کالم نگار

تقریظ، تنقید، تبصرہ اور مقالہ … از اشہر اشرف

جی این کے اردو

تقریظ، تنقید، تبصرہ اور مقالہ
شاید کہ اب کے آپ سدھر جائیں گے!

کسی بھی ثانوی زبان کو من وعن یا ہوبہو تلفظ کرنا مادری زبان سے قدرے مشکل ہے۔ عام بول چال کے اکثر الفاظ کا تلفظ ماحول کے اثر سے زیادہ بگڑنے کا اندیشہ رہتا ہے بہ نسبتِ ادبی زبان کے مشکل و گنجلک الفاظ کے۔ نیز، وسعت الامکان کوشش کے باوجود کہیں نہ کہیں دوسری یا تیسری زبان کی ادائیگی میں علاقائی زبان کا رنگ در آنا یقینی ہے۔ خیر ابھی ہمارا موضوع تحریری ہے تو مذکورہ بالا اصطلاحات پر مختصر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تقریظ کیا ہے ؟
تقریظ کی تعریف میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صاحبِ کتاب Auther اور موادِ کتاب Material کی خوبیاں اس درجہ بیان کرنا یا گنوانا کہ بات مبالغہ آرائی کی حدود تک جا پہنچے۔ اگر تقریظ کتاب و صاحب کتاب کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے طول پکڑے تو وہ مقدمہ کہلاتی ہے۔
اگر تقریظ میں صرف محاسن کتاب کو ہی موضوع گفتگو بنایا جائے گا تو وہ مدح سرائی کی شکل اختیار کر کے اپنی صنفی شناخت کھو دیتی ہے۔

تنقید کیا ہے؟ یاد رہے! جب تقریظ میں کسی فن پارے کے محاسن و معائب پر مفصل اور سیر حاصل بحث اس انداز میں کی جائے کہ فن پارے کی خوبیاں اور خامیاں عیاں ہوجائیں تو تقریظ تنقید کے دائرے میں داخل ہوتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ادبی تنقید کی جڑے بھی فن پاروں پر لکھے گئے تقریظوں سے ہی جا ملتی ہیں۔
مطلب ادبی تنقید سے مراد کسی تقلیق کار کی ذات کو بالائے طاق رکھ کر فن پارے کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ محاسن کی سراہنا اور معائب کا ازالہ کرنے کی تلقین کرنا۔

تبصرہ کیسے کریں؟
جب ہم کسی کتاب کے ناشر، کمپوزر، تعداد صفات، ، پیش لفظ، انبسات، قیمت اور اس میں شامل مواد کے حوالے سے مثالیں دیےکر اظہار خیال کرتے ہیں تو تبصرہ کہلاتا ہے۔

مقالہ کیا ہوتا ہے؟
جب کتاب میں شعر یا نثر کی صورت میں پیش کئے گئے مواد ،تخلیق ، تنقید یا پھر تحقیق پر انتخاب ، حاشیہ اور مثالیں دیے کر ایک منظم و مربوط مضمون لکھا جائے، جس میں خامیوں اور خوبیوں ، کیا کچھ کہا گیا ہے کیا نہیں کہا گیا، کیوں اور کیسے کہاں گیا ہے یا پھر کیسے کہنا چاہئے تھا، موضوع کے کون سے پہلو تنشنہِ لب رہ گئے ہیں اور کن زایوں پر ضرورت سے زیادہ بحث کی گئی ہے۔ موضوع و مضمون کے حوالے سے مصنف نے تحقیق کرتے وقت تخلیق کار کی فلانی غزل ، نظم ، قطعہ یا انشائیہ و سفر نامے کا حوالا دینا چاہئے تھا، مقالہ کی صنف میں شامل ہے۔

افسوس صد افسوس ہمارے ادیب کسی بھی صنف کی صنفی شناخت و ادبی تعریف سے نابلد ہوکر یا پھر گھریلو مشق کئے بغیر ادبی سیمیناروں، و کانفرنسوں میں متذکرہ بالا اصناف کی صنفی شناخت مسخ کر کے انہیں ایک ہی عنوان کے تحت پیش کر کے مقالوں کے نام پر سطحی و اخباری مضامین تو کہیں تخلیق کاروں کی بیجا تعریفیں لکھ کر قصیدے اور کہیں تبصرے کے نام پر عنوانات کا تعارف پیش کر کے تو کہیں اپنے پیش روؤں اور مغربی نقادوں کی انفرادی آراء کو من و عن نقل کر کے خود کو نقاد کی حیثیت سے منوانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنے ہی جیسے صاحب علم تو کہیں مصالحت پرست اساتذہ سے داد وصول کرتے ہیں۔ اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ بے ادبوں کا ٹولہ ایک جگہ پر جمع ہو کر ایک دوسرے پر باادب ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ شاید کہ اب کے آپ سدھر جائیں گے۔

“ٹر ٹراتا زاغ ہے برسات میں چُپ کوئلیں
ڈالتا ہے وہ خلل یہ مسئلہ درپیش تھا “
( غنی غیور)

حاصلِ سیمینار ” سست رفتار، غلط سمت ، بیجا تنقید، اور ادبی خیانت۔
اشؔہر اشرف

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ