جی این کے اردو
21 / جون 2022
پروفیسر گوپی چندنارنگ جیسی عظیم علمی وادبی شخصیت کے ساتھ میرے مراسم کاسلسلہ تقریبا تیس برسوں پر پھیلاہوا ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
ان کے دنیاسے جانے کادکھ میرے دامن دل کوتھامے ہوے ہے۔نارنگ صاحب مجھے بہت عزیز رکھتے تھے۔ میری آج ادبی دنیامیں جو معمولی سی شناخت بنی ہے یہ ان کے مفید مشورں پر عمل کانتیجہ ہے۔وہ ایک اعلا پاے کے محقق نقاد،ماہرلسانیات ،مفکرومبصر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے علاوہ ہندی ،انگریزی فارسی،عربی،سنسکرت،سرائکی اور دیگر زبانوں سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ان کی کتابوں کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ادب کی تمام اصناف پر بھرپور لکھا ہے اور بہت معیاری لکھا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ گوپی چند نارنگ صاحب کو خالق کائنات نے کتنابڑا ذہن ودل دیاتھا کہ جنھوں نے زندگی کابیشتر حصہ اردو زبان وادب کی بے لوث خدمت کرنے میں گزار دیا۔ہم کو یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ علم وادب کے بلند پایہ مفکروں کے نظریاتی اختلافات سے بھی بصیرتوں کے زاویے سامنے آتے ہیں۔ میری ان کے ساتھ خط وکتابت رہی ہے۔موبایل فون پہ ان سے باتیں ہوتی رہی ہیں۔اتناہی نہیں بلکہ ان کی رہائش گاہ پہ بالمشافہ ان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ان کےلب ولہجہ،ان کی زبان وبیان میں وہ سحر تھا جو ہر کسی کو مسحور کردیتا تھا۔غرور وتکبر،خود نمائی وخودستائی سے وہ ہمیشہ دور رہے۔انھیں نہ ستائش کی تمنا تھی نہ صلے کی پرواہ۔وہ مسلسل محنت ، انسان دوستی اور اصول پرستی پر یقین رکھتے تھے۔ذہین محنتی اورباصلاحیت اردو کے اسکالروں کی مدد کرنا ان کو مناسب مقام دلاناان کے اخلاقی مشن میں شامل تھا۔وہ دنیاکے جس بھی ملک میں گئے ارود کی خوشبو ،مٹھاس لے کر گئے۔گوپی چند نارنگ ہزار رنگ شخصیت کے مالک تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے نام کے ساتھ نارنگ لکھتے تھے۔میرا خیال ہے علامہ اقبال نے گوپی چندنارنگ جیسے انسان دوست ، عظیم محقق ونقاد اور ماہرلسانیات کے لئے ہی یہ شعر کہا ہوگاکہہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہےبڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدامیں “کاروان اردو ممبئی “کے صدر جناب فرید خان کاشکریہ ادا کرتاہوں کہ انھوں نے مجھے اس تعزیتی نشست میں آنے کاموقع دیا۔