تبصرے کتاب شناسی

میری یادوں میں برلن(سفرنامہ) از عشرت ناہید، مبصر راجہ یوسف

جی این کے اردو

18 اپریل 2022

کتاب: میری یادوں میں برلن


مصنفہ۔ ڈاکٹر عشرت ناہید (لکھنو)
مبصر۔ راجہ یوسف

Raja Yusuf

اس کتاب کا کئی دنوں سے انتظار تھا۔ کیوں کہ پتہ چلا تھا کہ یہ میرے گھر کی جانب محو سفر ہے۔ اپنی عادت کے عین مطابق یہ ”سفر نامہ” اپنا لمبا وقت لئے جا رہا تھا لیکن مجھ تک نہیں پہنچ رہا تھا۔ آخر معلوم ہوا کہ ڈاکیہ صاحب نے یہ کتاب گھر میں رکھ دی اور بھول گئے پھر کئی دنوں کے بعد اچانک ”پوسٹ بیگ” میں کچھ تلاش کرتے کرتے ان کو یہ مل گئی اور بڑی معذرت کے ساتھ میرے گھر چھوڑ دی۔


کتاب کوئی بھی ہو میں ورق گردانی کے لئے ہاتھ میں اٹھا تو لیتا ہوں لیکن بہت جلد اسے ٹیبل یا طاق پر رکھ دیتا ہوں،ایسا نہیں ہے کہ مجھے کتابیں پسند نہیں۔ سوشیل میڈیا سے قبل میں کتابوں کا بڑا رسیا تھا۔ (جب انٹرنیٹ کی سہولیات دستیاب نہیں تھیں یاسوشل میڈیا نہیں تھا)لوگ مجھ سے کتابیں مستعارلے جاتے تھے (جو وہ کبھی واپس نہیں کرتے تھے۔ویسے میں خود بھی کئی دوستوں کی کتابیں دبا بیٹھا ہوں) ان دنوں میں کوئی بھی کتاب بڑے شوق کے ساتھ پڑھتا تھا۔ جب کبھی کوئی نیا ناول یا کوئی نئی کتاب نہیں ملتی تھی تو گھر میں رکھی پرانی کتابیں دو تین مرتبہ بھی پڑھ لیتا تھا۔ کئی ایسی کتابیں اب بھی میرے پاس موجودہیں جن کو میں بار بار پڑھ چکا ہوں۔ لیکن جب سے انٹر نیٹ پر کہانیاں، افسانے اور ناول پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ بس کبھی اتفاقاََ ہی کوئی کتاب ہاتھ میں اٹھالیتا ہوں، دومنٹ کھول بھی دیتا ہوں۔ مگر چند ایک صفحے پڑھنے کے بعد ہی اکتاہٹ محسوس ہو تی ہے اور جمائیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ فکشن سے الگ دوسری کوئی کتاب میرے مطالعہ کی چیز نہیں ہے اور نہ ہی میرے لئے ان میں زیادہ کشش ہے۔ لیکن بھر بھی اگرکبھی کوئی اچھی غزل یا نظم نظر سے گزرتی ہے تو اسے ضرور پڑھتا ہوں۔
ابھی حال ہی میں ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب کا جناب طارق محمود مرزا کے سفر نامے ”ملکوں ملکوں دیکھاچاند ” پر لکھا ہوا عمدہ مضمون پڑھا تو کوئی اچھا سا سفر نامہ پڑھنے کا شوق جاگ اٹھا۔ خوش قسمتی دیکھئے دوسرے ہی دن ڈاکٹر عشرت ناہید صاحبہ کا لکھا سفر نامہ ” میری یادوں میں برلن” مل گیا۔ کتاب کا بند لفافہ پھاڑ دیا (جس پر میرا ایڈریس لکھا تھا) اور کتاب کا مطالعہ شروع کیا۔ سفر نامہ اتنا دلچسپ لگا کہ کتاب طاقچے یا الماری میں رکھنے کا خیال تک نہیں آیا۔کتاب کے بارے میں جتنا سنا تھا اسے کئی گنا اچھی لگی۔ یوں تو میں کتابوں پر کوئی تبصرہ یا تجزیہ نہیں لکھتا ہوں۔ لکھنا بھی کیسا؟ دراصل مجھے ایک اچھا سا مضمون لکھنا آتا بھی نہیں۔ لیکن جانے اس کتاب پر ایک آدھ صفحہ لکھنے کا موڈ کیسے بن گیا۔ اصل میں پڑھنے کے دوران ہی کتاب نے کچھ لکھنے پر اکسایاتھا۔ لیکن شومئی قسمت جلدبازی میں کتاب پر لکھا پروفیسر خالد محمود صاحب کا ” مقدمہ” بھی پڑھ لیا۔ سفر نامے پر جوکچھ لکھنے کا موڈ بنایا تھا وہ سب پروفیسر صاحب پہلے ہی لکھ چکے تھے اور وہ بھی مجھ سے بہت اچھا۔
دراصل سفر نامہ پسند آنے کی کئی خاص وجوہات بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے جرمنی سفر کے بارے میں پہلے ہی بہت کچھ جانتا تھا۔ وہاں ہورہی کانفرنس کا بھی علم تھااور جو لوگ وہاں کانفرنس کے منتظمین تھے وہ سبھی حضرات ہمارے اچھے دوست بھی ہیں۔ اس لئے سفرنامے کے حال احوال کچھ کچھ پہلے سے ہی معلوم تھے اور یہ بھی پتہ تھا کہ یہ سارا سفر نامہ ہمارے دوستوں کے ارد گرد ہی گھومتا ہے۔جرمنی کے شہر شہر میں ہمارے فیس بک دوست رہتے ہیں جن سے فیس بک کی ہی وساطت سے اکثر باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس بات کا سب سے زیادہ کریڈٹ وحید قمر صاحب کو جاتا ہے جنہوں نے ” عالمی افسانہ فورم” کے ذریعے ہمیں پوری اردو دنیا کے دوستوں سے ملا دیا ہے۔ ان میں انور ظہیر رہبر صاحب جیسے دوست بھی شامل ہیں جو جرمنی میں مقیم ہیں اور ایک بڑی ادبی انجمن کے نائب صدر بھی ہیں۔ لیکن جب سفر نامہ پڑھنا شروع کیا تو دنگ رہ گیا۔ خوبصورت پیرائے میں لکھا بہت ہی دلچسپ اور پر لطف سلسلہ میرے سامنے رواں دواں تھا۔ مزے کی چاشنی سے لبالب جملے جہاں ہونٹوں پر رسیلی مسکراہٹ لے کر آ رہے تھے۔ وہیں شیریں ایسے مکالمے ذہن و دل میں مٹھاس بھر رہے تھے۔ برلن جانے کی چاہ، گھریلو اور دفتری مجبوریاں، بچوں سے چند دن کی جدائی کا غم۔ احباب اور دوستوں کی نیک خواہشات۔ سفر کی تیاریاں۔ گھر سے نکلتے وقت کی بے قراری۔ ایر پورٹ پر انتظار کی گھڑیاں۔ دوست احباب کے ساتھ سیل فون پر گفتگو۔ ا ٓ دھی رات تک اپنوں کو جگائے رکھنے کی شوخیاں۔ منزل پر پہنچنے کی عجلت۔برلن کے ان دوستوں سے ملنے کا خواب جو دیارِ غیر میں بیٹھے اردو ادب کی تشہیر اور ترویج کا کام دل و جان سے کر رہے ہیں۔ جو قابل ستائش ہے اور قابل تعریف بھی۔ یہ سب سفر نامے کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
سفر نامے کے ہر ایک باب میں برلن میں ہورہی ادبی سرگرمیوں کا خلاصہ ملتا ہے۔ شہر کے دلکش مناظر اور وہاں کے رہن سہن سے مطلق تفاصیل ملتی ہیں۔ کھانے پینے اور رسم و رواج کے اشارے ملتے ہیں۔ وہیں باتوں باتوں میں ڈاکٹر عشرت صاحبہ ان ساری چیزوں کا تقابل اپنے شہر اور اپنے ملک سے کرتی رہتی ہے۔ اور اس کا برملا اظہار بھی کر دیتی ہیں۔برلن کے ایک ایک منظر کو کیمرے میں قید کر کے کتاب کے کلرفل اوراق بھی سجائے رکھے ہیں۔
‘ ‘ ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے”
ڈاکٹر صاحبہ بھی اسی طرح اپنی بات کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے لئے اپنی یادوں کا تسلسل برلن کی ہر ایک بات سے جوڑ دیتی ہیں۔لگتا ہے ڈاکٹر صاحبہ کا سات دن کا برلن سفر سات دہائیوں پر محیط ہے۔ کس طرح سے یہ آنکھوں دیکھے متاثر کن مناظر کا رخ اپنی یادوں کی طرف موڑ کر انہیں اپنے اس سفر نامے کا حصہ بناتی ہیں۔ برلن میں مقیم دوستوں کی گفتگو۔ ان کی ادبی اور غیر ادبی باتیں۔ یا عام طرز زندگی۔ اس سب کا موازنہ ڈاکٹر صاحبہ اپنی یادوں میں بسی اپنے دیش کے ساتھ کرنے لگ جاتی ہیں۔ یہ بات بات پر اپنے شہر اور اپنے قریب کے لوگوں کا ذکر کرنا نہیں بھولتیں ۔ دونوں ملکوں کے کلچر اور تمدن پر ڈھیر سارا لکھا گیا ہے جوکتاب کا حصہ ہے۔ اجین شہر کے پر رونق بازار، دلکش کھیتوں کے سلسلے، سیاسی سماجی اور مذہبی استھاپن۔ ڈاکٹر صاحبہ کے علمی گھرانے کی علمی باتیں۔ انڈیا اور جرمنی کے علمی اور ادبی اداروں اور انجمنوں کی دلچسپ روداد۔ہندوستان کے شہروں خاص کر لکھنو کی ادبی محفلوں اور مشاعروں کا دلچسپ منظر نامہ۔۔۔ کیا کیا نہیں ملتا ہے ” میری یادوں میں برلن” جیسے خوبصورت سفر نامے میں۔
جس طرح سے ڈاکٹر عشرت ناہید صاحبہ نے یہ سفرنامہ لکھا ہے اسے ان کی علمی بصیرت کے ساتھ ساتھ ان کی نرم دلی، ان کے خلوص اور محبتوں سے لبالب ان کے کومل دل کا بھی پتہ چلتا ہے۔ سفر نامے میں جگہ جگہ ان کے احساسات اور جذبات ابھر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ جملوں میں ہی نہیں بلکہ پراگراف کے پراگراف اس طرح سے لکھ گئے ہیں کہ ان میں جذبات کی شدت عروج پر نظر آتی ہے۔ سفر نامے میں عمدہ زبان، بہترین اسلوب اور روانی ایسی کہ جیسے میں پہلگام کے نالہ” لدر” کے کنارے بیٹھا ہوا ہوں اور نالے کا اٹھکیلیاں کرتا پانی ساز بجا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک اچھی فکشن نگار ہیں۔ کہانیوں میں اتار چڑاؤ اور ڈرامہ کیسے بھر ا جاتا ہے۔ سب بخوبی جانتی ہیں۔ اور ” میری یادوں میں برلن” میں وہ سب صاف نظر آتا ہے۔ یہ سفر نامہ ڈاکٹر صاحبہ کے ادبی فہم و فراست اور فنکاری کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ شعرفہمی اور اچھی شاعری کی پرکھ پر ان کی دسترس اور گرفت مضبوط ہے، کتاب کے ہر ایک باب میں برملا اشعار لکھے گئے ہیں جو خوبصورت آویزوں میں جگمگ کرتے نگینوں کے مصداق جڑے گئے ہیں۔
مختصراََ دیکھا جائے تو” میری یادوں میں برلن” سفر ناموں کی فہرست میں ایک اچھا اضافہ ہے۔جو اپنے آپ میں ہر کسی پڑھنے والے کے لئے کشش رکھتا ہے اور پڑھنے کے دوران ذہن کو تازگی بخشتا ہے۔
ایک بڑی بات، سفر نامہ میں کشمیر کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے(جو اگر ہوتا تو کیا برا ہوتا)لیکن کتاب جی۔این۔کے پبلیکیشن نے شائع کی ہے۔ جو کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتاب کی طباعت خوبصورت ہے لیکن قیمت بہت کم رکھی گئی ہے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ