کالم نگار

ندا فاضلی :  ایک شاعر ، ایک انسان از فخر الدین عارفی 

جی این کے اردو

۱۶ اکتوبر ۲۰۲۲

ندا فاضلی :  ایک شاعر ، ایک انسان 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فخرالدین عارفی 

9234422559

 آج کی شام مجھے ندا فاضلی صاحب کی یاد یوں  آئی ، جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجاتی ہے ۔ ایسا تب ہوتا ہے جب دل کا موسم شاداب ہوتا ہے ۔ دل کے آسمان پر بھی کبھی سیاہ گھٹا چھائی رہتی ہے اور موسم ابر آلود ہوجاتا ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کے دل کے آسمان پر کسی کی یادوں کا چاند اپنی پوری شدت کے ساتھ چمکتا اور دمکتا ہے ، باتوں کی کہکشاں ہجر و وصال کے فلک پر ستارے بن کر جھلملاتی ہے اور پھر نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے ٹھیک اسی طرح جب ہم اپنی ننگی آنکھوں سے ستاروں کی انجمن کو دیکھتے ہیں تو نسبتاّ کم روشن ستارے نظر نہیں آتے ہیں ۔۔۔ محبت کا بھی اپنا الگ ایک آسمان ہوتا ہے ، چاند ، سورج اور ستارے ہوتے ہیں ۔ کہکشاں ہوتی ہے اور بادل ہوتے ہیں جو دل کی سرزمین پر کبھی بارش کی شکل میں اور کبھی جب دل کا موسم سرد ہوتا ہے تو شبنم کی شکل میں محبت کے حسین گلابوں کی جڑوں کو شاداب کرنے کے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں  ، تاکہ  دل کی سرزمین پر کھلنے والے ہر گلاب کی پنکھڑیوں کی نازکی برقرار رہ سکے ۔۔۔۔۔۔۔

ندا فاضلی ایک ایسے شاعر تھے جو فلموں کے علاوہ ادب کی دنیا میں بھی اپنا ایک منفرد و ممتاز مقام رکھتے تھے ۔ ان کے دل کی سرزمین بہت زرخیز تھی ، جس میں کہیں مجبت کا گلاب کھلا ہوا نظر آتا تھا ، کہیں عشق کی جوہی ،  چمپا اور چنبیلی نظر آتی تھی ۔ وہ جس جانب نگاہ اٹھا کر دیکھتے  تھے ، پھول کھلتے ہوئے نظر آتے تھے ، کلیاں مسکراتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں اور غنچے چٹختے ہوئے محسوس ہوتے  تھے ۔ وہ محبت کے شاعر تھے ان کا وجود عشق کے خمیر سے تیار ہوا تھا ، خوب صورت  لڑکیاں ان کے چاروں طرف تتلیوں کی مانند طواف کرتی تھیں اور وہ جب چاہتے تھے تو اپنے دل کی کھڑکیوں  کا پردہ کھینچ کر دن کو رات کردیتے تھے اور جب زمانے کا سورج غروب ہوجاتا تھا اور ارمانوں کی شب کا اندھیرا چہار سمت اپنی بانہیں پھیلا دیتا تھا تو پلک جھپکتے ہی دن کی تمام تتلیاں جگنو بن کر ندافاضلی صاحب کو اپنی بانہوں میں جکڑ لیتی تھیں ۔ لیکن جیسے ہی رات کے آخری پہر میں مرغوں کے آذان دینے کی صدا چاروں طرف سے آنے لگتی تھی ، ندا فاضلی کے وجود کا سنّاٹا ان کو اپنے حصار میں جکڑ لیتا تھا اور پھر وہ زندگی  کے صحرا میں کہیں گم ہوجاتے تھے ۔ حقیقت کی تیز دھوپ جب ان کے خوابوں کی سرزمین سے ٹکراتی تھی تو ان کے قدم آبلہ پائ کی وجہ  سے لہولہان ہوجاتے تھے اور خوابوں کے سارے چمن میں اداسی چھاجاتی تھی اور شب کی حسین راہیں بھی سراب کا منظر پیش کرتی تھیں ۔ ندا فاضلی  راستوں کے انتخاب میں سدا دھوکہ کھاتے رہے اور انہیں ان کی حقیقی منزل کبھی نہ ملی اور نہ ہی دل کی وہ سچّی خوشی حاصل ہوئ جس  کی تلاش و جستجو ہر انسان کا مقدّر ہوتی ہے ۔ ندا فاضلی کے دل کا چمن سدا خزاں رسیدہ ہی رہا اور ان کے اپنے وجود کے آنگن میں نہ کوئی محبت کا پھول کھلا ، نہ کلیاں مسکرائیں اور نہ ہی غنچے چٹخے ۔۔۔۔۔۔

منہ کی بات سنے ہر کوئی ، دل کے درد کو جانے کون 

آوازوں کے بازاروں میں خاموشی پہچانے کون 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ میری پرچھائیں ہے یا میں اس کا آئینہ ہوں 

میرے ہی گھر میں رہتا ہے ، مجھ جیسا ہی جانے کون 

(ندا فاضلی )

ندا فاضلی کی زندگی بظاہر خوشیوں سے بھری تھی ، لوگ یہ سمجھتے رہے کہ وہ کرشن ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک ایسی بانسری ہے ، جس کی آواز سنکر ایک نہیں انیک رادھائیں ان کی جانب اچھلتی کودتی چلی آتی ہیں ۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برخلاف تھی وہ محبت کے  صحرا کے ایک ایسے مجنوں تھے جن کو ان کی لیلیٰ کبھی نہیں ملی ۔۔۔۔۔

 بے نام سایہء درد ٹھر کیوں نہیں جاتا 

جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا 

۔۔۔۔۔۔۔

سب کچھ تو ہے ، کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں 

کیا بات ہے ، میں وقت پر گھر کیوں نہیں جاتا۔۔

وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے

وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا 

ندا فاضلی کبھی کبھی شب کے آخری حصّے میں ، مجھے فون کیا کرتے تھے ۔ تب میرے گھر میں بیسک فون ہوا کرتا تھا ، میں جب گھنٹی کی آواز سن کر  رسیور اٹھا کر ہیلو کہا کرتا تھا تو دوسری جانب سے ان کی خمار میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دیتی تھی اور وہ ترنگ میں مجھ سے سوال کیا کرتے تھے :

“عارفی ! سو تو نہیں گےء تھے ؟ ” 

میں جواب دیتا نہیں ندا بھائی ، فن کاروں کو وقت کہاں سونے کی اجازت دیتا ہے ؟ ” 

وہ ہنسنے لگتے تھے اور جیسے دور سے آتی ہوئی مجھے کوئی آواز سنائی دیتی تھی ۔۔۔۔۔

وہ ستارہ ہے چمکنے دو یونہی ، آنکھوں میں 

کیا  ضروری  ہے ؟ اسے  جسم بناکر دیکھو 

( ندا فاضلی )

آج ندا فاضلی ہمارے درمیان نہیں ہیں ، لیکن ان کے سیکڑوں گیت اور نغمے اور خوب صورت اشعار آج بھی ہمارے صحن دل میں محبت کے پودوں کی آبیاری کررہے  ہیں ۔ 

میداں کی ہار جیت تو قسمت کے ہاتھ ہے 

ٹوٹی ہے کس کے ہاتھ میں تلوار دیکھنا 

( ندا فاضلی )

فخرالدین عارفی 

محمد پور ، شاہ گنج ۔ پٹنہ 800006

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ