تاریخی مضامین

تاریخ کے جھروکے سے، ساٹھ قبروں کی حقیقت کیا ہے؟ تحریر از محمد انیس الرحمٰن خان، دہلی

جی این کے اردو

20 /جون 2022

تاریخ کے جھروکے سے
ساٹھ قبروں کی حقیقت کیا ہے؟


محمد انیس الرحمٰن خان،دہلی
anis8june@gmail.com
7042293793
اہل ادب کے یہاں فروغ اردو ادب میں دکن کے ایک خاص مقام اور اہمیت سے انکار کی کوئی گنجائش ہو ہی نہیں سکتی ہے اور اس میں بھی بیجاپور کی عادل شاہی حکومت تہذیب وتمدنی اعتبار سے ایک ممتاز مقام کی حامل رہی ہے۔چنانچہ عالمی شہرت یافتہ مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے نصاب میں شامل “اردو زبان وادب کی تاریخ”میں صفحہ نمبر ۲۲۱ پر تحریر ہے کہ “عادل شاہی دور دکن کی تاریخ میں ایک خاص امتیاز اور اہمیت کا حامل ہے۵۹۸؁ھ سے ۸۹۰۱؁ھ تک اس خاندان کے نو حکمرانوں نے مملکت بیجاپور پر نہایت شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی۔عادل شاہی حکمراں علم وادب اور فنون لطیفہ کے نہایت شائق تھے۔ انھوں نے علماء، فضلا، شعرا، اُدبااور دیگر اہل ہُنر کی بڑی قدر دانی اور سرپرستی کی۔ بیجاپور میں ان کی بنوائی ہوئی کئی عمارتیں،محلات،شہر، برج،مسجدیں،مقبرے اور کنویں وغیرہ آج بھی محفوظ ہیں اور عادل شاہوں کی عظمت رفتہ کی یادگار ہیں۔ عادل شاہی حکمراں نہایت منصف مزاج اور رعایاپرور واقع ہوئے تھے۔انھوں نے بیجاپور میں ایک گنگا جمنی کلچر کو فروغ دیا۔ “


قبروں کے تعلق سے افواہ:۔

بھارت کی موجودہ ریاست کرناٹک کے فصیل بند شہر بیجاپور میں الامین میڈیکل کالج کے قریب جنگلات وبیابان کے درمیان ایک پُرانی عمارت کے وسط میں ایک چبوترے پرسات لائینوں میں ایک ہی جیسی کئی قبریں موجود ہیں۔جوقرب وجوار میں “ساٹھ قبروں “سے مشہور ہیں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ تمام ساٹھ قبریں عادل شاہ کے جنرل(آرمی چیف)افضل خان کی ان بیویوں کی ہیں جن کو افضل خان نے شیواجی کے ساتھ ایک معرکہ سے قبل اپنے ہاتھوں سے اس لئے موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا تاکہ افضل خان کی موت کے بعد ان کی بیویوں کے ساتھ کوئی دوسری شادی نہ کرلے یا ان کو قیدی بناکر بے عزت نہ کرے۔خیال رہے کہ افضل خان کی شہادت نومبر 1659؁ء میں شیواجی کے ہاتھوں پرتاب گڑہی میں ہوئی تھی۔

ْقبروں کی حقیقت

اردو ادب کی تاریخ کے شائق، اپنے آئی اے ایس کے امتحان میں اردو کو ایک مضمون کے طور پر رکھنے والے اورحضرت سیدمحمدحسینی خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کے خانوادہ کے چشم وچراغ پیرطریقت حضرت محمد شائق اقبال چشتی اس تعلق سے کہتے ہیں کہ”عوام میں یہ مشہور ہے کہ یہاں ساٹھ قبریں ہیں ایسانہیں ہے بلکہ یہاں چونسٹھ قبریں ہیں جیسے ہی آپ گیٹ سے اندر داخل ہوں گے تو پہلی چار قطاروں میں گیارہ گیارہ، پانچویں قطار میں چھ اور ساتویں و آٹھویں میں سات سات قبریں لائین سے بنی ہوئی ہیں۔ان میں ایک قبر سطح زمین سے مل چکی ہے مگر اس کے نشانات واضح ہیں۔ قبروں کی بناوٹ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تمام قبریں خواتین کی ہی ہیں کیونکہ تمام قبروں میں اُوپر کی طرف گہرائی ہے جو عموماً خواتین کی قبروں میں ہی ہوتی ہے۔اب رہی درج بالا باتیں تو اس میں سچائی نظر نہیں آتی کیوں کہ اس احاطہ میں صرف قبریں ہی نہیں ہیں بلکہ قبروں والے چبوترے سے ملی ہوئی تقریباً اسی زمانے کی ایک مسجد بھی ہے اور مسجد کے ٹھیک پیچھے کی طرف بنی عمارتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس کو رہائش یا آرام گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہوگا کیونکہ یہاں پانی کا معقول انتظام آج بھی بولی (کنواں) کی شکل میں موجود ہے۔ ان تمام تفصیلات سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ اس قبرستان کو شاہی خاندان کی خواتین کے لئے مخصوص کیا گیا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ یہاں صرف اور صرف خواتین کی ہی قبریں قرینے سے سجاکر بنائی گئی ہیں۔ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ عادل شاہی دور ایک علمی دور ہے، اور بادشاہوں کے دور میں سلطنت کے لئے جنگ ہونا ایک عام بات تھی، ایسے میں اس دور کا سپہ سالار جہالت سے بھرا بزدلانہ قدم کیسے اُٹھاسکتا ہے؟ “


بہر کیف!راقم الحروف نے اس جگہ کا معائنہ بذات خود بھی کیا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ محمد شائق اقبال چشتی کی باتیں قرینہ قیاس معلوم ہوتی ہیں۔کیونکہ عادل شاہ کے جنرل(آرمی چیف) افضل خان کی موت نومبر1659ء؁ میں ہوئی،اس کے بعد بھی عادل شاہی دور حکومت 27برسوں تک باقی رہی۔ اس لئے افضل خان کو اپنی بیگمات کو مارنے کی ضرورت کیوں کر پیش آسکتی ہے؟۔ جیساکہ”اردو زبان وادب کی تاریخ”میں صفحہ نمبر۱۱۱ پر تحریر ہے کہ” آخر کار 1686؁ء میں اورنگ زیب نے بیجاپور کو فتح کرلیااور سکندر عادل شاہ کوگرفتار کرکے قید کردیا۔ اس طرح سلطنت بیجاپور کاخاتمہ ہوگیا۔ “


واضح ہو کہ مذکورہ قبرستان آثار قدیمہ کے تحت آتا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں پر آثارِ قدیمہ کی جانب سے قبرستان کے تعلق سے لوگوں کو درست معلومات فراہم کرنے کے لئے کوئی بھی تختی نہیں لگائی گئی ہے تاکہ درست تاریخ عوام وسیاحوں تک پہنچ سکے۔ اس کی شکایت کرتے ہوئے قبرستان پر آنے والے جھارکھنڈکے سیاحوں میں سے واجدہ بانو،شمسیرعلی، ظفراقبال اورعارف رضا وغیرہ کہتے ہیں کہ محکمہ آثار قدیمہ کو اس کی جانب فوری توجہ دینی چاہئے تاکہ ہم جیسے سیاحوں کو مغالطہ نہ ہواور درست معلومات کے ساتھ ہم اپنے علم میں اضافہ کرسکیں۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ