تجزیے کتاب شناسی

ڈاکٹر امام اعظم: زندہ لمحوں کے شعور کے حوالے سے از احسان ثاقب

جی این کے اردو ڈیسک

۱۱؍ مارچ ۲۰۲۲

احسان ثاقب (آسنسول)


ڈاکٹر امام اعظم: زندہ لمحوں کے شعور کے حوالے سے
”جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم“ پروفیسر (ڈاکٹر) خالد حسین خاں کی علمی اور قلمی برتری کی توسیعات کا سلسلہ کس طرح جاری ہے، زیرِ نظر عنوان کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر امام اعظم کے ادبی جائزے کے طور پر اکتوبر 2021ء میں شائع ہوئی ہے۔ جگ ظاہر ہے کہ اس کے مصنف پروفیسر خالد حسین خاں اردو زبان و ادب کا ایک بڑا نام ہے۔”پیشِ گفتار“ کا پہلا جملہ دیکھ لیجیے:
”ہست کلیم در گنج حکیم …… بسم اللہ الرحمن الرحیم۔“ (ص: ۵)
ان کی عظمت کی دوسری مثال بطور خاص ملاحظہ کیجیے:
”…… ڈاکٹر امام اعظم کے فکر و فن سے متعلق یہ کتاب نہ مدلل مداحی ہے اور نہ ہی مکمل تنقیص۔“ (ص:۶)
پھر ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں:
”…… ان دنوں ہو تو یہ رہا ہے کہ اردو مافیاؤں کی لابیاں اور ٹولیاں بنی ہوئی ہیں۔ جماعتیں اور تنظیمیں سرگرم ہیں۔ بھائی لوگ اپنی اپنی لابی اور ٹولی کے تھکے ہوئے ادیب و شاعر اور ترسے ہوئے فن کار و قلم کار کو دھو مانجھ کر چمکاتے رہتے ہیں اور ایسے نام نہاد ادبی بونوں کو لفاظی، لن ترانی اور ریشہ دوانی کی شکستہ سیڑھیوں سے دراز قد بنانے اور منوانے میں لگے رہتے ہیں۔ لگاتار دروغ گوئی کا بازار گرم ہے۔ بصورتِ دیگر ادب کے جینوین فن کاروں کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ میں نے من ترا حاجی بگویم، تو مرا حاجی بگو جیسی قبیح روایت سے پوری طرح اجتناب برتا ہے۔“ (ص: ۶)
اس پس منظر میں مشمولات کے تمام عنوانات مصنف نے اسی زاویے اور سچے کنائے کے تحت طے کیے ہیں۔ ”پیش گفتار“ کو پڑھ کر ہی ”جہانِ ادب کے سیاح“ کا ماجرا سمجھ میں آجاتا ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم اور پروفیسر خالد حسین خاں کے کوائف ”آئینہ پس آئینہ“ عکسی بصیرت کی زندہ مثال نظر آتے ہیں۔
صفحہ نمبر -۱۱ سے پہلا مضمون ”جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹر امام اعظم“ شروع ہوتا ہے۔ خالد حسین خاں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے موضوعاتی تسلسل کو بڑھانے سے پہلے اس مضمون کے آگے پیچھے جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں اردو کے ایک جینیس قلم کار کی آگہی اور عرفان کا معاملہ ہے چنانچہ اسی سیاق کے تحت اردو زبان کے زیر و زبر کی وہ ایمان داری کے ساتھ اس کی تاریخ بیان کرتے ہیں:
”واقعہ یہ ہے کہ ’اردو‘ ہماری ملّی اور ثقافتی تہذیبوں کی انیس و جلیس، رفیق و شفیق ہے۔ مربی و محسن ہے! وہ لوگ جو اردو سے انحراف کر رہے ہیں، گویا وہ اپنے اسلاف و آبا کی تاریخ و تہذیب سے انحراف کر رہے ہیں۔ گرچہ اردو اسلامی زبان نہیں ہے تاہم ہندوستان میں اسلامی امور اور تہذیبی و ثقافتی، مذہبی، دینی اور ادبی شعور پر ساری کتابیں اردو زبان میں ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی نسلِ نو کو اردو زبان سے آشنا رکھنا ہی ہوگا۔……“ (ص:۱۱)
مذکورہ کتاب کی ترتیب ہنر مندی اور بکھرے ہوئے اوراق میں امام اعظم کی کثیر الجہتی، قلم یابی کی کشادگی، تفکرانہ انداز و اسلوب مکمل طور پر عیاں اور رواں ہیں۔ یہ کتاب شخصیت کے عناصر سے روشناس کرانے کی ایمان دارانہ کوشش ہے۔ مصنف موصوف کے پھیلے ہوئے تمام جملوں سے امام اعظم کی شخصیت کی مختلف پرتیں کھلتی ہیں اور ایک خاص قسم کے احساس اور جذبے سامنے آتے ہیں۔ ان کی دوستانہ روش سے ہر بار ایک نیا ماحول اور نئے افق کی تصدیق ہوتی ہے۔
پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی طرح امام اعظم نے بھی ادب کی نفسیات کے مطابق استعجاب آفرینی اور قلمی تلقین پر زیادہ توجہ دی ہے۔ موضوع کا انتخاب عموماً وہ بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ ہر تجربہ ان کی قلم کاری کا حصہ بنتا ہے اور اردو کی ہر بستی میں مقبول ہوتا ہے۔ قلم کی استعجابیت اور توانائی اپنے جوہر دکھاتی ہے۔ ادب فہمی ان کے شعوری رجحان کی غمازی کی حامل ہے۔
اردو کی تخلیق و تنقید زمانہئ حال کے اس نقطہ پر آگئی ہے اور اس کتاب کی فہرست دیکھ کر یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اردو نے کم و بیش عالمی سطح پر اپنے مثبت نشان چھوڑے ہیں۔ اس کتاب کاجائزہ لیجیے تو پتہ چل جائے گا کہ پروفیسر خالد حسین خاں نے لسانیاتی نظم و ضبط کے تحت اپنا تحریری کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کتاب کا واحد کردار ڈاکٹر امام اعظم کو پیش کرتے وقت انھوں نے اپنے کسی بندھے بندھائے اصول کو نہیں اپنایا ہے یا کردار کی انفرادیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی جزئیات نگاری سے بھی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ ہر جگہ موصوف کے طرزِ بیان کا فن پوشیدہ ہے۔ انھوں نے موضوع کی ہر سطح میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے۔ وہ ہر جگہ خود کو ایسے آرٹسٹ بننے کا عمل دہراتے ہیں جس میں صرف زندگی اور سچائی ہوتی ہے۔ خالدحسین خاں نے مختلف موضوعات پر یکساں انداز میں باتیں کی ہیں کیوں کہ کردار کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”امام اعظم کے پاس اپنا قلم، اپنا قرطاس، اپنا اسلوب، اپنا انداز اور اپنا اظہار ہے جو خوب، بلکہ بہت خوب ہے یعنی وہ مانگے کا اجالا نہیں، مسروقہ نہیں اور مالِ غنیمت بھی نہیں۔……“ (ص: ۶)
پروفیسر خالد حسین خاں کا یہ اقتباس بھی دیکھ لیجیے:
”ڈاکٹر امام اعظم جینیس، میریٹوریس، سیریس اور لیبوریس اور کشادہ دل و دماغ کے ادیب، ناقد، شاعر، مدیر، مترجم، مبصر، منتظم اور مدبر ہیں۔ نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ شعر و ادب کے حوالے سے بھی ایک واضح رویہ اور رجحان رکھتے ہیں۔“ (ص:۳۱)
اردو زبان ہمیشہ اپنی مرکزیت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ نظریاتی وابستگی ایسی ہوتی ہے کہ خاص امکان بڑھ جاتے ہیں اور اندیشے ختم ہوجاتے ہیں۔ اس پس منظر میں نفسیاتی مماثلت لازمی بھی ہے اور طبعی بھی۔
خالدحسین خاں کی فن کاری اور مطالعہ اپنی جگہ اور کسی کی شخصیت کا مطالعہ اپنی جگہ۔ صاحبِ علم و تخلیق نے فاعل اور مفعول کے اعتبار سے بڑی سمجھداری اور گہرائی کے ساتھ اپنا حق ادا کیا ہے۔ یہاں ریاضت اور سلیقہ مندی میں گم کردینے والی بات ہے۔ وارداتِ قلب اور رجحان سازی کی بات ہے۔جس کردار کو ’جہانِ ادب کا سیّاح‘ قرار دیا گیا ہے یقینا اس طرح کے کردار کا معیارِ ادب نہایت بلند ہوگا۔ اور یہاں ذات سے زیادہ کائنات کی اور تجربات کی تہہ داری کے اظہار کا سلسلہ قائم ہوگا۔زیر نظر کتاب کا ہر موضوع ہی اس کی اپنی تفصیل کا گواہ ہے۔ تمام تر مکالموں کی کارفرمائی معنی خیز روشنی کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔
لٹریچر کی اصل خوبی یہی ہے کہ وہ ادب کے مشترکہ کلچر کی حفاظت کرے اور اس کے میل ملاپ پر کوئی خراش نہ آنے دے۔ شہرت یافتہ قلم کاروں کے درمیان کے تمام بدعات پاک صاف رہتے ہیں۔ علم و قلم کا رشتہ ایسا رشتہ ہوتا ہے جہاں بلاواسطہ اور بالواسط کوئی کھائی یا قید نہیں ہوتی۔ لفظوں کے ترجیحی التزام آپسی مسابقت کی بنیاد پر دلوں میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ خالدحسین خاں اور امام اعظم کے درمیان صرف گفتگو والی قربت رہی ہے۔ رو برو ملاقات شاید نہیں ہے پھر بھی پروفیسر موصوف نے امام اعظم کے تہہ بہ تہہ معاشرتی رشتوں اور نفسیات کا ذکر اس طرح سے کیا ہے کہ کسی بھی طرح کے خارجی عمل کا ادراک نہیں ہوتا۔مظاہر اور واردات کی رسائی فطرت کا پس منظر بے حد وسیع ہے۔کوائف دیکھ کر ہی خالد حسین خاں کی علمیت اور قلمی استعماریت کا پتہ چل جاتا ہے اور جرأتِ مطالعہ اس غضب کا کہ قاری اس میں پوری طرح ڈوب جاتا ہے۔
یوں بھی ڈاکٹر امام اعظم کا فن اور ان شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ خود درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی ادبی جہتوں پر کئی معتبر اور مستند قلم کاروں نے کامیاب تحریریں پیش کی ہیں اور ان کی ذہانت اورفطانت کی گرہیں کھولی ہیں۔ ان کے تخلیقی رجسٹر میں ہر مذاق کے پڑھنے والوں کو تسکینِ ذوق کا سامان مل جائے گا۔ اردو ادب میں ڈاکٹر امام اعظم کا درجہ متعین ہے اور ہر نظریہ کی صداقت ان کی ادبی تخلیقات میں جاری و سار ی ہے

حالانکہ میرا اور ان کا (امام اعظم) تعلق دیرینہ اور مخلصانہ ہے کم و بیش ۹۱/سال کا۔ امام اعظم صاحب کے مشاغل میں ادب کے تمام شعبے شامل ہیں۔ شعری و نثری حصہ کشادہ اور طبعی ہے اور ایک عالم پر محیط بھی۔
ڈاکٹر امام اعظم بے پناہ مصروفیتوں کے باوجود زندگی کا بھرپور مصرف لیتے ہیں اور فرض کی تکمیل کو اپنا اصل مقصد سمجھتے ہیں۔ ان کے اندازِ گفتگو سے نسبی شرافت ٹپکتی ہے۔ ان کی کوئی بات قرینے اور سلیقے سے خالی نہیں ہوتی۔
کتاب”جہانِ ادب کے سیاح: ڈاکٹرامام اعظم“ میں نہایت ایمان داری کے ساتھ پروفیسر خالد حسین خان نے امام اعظم کے تخلیقی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کی ادبی سوجھ بوجھ سے امام اعظم کی شخصیت ہر لحاظ سے منفرد نظر آتی ہے۔اردو جریدہ ”تمثیل نو“ کے حوالے سے ان کے اس اقتباس کو پڑھ لیں:
”……اماموں کے امام ڈاکٹر امام اعظم کا بین الاقوامی مجلہ ’تمثیل نو‘ اردو کے دو اہم مراکز دبستانِ لکھنؤ اور دہلی سے دور ہندوستان کے پسماندہ صوبوں میں سے ایک بہار کے چھوٹے سے شہر دربھنگہ سے منصہ شہود پر نمودار ہوا اور یہ ننھا و نوزائیدہ ادبی پودا آج دو عشروں کے بعد ایک بھاری بھرکم چھتناور درخت کی شکل میں ایستادہ ہے!“ (ص: ۲۱)
”سہرے کی ادبی معنویت“ کو فن سے جوڑنے کا کام جس طرح امام اعظم نے کیا ہے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ان کے کسی عہدساز پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ جس سہرا کو لوگوں کے نزدیک محض ایک کمزور صنف کے طور پر مانا جاتا رہا وہ ان کی تلاش اور تحقیق سے ایک نادر نسخہئ کیمیا بن کر تاریخِ اردو کا ایک نمایاں باب بن گیا۔اس سلسلے سے پروفیسر خالد حسین خاں کیا فرماتے ہیں، دیکھ لیں:
”واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر امام اعظم ایک بے دار ذہن اور بے قرار و بے چین قلم کار ہیں۔ انہوں نے تبصرہ نگاری، تنقید نگاری، تحقیق نگاری، سفرنامہ نگاری اور اب سہرا نویسی کی جانب بغایت توجہ مبذول کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ادب و شعر کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے! ’تمثیل نو‘ نے انہیں عوام و خواص میں مقبول بھی کیااور محبوب بھی لیکن صنف ’سہرا‘ میں تنقید کے فقدان اور اس سے نابلدی نیز اس سے خسارے کا انہیں بے پناہ احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فنِ سہرا سے منسلک لکھاریوں کے ساتھ ساتھ ادب کے معروف اور مستند قلم کاروں اور سنجیدہ ناقدوں سے مضامین بھی لکھوائے، اس طرح ’سہرا‘ تنقیدی ادب، معاصر تنقیدی شعور کے اجتماعی دھارے (Main Stream) سے قریب تر ہوگیا۔……“ (ص: ۷۳)
قصیدے کے طرز پر جتنی بھی تہنیتی نظمیں لکھی گئی ہیں اور صنف سہرا سے متعلق جس قدر شعرا نے معرکہ آرائی کی ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم کے مطابق ان کی تعداد کم و بیش ۵۳۲ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی باضابطہ اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں جو شاعر بھی اس فن پارے کے حسن اور تجرباتی دائرے کو محسوس کرتا ہے اور اسے ایک ٹھوس حقیقت کی شکل میں پیش کرتا ہے تو پھر اس طرح کی دلبرانہ قلم کاری سے ہٹ کر کچھ سوچنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
جہانِ ادب کی سیّاحی کرنے والوں میں بے شک ایک تراشیدہ نام ڈاکٹر امام اعظم کا بھی ہے۔ یوں تو ان کی شخصیت بہت ہی صاف اور شفاف ہے اور اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں انہوں نے اتنا زیادہ ادبی کام کیا ہے کہ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے بعد ان ہی کا نام آتا ہے۔خالد حسین خاں صاحب کی یہ عبارت دیکھ لیجئے:
”ڈاکٹر امام اعظم یوں ہی اماموں کے امام نہیں ہیں، ان کا مذاق بڑا ارفع و اعلیٰ ہے، ان کے اسلوب و اظہار میں سوقیانہ پن نہیں، عامیانہ سخن نہیں اور نہ ہی وہ خفیف الحرکتی سے شناسا ہیں۔اسی سبب،ان کی خوش مذاقی اور شاعرانہ نگاری کھلتی نہیں گل کھلاتی ہے، سحرزدہ کردیتی ہے اور کہیں مرعوب و معترف بھی! حقیقت یہ ہے کہ ان کہ شخصیت، ان کی سرشت، ان کی سیرت، ان کا شعور، ان کا وفور اور ان کا قلم علمی، عملی اور ادبی تینوں سمتوں میں سفر کرتا ہے تاہم ان کا سب سے بڑا کمال ان کا اسلوب ہے!!……“ (ص: ۵۳)
پروفیسر خالد حسین خاں نے بہت ٹٹول اور کھنگال کر جہانِ ادب کے سیاح کی خصوصی ہئیتوں کو اس طرح موضوع بنایا ہے کہ ان کی ہشت پہلو شخصیت اردو ادب کے چاروں طرف بکھری نظر آتی ہے۔ وہ ایک خوش بیاں مقرر، دل آسا نثرنگار، دل آویز شاعر، دل نواز مکتوب نگار،زیرک مدیر، معروف ناقد، مشہور تبصرہ نگار اور بہترین منتظم کی حیثیت سے ابھرکر سامنے آتے ہیں۔ مصنف کے قلم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی تحریریں نثری ہوکر بھی تمثیلی شاعری کی طرح رواں دواں ہوتی ہیں۔ قاری اپنے ذوق کے مطابق الفاظ کی ساحری میں کھوجاتا ہے۔
”چٹھی آئی ہے“ 752 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو ترتیب دے کر نوجوان قلمکارشاہد اقبال نے ایک اہم تاریخی اور تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر امام اعظم کے نام جتنے بھی خطوط آئے ہیں ان میں سے 434 مشاہیر کے خطوط اس کتاب میں شامل ہیں۔اس کتاب کے حوالے سے پروفیسر صاحب نے اپنے جو احساسات رقم کئے ہیں وہ حاضر ہے:
”گرچہ ’چٹھی آئی ہے‘ مجموعہئ مضامین نہیں، مجموعہئ افسانہ نہیں، مجموعہئ تنقید نہیں، مجموعہئ تحقیق نہیں اور نہ ہی اس میں زلفِ برہم، گیسوئے پُرخم، کیف و کرب، سوز و ساز و تلطف و تلذذ کا ذہنی مرہم ہے! بلکہ یہ قابلِ قدر اور قابلِ فخر نیز قابل مکالمہ و مطالعہ مکتوبات کا دل پذیر مجموعہ ہے۔……“ (ص:۵۹)
”چٹھی آئی ہے“ کی خواہ نوعیت کچھ بھی رہی ہو مگر اس میں شامل خطوط کو پڑھنے کے بعد علم و آگہی اور معلومات ایک پہاڑی چشمے کی طرح اردو ادب کو تازہ بہ تازہ کردیتا ہے۔
کتاب میں ایک باب ”ڈاکٹر امام اعظم بہ حیثیت شاعر“ شامل کر کے قاریوں کو بے حد شاداب کر دیا گیا ہے یعنی ڈاکٹر امام اعظم جتنے اچھے نثرنگار ہیں اتنے ہی اچھے ایک شاعر بھی ہیں۔ ان کی فنّی اور فکری سوچ بے حد متنوع ہے۔ خالد حسین خاں کے مضمون نے امام اعظم کے شعر و ادب کے توانا گوشے کو بے حد واضح کردیا ہے۔ فاضل مصنف کی رائے ملاحظہ کریں:
”قربتوں کی دھوپ“ کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ نسلِ نو کے ادبی جمِ غفیر میں اپنی شخصیت اور اپنی شاعری کے وسیلے سے نمایاں، ممتاز و مستعد اور عصری مسائل و معاملات پر نظرِ عمیق رکھنے والے شاعر ہیں — ان کے چند اشعار آپ بھی دیکھ لیں:


l
قد بڑھانے کے لئے بونوں کی بستی میں چلو

یہ نہیں ممکن تو پھر بچوں کی بستی میں چلو
l
آپ سے تم تک آنے میں بھی صدیاں لگتی ہیں

دل کا حال سنانے میں بھی صدیاں لگتی ہیں
l
پھر ہوا مسموم سی چلنے لگی ہے شہر میں

اس لئے بٹنے لگی ہے پیار کی خیرات بھی
l
ہوا ہے تیز کوئی حادثہ نہ ہوجائے

یہ رات ہوگئی پاگل کھلا نہ در رکھو


یہ لائق مطالعہ مصرعے بھی زیادہ خوب تر ہیں:
”یہ ہے تخت و تاج کا نشّہ/ تیری جھوٹی شان کا نشّہ/ جھوٹے سپنے بانٹنے والو!/ سن لو یہ تاریخی باتیں / شام کو دھرتی کجلاتی ہے/ کونہ کونہ چھپ جاتی ہے/ اس دن پاگل بے کل دھرتی/ آنکھیں کھول کے جب پوچھے گی/ الٹی گنتی گنتے گنتے تھک جاؤگے!“ (ص: ۸۵-۱۶)
لفظوں کی یہ تلاش اور اندرونی کیفیت کا ادراک و احساس ڈاکٹر امام اعظم کو معنوی عظمت کی طرف گامزن کرتا ہے۔ تہہ در تہہ ان کی فطری ہوش مندی غیر معمولی تخلیقی بصیرت کو دوام عطا کرتی ہے۔مختصر یہ ہے کہ ’جہانِ ادب کے سیاح:ڈاکٹر امام اعظم‘ امام اعظم کے تعلق سے تخلیقی زبان و اسلوب اور اعتراف و اسلاف کا موثر وسیلہ ہے۔
میں اسے ڈاکٹر امام اعظم کی خوش قسمتی قرار دوں گا کہ ان کی منفرد اور مخصوص شخصیت کو پروفیسر خالد حسین خاں نے اپنے ادبی ویژن سے لغوی اور تاثیری کیفیت کا درخشاں سفرنامہ بنادیا ہے۔میں مندرجہ کتاب کے مصنف اور اس کتاب کے مقبول ترین کردار کو مبارک باد پیش کرتا ہوں:
کوئی خوشبو کی جھنکار سنتا نہیں

کون سا گل کھلا ہے ترے شہر میں

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ