غیر درجہ بند

شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی میں نشست بیاد پروفیسر ابن کنول و پروفیسر علی جاوید کا انعقاد

جی این کے اردو نیوز ڈیسک، 13/ فروری 2023

شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی میں نشست بیادپروفیسرابن کنول وپروفیسرعلی جاویدکاانعقاد

پروفیسرا بن کنول اور پروفیسر علی جاویددونوں طلباوطالبات کے ہمدرد اور مشفق اساتذہ تھے:نجمہ رحمانی
نئی دہلی:شعبہ اردو،دہلی یورنیورسٹی کی جانب سے پروفیسرا بن کنول اور پروفیسر علی جاوید کی یاد میں آرٹس فیکلٹی کے سیمنار ہال میں ایک نشست کا انعقاد کیا گیا۔جس میں شعبۂ اردو کے ساتھ عربی اور فارسی کے شعبوں کے اساتذہ ، طلبا و طالبات اور آفس کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے شعبہ اردوکی صدرپروفیسرنجمہ رحمانی نے کہاکہ ہم بالکل نہیں چاہتے کہ ایساموقع آئے اورہمیں اس طرح کا تعزیتی پروگرام منعقدکرناپڑے ۔اپنے ساتھیوں اورساتھ میں کام کرنے والوں پرتعزیتی نشستوں کاانعقادآسان نہیں ہوتا۔ پروفیسرابن کنول اورپروفیسرعلی جاویدشعبے کے دونوں اساتذہ ہمیشہ طلباوطالبات کے روشن مستقبل کے لیے فکرمند رہتے تھے، اور ان کی تعلیم و تربیت میں مختلف سطحوں پر کرتے رہتے تھے۔دونوںشعبے میں پابندی سے آتے تھے۔ابن کنول صاحب نے اپنی سبکدشی کے آخری دن تک کلاسیں لیں۔پروفیسرعلی جاوید بھی اپنی فعال ومتحرک شخصیت اوریادداشت کے لیے ہمیشہ یادکیے جائیں گے ۔دو نوں کے ساتھ ہم نے طویل عرصہ گزاراہے اور دونوں کوقریب سے دیکھنے اورسمجھنے کاہمیں موقع ملا ۔
شعبۂ عربی کے استاذپروفیسرسیدحسنین اخترنے کہاکہ گزرنے والاہفتہ اردووالوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔امجداسلام امجداورابن کنول میں بہت سی مماثلتیں بھی تھیں۔ابن کنول جیسی موت اچھی موت ہوتی ہے ۔لیکن لواحقین کے لیے یہ مرحلہ انتہائی تکلیف دہ ہوتاہے ۔پروفیسرابن کنول اورپروفیسرعلی جاویددونوں ہی شعبہ اردوکے لیے بہت اہم تھے۔ہم سب جانتے ہیں کہ علی جاویدصاحب ترقی پسندتحریک کے جنرل سکریٹری تھے اورپوری زندگی انتہائی فعال ومتحرک رہے ۔ابن کنول صاحب باغ وبہارشخصیت کے مالک تھے ۔ دونوں سے وابستہ یادوں کاایک سیلاب ہے ،جوامنڈرہاہے ۔اللہ دونوں کی مغفرت کرے ۔
سینٹ اسٹیفنز کالج کے استاذڈاکٹرشمیم احمدنے کہاکہ جب پروفیسر ابن کنول صاحب کے انتقال کی خبرملی ،دل سنبھالے نہیں سنبھل رہاتھا۔ اپنے کالج کے پروگرام میں مغفرت کی دعاکااہتمام کیا۔ ابن کنول صاحب نے داستان پرکافی اچھاکام کیا۔ان کی شخصیت ہمیشہ باغ وبہاررہی ۔وہ انتہائی خوش مزاج تھے ۔ابن کنول صاحب کبھی کسی پروگرام میں شرکت سے انکارنہیں کرتے تھے ۔عاجزی وانکساری ان کے مزاج کااٹوٹ حصہ تھا ۔وہ عجلت پسندنہیں تھے ۔وہ اپنے چھوٹوں سے بھی انتہائی شفقت اورعزت سے بات کرتے تھے ۔ان کایہ رویہ ہمیں بہت کچھ سکھاتاتھا ۔پروفیسرعلی جاوید صاحب علامہ اقبال پربھی عمدہ باتیں کرتے تھے اور علامہ کے بہت سے اشعارانھیں یادتھے ۔
شعبہ اردوکے سینئراستاذپروفیسرارتضی کریم صاحب نے کہاکہ طویل عرصے تک ایک ساتھ رہنے کاموقع ملا۔کیاپتاابن کنول کو اتنی عجلت کیوں تھی ،ابھی توہم دونوں کوبہت سی لڑائیاں لڑنی تھیں ۔ان کے بھائی کی کال آئی تومجھے یقین ہی نہیں ہورہاتھا۔ابن کنول اورعلی جاویددونوں میرے لیے ایسے ہیں کہ ان سے اچھے دوست اوران سے اچھے دشمن مجھے نہیں مل سکتے ۔اللہ ایسے دوست اورایسے دشمن سب کونہیں دیتا،جن کے ساتھ آپ تیس بتیس برس گزارتے ہیں ۔ان کی یادیں بھی بے تحاشاہوتی ہیں ،جنھیں پیش کرناآسان نہیں ہوتا۔
پروفیسرشاہینہ تبسم نے کہاکہ پروفیسر ابن کنول صاحب ہمیشہ ہمیں یادآتے رہیں گے ۔وہ اس زمانے کے ایک آئیڈیل انسان تھے ۔ابن کنول صاحب کے انتقال کی خبرکایقین مجھے بالکل نہیں ہوا۔ابن کنول صاحب جیسی موت کی لوگ تمناکرتے ہیں ۔علی جاویدصاحب کے انتقال سے چندروزپہلے ہی ہم ایک ساتھ چائے پی رہے تھے ۔علی جاویدصاحب ایک جیالے اورعزم وہمت سے لیس انسان تھے ۔
جے بھگوان جی نے کہاکہ ابن کنول صاحب انتہائی اچھے انسان تھے ۔ان کے ساتھ کام کرکے میں نے سیکھا کہ کام کیسے کیاجاتاہے ۔شاداب شمیم نے کہاکہ ابن کنول صاحب انتہائی مشفق انسان تھے ،ان کے رویے سے استاذکے ساتھ ایک باپ کااحساس ہوتاتھا۔ان سے کلاس سے باہربھی بہت کچھ سیکھنے کاہمیں موقع ملا ۔
شعبۂ فارسی کے ڈاکٹرضیاء الرحمان نے کہاکہ ابن کنول صاحب کے انتقال کی خبرانتہائی جانکاہ خبرتھی۔ آخری باروہ دہلی یونیورسٹی ،شعبۂ فارسی کے سمینارمیں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ان سے جب جب باتیں کرنے کاموقع ملا،مجھے ان سے بات کرکے اچھالگا۔ان کی دانش وری کااحساس بھی ہمیں ان کی کتابوں سے ہوتارہاہے ۔علی جاویدصاحب اپنے آخری دنوں میں جاویدنامہ پرکام کررہے تھے ۔ان دنوں ان سے بات کرنے اورمشاورت کاموقع ملتاتھا ۔دونوں حضرات باوقاراورخوش گفتارتھے ۔
پروفیسرمحمدکاظم نے کہاکہ جس طرح ابن کنول صاحب گئے ہیں ،اس کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔میں جب دہلی آیاتھا،اس وقت سے دونوں حضرات سے میرے مراسم تھے ۔علی جاویدصاحب اورابن کنول صاحب دونوں سے ہمیشہ بے تکلفی رہی ۔علی جاویدصاحب نے ہم سب میں سوجھ بوجھ پیداکرنے میں معاونت کی ۔علی جاویدصاحب انتہائی بہادرانسان تھے ۔وہ خوداسپتال پہنچ جایاکرتے تھے ۔ہم لوگوں کوان کی بیماری کاعلم بعدمیں ہوتاتھا ۔ابن کنول صاحب کی بذلہ سنجی ہمیشہ یادآتی رہے گی ۔کلاس ہی نہیں وہ پوری زندگی میں وقت کے پابند رہے ۔ہمیشہ ان کادست شفقت میرے سرپررہا۔
پروفیسرارجمندآرانے کہاکہ جب ہم اپنے مرحومین کویادکرنے بیٹھیں تویہ بھی پیش نظررہناچاہیے کہ ہمیں بھی ایک دن موت کے مرحلے سے گزرناہے ۔ابن کنول صاحب نے ہمیشہ مجھے ہم وطن کی حیثیت سے شفقتوں سے نوازا۔زندگی کے بہت سے پہلوہوتے ہیں ،جنھیں ہر شخص نہیں جانتا۔ان کی شخصیت کے پہلوبہت تھے ۔طلبہ وطالبات سے ہمیشہ انھوں نے قریبی تعلق رکھا۔کبھی وہ اپنے طلباوطالبات کو خود سے دورنہیں کرتے تھے ۔علی جاویدصاحب بھی طلباوطالبات سے ہمیشہ مشفقانہ رویہ رکھتے تھے ۔میرے لیے علی جاوید صاحب بہت اہم تھے ۔چوں کہ ہم دونوں سب سے زیادہ وقت ایک ساتھ گزارتے تھے۔وہ بے حداچھی یادداشت کے مالک تھے ۔ہرموقع پرانھیں اشعاریادآجا تے تھے ۔وہ انتہائی اچھی گفتگوکرتے تھے ۔جتنااردووالے انھیں جانتے تھے اس سے زیادہ ہندوستان کی دیگرزبانوں والے انھیں جانتے تھے ۔ترقی پسندتحریک کی تاریخ وخدمات پرانھیں کافی دسترس حاصل تھی۔ترقی پسندتحریک کے افراددنیاکے جس خطے میں پائے جاتے ہیں ۔علی جاویدصاحب کوجانتے تھے ۔کام کرنے کی لگن ان میں سراہے جانے کی حدتک عمدہ تھی ۔
پروفیسرعلیم اشرف خان نے کہاکہ یہ تعزیتی نشست دونوں حضرات پرمشتمل ہے ۔ابن کنول صاحب کے انتقال کی خبرمجھے جھٹکادے گئی ۔اللہ دونوں کوجواررحمت میں جگہ دے ۔دونوں حضرات شعبہ اردوسے منسلک تھے ۔طویل عرصے پرمشتمل یادیں محفوظ ہیں ۔
شعبہ اردوکے استاذپروفیسرابوبکرعباد نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کہاکہ شعبہ کے تمام اساتذہ وملازمین سے ابن کنول صاحب کے یکساں تعلقات تھے ۔وہ خلیق اورشفیق تھے ۔علی جاویدصاحب انتہائی ذہین، جرات مند ،بے باک اور حق گو انسان ۔وہ کسی تفریق کے قائل نہیںتھے ۔وہ تمام لوگوں سے محبت سے بات کرتے تھے ۔دونوں اساتذہ شعبہ کے لیے اہم تھے ۔دونوں کی یادیں ہمیشہ ہمارے سینوں میں محفوظ رہیں گی ۔
پروگرام میں شعبہ اردو،عربی اورفارسی کے اساتذہ اورطلباوطالبات نے شرکت کی ،بالخصوص پروفیسرنعیم الحسن،صدرشعبۂ عربی،پروفیسرمشتاق عالم قادری،ڈاکٹرمتھن کمار،ڈاکٹر احمد امتیاز،ڈاکٹرارشادنیازی،ڈاکٹراکرم،ڈاکٹراصغرمحمود،ڈاکٹرمجیب،ڈاکٹرمختار،ڈاکٹرناصرہ سلطانہ،شمیم احمد،ڈاکٹرقمرالحسن،ڈاکٹرعارف اشتیاق،ڈاکٹرشاہ نوازہاشمی،ڈاکٹرفرحت کمال، ڈاکٹرزاہدندیم احسن،ڈاکٹرشاہ فہد،ڈاکٹرسنیل کماروغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
تصویرکاکیپشن:بائیں سے دائیں،پروفیسرنجمہ رحمانی،صدرشعبہ اردو،پروفیسرابوبکرعباد،پروفیسرسیدحسنین اختر،پروفیسرارتضی کریم،پروفیسرمحمدکاظم اورپروفیسرارجمندآرا

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ