جی این کے اردو ڈیسک
یار زندہ صحبت باقی
” بشیر احمدکی جان حاضر ہے دوست۔میں ہوں نا تیرے ساتھ۔ تم خود تیر کے جاؤگے۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ پہلے میں پانی میں اتر جاؤں گا۔ تم میرا ہاتھ پکڑ کر پانی میں اتر جانا۔ پھر میں تمہیں پار لے کر جاؤں گا۔ یہ میچ جیتنا ہے ہم دونوں کو۔۔۔ بس“ بشیر احمد کے فلمی انداز پر علی محمد نے زوردار قہقہ لگایا۔اور دونوں دوست ایک دوسرے کے گلے مل گئے۔
کھیتوں میں چاروں طرف سرسوں کے پھول کھلے تھے۔ بادام،خوبانی، آڑو اور سیبوں کے پیڑوں پر شگوفے اپنی جوبن پر تھے۔ یہ موسم بہار کا سہانا دن تھا۔ دھوپ میں حرارت بڑھ رہی تھی۔ کئی گاؤں کے اسکول ایکس کرشن منانے نالہ لدر کے کنارے آئے ہوئے تھے۔ سماواروں میں کیسری قہوہ ابل رہا تھا۔ آس پاس خوشبوپھیل رہی تھی۔ چندبچے لدر کے پانی سے ہاتھ منہ دھو نے کے بعد قہوہ پی رہے تھے۔ اساتذہ نگرانی کر رہے تھے کوئی بچہ پانی میں نہ اتر جائے۔ قہوہ پینے کے بعد بچوں کی تیراکی کا کھیل شروع ہونے والا تھا۔ جس میں تین اسکولوں کے دو دو بچے حصہ لے رہے تھے۔ آزاد پور ہائی اسکول سے بشیر احمد اور علی محمدکا انتخاب ہوچکاتھا۔ لیکن علی محمد حصہ لینے سے گھبرا رہا تھا۔ اور بشیر احمد اسے حوصلہ دے رہا تھا۔ مقابلہ شروع ہوا۔ تینوں اسکولوں کے چھ استاد پانی میں کھڑے ہوگئے۔ تاکہ کوئی بچہ ڈوب نہ جائے۔ آخر یہ مقابلہ بشیر احمد اور علی محمد نے جیت لیا۔ سارے اسکولوں کے بچوں نے تالیاں بجائیں اوراساتذہ نے ان کو شاباشی دی۔
ماہ و سال بدلے۔ کھیت کھلیانوں کے حال بدلے۔ دیو ارسے کلنڈر پہ کلنڈر اترتے گئے اور زندگی تیز رفتار گھوڑے پر بھاگتی رہی۔ حالات نے بشیراحمدکو یہاں لاکھڑا کر دیا تو علی محمد کو کہیں اور پھینک دیا۔۔۔ یہ وقت کی ستم ظریفی ہی کہی جا سکتی ہے۔ دونوں دوست ایسے بچھڑے کہ پھر بوڑھاپے تک کبھی ملنے کا موقعہ ہی نصیب نہ ہوا۔ دونوں ایک ہی گاؤں میں پیدا ہوئے اور ایک ہی اسکول میں تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔ لیکن ابھی یہ نویں کلاس میں ہی تھے کہ علی محمد کا باپ سخت بیمار ہوگیا۔ کافی علاج معالجہ کرانے کے بعد بھی وہ جاں بر نہ ہوسکا اور انتقال کرگیا۔ اس کی ماں علی محمد کو ساتھ لے کر اپنے مائیکے سرینگر چلی آئی۔ یہاں علی محمد کا داخلہ ایک اچھے اسکول میں کرایا گیا۔ وہ ذہین لڑکا تھا۔ پڑھائی میں اچھاتھا۔ اس لئے سارے امتحانات اچھے نمبرات کے ساتھ پاس کرتا گیا۔ اس کی ماں علی محمد کو ڈاکٹر بنانا چاہتی تھی اور بھائیوں نے اس کا بھر پورساتھ دیا۔ انہوں نے علی محمد کا ایڈمشن ملک سے باہر ایک بڑے میڈیکل کالج میں کرادیا۔
بشیر احمد اپنے گاؤں کے اسکول کا چاہتا سٹوڈنٹ تھا۔ ہر کھیل میں حصہ لیتا تھا۔ لیکن تیراکی میں اسے کمال حاصل تھا۔ بی پی ایڈکے بعد اس نے فیزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرس کی ڈگری لی۔ واپس آتے ہی اس کو ایجوکیش ڈیپارٹمنٹ میں فیزیکل ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ کچھ سالوں کے بعد ہی بشیر احمد کا نام محکمہ تعلیم کا اہم نام بن گیا۔ بچوں کے کھیل کود میں اس کی دلچسپی اور ان کی تربیت نے انہیں بہت مقبول بنا دیا۔ ہائر ایجوکیشن میں پوسٹنگ کے بعد تقریباَ َ کشمیر کے سبھی کالیجزمیں اس نے ڈیوٹی انجام دی۔
یہاں تک کہ بشیر احمد کو سپورٹس کونسل کا اعزازی ممبر بنا دیا گیا۔ اب اس کی رٹائرمنٹ کے ڈھائی سال ہی باقی بچے تھے تو سرکار نے اسے کالج آف فیزیکل ایجوکیشن کا پرنسپل بنا دیا۔ اس کے ڈسٹرکٹ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس کے گاؤں میں کئی دن تک جشن جیسا سماں بندھا رہا۔
فزیکل کالج میں یہ اس کا آخری سال تھا۔ ہر سنیچر وار کو گھر جانا اور سوم وار کو واپس کالج آنا اس کا معمول تھا۔ سوموار کے دن جب بشیر احمد کالج پہنچا تو اچھی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ شام تک بارش میں تیزی آگئی۔ پھر بارشوں کا سلسلہ رکا نہیں اور تیسرے دن سارا ارد گرد پانی میں ڈوبنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے سیلاب جیسی صورت حال بن گئی۔ بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ سرکاری طور کوئی پیشن گوئی بھی نہیں کی گئی تھی۔کہ اچانک سیلاب میں سارا کشمیر ڈوب گیا۔ اب سرکار حرکت میں آگئی تھی۔ لیکن حالات کسی کے قابو میں نہیں تھے۔ لوگوں کو نکالنے اور محفوظ مقامات پر پہچانے کا کام زیادہ تر لوگ خود ہی کر رہے تھے۔ بہادرنوجوان اور کشتی بان زیادہ شدومد سے لوکوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر لیجا رہے تھے۔ بشیر احمد نے اپنے سٹوڈنٹس کو بلایا۔ جو آسکتے تھے وہ آگئے۔ اس کے کالج میں لڑکوں کوتیراکی سکھانے کے لئے دو کشتیاں رکھی تھیں۔ ان کی مدد سے اس نے کئی گھروں سے لوگوں کو نکالنا شروع کیا۔ اس کے ساتھ اس کے سٹوڈنٹس نے بھی جان جوکھم میں ڈال کر لوگوں کی زندگیاں بچالیں۔ کسی نے اسے بتایا راج باغ کا علاقہ سیلاب سے زیادہ متاثر ہے۔ وہاں کئی گھروں میں بزرگ اور بیمار لوگ پھنسے ہیں جو دوائی اور کھانے کے لئے ترس رہے ہیں۔ اس کی دونوں کشتیا ں جواب دے چکی تھیں اور انہیں مرمت کی سخت ضرورت تھی جو ان حالات میں ممکن نہیں تھا۔۔۔ اسے اپنے ایک ا سٹوڈنٹ سے معلوم ہوگیا کہ ایک ڈاکٹر اپنی بیمار ماں کے ساتھ ایک مکان میں پھنساپڑا ہے۔ اس کی باقی ساری فیملی تو نکالی گئی ہے لیکن بیمار ماں کو وہ نکال نہیں پایا ہے اور اس کا گھرزیادہ دنوں تک سیلاب کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا ہے۔ کیونکہ وہاں پر سیلاب کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔ نہ جانے بشیر احمد کے دل کے کس کونے میں ٹیس سی اٹھی۔ وہ کسی بھی طرح وہاں پہنچنا چاہتا تھا۔ لیکن اس کی کشتی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کب ساتھ چھوڑ جائے۔۔۔ اس کی بے چینی بڑٖھتی جا رہی تھی۔ وہ وہاں جاناچاہتا تھا، عقل اسے روک رہی تھی لیکن دل اسے کھینچے جا رہا تھا۔ آخر اس نے جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اس کے سٹوڈنٹس اسے منع کر رہے تھے۔ لیکن وہ جانے پر بضد تھا۔ اب اس کے سٹوڈنٹس بھی اس کے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ لیکن اس نے صرف عارف کو اپنے ساتھ لے لیا۔ عارف سوئمنگ کا اچھا کھلاڑی تھا اور وہ لگاتار ایک گھنٹے سے زیادہ تیراکی کر سکتا تھا۔ کشتی کی معمولی مرمت اور ضرورت کا سارا سامان رکھنے کے بعد دونوں راج باغ کی طرف بڑھنے لگے۔ کہیں کہیں پر پانی کی رفتار تیز تھی۔ اور اچھل اچھل کر گھروں سے ٹکرا رہا تھا۔ بشیر احمد کشتی کو سنبھال کرآگے لے جا رہا تھا۔ لیکن ایک جگہ پانی کے ایک ریلے نے کشتی کو اچھال دیا۔ ”عارف ناؤ کو مضبوطی سے پکڑو“ بشیر احمد زور سے چلایا۔۔۔ کشتی جیسے ہوا میں اڑتی ہوئی گئی اور پھر پانی پر جا گر ی۔ بشیر احمد اور عارف پانی میں گرنے سے بچ توگئے لیکن کشتی کے پتوار ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئے۔ اور کشتی میں بھی بہت سارا پانی بھر گیا تھا جسے عارف کشتی سے بندھے برتن سے باہر نکالنے لگا۔ ”عارف ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔ ناؤ کو پتوارکے بغیر ہم زیادہ دور نہیں لے جا سکتے۔ پانی کا چھوٹا سا ریلہ بھی اسے کہیں بھی اچھال سکتا ہے۔ ہمیں ناؤکو کہیں باندھنا ہوگا۔“
”جی سر۔ وہ اس گھر کی اوپری کھڑکی سے ہم اسے باندھ سکتے ہیں۔ لیکن وہاں تک پہنچ جانا ناممکن ہے۔ کیونکہ ہمیں ناؤ کو پانی کے بہاؤ سے بچا کر لے جانا ہوگا۔ جو ناممکن ہے۔“ ”نہیں عارف۔ ناممکن نہیں ہے۔ ہاں مشکل ضرور ہے۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ میں پانی میں کود جاتا ہوں۔ کشتی کی رسی اپنے ساتھ لے جارہا ہوں۔ میں اس گھر تک تیر کے جانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔“ ”نہیں سر یہ ناممکن ہے۔ اس بہاؤ کو تیر کے پار کرنا ناممکن ہے۔ پانی کہیں بھی اچھال دے گا۔ جان کا خطرہ ہے سر۔“ ”یہ رسک تو لینا ہی پڑے گا عارف۔ ہمیں اس گھر تک پہنچنا ہوگا۔“ ”تو آپ رک جائے سر۔ میں جاتا ہوں۔ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔“ ”خطرہ تو ہم دونوں کی جان کا ہے۔ لیکن اب یہ دیکھنا ہوگا کہ جان کس کی زیادہ قیمتی ہے۔“ ”جان تو آپ ہی کی قیمتی ہے سر۔“ ”نہیں عارف بیٹا۔ جان ا ٓپ کی قیمتی ہے۔ میری رٹائرمنٹ کے اب کچھ ہی مہینے باقی ہیں۔ اور آپ کے لئے ابھی ساری زندگی پڑی ہے۔۔۔ اور ویسے بھی میں یہاں جان دینے کے لئے نہیں آیا ہوں۔ کسی کی جان بچانے آیا ہوں۔ اور شاید وہ جان میرے لئے سب سے زیادہ قیمتی ثابت ہو۔۔۔ اچھا اللہ حافظ۔ پھر ملتے ہیں۔“ یہ کہتے ہی۔ بشیر احمد نے کشتی کی رسی کمر سے باندھ دی اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔ عارف ہاتھ جوڑے کھڑا تھا اور اس کی نگاہیں بشیر احمدپرہی لگی تھیں۔ بشیر احمد تیرتا ہوا بہاؤ کی طرف بڑھ رہا تھا۔اچانک پانی کے ریلے نے بشر احمد کو کئی فٹ اوپر اچھال دیا اور وہ ہوا میں تیرتا ہوا سر کے بل پانی میں جا گرا۔ عارف کی چیخ نکل گئی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے آنکھیں بند کرلیں۔ ایک سکنڈ کے ہزارویں حصے میں اسے اپنے شفیق استاد کی ساری شفقتیں یاد آگئیں۔اس نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں اور پانی میں ڈوبتے اپنے چاہتے استاد کو تلاشنے لگا۔ اچانک اس کا چہرہ مسرتوں سے کھل اٹھا۔ بشیر احمد نے پانی سے سر نکالا۔ وہ پار والے گھر کے قریب پہنچ چکا تھا، اس نے آسانی سے گھرکی کھڑکی پکڑ لی اور اس کے سہارے پانی سے باہر آیا اور گھر کی کھلی کھڑکی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر دم سنبھالا۔ چہرے پر اپنے دونوں ہاتھ پھیر لئے اور مسکراکر عارف کی طرف ہاتھ ہلایا۔ عارف بھی ہاتھ ہلا رہا تھا۔ اس کے چہرے پربھی مسکراہٹ تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں نم تھیں۔ بشیر احمد عارف کو اشارے سے سمجھا رہا تھا کہ جب میں رسی کو کھنچوگا۔ آپ کشتی کو مضبوطی سے پکڑنا تاکہ جب کشتی بہاؤ میں پہنچ جائے تو وہ اپنی بیلنس کھو نہ دے۔ عارف بھی مشاق تیراک تھا۔ وہ کشتی کو آرام سے بشیر احمد تک لے کرآیا۔ کھڑکی سے کشتی کو باندھ کر دونوں گھر کے اندر چلے گئے۔ یہ مکان کی دوسر منزل تھی۔یہاں بھی پانی پہنچ چکا تھا۔ وہ تیسری منزل کی سیڑیاں چڑھنے لگے۔ بشیر احمد ساتھ ساتھ آوزیں بھی دے رہا تھا۔ ”کوئی ہے۔۔۔ گھر میں کوئی ہے۔“
”کون ہے۔ کیسے یہاں پہنچے۔“
آواز کسی مرد کی تھی لیکن آواز میں کپکپاہٹ تھی۔“ تب تک بشیر احمد اور عارف تیسری منزل پر پہنچ چکے تھے۔ وہاں ایک باوقار لیکن کمزور دبلا پتلا آدمی دروازے پر کھڑا ان کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔وہ بار بار اپنی عینک درست کر رہا تھا۔ ”آپ لوگ یہاں کیسے پہنچ گئے۔ میں حیران ہوں، کیا آپ ہیلی کوپٹر سے اترآئے ہیں۔ لیکن میں نے تو ہیلی کوپٹر کی آواز نہیں سنی“ وہ آدمی باتیں کر رہا تھا اور بشیر احمد اپنے دل میں خوشگوار دھڑکنیں محسوس کر رہا تھا۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا۔ ”آپ کیا دیکھ رہے ہیں۔ آپ کچھ بولتے کیوں نہیں۔“ ”اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ آپ اتنی جلدی مل جائیں گے۔ امی کیسی ہے“ ”امی۔۔۔ امی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ پر آپ۔۔۔ ا ٓپ کون ہیں۔“ ”آپ بہت زیادہ نروس ہیں ڈاکٹر علی۔ابھی ا ٓپ مجھے نہیں پہچانیں گے۔۔۔ میں آپ اور امی کو یہاں سے لیجانے آیا ہوں۔“ ”کیسے۔۔۔؟ ”تیر کے۔“ ”لیکن مجھے تیرنا نہیں آتا۔ میں نہیں تیر سکتا۔“ ”تم خود تیر کے جاؤگے۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ میں ہوں نا تیرے ساتھ۔ پہلے میں پانی میں اتر جا ؤں گا۔ تم میرا ہاتھ پکڑ کر پانی میں اتر جانا۔ پھر میں تمہیں پار لے کر جاؤں گا۔ یہ میچ جیتنا ہے ہم دونوں کو۔۔۔ بس“”بشا۔۔۔ بشیر احمد۔۔۔“
ڈاکٹر علی کی چیخ نکل گئی۔ بشیر احمدکا نام لینے کے بعد اس کی گھگی بندھ گئی۔ اور اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں بہنے لگے۔دونوں دوست ایک دوسرے سے گلے مل کر دیر تک روتے رہے۔ ایک دوسرے سے گلے شکوے کرتے رہے۔ اور عارف کی آنکھیں خود بخود تر ہوتی جا رہی تھیں۔ لیکن یہ خوشی کے آنسوں تھے ۔۔۔