افسانہ افسانوی نثر

سفید چادر (تحریر) از شگفتہ یاسمین، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر، افسانہ ایونٹ2022 ، 36

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _36
بینر :- عمران یوسف
افسانہ:-سفید چادر
شگفتہ یاسمین
سردیوں کے شروع میں ہی سارا ماحول ٹھنڈی ہواؤں اور دھندلکی میں جکڑ چکا تھا۔ بلندوبالا پہاڑوں پر مخملی برف کی تہہ نے سفید چادر بچھا رکھی تھی۔ قریب ہی درختوں کی قطار سے ہوا کے جھونکے سرسراہٹ پیدا کررہے تھے۔ چاندنی فلک سے زینہ زینہ اُترکر جھیل کی تہہ پر چاندی کے ورق کی مانند لشکارے مار رہی تھی۔ سفید لباس میں ملبوس لڑکی جھیل کنارے بیٹھی نہ جانے کس کی راہوں کو تک رہی تھی۔
خفیف نظروں سے گڑیا جیسی حسین لڑکی نے ماتھے پہ بکھرے بالوں کی اُوٹ سے آسمان کی طرف دیکھا تو چاند درختوں کے جھرمٹ میں مسکراتا ہوا دکھائی دیا۔
وہ چاند کے یوں مسکرانے پر شرمائی۔
“ابھی بتاؤ کیا تمہاری چاندنی میں آسمان سے سفید پریاں جھیل کنارے رقص کرنے اُتریں گی؟”
چاند مُسکرایا۔
” یہ جھیل دیکھو کہ! اس میں اک پری کاسایہ ہے اوروہ تم ہو۔”
وہ جھیل میں اپنا عکس دیکھ کر مسکرانے لگی۔ سارا ماحول دودھیا روشنی میں نہا گیا۔ وہ اٹھی اور گھر لوٹ گئی۔
“شام میں کہاں گئی تھی؟ کتنی بار منع کیا ہے اس وقت گھر سے باہر نہ جایا کر جن بھوت ہوتے ہیں۔” ماں بولی۔
وہ خاموشی سے کھڑکی سے نظارہ کرنے لگی جو اُسے مزہ دینے لگا۔ وہ پھر سے سپنوں میں کھو گئی۔ جھیل کنارے اُسے اُس کی بھنور پڑی تو وہ چونک گئی۔ مگر وہ تو خیال تھا صرف خیال ,حقیقت سے بالکل خالی, آنکھوں کا دھوکا جو ایک کرب بن کر اُس کی زندگی کے ساتھ چمٹ چکا تھا۔
ذرا سی آہٹ پہ چونکی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ گھر نہ جھیل, نہ حسین وادیاں, نہ پریاں, نہ درخت۔ بس تھی تو چارسور بچھی مخملی برف۔
آٹھ اکتوبر کی صبح نے اُس کے خوابوں کو ملبے کی شکل دے رکھی تھی جس میں والدین اور بہن بھائی دفن ہوچکے تھے۔ ملبے کے قریب بیٹھی وہ زاروقطار روتی رہی۔ آنکھ بند کرتی تو گھر اور حسین وادیوں کو دماغ کے کینوس پر بنانے کی ناکام کوشش کرتی۔ وہ اپنوں کی لاشیں ملبے سے نکالتے وقت بھی دیکھ چکی تھی۔ پھر بھی اچانک اُن کے آجانے کے انتظار میں پتھر کی اوٹ میں دبکی رہتی۔ صبح کی روشنی چہرے پر پڑتے ہی وہ خوابِ غم سے بیدار ہوئی۔ ٹھنڈک نے بدن میں کپکپاہٹ پیدا کی تو وہ خود کو گھسیٹتی ہوئی ڈھابے پر پہنچ گئی۔جہاں پہنچتے ہی وہ کسی فقیر کی طرح ہاتھ پھیلا دیتی۔ ڈھابے کا مالک آدھی پیالی چائے کے ساتھ بند تھما دیتا ,جسے کھانے وہ ایک طرف جا بیٹھتی۔
“اوے! گل خان لگتا ہے ہمارا گاڑی جواب دے گیاہے۔ ” ببرک خان متاثرہ علاقے کے قریب ٹرک روکے بڑبڑایا۔
” لالا! اب کیا ہو گا؟” گل خان چھلانگ لگاتے ہی ٹائر کھولنے میں مصروف ہوگیا۔
“بات بن سکتی ہے یا نہیں؟ گل خانہ۔ “
ببرک خان چٹکی بھر بیڑا منہ میں ٹھونستے ہوئے بولا۔
“یارا! اِس کو بھی ابھی بگڑنا تھا۔” وہ ماتھے پر ڈھیروں بل ڈالے اِدھر اُدھر تھوکتے ہوئے آس پاس آبادی کاجائزہ لینے لگا۔
“گل خان! لگتا ہے وہاں ڈھابہ ہے۔” ببرک خان نے سبز بیڑا تھوکتے ہوئے نشاندہی کی۔

گل خان نے دُور سے اُٹھنے والے دھواں کو دیکھنے کے لیے ایڑیاں اُچکائیں پھر دونوں اُس جانب چل پڑے۔
“پخیر راغلے۔۔۔۔پخیر راغلے۔” ببرک خان ہاتھ ہلاتا ہوا ڈھابے کے مالک سےحال احوال دریافت کرنے لگا۔ سر پہ دھری موتیوں سی جڑی ٹوپی اُتار کر دوبارہ سر پہ سجائی جسے ماتھے کی جگہ سے خوشنما سا کٹ لگا ہوا تھا جو اُس کے سفید گول چہرے پر جچتی تھی مگر دانت اُتنے ہی فنجائی ذدہ دکھائی دیتے تھے۔ وہ کندھوں پر رکھے سر پوش کو جھاڑکر دوبارہ رکھتے ہوئے بولا۔
“یارا!دو کپ دودھ پتی۔۔۔۔کڑک والا۔ ” حکم صادر کرتے ہی وہ منہ سے سبز پانی ٹپکاتے ہوئے جنوبی جانب زمین پر دھوپ تلاش کرنے لگا۔
گُل خان پھرتیلا مگر اُستاد کی پوری پوری صحبت لینے والا خاص وعام ملازم تھا۔
” سارا علاقہ تباہ ہو چکا ہے۔” ببرک خان مخلوط رنگوں سے بُنی پشمینی چادر پر چوکڑی مارے کانوں کی لو کو چھوتے ہوئے مخاطب ہوا۔
چائے پیتے ہوئے وہ وادی کی بربادی پر نوحہ کناں تھے۔
لڑکی خالی پیالی وہیں چھوڑ کرگھر کی طرف چل دی, جو ملبے کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ ببرک خان دن بھر آرام جبکہ گل خان ٹرک کی مرمت کرتا رہا۔ شام ڈھلتے ہی خنکی نے جڑ پکڑی اورناقابلِ برداشت سردی کی صورت اختیار کرلی۔ وہ ٹرک کے نیچے بستر بچھائے لیٹ گئے۔
وہ ملبے کے آس پاس شامِ غم منا رہی تھی کہ آسمان نے بھی اپنا دامن بادلوں سے بھر لیا اور متاثرین کے غم میں شرکت کرتے ہوئے خوب برسا۔ ننھّی بوندوں نے مُسلادھار بارش کی صورت اختیار کی تو وہ بھیگتی ہوئی گھاس پھوس سے بنے ڈھابے کی طرف دوڑی جہاں سے اُسے بھوک مٹانے کی آس ملتی تھی۔ وہ اندھیرے میں ایک طرف دبکی رہی۔ ڈھابے کا مالک ٹارچ چلاکر گھر جا نے کا سوچنے لگا تو روشنی لڑکی پر پڑی ۔ نسوانی چہرے کی طرف اُس نے ہاتھ بڑھایا تو وہ خوف سے ہاتھ جھٹکتی ہوئی بھاگ کر درختوں کی قطار کی جانب جا نکلی۔ وہ ٹرک کے پاس سے گزری تو ببرک خان کا ہاتھ اُس کے پاؤں سے مس گیا جو سوتے ہوئےٹرک سے باہر تھا۔
“او وللہ! وئی وئی خانہ خراب کا بچہ۔” ببرک خان تکلیف سے حواس باخطہ ہوگیا۔
“وئی گل خانہ! اُٹھو لگتا ہے کسی جانَاور (جانور) نے حملہ کر دیا ہے۔”
وہ خوف ذدہ ہوا۔
“لالا! یہ کیسی آواز ہے ؟”گل خان کو سیسکیوں کی آواز سُنائی دی۔
دونوں چادر میں لپِٹی آواز کا تعاقب کرنے لگے۔
“او وللہ! پخیر یہ تو جنانی ہے۔” ببرک خان بڑبڑایا۔
“تیرا گھر کدھر ہے؟ ہم تجھے چھوڑ کے آتی ہے۔”ببرک خان نے مونثی الفاظ میں پوچھا۔
لڑکی نے نفی میں سر ہلایا۔
“او وللہ! خدا قسم یہ کیا ہوگیا؟” وہ سمجھ گیا کہ یہ متاثرین میں سے ہے۔
اچانک مردانہ آواز سنائی دی تو وہ سہم گئی۔ ببرک خان نے دیکھا کوئی گرے پڑے درختوں سے گزر کر اُن کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جس کی آہٹ سے وہ بلبلانے لگی۔ ببرک خان نے ایک ہی چھپٹی میں اُسے ٹرک کی اگلی سیٹ کے نیچے چھپا دیا۔ آدمی ٹرک کا جائزہ لیتے ہوئے ببرک خان سے پوچھ گِچھ کرنے لگا۔ کچھ دکھائی نہ دینے پر وہ مطمعین ہو کر چلا گیا۔ ببرک خان نے لڑکی کوکانپتے دیکھا تو اپنی چادر سے ڈھانپ دیا۔ اگلی صبح ٹرک کی مرمت ہوتے ہی وہ روانہ ہو گئے۔
“اے گلِ لالہ!تم ہمارے ساتھ کوئٹہ چلو۔ اماں تم کو اپنا بیٹی بنائے گا ہاں۔ “ببرک خان نےکہا تو وہ ڈگمگائی۔
” وہ!۔۔۔۔۔” اُس نے ملبے کی طرف اشارہ کیا۔ آنسو روانی سے اُس کی گردن بھگو رہے تھے۔ رات والے واقعہ کا ببرک خان نے کہا تو وہ اگلی سیٹ پر چادر کے پلو کو دانت میں دبائے بیٹھ گئی۔ ٹرک تیزی سے چلتا ہوا اُس کے آبائی علاقے سے کہیں دور نکل آیا۔
“او لالا!اب تو اُٹھ جائیں آمدورفت ہے۔”گل خان چلایا۔
“او! وئی۔ “ببرک خان چونکا۔
وہ اکثر سنسان سڑک پر ٹرک چلاتے ہوئے اپنی نیند پوری کرتا تھا۔
ٹرک ڈھابے پر رُکا۔ ببرک خان کی آنکھوں کی سُرخی کچھ کم ہوئی تب تک سورج کی روشنی اندھیرے کو مات دے چکی تھی۔
اُن کا معمول تھا وہ جب بھی لکڑی لینے کوئٹہ سے آتے تو راستے میں کافی روز بیت جاتے۔
“تم چائے پیے گا گلِ لالا؟ ” ببرک خان نے پوچھا تو اُس نے مثبت میں سر ہلایا۔
“ڈرومت ہم تمہیں اماں کے پاس لے کےجارہی ہے۔”
اماں کا نام سُنتے ہی اُس کی پلکیں بھیگ گئیں۔
لاہور کے قریب پولیس نے اُنھیں روک لیا۔ پولیس والے کی نظر ٹرک کی اگلی سیٹ پر پڑی تو وہ مزید قریب ہو کر بولا۔
“یہ کون ہے؟”
” ہمارا جنانی ہے۔او وئی وئی اپنی خالہ کے پاس آیا ہوا تھا۔ ہم واپس لے کے جا رہی ہے۔” ببرک خان نے پُر اعتماد انداز میں جواب دیا۔ پولیس کے جانے کے بعد وہ گل خان کو دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
“اپنا نام تو بتاؤگلِ لالہ۔”
وہ ہر عورت کو نام کی بجائے گلِ لالہ ہی پکارتا تھا۔
“زا۔۔۔۔ زرمینے۔”وہ نگاہیں جھکائے آہستگی سے بولی۔
“زر۔۔۔۔مینے نام تو اچھی ہے۔” ببرک خان زیرِ لب مسکرایا۔
لاہور میں وہ اپنے دوست کے آشیانے پر رُکا جس سے اُس نے وعدہ کر رکھا تھا کہ اب کی بار جب سامان لینے آیا تو اُسے ملنے ضرور آئے گا۔
“یارا! تم نے شادی کر لی اور ہمیں خبر تک نہیں کی۔” دوست نے لڑکی کو دیکھ کر جگت ماری۔
“او!نہیں یارا اور بات ہے۔ “ببرک خان نے اُسے حقیقت سے آگاہ کیا۔
“تیری منگیتر تیرے چاچا کی بیٹی ہے تو پھرررر۔۔۔۔۔” دوست نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے ہونٹوں کو دبایا۔
“او وللہ!….”ببرک خان نے آسمان کی طرف دیکھا۔
تکہ بوٹی سے اُن کی تواضع کی گئی۔
“یارا!ہمارا اماں بھی خشک گوشت گھر سے ختم نہیں ہونے دیتا۔ ” وہ لقمہ چباتے ہوئے بولا۔
کچھ دیر تک وہ ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔
” یار!چلو آج بازی پر چلتے ہیں۔ بڑے دن ہو گئے تیرے ساتھ بازی نہیں لگائی۔ ” دوست نے ضد کی۔
مگر ببرک خان نے معزرت کرنا چاہی۔
” بازی کا تو اپنا ہی مزہ ہے۔ طبیعت ایک دم خوش ہو جائے گی۔ پر لگتا اب تُو اور ہی کوئی بازی لگاتا۔” دوست آنکھ میچے طنزیہ بولا۔
ببرک خان سانس اندر کھینچتے ہوئے تکیے پر ڈھیر ہو گیا۔
زرمینے دوسرے کمرے میں بیٹھی دل ہی دل میں آٹھارہ سالہ عمر کی پہلی محبت کا پُل باندھنے کے خواب سجا رہی تھی۔
ببرک خان بازی پہ بازی لگاتا اور مسلسل ہارتا رہا۔یہاں تک کہ وہ اپنے پاس موجود تمام پیسے ہار گیا۔ سب اُسے قیمت دیے بغیر جانے نہیں دے رہے تھے۔ اُس نے ادھار کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا۔
“لکڑی بکے گا تو ادائیگی کر دوں گا۔” مگر وہ قطعی نہ مانے۔
“لڑکی!۔۔۔۔ ” دوست زیرِ لب بولا۔
لڑکی کا نام سنتے ہی سب کے منہ رال ٹپکانے لگے۔ وحشی نظروں سے سب نے ببرک خان کو گھورا۔ وہ دوست کو غصّیلی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔چنانچہ یہی طے پایا کہ وہ پانچ لاکھ کی بازی ہارنے کے عوض لڑکی ان کے حوالے کرے گا مگر وہ نہ مانا۔
اسی دوران پولیس کا چھاپا پڑتے ہی اڈے پر موجود ہر نفس نے آؤدیکھا نہ تاؤ۔ سب وہاں سے غائب ہوگئے۔ ببرک خان بھی زرمینے کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔
رات کے تیسرے پہر دروازہ کھٹکنے کی آواز سے وہ اُٹھ بیٹھی۔ سوچ کے سمندر میں غرق جوانی کی پہلی سیڑھی پر وہ محبت کے خوابوں کا ابھی تانا بانا بُن رہی تھی۔ سانسوں کی بے ترتیبی سے دل کی کیفیت بھی روہانسی ہونے لگی جیسے کسی نے سحرکر دیا ہو۔
ببرک خان کے آنے کا سوچ کر دروازہ کھولنے کے لیے وہ آگے بڑھی تو کسی اجنبی کو دروازے پر دیکھ کر وہ چونک گئی۔
“با۔۔۔۔بب۔۔۔رک۔۔۔”
“وہ تو رات میں ہی چلا گیا تھا۔” اجنبی نے بتایا۔
وہ پریشانی سے نڈھال لمحہ بھر میں ٹھنڈے پسینے میں نہا گئی۔ دروازے کی پُچھت پر ٹیک لگائے وہ خود کو زمین میں گڑھتا ہوا محسوس کرنے لگی۔ اجنبی اُس کے چہرے سے پلو ہٹانے کے لیے آگے بڑھا۔ وہ خوف ذدہ ہوکر پیچھے کی طرف سمٹتی گئی۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ وجود کو دیوار میں نہ چھپا سکی اور ایک بھدے, توند نکلے اُدھیڑ عمر اجنبی کی مردانگی کی نظر ہوگئی۔ وہ ماتمِ عزت کرتی رہی۔ کوئی بھی اُس کی نازک جوانی کے لُٹنے پر پشیمان نہ ہوا۔
رات کی سیاہی شہزادی جیسے چہرے کو سیاہ کر گئی۔
لڑکی ایک تھی جبکہ حصّہ دار تین جو متفقہ فیصلے سے لڑکی سے جسم اور روپوں کی وصولی چاہتے تھے۔
اس طرح وہ لپٹی چادر سے نکل کر شادیوں کی اندھیری راتوں میں اُن شریف دکھنے والے تماش بینوں کی نگاہوں کی عمدہ غذا بن گئی جو شراب میں لت پت نسوانی جسم کو ناچتے دیکھ کر اُسے چھونے کی غرض سے روپے نچھاور کرتے ہیں۔
چھوئی موئی جسامت ہزاروں مردوں کے حصول کی خواہش بن کر اُن کے لمس کو محسوس کرتے ہی ہاتھ سے پھسل کر ڈھیروں روپوں کی بارش میں بھیگ جاتی۔ جسم روپوں میں جبکہ دل تقدیر کی لکھی غمِ بارش میں بھیگ کر بے داغ سفید چادر کا منتظر رہتا۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ