افسانہ افسانوی نثر

دوسرا شوہر (تحریر) از ڈاکٹر نذیر مشتاق زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ ایونٹ2022، 35

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _35
بینر :- عمران یوسف
افسانہ:- دوسرا شوہر
ڈاکٹر نذیر مشتاق
کشمیر
ڈاکٹر صاحب آپ نے میرے شوہر کو مارڈالا۔۔۔اس نے مجھ سے کہا اور میرے رد عمل کا انتظار کرنے لگی۔۔۔میں نے باہر کی طرف دیکھا میرے مطب کی کھڑکی کے بالکل قریب بوڈھا چنار اداس تھا ایک شاخ پر ایک اکیلی چڑیا پھدک رہی تھی ۔جانے مجھے کیوں ایسا لگا کہ وہ بڑی دیر سے اپنے ہمسفر کو تلاش کر رہی ہے۔میں نے سامنے میز پر رکھے ہوے مگ سے گرین ٹی کی ایک چسکی لی اور سامنے کرسی پر بیٹھی ہوئی عورت کی طرف دیکھا جو میرے جواب کا بےصبری سے انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ابھی میرے لب وا نہیں ہوے تھے کہ اس نے پھر سے کہا۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب آپ نے میرے شوہر کو مار ڈالا۔۔۔۔۔۔میں نے اسے غور سے دیکھا وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔۔اس نے ہلکے گلابی رنگ کا پھرن اور اسی رنگ کا شلوار پہنا تھا اور اسی رنگ کا دوپٹہ گلے میں لٹکایا تھا۔بڑی بڑی آنکھوں میں کاجل لگانے سے اس کی آنکھیں اور بھی خوبصورت اور نشیلی ہوگئیں تھیں۔اس نے چہرے پر بڑی مہارت سے میک اپ کیا تھا اس کے گال دہک رہے تھے اور لبوں پر عجیب سی نمی تھی۔۔اس کی ناک بہت پیاری اور خوبصورت تھی اس نے دایں ھاتھ میں رکھے رومال سے نتھنوں کی نمی کو صاف کیا اور میری طرف سوا لیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔۔اب میں نے کچھ کہنا ضروری سمجھا۔۔۔۔۔
ہوں تم مجھ پر الزام لگارہی ہو کہ میں نے تمہارے شوہر کو مار ڈالا۔۔۔مگر سچ تو یہ ہے کہ میں نے تو صرف تم کو گولیاں دیں۔۔۔۔۔۔اور ان ہی گولیوں سے وہ مر گیا۔۔۔اس نے میری بات کاٹ کر کہا۔۔۔۔۔اور تم ہمیشہ کے لیے آزاد ہو گیئں۔۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔مگر میں تو اس کے بغیر رات بھر تڑپتی رہتی ہوں۔۔۔وہ آتا تو میری رات حسین ہو جاتی اور میں ۔اس کی باہوں میں سب کچھ بھول جاتی۔۔ اس نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔اب میں بالکل اکیلی ہو گئی ہوں اب میں کیا کروں۔۔۔۔اس نے ترچھی نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔۔۔۔میں نے اس کی کیس ہسٹری کھول کر پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔دیکھو جو کچھ تم نے ایک مہینے پہلے مجھ سے کہا وہ سب تفصیل سے اس فایل میں درج ہے تم نے جو کچھ کہا اسی حساب سے میں نے تمہارے لئے دوایاں تجویز کیں۔۔۔۔۔کیا لکھا ہے اس میں۔۔۔۔اس نے یوں کہا جیسے کسی معصوم بچے نے سوال کیا ہو۔۔۔۔۔میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔تم سننا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔اس نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے گھٹنوں پر رکھے چھوٹے سے خوب صورت بیگ میں سے چیونگ گم نکال کر منہ میں ڈالا اور اسے چبانے لگی۔۔۔۔۔اس میں لکھا ہے۔۔۔۔۔میں نے اس کی ہسٹری پڑھنا شروع کی۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب میں ہر وقت بے قرار رہتی ہوں۔۔۔جی چاہتا ہے کہ چیخوں چلاؤں اور کہیں دور چلی جاوں مگر جب حسین رات کا خیال آتا ہے تو رک کر رات کا انتظار کرنے لگتی ہوں۔۔۔۔مجھے اپنی ماں سے سخت نفرت ہے وہ عورت نہیں ایک سانڈ نی ہے۔۔۔وہ بچپن ہی سے مجھے گالیاں اور بد دعائیں دیتی رہی ہے۔۔۔۔جب میں کسی کام میں زرا دیر لگاتی تو وہ۔چلاکر کہتی۔۔۔۔تو دیکھ تیری شادی میں کسی جن سے کرواؤں گی وہ تیری ہڑیاں توڑا کرے گا اور ۔۔۔۔۔میں اس کی بات کاٹ کر کہتی۔۔۔۔کیا جن مجھ سے شادی کرے گا۔۔۔۔۔تو وہ جواب دینے کی بجائے جھاڑو ہاتھ میں لیے میرے پیچھے دوڑتی۔۔میں تیزی سے بھاگ جاتی اور وہ تھوڑی دیر میرا تعاقب کرکے ہانپنے لگتی کیوں کہ وہ دمہ کی مریض تھی۔ وہ۔بیٹھ جاتی اور گالیاں بکنے لگتی۔۔۔۔میرا باپ اس کے سامنے اف بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ آرمی والوں کے ساتھ کام کرتا تھا۔۔مختلف بینکروں میں جا جاکر پٹرول اور ڈیزل جمع کر تا اور ملاوٹ کرکے بیچتا تھا۔۔۔۔ایک دن وہ گھر سے نکلا پھر کبھی واپس نہیں آیا۔۔۔۔۔اس کے بعد میرے بڑے بھائی نے گھر کی بھاگ ڈور سنبھالی۔۔۔۔ماں بھی ایک پرائیویٹ اسپتال میں خاکروب کا کام کرنے لگی۔ میرا بھائی کیا کام کرتا تھا یہ مجھے کبھی معلوم نہیں ہو سکا میں اس سے چھوٹی تھی اس لیے وہ مجھ سے بہت پیار کرتا تھا میرے لیے میری پسند کے کپڑے اور چوڑیاں لاتا مجھے رنگ برنگی کپڑے بہت پسند تھے اور آج بھی ہیں مجھے سونے کے زیورات بہت پسند ہیں اور اسی لیے میں نے دیکھو کتنے زیورات پہنے ہیں۔۔مگر کسی سے کہنا نہی یہ سب نقلی زیورات ہیں۔۔مگر مجھے دکھاوا بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔میرے بھائی کو میری شادی کی فکر ہر وقت لاحق رہتی تھی اس لیے اس نے کم عمری میں ہی میری شادی اپنے ایک دوست سے کروادی۔۔۔۔۔وہ کیا کام کرتا تھا مجھے کسی نے نہیں بتایا مگر میری ماں اکثر اس سے پوچھا کرتی۔۔۔۔بیٹا تم کیا کام کرتے ہو وہ مسکراتے ہوئے جواب دیا کرتا۔۔۔۔۔ماں جی میں ایک پرائیویٹ فرم می منیجر کے عہدے پر فائز ہوں۔۔۔۔میری ماں سر جھکا کر اسے دعائیں دیتی۔۔۔۔
مجھے اس بات کی زرہ بھی پرواہ نہیں تھی کہ وہ کیا کام کرتا تھا۔میں خوش تھی کہ وہ ہر طرح سے میرا خیال رکھتا تھا اور میری ہر فرمایش پوری کرتا۔۔۔۔۔میں اپنی مرضی کی مالک تھی۔۔میں ماں سے ملنے کبھی نہیں جاتی وہ کبھی کبھی مجھ سے ملنے اتی۔۔میں گھر میں اکیلی تھی کیونکہ میرے شوہر کے سبھی رشتہ دار ایک دور دراز گاؤں میں رہتے تھے اور میں کبھی ان سے ملنے نہیں جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن مجھ پر یہ خبر قہر بن کر ٹوٹ پڑی کہ میرا بھائی ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے۔۔۔۔اسی دن مجھے معلوم پڑا کہ وہ ایک ملیٹنٹ تھا۔۔۔۔۔۔میری کمر ٹوٹ گئی اور میری ماں بھی اکلوتا بیٹا کھونے کے غم میں ادھ مری ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے اپنے پاس بلایا اور وہ خوشی خوشی اگیی۔۔۔۔۔۔میرا شوہر کام پر جاتا ۔ماں گھر کا کام کرتی اور میں اپنی آرایش و ز یبایش میں مصروف رہتی میں شام تک شوہر کا انتظار کرتی کہ کب آیے اور مجھے اپنی باہوں میں جکڑ کر ادھ موا کردے۔۔۔۔۔۔میرے شوہر نے ایک چھوٹا سا مکان خرید لیا تھا۔۔۔۔۔میرا بیڑ روم دوسری منزل پر سامنے کی طرف تھا ۔اس کا ایک دروازہ ورنڈا پر باہر کی طرف کھلتا تھا اور دروازے کے قریب ایک سیڑھی تھی جس کے ذریعے میں باغ میں اترتی اور واپس چڑھتی۔۔۔۔ماں نچلی منزل کے ایک کمرے میں رہتی تھی
میرا شوہر رات کو دیر سے آتا کھانا کھانے کے بعد سیدھا بیڑ روم میں چلا جاتا اور میں ماں کو چھوڑ کر دوڑتی ہوئی اس کے پاس جاتی اور اسے گلے لگاتی میرے اندر ایک عجیب سی آگ بھڑک اٹھتی اور میی فوری وہ آگ بجھانا چاہتی۔۔وہ میری بیتابی سمجھ جاتا اور پلک جھپکتے ہی مجھے اپنی باہوں میں جکڑ لیتا میں آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو اس کے حوالے کرتی۔۔۔۔۔۔میرے لیے اب۔اس کے ساتھ رات گزارنا ایک نشہ بن چکا تھا اور میرا دل چاہتا کہ اس نشے کی مقدار میں ہر رات اضافہ ہوتا رہے۔۔۔۔۔۔میں خوشی خوشی زندگی کے شب و روز گزار رہی تھی۔۔۔۔۔۔پھر ایک شام وہ گھر لوٹا ہی نہیں۔۔۔۔میی اپنی ماں کی گود میں سر رکھے آنسو بہاتی رہی۔۔۔۔۔۔۔دن رات گزرے مگر وہ نہیں آیا۔ میری ماں پولیس اسٹیشن بھی گیی مگر اس کا کوی پتہ نہیں چلا۔۔۔۔۔اب میں اکیلی تھی ماں میرے پاس تھی مگر وہ میری ضرورت پوری کیسے کرتی۔۔۔۔میں اپنے ہی بیڈ روم میں راتیں گزارتی مگر نیند مجھ سے روٹھ چکی تھی میں رات بھر صرف اپنے شوہر کے بارے میں سوچتی رہتی۔۔۔میرا دل ایک لمحہ بھی اس کی یاد سے غافل نہیں رہتا۔۔۔۔میں پوری رات اس کی جدائی کی آگ میں جلتی رہتی۔۔۔۔۔۔ایک رات میں اس کی یادوں میں۔کھوی ہوی تھی۔۔۔۔۔میں چاہتی تھی کہ وہ اے اور مجھے اپنی باہوں میں زور سے جکڑ لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچانک بادل گرجنے لگے اور بجلی چمکی۔میں گھبرا گئی۔۔۔۔اچاںک مجھے ایسا۔لگا جیسے کوئی سیڑھی کے پاے چڑھنے لگا۔۔۔۔دھیرے دھیرے۔ میں سہم گیی۔۔۔۔اچانک ورنڈا کی طرف کا دروازہ کھلا اور وہ اندر ایا۔ سفید برف جیسے لباس میں ملبوس۔دراز قد وقامت۔نورانی چہرہ۔۔۔۔۔۔اس نے میری طرف دیکھ کر کہا۔۔۔گھبراو مت میں تمہارا شوہر ہوں
ہمارا نکاح ہو چکا ہے اب میں ہر رات تمہارے پاس آیا کروں گا
یہ سن کر میں سب کچھ بھول گئی اور میں نے اپنے آپ کو اس کے حوالے کیا۔۔۔۔۔۔اس نے مجھے اپنے گلے سے لگایا اور پھر اذان ہونے تک وہ میرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ازان سنتے وہ اٹھا۔۔۔باتھ روم گیا اور نہا دھو کر ۔لباس زیب تن کرکے اسی دروازے سے باہر چلا گیا جہاں سے آیا تھا۔۔۔۔۔اب یہ معمول بن گیا وہ رات گزارنے میرے پاس اجاتا اور پو پھٹتے ہی چلا جاتا۔۔۔۔میری راتیں بہت حسین ہیں مگر دن قیامت سے کم نہیں ہیں۔۔ میری بھوک مرچکی ہے۔۔کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا ہر وقت غصے کی آگ میں جلتی رہتی ہوں جس کا شکار بیچاری ماں ہوجاتی ہے
مجھے گھر سے باہر جانا بالکل اچھا نہیں لگتا ہے جی چاہتا ہے روؤں چیخوں چلاؤں ۔اپنے کپڑے پھاڑکر ننگی ناچوں مگر دوسرے شوہر کی یاد اتے ہی سب۔کچھ بھول جانے کی کوشش کرتی ہوں۔۔۔۔میری ماں نے میری حالت دیکھ کر مجھے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کا حکم دیا اور میں آپ کے پاس ای۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پانی کا ایک گلاس حلق سے اتارا اور اس سے کہا۔۔۔یہ تمہاری ہسٹری ہے جو میں نے لکھ کے رکھی ہے۔۔۔۔میں نے تمہارے کچھ ٹیسٹ بھی کیے وہ سب نارمل ہیں۔۔تمہاری ہسٹری پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ تم ایک نفسیاتی مریض ہو۔۔میں نے دوایاں تجویز کیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا دوسرا شوہر مر گیا۔۔۔۔مگر کیوں۔ وہی تو میری راتوں کا سہارا تھا ۔۔ دوایوں نے اسے مار ڈالا۔۔۔۔مگر اب مجھے لگتا ہے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کوی پرابلم نہیں ہے ۔۔اس نے منہ سے چیونگم نکال کر دایں طرف رکھی ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔۔۔۔اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔۔۔۔۔اپ نے میرا علاج کیا مگر میرے شوہر کو کیوں مارڈالا۔۔۔۔۔
میں نے اسے سمجھایا۔۔۔۔دراصل تمہارا کوئی دوسرا شوہر تھا ہی نہی ۔وہ تمہارا بھرم تھا۔۔تمہارے لاشعور میں ماں کی بات چھپی تھی کہ تمہاری شادی جن سے ہوگی۔۔۔۔۔۔تمہارے شوہر کے لاپتہ ہوجانے کے بعد تمہارے دماغ میں جن کے متعلق خیال آیا ہوگا۔ یا تم نے خواب دیکھا ہوگا۔۔۔اور وہی خیال یا خواب تمہارے خیالوں میں رات کے وقت حقیقت بن گیا ہوگا ڈاکٹروں کی زبان میں اسے Hallucinationsکہتے ہیں۔۔جو کچھ تم نے رات کو دیکھا یا کیا وہ سب سراب تھا۔۔۔۔اسی لیے دوایوں سے تمہارے دماغ کے بگڑے ہوئے کیمیائی پیام رسان اپنی اصلی حالت میں واپس آئے اور تمہارا دوسرا شوہر غایب ہو گیا۔۔۔۔۔۔در اصل تمہارا کوئی دوسرا شوہر تھا ہی نہیں ۔۔۔۔تم محض لاشعوری احساسات سے کام لے کر دوسرے شوہر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتی تھیں۔۔۔تم کسی لیڈی ڈاکٹر سے اپنے مخصوص اعضاء کا معاینہ ضرور کروانا۔۔۔۔۔
میری۔باتییں سن کر وہ حیران و پریشاں ہو گئی۔۔۔۔۔وہ کرسی سے اٹھی۔ ڈاکٹر اب میں تمہاری تجویز کی ہوی دوایاں استعمال نہیں کروں گی۔۔۔۔میرا دوسرا شوہر ضرور واپس آئے گا اور میری راتیں رنگین ہوں گی۔۔۔۔یہ کہھ کر وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ