ادبی خبریں

پروفیسر گوپی چند نارنگ کا انتقال پر ملال، مختلف تنظیموں اور ادیبوں نے اظہار تعزیت کیا

جی این کے اردو

19/ جون 2022

معروف ادیب و نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کا انتقال۔اک عہد کا خاتمہ ۔

بنات (نسائی ادبی تنظیم)

بین الاقوامی سطح پر اردو کے سفیر کی حیثیت سے جانے مانے والے نارنگ صاحب کہتے تھے

:”اُردو میری مادری زبان نہیں، میری ددھیال اور ننھیال میں سرائکی بولی جاتی تھی، میری ماں دہلی ہجرت کے بعد بھی سرائکی بولتی تھیں جو نہایت میٹھی، نرم اور رسیلی زبان ہے۔ لیکن مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اُردو میری مادری زبان سے دور ہے۔ اُردو نے شروع ہی سے دوئی کا نقش میرے لاشعور سے مٹا دیا۔ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اُردو میرے خون میں جاری و ساری نہیں۔ یہ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اُردو میری ہڈیوں کے گودے تک کیسے اُترتی چلی گئی، یقیناً کچھ تو جادو ہوگا۔ تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے، میں اُردو کو ’زبانوں کا تاج محل‘ کہتا ہوں “.

نصرت مہدی

افسوسناک خبر

اردو ادب کی عظیم شخصیت عہد حاضر کے صف اول کے اردو نقاد، محقق اور ادیب گوپی چند نارنگ نہیں رہے۔ ان کا جانا یقیناً اردو زبان و ادب کا بڑا خسارہ ہے ۔ ان کی ادبی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا. ہم سبھی ان کے انتقال کی خبر سے صدمے میں ہیں اور ان کی روح کے سکون کے لئے دعاگو ہیں۔

दुखद समाचार

उर्दू साहित्य की महान हस्ती, मौजूदा दौर के प्रथम श्रेणी के उर्दू आलोचक, विद्वान एवं साहित्यकार गोपी चंद नारंग नहीं रहे। उनका जाना वास्तव में उर्दू भाषा व साहित्य का बड़ा नुक़सान है। उनकी साहित्यिक सेवाओं को कभी फ़रामोश नहीं किया जा सकता। ईश्वर उनकी आत्मा को शांति प्रदान करे।

اکادمی ادبیات پاکستان

پروفیسرگوپی نارنگ نے اسلوب نگاری، ساختیات، مابعد ساختیات اور مشرقی شاعری کو قابل ذکر گہرائی اور تخیل کے ساتھ جوڑ کر ادبی تشخیص کے علمی اور نظریاتی فریم ورک کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر یوسف خشک
اکادمی ادبیا ت پاکستان،اسلام آباد
پریس ریلیز
اسلام آباد(پ۔ر) اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نےممتاز اردو اسکالر،ادبی نقاد،نظریہ نگار اور رائٹر پروفیسر گوپی چند نارنگ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہارکیا۔ چیئرمین اکادمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے غالب، میر تقی میر اور بعد ازاں فیض احمد فیض اور فراق گورکھپوری پر قابل ذکر کام کیا ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں تقریباً 60 سے زائدکتابیں لکھیں اور زبان کو فرقہ واریت سے بالاتر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے انگریزی اور ہندی میں ’چلو اردو سیکھیں‘ کے عنوان سے 10کتابیں بھی لکھیں۔انہو ں نے کہا کہ پروفیسر گوپی نارنگ کوجہاں ہندوستان میں پدم بھوشن اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا وہیں پاکستان میں بھی انہیں 2012میں ستارہ امتیازسمیت متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ چند ماہ قبل تک پروفیسر گوپی نارنگ ساہتیہ اکادمی کے صدر تھے، جو ہندوستان کی 24زبانوں میں ہندوستانی ادب کے فروغ کے لیے وقف ہے۔ڈاکٹر یوسف خشک نےکہا کہ پروفیسرگوپی نارنگ نے اسلوب نگاری، ساختیات، مابعد ساختیات اور مشرقی شاعری کو قابل ذکر گہرائی اور تخیل کے ساتھ جوڑ کر ادبی تشخیص کے علمی اور نظریاتی فریم ورک کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال کئی اردو رسائل نے پروفیسر گوپی نارنگ کی زندگی اور ادب میں ان کی خدمات کو منانے کے لیے کئی شمارے شائع کیے ہیں۔ بہت سے معروف میڈیا اداروں، جیسے دور درشن اور بی بی سی نے ان کے کام اور خدمات پر نایاب ریکارڈنگز اور دستاویزی فلمیں تیار کیں۔ڈاکٹر یوسف خشک نے کہا کہ پروفیسر گوپی نارنگ کی وفات سے اردو ادب ایک اہم لکھنے والے سے محروم ہوگیا ہے۔

(محمد سعید)
اسسٹنٹ پی آر او

معصوم مراد آبادی

پروفیسر گوپی چند نارنگ

کل رات سے جب کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کے انتقال کی خبر عام ہوئی ہے اردو حلقوں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ بلاشبہ ان کی شخصیت اور کارنامے ہی ایسے تھے کہ پوری اردو دنیا ان کی معترف تھی۔ وہ ایک محقق، نقاد اور ادیب ہی نہیں تھے بلکہ ان کی حیثیت اردو کے ایک سفیر کی بھی تھی۔ مادری زبان اردو نہ ہونے کے باوجود انھوں نے اردو ادب کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کا سب سے بڑا ہنر گفتگو کا فن تھا۔ وہ جس محفل اور مذاکرے میں شریک ہوتے وہاں اپنی گہری چھاپ چھوڑتے تھے۔ مجھے ان کے ساتھ ایک غیر ملکی سفر میں شریک ہونے کا موقع ملا اور بارہا ان سے گفتگو ہوئی۔ اس وقت ان سے متعلق بے شمار یادیں اور واقعات ذہن میں ابھر رہے ہیں لیکن اس وقت میں سفر میں ہوں۔ انشاءاللہ جلد ہی ان کی یادوں پر مشتمل ایک مضمون قلم بند کرنے کی کوشش کروں گا۔

ناصر عباس نیر

“سخن سراؤں سے زہرا جبیں چلے گئے ہیں:پروفیسرگوپی چند نارنگ کے انتقال پر حرفے چند “
ہندوستان کی معاصر اردو تنقید میں صف اوّل کے تین نقاد تھے: شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی اور گوپی چند نارنگ۔ صرف ڈھائی برسوں میں اسی ترتیب سے رخصت ہوئے۔ نارنگ صاحب عمر میں ان تینوں سے بڑے تھے۔ سب سے آخر میں گئے؛ کل رات کوئی گیارہ،ساڑھے گیارہ بجے ۔ رہے نام اللہ کا!تینوں تیس کی دہائی میں پیدا ہوئے۔ترقی پسند تحریک کے زمانے کے آس پاس۔ تاہم تینوں نے آغاز جدیدیت سے کیا اور اسی لیے ابتدا میں تینوں میں دوستانہ مراسم قائم ہوئے اور عرصے تک رہے۔ نارنگ صاحب نےاسی کی دہائی کےاواخر میں جدیدیت کو خیر باد کہا۔اگرچہ باقی دونوں کے یہاں جدیدیت سے وابستگی قدرے کم ہوئی ، ختم نہ ہوئی۔ فاروقی صاحب ،کلاسیکی ادب اور اسی کے تعلق سے ہنداسلامی تہذیب کی جانب زیادہ متوجہ ہوئے۔ شمیم صاحب کی دل چسپی ہند اسلامی تہذیب سے بھی تھی ،لیکن تہذیبی زوال کا نوحہ اور ہندوستان کی دیگر زبانوں کے ادب سے وابستگی بھی بڑھ گئی تھی۔فاروقی صاحب اور شمیم صاحب کے یہاں تنقید سے بے زاری آخر آخر میں خاصی بڑھ گئی تھی اور شاید اسی کے سبب انھوں نے پہلے سے مختلف طرح سے تنقید لکھی۔ نارنگ صاحب نے ایک بالکل نیا اور مشکل راستہ منتخب کیا: مابعد جدیدیت۔ یہیں سے ان کی ادبی شہرت میں مزید اضافہ ہوا وروہ تنازعات کا شکا ر بھی ہوئے۔ مگر انھوں نے پروا نہیں کی۔ وہ جدیدیت کے خاتمے کےاعلان پر قائم رہے اوران مقدمات ودلائل کو زبانی وتحریری طور پر مسلسل پیش کرتے رہے، جو جدیدیت کے نمٹ جانے سے متعلق تھے۔وہ مابعد جدیدیت کے مغربی تصور کے ساتھ ساتھ اردو کی اپنی مخصوص مابعد جدیدیت کے خدو خال ابھارنے پر مستعد رہے؛ خصوصاً مرکز کی نفی اور حاشیہ کی اہمیت اور مقامیت کے تصورات ان کے پیش نظر رہتے۔نیز کس طرح حاشیہ، مرکز یا اتھارٹی کو تہ وبالا کردیتا (subvert) ہے اور معنی کی گردش کا آغاز ہوتاہے، اسے وہ تفصیل سے اور طرح طرح سے پیش کرتے۔ یہ سب اپنے زمانے کی تنقید کی ممتاز ترین صورت کو از کاررفتہ قرار دیتا تھا اور ایک بڑے حلقے کو مشتعل کرتا تھا۔ اسی دوران میں وہ واقعہ رونما ہوا ،جسے نارنگ صاحب کی تنقید کا Achillles’ heel کہنا چاہیے؛ انھیں سرقے کے الزام کا سامنا ہوا،جسے چاردانگ عالم میں پہنچانے کا آدھا کام ان کی غیر معمولی شہرت اور آدھا ہم عصروں نے کیا ۔بایں ہمہ وہ آخری دم تک جدیدیت کے نمٹ جانے سے متعلق اپنی رائے پر قائم رہے اور کام کرتے رہے۔ پہلے جدیدیت، پھر مابعد جدیدیت توا دب کی تفہیم کے تصورات تھے؛ ان کی بنیادی دل چسپی، اردو زبان ، اس کے تکثیری کلچر، اس کی مشترکہ تہذیب اور اس کے عظیم ادبی مظاہر سے تھی۔ ان کے اہم ترین کاموں میں ہندوستانی قصوں سے ماخود مثنویاں ،امیر خسرو کا ہندوی کلام، املا نامہ، اسلوبیات ِ میر، اردو غزل اور ہندوستانی تہذیب،اردو زبان اور لسانیات،فکشن شعریات اور غالب: معنی آفرینی، جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات ہیں۔ یہ سب کتابیں اردو ادب سے متعلق ایک نئی بصیرت دیتی ہیں اور اردو ادب کی تہذیبی ،لسانی ، جمالیاتی تنوع اور گہرائی کو ایک پر لطف اسلوب میں سامنے لاتی ہیں۔ لیکن یہ لطف ذہنی ہے، تاثراتی نہیں ہے۔
وہ ایک غیر معمولی مقرر بھی تھے۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ انھیں پہلی بار سننے والا ہر شخص کہتا۔انھوں نے بھرپور زندگی بسر کی ۔ جم کر علمی کام کیا اور بہت کیا اور معیاری کیا۔
ہم اور کتنے لوگوں کو الوداع کہیں گے!
ہماری آنکھ شناور ہوئی ہے کیا نم ناک
سخن سراؤں سے زہرا جبیں چلے گئے ہیں (شناور اسحاق)
ناصر عباس نیّر
16 جون 2022ء

حسن رضا

اردو زبان ایک دیدہ ور ناقد سے محروم ہوگئی (گوپی چند نارنگ)

حسن رضا

صدر ادارہ ادب اسلامی ہند

گوپی چند نارنگ کے انتقال سے اردو زبان و ادب اپنے سچے عاشق اور ایک دیدہ ور ناقد سے محروم ہوگئی۔ حالیؔ اردو تنقید کے بنیادی پتھر ہیں۔ ان کے بعد کلیم الدین احمد نے مغرب سے حاصل کردہ تنقیدی شعور اور تیور سے اردو ادب میں نئی بصیرت کا اضافہ کیا۔ اسی طرح ترقی پسند نقادوں میں احتشام حسین اور ان کے ساتھیوں نے مارکسی نظریات کی روشنی میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو تنقید کو نئی بلندی تک پہنچایا۔ اسی کے ساتھ اسلامی یا تعمیری ادبی تحریک نے ادب کی روحانی و اخلاقی قدروں کی اہمیت پر زور دیا اور ادب میں اخلاقی قدروں کی جہت کی اہمیت پر اصرار کیا۔ اس سلسلے میں حسن عسکری، سلیم احمد، نعیم صدیقی اور ڈاکٹر عبدالمغنی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ بہرحال ترقی پسند تنقید کے فوراً بعد جدیدیت کے علم بردار ناقد شمس الرحمان فاروقی کا نام آتا ہے، جنھوں نےفلسفۂ جدیدیت کے تحت اردو تنقید میں بعض بنیادی بحثوں کو از سرنو چھیڑ کر تنقید کو ایک نئی گہرائی اور گیرائی عطا کی۔ انھوں نے اپنی تنقیدی بحث کو مدلل کیا اور منطقی اسلوب اختیار کیا بلکہ آہستہ آہستہ وہ اپنی ذات میں تنقید کی ایک دبستان اور دو دہائی تک تنقید کی دنیا پر چھائے رہے۔ چناں چہ اپنی ادبی کاوش سے جدیدیت کی ایک پوری ٹیم تیار کر دی۔ اسی کے ساتھ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انھی دنوں بعض ناقدین نے اسلامی ادب کے ناقدین کی طرح ترقی پسندی اور جدیدیت کےدو انتہاؤں کے بیچ ایک اعتدال و توازن کو اپنا شعار بنایا۔ اس سلسلےمیں آل احمد سرور کا نام نمایاں ہے۔ جنھوں نے تنقید کی زبان کو تخلیقی اسلوب کے آداب سکھائے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو تنقید کا قافلہ 1980 کے بعد سست گام ہو چلا تھا اور ایک گونہ جمود کا شکار ہو جاتا یا ترقی پسندی اور جدیدیت کی پرانی بحثوں کو اسلوب بدل بدل کر دوہراتا رہتا۔ اگر گوپی چند نارنگ کی قد آور شخصیت تنقید کے اس پورے عمل کو عصری تقاضے سے ہم آہنگ کر کے نئی جہت کے ساتھ لسانیات اور مابعد جدیدیت کی نئی بحثوں سے اردو تنقید کو پوری طرح آشنا نہ کرتی۔نارنگ کی خصوصیت یہی ہے کہ انھوں نے اردو تنقید میں تازہ کاری کو جاری رکھا۔ حالی نے ابتدا کی اور گوپی چند نارنگ نے اردو تنقید کو لذتِ تجدید سے آشنا کیا اور یہ معمولی کام نہیں ہے۔ اس حیثیت سے اردو ادب میں ان کے تجدیدی کام کا جائزہ اب لینا چاہیے۔ڈاکٹر گوپی چند ادب کو قدیم و جدید، ترقی پسند و غیر ترقی پسند کے دائروں میں قید کر کے نہیں دیکھتے۔ ادب میں نظریے کے وہ قائل ضرور ہیں، لیکن گروہ بندی سے ادیب کو بلند رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ادبی لیبل کو پسند نہیں کرتے۔ وہ جدیدیت سے کفر نہیں کرتے لیکن شمس الرحمان فاروقی کی طرح اس کے مومن حنیف نہیں ہیں بلکہ اس میں بھی ایک بت ہزار شیوہ کے متلاشی ہیں۔ ان کی جدیدیت میں صرف انسان کے باطن کی نہیں بلکہ خارجی تقاضوں کی شہادت بھی ملتی ہے۔ ان کی انھی اداؤں کے پیش نظر ڈاکٹر عبد المغنی نے مزاحیہ اور لطیف انداز سے ایک ادبی نشست میں چٹکی لیتے ہوئے کہا تھا کہ نا+رنگ صاحب میں آپ کی بے رنگی کو خوب سمجھتا ہوں۔ فاروقی صاحب اسی کو اپنے اسلوب میں اس طرح کہتے ہیں کہ گوپی چند نارنگ ادب کا مطالعہ غیر مشروط ذہن سے کرتے ہیں۔ وہ ادب سے یہ تقاضا نہیں کرتے کہ وہ آپ ہی کے معتقدات اور تصورات کی ترجمانی کرے۔ بہرحال یہ ایک علاحدہ موضوع ہے لیکن اتنی بات اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کی تنقیدی بصیرت میں تہذیبی شعور کی کارفرمائی کے ساتھ ادبی جمالیات، لسانیات اور مابعد جدیدیت کا حسین امتزاج اور اس کے تانے بانے کی عکاسی صاف نظر آتی ہے۔ اور یہی چیز ان کو اردو کے دوسرے ناقدین سے ممتاز کرتی ہے۔ انھوں نے ادب میں مابعد جدید رجحانات کے ساتھ لسانیات اور اسلوبیات کی ہنرمندی کو خاص طور سے اپنی ادبی تنقید میں برت کر دِکھایا ہے۔ ان کے تنقیدی تصورات کے بنیادی حوالے میں زبان، اسلوب اور تہذیب و ثقافت بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ جدید لسانیات نے ادب کے مطالعے میں جو نئی وسعت پیدا کرکے اس میں کئی راہیں نکالی ہیں ساختیاتی تنقید اور اسلوبیاتی تنقید کا رشتہ بھی اسی سے قائم ہوتا ہے۔ چناں چہ اردو ادب میں ساختیاتی تنقید کو صحیح طور پر روشناس نارنگ جی نے ہی کرایا۔ سچی بات یہ ہے کہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کو اعتبار و وقار بھی انھی کی نگارشات سے حاصل ہوا۔ چوں کہ پروفیسر نارنگ نے لسانیات کی باضابطہ گہری اسٹڈی کی تھی، اس کے تمام شعبوں سے اچھی طرح واقف تھے چناں چہ انھوں نے خود بھی ذکر کیا ہے کہ ”میں اسلوبیات کو ادبی مطالعے کے لیے ایک مدت سے برتتا اور پرکھتا رہا ہوں ۔“ گوپی چند نارنگ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ادب کے تقریباً تمام گوشوں پر لکھا۔ فکشن ہو یا شاعری، مشرقی ادب ہو یا مغربی، تحقیق ہو یا تنقید، زبان کا مسئلہ ہو یا تعلیم و تدریس ان تمام بحثوں میں انھوں نے حصہ لیا اور ان کے زور قلم کے معترف سب رہے۔ ان کی تحریر بھی بہت شگفتہ نکھری ہوئی تھی۔ اس میں خشکی نہیں تھی۔ زبان کی ادا شناسی اور اسلوبیات کی مہارت ان کی تحریر اور تقریر دونوں سے نمایاں تھی۔ گل افشانی گفتار میں تو ان کو خاص ملکہ تھا، وہ اپنی جادو بیانی سے محفل کو جیت لیتے تھے۔ انھوں نے بھری پُری اور بھر پور زندگی گزاری۔ تصنیف و تالیف اور تعلیم و تدریس کے علاوہ سیمینار، لیکچرس، مناصب، شہرت، شاگردوں، مریدوں، نیاز مندوں اور ایوارڈ کی تو بہار تھی، جو ہر موسم میں ان کے در سے گزرتی تھی اور کبھی کبھی ٹھہر کر پوچھتی تھی کہ کدھر جائیں۔ اس سے بہت سارے لوگ فیض یاب ہوئے۔ اردو تنقید کے آسمان پر 1952 کے بعد آفتاب و ماہتاب کی مانند دو شخصیتیں نمایاں ہوئیں۔ ایک شمس الرحمان فاروقی اور دوسرے ڈاکٹر پروفیسر گوپی چند نارنگ۔ ایک پہلے اللہ کو پیارے ہوچکے اور اب ہم دوسرے یعنی گوپی چند نارنگ کی جدائی کا سوگ منارہے ہیں۔ گوپی چند کسی ایک حلقے کے آدمی نہیں تھے۔ ویسے ہر بڑی شخصیت کے اردگرد حلقہ بن جاتا ہے۔ ہم سب ان کے لیے سوگوار ہیں اور ان کے دوست احباب کے ساتھ اہل خانہ کے غم میں شریک ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کی ادبی کاوشوں اور تنقیدی رویوں کو اردو کے مختلف شعبے آگے بڑھائیں گے اور مختلف اکیڈمیاں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کوتاہی نہیں برتیں گی۔

پروفیسر ریاض احمد

پروفیسر گوپی چند نارنگ کا انتقال اردو زبان و ادب کا بڑا نقصان : پروفیسر ریاض احمد

جموں

اردو کے معروف ادیب و نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کے انتقال سے پوری اردو دنیا سوگوار ہے۔آج شعبہ اردو جموں یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو پروفیسر ریاض احمد کی صدارت میںتعز یتی اجلاس کا انقاد کیا گیا۔ اس موقع پر پروفیسر ریاض احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر نارنگ کا اس دنیا سے جانا دراصل ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ وہ ایک رجحان ساز نقاد تھے۔ انھوں نے تقریباََ ساٹھ برسوں تک اردو زبان و ادب اور تنقید کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔اردو ادب میں مابعد جدیدیت کے حوالے سے ان کی خدمات نا قابل ِ فراموش ہیں۔وہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الا اقومی سطح پر بھی اردو کی شناخت کے ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتے تھے ۔انھوں نے کُل ہند انجمن اساتذہ اردو کے فعال اور متحرک رکن کی حیثیت سے بہت ہی اہم خدمات انجام دیں۔پروفیسر نارنگ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی اور جامعہ اسلامیہ میں اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔وہ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس بھی رہے ہیں۔نارنگ تقریباََ پانچ درجن کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات، ادب کا بدلتا منظر نامہ،اردو افسانہ روایت اور مسائل،ادبی تنقید اور اسلوبیات،ہندوستان کی تحر یک آزادی اور اردو شاعری، ترقی پسندی، جدیدیت ،مابعدجدیدیت وغیرہ قابل ِذکر ہیں۔اس موقع پر پروفیسر شہاب عنایت ملک،ڈاکٹر چمن لال،ڈاکٹر عبدالرشید منہاس،ڈاکٹر فرحت شمیم نے بھی اظہار ِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کمی کو ایک عرصے تک پورا نہیں کیا جا سکتا اور ان کی زبان و ادب کے تئیں خدمات نا قابل ِفراموش ہیں۔اس تعزیتی اجلاس میں ڈاکٹر قیوم،ڈاکٹر رضا محمود،ڈاکٹر جاوید احمد شاہ،ڈاکٹر عجاز احمد، عمر فاروق،یاسر عرفات،پرتاپ سنگھ،سنجے روشن اور شعبہ سے تعلق رکھنے والے دیگر اسکالرز بھی موجود تھے۔

مسعود بیگ تشنہ

: ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نہیں رہے:
آمد : 11 فروری 1931 دوکی،بلوچستان ،زیریں پنجاب (برطانوی ہند) رخصت : 15 جون 2022 شہر شیرلٹ، شمالی کیرولینا، یو ایس اے
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بدھ کو شمالی کیرولینا (یو ایس اے) کے شہر شیرلٹ میں انتقال فرما گئے. آپ بیمار تھے اور امریکہ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے تھے. آپ کے پسماندگان میں اہلیہ منورما نارنگ اور دو بیٹے ارون نارنگ اور ترون نارنگ ہیں جن میں سے ایک بیٹے یعنی ارون نارنگ پہلی مطلقہ بیوی سے ہیں. دونوں بیٹے امریکہ میں ڈاکٹر ہیں.
تقسیمِ برطانوی ہند کے بعد آپ پاکستان سے ہندوستان آ گئے تھے. آپ کے والد معزز زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور فارسی اور سنسکرت کے عالم اور ادیب تھے. آپ کے والد نے ہی اپنے بیٹے کو ادب کے مطالعے طرف مائل کیا مگر وہ کالج میں انہیں میتھس سائنس لے کر انجینئر بنتے دیکھنا چاہتے تھے. . گوپی چند نارنگ صاحب نے دہلی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور شعبۂ تعلیم کی فیلوشپ حاصل کر کے پی ایچ ڈی کی. آپ کی تقرری عیسوی سنہ 1974 میں اردو کے پروفیسر کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی جیسی مقتدر یونیورسٹی میں ہوئی. آپ نے دو بار دہلی یونیورسٹی میں اپنی خدمات پیش کیں. غیر ملکی جامعات میں اپنی خدمات پیش کرنے کے دوران آپ وِسکونسن یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہے اسی دوران اوسلو یونیورسٹی اور مینیسوٹا یونیورسٹی میں تدریسی خدمات پیش کیں. سرائیکی آپ کی مادری زبان تھی. ہندی، اردو، فارسی، انگریزی پر آپ کو یکساں عبور حاصل تھا.
آپ کی غیر معمولی شہرت اردو کے نامور ادیب، نقاد، محقق،ماہرِ لسانیات، ماہرِ اسلوبیات ، نظریہ ساز اور میر، اقبال و غالب شناس کے طور پر رہی ہے. آپ بھارتیہ تنقیدی اصول داں اور نظریہ ساز کے طور پر غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں. لسانیات، اسلوبیات، ساختیات اور پسِ ساختیات پر آپ کا کام اہم مانا جاتا ہے. عیسوی سنہ 1995 میں آپ کی تنقیدی کتاب ‘ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات’ پر آپ کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا. مشرقی شعریات اور سنسکرت شعریات پر آپ نے سیر حاصل کام کیا ہے. 1961 میں آپ کی پہلی تصنیف ‘دہلوی اردو کی کرخنداری بولی’ پر منظر عام پر آئی جو دہلی کے مقامی مزدوروں اور کاریگروں کی مٹتی بولی ہے.
آپ نے سنہ 2014 ع میں شونیتا (صفر پن، خالی پن، بے وجودگی ) کے تناظر میں کلامِ غالب کی نئی تفہیم کی جو ابھی تک حرفِ آخر ہے. اردو املا اور تلفظ پر آپ کا ایک طویل مضمون اردو املا اور تلفظ پر کام کرنے والوں کے لئے اہم ہے. آپ کی تازہ کتاب ‘اردو املا’ 2021 میں پاکستان سے شائع ہوئی. تہذیب و ثقافت ،ادب اور تنقید پر آپ کی پینسٹھ (65) سے زیادہ کتابیں ہیں. آپ کی کتابوں کی تعداد اردو میں 40 سے زیادہ ، انگریزی میں 15 اور ہندی میں 8 ہے (بحوالہ گوپی چند نارنگ صاحب کی ویب سائٹ : گوپی چند نارنگ ڈاٹ کام). اردو ادب کے سفیر کے طور پر بھی آپ کی کافی بین الاقوامی شہرت رہی ہے. نارنگ صاحب کے سماجی تہذیبی اور تواریخی مطالعات میں کچھ اہم مطالعات یوں ہیں : ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں (1961) ،سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ (1986) امیر خسرو کا ہندوی کلام (1987) ، اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب (2002) ،ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور اردو شاعری (2003) ،اردو زبان اور لسانیات (2006).
پدم شری، پدم بھوشن (بھارت)، ستارۂ امتیاز (پاکستان)، گیان پیٹھ اور ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ا،دہلی یونیورسٹی(2005) اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی(2013) کے پروفیسر ای امریٹس، 1998 سے 2002 تک نائب صدر اور 2003 سے 2007 تک ساہتیہ اکادمی کے صدر رہے(مبینہ بدعنوانی کا متنازعہ دور) . آپ کچھ عرصے پہلے تک ساہتیہ اکادمی کی سلیکشن کمیٹی سے منسلک رہے تھے. اردو اکیڈمی دہلی اور قومی کونسل برائے فروغِ اردو نئی دہلی کے بھی مختلف دورانیوں میں وائس چیئرمین رہے. آپ کی علمی، ادبی و ثقافتی خدمات کے لئے کئی ممالک میں آپ کو بین الاقوامی خطابات سے نوازا گیا. حکومتِ پاکستان نے اقبال پر فکر انگیز کام کے لئے آپ کو پریسیڈنٹز گولڈ میڈل سے بھی نوازا. آپ کی کچھ اردو تصانیف کے ترجمے انگریزی زبان میں بھی ہوئے ہیں.
ابھی حال ہی میں غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی نے ڈاکٹر گونارنگ صاحب کی مجموعی ادبی خدمات کے اعزاز میں ایک ادبی پروگرام بھی منعقد کیا۔
تقریباً پینتیس چالیس سال پہلے کی بات ہے. میں بیس پچیس سال کا رہا ہونگا. برہانپور میں ہر سال ساروَجَنِک گنیش اتسو کے موقع پر دس روزہ ساروجَنِک ویاکھیان مالا (لکچر سیریز) کا انعقاد ہوتا تھا. (اب بھی شاید ہوتا ہو) جس میں ہندوستان کے ہر اہم شعبے کی نامی شخصیات کو اہم موضوعات پر سننے کا موقع مل جاتا تھا. اردو ادبیات کے تعلق سے گوپی چند نارنگ صاحب کا بھی لیکچر تھا. غالباً اسی تقریر کے سلسلے میں، میں نے گوپی چند نارنگ صاحب کو ایک خط لکھا تھا. ان کا جواب بھی آیا تھا. تب اردو میں ٹائپ رائٹر پر لکھا خط میں نے پہلی بار دیکھا تھا.
@مسعود بیگ تشنہ
15 جون 2022 ،اِندور ،انڈیا

الوداع نارنگ صاحب الوداع

مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر

بین الاقوامی سطح پر اردو کے سفیر اور مجلس فروغ اردو ادب قطر کے عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ کی بھارت میں قائم جیوری کے سربراہ، ناقد، محقق، ادیب اور اردو کے خادمِ اعلی ڈاکٹر پروفیسر گوپی چند نارنگ آج پندرہ جون دوہزار بائیس کو امریکہ میں داغ مفارقت دے گئے۔ مجلس فروغ اردو ادب کے چئیرمین جناب محمد عتیق نے اس جانکاہ خبر پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی وفات نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے کروڑوں اردو نوازوں کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ عہدِ یوسفی کی طرح آج “عہدِ نارنگ” بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی سربراہی میں بھارت کی آزاد جیوری کے فیصلے کی روشنی میں مجلس فروغ اردو ادب سن انیس سو چھیانوے سے ہندوستانی ادبا کی خدمت میں ہر سال عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ پیش کرتی آئی ہے اور ڈاکٹر صاحب کی صائب آرا کا احترام کرتی آئی ہے۔ مجلس کے ساتھ آنجہانی ڈاکٹر نارنگ صاحب کا تعلق کئی دہائیوں پر محیط ہے اور اس طویل سفر کے دوران انہوں نے ہر قدم پر انتہائی خلوص، محبت اور باقاعدگی کے ساتھ مجلس کو اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔ آج ان کی رحلت پر مجلس فروغ اردو ادب قطر کا ہر کارکن اور پوری اردو دنیا سوگوار ہے۔ کارکنان مجلس دنیا کے ہر خطے میں موجود “سوگوارانِ نارنگ” کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور ناقابل بیان دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔

عبید طاہر

سکریٹری جنرل

مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر

پندرہ جون ۲۰۲۲

انجمن ترقی اردو ہند، دہلی

اردو ادب کے ممتاز محقق اور ناقد پروفیسر گوپی چند نارنگ کے سانحۂ ارتحال پر انجمن ترقی اردو (ہند) کی تعزیتی قرار داد

نئی دہلی:

اردو کے عالمگیر شہرت کے حامل ادیب، محقق، ناقد اور ماہرِ لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ کا 15جون 2022 کو91 برس کی عمر میں امریکہ میں انتقال ہوگیا۔ اُن کی وفات پر انجمن ترقی اردو (ہند) نے اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک تعزیتی قرار داد پاس کی جس میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی مختلف جہات شخصیت اور ان کی گونا گوں علمی و ادبی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے انھیں موجودہ عہد میں اردو کا آخری بڑا نقاد قرار دیا اور کہا کہ اُن کے انتقال سے اردو زبان و ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا نیز اردو ادبیات میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کا پُر ہونا ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہ گوپی چند نارنگ محض ایک فرد کا نام نہیں بلکہ وہ ایک ادارہ، ایک بین الاقوامی انجمن کی حیثیت رکھتے تھے۔واضح ہو کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931 کو غیر منقسم ہندستان میں صوبہئ پنجاب کے کودکی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بزرگوں کا آبائی وطن مغربی پنجاب کا ضلع مظفر گڑھ تھا۔ ان کے والد جناب دھرم چند نارنگ بلوچستان ریونیو سروس میں افسرِ خزانہ تھے۔ مگر تقسیمِ ملک کے بعد ان کے والدین اور بھائی بہنیں سب ہندستان آگئے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے دہلی کالج (دہلی یونی ورسٹی) سے 1952 میں گریجویشن کیا اور پھر ایم۔اے کے لیے دہلی یونی ورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں انھیں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی سرپرستی حاصل ہوئی جن کی توجہ اور خود ان کی لگن اور جدوجہد نے انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور اس طرح انھوں نے 1954 میں اردو ادبیات میں ایم اے کی سند حاصل کی 1958 میں اردو شاعری کے ثقافتی مطالعے کے موضوع پر انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1957 میں وہ دہلی یونی ورسٹی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں اردو کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ 1961 سے 1974 تک وہ دہلی یونی ورسٹی کے شعبہئ اردو میں ریڈر رہے۔ اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہئ اردو میں پروفیسر اورصدرِ شعبہ ہے۔ 1986 میں آپ کو دہلی یونی ورسٹی کے شعبہئ اردو میں پروفیسر مقرر کیا گیا جہاں 1996 تک تدریسی خدمت انجام دی۔ 1996 سے 1999 تک دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین رہے۔ 2003 میں آپ ساہتیہ اکادمی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اُن کے زمانہئ کار میں ساہتیہ اکادمی کے اردو شعبے میں جو نمایاں اشاعتی کام اور علمی و ادبی مذاکرات و تقریبات منعقد ہوئیں وہ اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئیں۔ اس موقع پر انجمن اردو (ہند) کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ سے میرے دیرینہ مراسم رہے ہیں۔ انھوں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنے آپ کو ہمیشہ سرگرمِ عمل رکھا۔ ان کی تحریریں حسنِ بیان اور معنی آفرینی کے سیاق میں اردو نثر کا بیش بہا سرمایہ ہیں تو اُن کا طرزِ خطابت و تکلم اپنی نظیر آپ ہے۔ زندگی اور ادب کے کسی بھی موضوع پر اتنی مؤثر، پُرشکوہ اور دل پذیر تقریر کا ایسا ملکہ شاید ہی کسی اور کو حاصل ہو۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تحریروں اور تقریروں نے پوری دنیا میں انھیں ایک وسیع النظر ہندستانی ادیب، محقق اور دانش ور کے طور پر تسلیم کرایا۔ بلاشبہ وہ ایک عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ میں آخر میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کے پسماندگان سے تعزیت کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ خدا انھیں صبر دے۔—

ڈاکٹر غلام نبی کمار

اردو زبان و ادب کے شیدائیوں کو ناقابل تلافی نقصان،
آہ! ایک عظیم شخصیت، ادیب اور دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
نارنگ صاحب کے خلا کو اردو میں کوئی پُر نہیں کر
سکتا۔

RIPGopiChandNarang

پروفیسر یعقوب یاور

ایوان اردو کا مرکزی ستون گر گیا

گوپی چند نارنگ

پروفیسر اسلم جمشیدپوری

پروفیسر گوپی چند نارنگ کا انتقال

اردو زبان وادب کا بڑا نقصان ہے

سیفی سرونجی

میرے محسن، میرے کرم فرما، میرے سرپرست اور مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے نارنگ صاحب۔۔۔کیسے یقین کروں؟

ڈاکٹر زبیر شاداب

Mohd Musa Raza
موسیٰ رضا کی اطلاع کے مطابق, اردو کے معروف نقاد اور ماہرِلسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ انتقال کر گئے.
افسوس صد افسوس

ملک کاشف اعوان

آہ گوپی چند نارنگ…

گوپی چند نارنگ کا نام پہلی دفعہ تب سُنا جب اُردو ادب کی تاریخ سے نبرد آزما ہوئے۔ پھر ایم اے اُردو کے دو سال اور ایم فل اُردو میں تسلسل سے گوپی چند نارنگ سے رابطہ رہا جو ان کے گرانقدر خدمات کے طفیل عقیدت میں بدل گیا۔
گوپی چند نارنگ ہمارے دور کے بلند پایہ ادیب، جید نقّاد اور ماہر لسانیات تھے۔ ان کے طفیل اردو تنقید کے حجم میں گرانقدر اضافہ ہوا۔ 1931 کو بھارتی پنجاب میں پیدا ہونے عظیم اُردُو ناقد آج امریکہ میں انتقال کر گئے۔
اللہ عزوجل نے انہیں بے شمار خصوصیات سے نوازا تھا اور اُردو سے محبّت اور خدمت میں انہوں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
ان کے عقیدے اور مذہبی فلسفے کے مطابق اللہ ان کی اگلی منازل میں بعینیہ عنایات فرمائے۔ آمین


ملک کاشفؔ اعوان
چکوال

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ