم حماس نے آسمانوں پر شاہین کی طرح اونچی اڑان بھرتے ہوئے یہودیوں کو للکارا اور ان کی فوج کو چن چن کے مارنا شروع کیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر یہودی قوم ڈر گئ اور تیتر بیتر ہو گئ اور اپنی ہار کے ڈر سے فلسطین کے رہائشی علاقوں اور ہسپتالوں پر میزائل اور بمباری سے حملے کرنے شروع کر دیے اور مظلوم فلسطین پر اپنی طاقت کا زور دکھانے لگے۔ ہر ملک فلسطین کے حق میں ریلیاں نکال رہا ہے سب سے زیادہ تعداد ریلیاں نکالنے کی یورپ اور امریکہ میں ہیں۔ ہم لوگ رات کو اچھا کھانا کھا کر سو جاتے ہیں اور فلسطینی بچے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ رہنے کے لیے ان کے سر پر چھت نہیں،بدن پر پہنے کے لیے کپڑے نہیں۔کبھی تمام مسلمانوں نے یہ سوچا ان بھوکے فلسطینی بچوں نے کو دو وقت کھانا کھانے کو ملتا بھی ہے یانہیں۔بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے لوگ پیٹ پر پتھر باندھنا شروع ہو گے ہیں۔ جیسے ایک جنگ میں نبی پاک صلی و علیہ وآلہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے ۔ فلسطینی لوگوں کی حالت دیکھ اس جنگ کا واقعہ یاد آ جاتا ہے۔  ہم لوگ سوشل میڈیا، فیس بک، انسٹا گرام پر دو چار فوٹو ڈال کر کمنٹ لکھ دیتے ہیں اور اپنی زندگی میں مگن ھو جاتے ہیں۔اصل صورت حال کا انہیں اندازہ نہیں جن پر جنگ کی مصیبت بیت رہی ہے۔ یہ وہی جانتے ہیں ۔ اصل صورت حال تو وہاں جا کر ہی پتہ چلے گی۔ مگر وہاں جانے کا حوصلہ نہ پاکستان اور نہ دیگر اسلامی ممالک میں ہے۔ ہر ایک کو انسانی جان سے زیادہ اپنی تجارت اور پیسے کی پرواہ ہے۔روز محشر تمام امت مسلمہ سے  اللہ اور رسول کے سامنے حساب لیا جائے گا ۔ اور کہا جائے گا کہ کیوں مظلوم مصیبت زدہ مسلمانوں کی مدد نہیں کی۔ خدارا میری تمام امت مسلم ممالک سے گزارش ہے جاگوں اپنی آنکھیں کھولو فلسطین میں کربلا کی طرح خون بہایا جا رہا ہے۔تمام مسلمان مل کر ان فلسطینی لوگوں کی مدد کریں۔

حال ہی میں فلسطین کا ایک پورا خاندان شہید ہو گیا اور اس خاندان کا ایک بچہ زندہ بچا اور وہ اپنے خاندان کے افراد کو تلاش کر رہا تھا ۔جب اس بچے کو معلوم ہوا اس کا تمام خاندان شہید ھو گیا اور وہ بچہ چیخ چیخ کر رو رہا تھا، اور مدد کے لیے پکار رہا تھا۔بچہ کہتا ہے سعودی عرب اور تمام امت مسلمہ سوئی ہوئی ہے ۔ یہ لوگ خاموشی کے ساتھ ہمارا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔جہاں پر لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جا رہا ہے۔یہاں پر میں حماس اور اسرائیل کی فوج کی تعداد کا بھی ذکر کروں گی۔اسرائیل کے فوجیوں کی تعداد 169،000۔ریزروفورس 465,000۔اسرائیل میں ہر مرد اور عورت کے لیے آرمی ٹریننگ ضروری ہے ۔ آرٹلری 500۔ 64 سے زیادہ میزائل لانچرز ۔ 1590 ٹینک ۔ ہوائی جہاز 354 ۔ 142ہیلی کاپٹر اور 49 نیوی کے جہاز ہیں۔ حماس کی تعداد 3 سے 250 ہزار کے قریب ہے۔ 10سے زیادہ میزائل راکٹ اور زمین سے زمین مار کرنے والا میزائل500 کلو وزنی بم ۔سمندر میں چھاپہ مارنے والے 400 کے قریب کچھ ایرانی ہتھیار بھی شامل ہیں۔ حماس ایک سیاسی اور فوجی تنظیم ہے ۔ اس نے عام انتخابات جیت کر سن 2007 میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ اس وقت سے اب تک اقتدار میں ہے۔ وہ عام لوگوں میں گھلے ملے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ غزہ میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ اسرائیل فوج حماس کے ٹھکانوں پر حملے میں متعدد گھر زد میں آ رہے ہیں۔ یہ عام لوگ حماس یا دوسری شدت پسند تنظیم فلسطین اسلامک جہاد کا حصہ نہیں ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد ہی اسرائیل کا خاتمہ ہے۔ عام شہری وہی رہ رہے ہیں اور وہ ہلاک ہو رہے ہیں ۔ سرحد کے دوسری طرف لبنان اور حزب اللہ ہے لبنان کی داخلی سیاست میں وہ ایک طاقت ور فوجی اور سیاسی تنظیم ہے۔ اس کے پاس بڑی تعداد میں گولہ اور بارود ہے۔ دسیوں لاکھ راکٹس ، میزائل اور ڈرونز ہیں۔ وہ بہت موثر فوجی طاقت رکھتا ہے۔ اسے ایران کی حمایت حاصل ہے اور حماس کی طرح ہی ایران اس کی بھی تربیت اور فنڈنگ کرتا ہے۔لیکن  وہ حماس سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے اور اس کے لڑنے کی صلاحیت بھی زیادہ بہتر ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے سنہ 2006 میں جنگ لڑی جس میں دونوں میں سے کوئی بھی نہیں جیتا تھا۔ اور اگر حزب اللہ موجودگی جنگ میں شامل ہوتی ہے۔تو اسرائیل کو دو محاذوں پر دو جنگیں لڑنی ہوں گی جو ایک مشکل کام ہو گا۔ 

اسرائیل نے ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا جس میں فوج کے دو جرنیل اور دوسرے افراد شہید ہوئے۔ ایران نے فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی اور فلسطین کا کھلم کھلا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ اسی وجہ سے اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا۔ اسرائیل کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں جب دل چاہے کسی بھی ملک پر حملہ کر کے مسلم قوم کو مارنا شروع کر دے ۔ اسرائیل کا شامی درالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا جس میں ایران کا کمانڈر پاسداران انقلاب رضا زاہدی سمیت 8 افراد ہلاک متعدد زخمی اسرائیلی فضائی حملے میں سفارت خانے کی متعصل عمارت تباہ ہو گئ ۔اب امریکہ اس معاملے میں کود پڑا ہے بظاہر تو امریکہ کہہ رہا ایران کسی بھی وقت اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے اور  واقعی یہ بات سچ نکلی ایران نے  48گھنٹے کے بعد اسرائیل کی حدود پر تین سو میزائل اور ڈرونز میزائل چھوڑے اسرائیل نے دعویٰ کیا کچھ میزائل اور ڈرونز کو اسرائیل کی حدود سے باہر ہی ناکام بنا دیا اور کچھ میزائل سے اسرائیل کی حدود کو نقصان پہنچا ۔ اس حملے میں ایک اسرائیلی لڑکی بھی شدید زخمی ہوئی اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ ہے۔ اس حملے کے بعد مزید اسرائیل اور ایران کے درمیان حالات خراب ھو سکتے ہیں ۔امریکہ اس بارجنگ کو مزید بڑھنے سے روک رہا ہے ۔ اسرائیل کو صرف امریکہ ہی روک سکتا ہے۔ کیونکہ امریکہ اسرائیل کو ہتھیار بھی سپلائی کرتا ہے امریکہ اس جنگ میں خود اسرائیل کا ساتھ نہیں دینا چاہتا اس لیے اب وہ ان معاملات کو سفارت خانوں کی سطح کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے ۔اس حملے کی وجہ سے ایران سے اسرائیل تک فضائی حدود کی پروازیں روک دی گئی ۔اعراق شام کویت مصر اور قطر نے اپنی فضائی پروازے روک دی۔ اگر یہ مزید جنگ شروع ہوئی تو مشرقی وسطی کا خطہ اس جنگ کی زد میں آ جائے گا۔ جس سے بہت سارا جانی و مالی نقصان ہو گا۔

امریکہ کا کہنا ہے اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کا معاملہ صرف دو ریاستوں کے قائم ہونے سے ہی حل ہو سکتا ہے ۔ اور یہ بات سرا سر غلط ہے ہم مسلم ممالک اسرائیل کو کبھی ایک ریاست تسلیم نہیں کریں گئے۔ قائد اعظم نے کہا!” یہودی قوم پورپین ممالک کی ناجائز اولاد ہے جس کو پاکستان کبھی تسلیم نہیں کریں گا۔”

دوسری جانب کویت سٹی میں فلسطینی مزاحمتی تحریک کی جانب سے اسرائیلی کے خلاف کاروائیوں کے حق میں اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کویتی اور غیر ملکیوں کی بڑی تعداد فلسطینی پرچم تھامے جمع ہوئی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے اسرائیل پر حملوں میں سینیئر فوجی کرنل سمیت ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد 500 سے تجاوز کر گئی ۔جبکہ 1590افراد زخمی ہو گئے۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے حماس کے حملوں میں 200 اسرائیلیوں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔

اسرائیل روزانہ سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے لیکن مسلم قومیں خاموش ہیں۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ کو شروع ہوئے تین ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے ۔اس دوران بیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ابتدا میں جب غزہ اسرائیل پر بمباری شروع ہوئی تو پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھی۔ اسلامی ممالک نے اس کی مزمتیں کی۔ جو ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے جا رہے تھے ۔انہوں نے اپنے ان فیصلوں کو روک لیا اور اسرائیل کی مسلسل مزمت کرتے رہے، عالمی برادری سے اس معاملے پر توجہ دینے کی اپیل کرتے رہے۔ کئ ممالک کے سربراہان بالخصوص ایران کے وزیر خارجہ عرب ممالک کے مسلسل دورے کرتے رہے اور اسرائیل کے انہیں متحد ہونے اور اس کے خلاف کارروائی کرنے کا کہتے رہے۔ میڈیا پر بھی اس کے خلاف بہت آواز اٹھی۔ 

اسرائیل کے ان ظالمانہ کارروائیوں اور فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کی شہادتوں پر کئ پروگرام ہوتے رہے، مگر رفتہ رفتہ سب کچھ معمو ل پر آنے لگا۔مسلسل فلسطینیوں پر بمباری کر رہا ہے، ہسپتالوں کے محاصرے کیے ہوئے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں اور زخمیوں کو بھی مارنے سے گریز نہیں کر رہا ہے۔ شہریوں اور رہائشی علاقوں پر مسلسل بمباری جاری ہے، کئ مساجد کو شہید کر چکا ہے، غزہ کا محاصرہ اسی طرح سے جاری ہے، وہاں پر کسی طرح نرمی نہیں آئی، کچھ بھی معمول پر نہیں آیا۔

اسلامی ممالک اور ان کا میڈیا تو جیسے جنگ کی کوریج کرتے کرتے، جنگ کی مزمت کرتے کرتے اور جنگ کو روکنے کی اپیل

کرتے کرتے تھک گیا ہو۔ ان کو تو پہلے ذمہ داری یہ تھی کہ جیسے ہی اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو ساتھ ہی وہ حماس کے ساتھ مل جاتے اور اس کے ساتھ مل کر اسرائیل کے دانت کھٹے کر دیتے۔ اسرائیل کی جرآت نہ ہوتی کہ وہ بیس ہزار مسلمانوں کو شہید کر سکے۔ اتنے بڑے بڑے اسلحے، میزائل ایٹم بم، اور تجربہ کار فوجیں سب کچھ ہونے کے باوجود بیس ہزار مسلمان  ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے دو ماہ کے اندر شہید کر دئیے گئے اور ہم مذمتوں پر اکتفا کرتے رہے۔ یہ ہمارے لیے نہایت شرم کی بات ہے۔پچپن سے زائد اسلامی ممالک کے لیے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی اپنے سامنے بیس ہزار مسلمانوں کو شہید ہوتے دیکھ رہے ہیں اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ کسی پر ذرہ برابر فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ سب اپنے مزے میں ہیں اور اقتدار کے مزے میں دھت ہیں۔ کسی کو پرواہ ہی نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کس قدر ظلم ہو رہا ہے اور ہم ابھی تک زندہ ہیں۔ ہم محض تماشہ دیکھ رہے ہیں اور عیاشیاں دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تھے تو کم از کم جو مذمتوں کا ایک معمولی سا سلسلہ شروع کیا تھا، اس جو جاری تو رکھتے۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم مذمتیں کر کے بھی تھک چکے ہیں۔ چند روز تک کی مزمت کی اور اس کے بعد خاموش ہو گئے۔ اب اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کسی دوسرے ملک میں جا کر اسرائیل کے بارے میں بات نہیں کرتے۔ اس جنگ میں حماس کی حمایت تو دور کی بات اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کر دیں یا  او آئی سی کا اجلاس طلب کر کے ان پر اتنا ہی باور کروا دیں کہ اسرائیل کی یہ کاروائیاں ہمارے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہیں۔ اسلامی ممالک کا میڈیا جو اس کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا۔ پروگرام کر رہا تھا،اب وہ بھی خاموش ہو گیا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے، ہم کیوں اتنی جلدی تھک گئے ہیں؟ فلسطینی تو اسرائیل کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔وہ تو نہیں تھک گئے ہیں۔ یہاں تو سب خاموش ہو گئے ہیں۔جیسے اب اسرائیل نے جنگ بندی کر دی ہے، اب اس نے بمباری چھوڑ دی ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے، وہاں تو روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے خاموشی چھائی ہوئی ہے جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ ہماری یہی مجرمانہ غفلت اور اتنے بڑے ظلم سے چشم پوشی کی کفار کوشہ دے رہی ہے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائیں۔ ظلم پر خاموش رہنا بھی ظالم کی طرف داری کے مترادف ہے اور قدرت ہونے کے باوجود اس کا ہاتھ نہ روکنا تو اس سے بڑا بھی ظلم ہے، اسلامی ممالک جس ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اگر ہم بزدلی کی وجہ سے جنگ میں براہ راست حصہ نہیں لے سکتے تو کم از کم ان کے لیے آواز تو بلند کرتے رہیں ۔ ہمارے پاس پرنٹ و الیکٹرانک یا سوشل میڈیا ہے تو ہم ان کے ذریعے سے فلسطینوں کے حقوق کی بات کرتے رہیں۔دو دن آواز بلند کر کے انہیں بھول نہ جائیں بلکہ جب تک انہیں ان کے حقوق نہیں مل جاتے یا کم از کم جنگ بندی نہیں ہو جاتی تب تک تو ان کے لیے بولتے رہیں اور دنیا کو اس طرف متوجہ کرتے رہی ہے

                            کالم نگار 

                          ثوبیہ شاہ ، فیصل آباد

                        ملک پاکستان

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu