غیر درجہ بند

ببول کا بیج (افسانہ) از راجہ یوسف

جی این کے اردو ڈیسک

29 / نومبر 2022


افسانہ ۔۔۔ ببول کا بیج
تحریر ۔۔۔ راجہ یوسف


حسن پور کا خوبصورت گاؤں حیات ندی کے دونوں کناروں پر آباد تھا۔ صاف و شفاف پانی کی ندی جو اوپر پہاڑی ڈھلوان سے بل کھاتی اور اِتراتی ہوئی اُتر آتی تھی، جیسے کوئی خوبصورت باقرہ کمر لچکاتی اور پائل کی چھن چھن سے مدھر ساز بجاتی ہمارے کانوں میں رس گھولتی آرہی تھی۔ اور ہمارے گاؤں کی ایک ایک کیاری کو سیراب کرتی اورہماری پیاس بجھاتی ایک شانِ اداکے ساتھ آگے بڑھ جاتی تھی۔ حسن پور انہی پہاڑی ڈھالوانوں اور حیات ندی کا ایک حصہ تھا۔ جو قدرتی حسن سے مالا مال تھا۔ گاؤں تک آنے جانے کا ایک لمبا اور آبڑ کھابڑ پہاڑی راستہ تھا جو کچھ اور اوپر جاکر ختم ہوجاتا تھا۔ پھر اوپر تاحد نگاہ سر سبز میدان تھے۔دراز پہاڑی سلسلہ تھا اور جنگل ہی جنگل تھے۔ اس خوبصورت گاؤں کاایک اکلوتا مالک بھی تھا۔ چودھری حیات خان۔۔۔ یہاں کی ساری چراگاہیں۔ یہاں کے مال مویشی، یہ جنگل،یہ پہاڑ اور ہم، سب اسکی ملکیت تھے۔
میں حسن پورکے ایک غریب کسان کا کمزور بیٹا تھا۔ گاؤں کا کوئی بھی فرد چودھری حیات خان کے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن لوگ چود ھری سے زیادہ اس کی ماں بڑی چودھرائن سارہ بی بی اور اس کی بیوی چھوٹی چودھرائن حاجرہ بی بی سے ڈرتے تھے۔ گاؤں میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ ان دونوں کے سامنے کھڑا رہ سکتا۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر ان کی سزائیں بڑی خوفناک ہوتی تھیں ۔۔۔بات صرف مرنے مارنے تک ہی ہوتی تو مسئلہ کوئی نہیں تھا۔ یہ جنگلوں میں رہنے والے لوگ تو ہر روز موت سے کھیلتے رہتے تھے۔ لیکن مارنے سے پہلے چودھرائن جو سزائیں دیتی تھیں۔ وہ بڑی عبرت ناک ہوتی تھیں۔ چودھری خودبھی ڈرا سہمارہتا تھا۔ وہ اپنی ماں بڑی چودھرائن سے بہت زیادہ ڈرتا تھا۔ اور کچھ کچھ اپنی بیوی چھوٹی چودھرائن سے بھی خوف زدہ رہتا تھا۔وہ تو اپنی بیوی حاجرہ بی بی سے آنکھ اٹھاکر بات نہیں کرتا تھا جب وہ بڑی چودھرائن کے ساتھ بیٹھی ہوتی تھی۔۔۔ لیکن چودھری کا اپنی ماں ا ور بیوی سے ڈرنے کی ایک وجہ اور بھی تھی۔۔۔ چودھری حیات خان کا عشق۔۔۔ وہ گاؤں کے ایک غریب آدمی سلام کمہار کی خوبصورت بیٹی نازنین سے پیار کرتا تھا۔ نازنین پہلے اس کی محبوبہ تھی۔ پھر اس کی بیوی بن گئی۔ جب حیات خان اور نازنین کے پیار کی مشک اڑتے اڑاتے بڑی چودھرائن سارہ بی بی کی ناک تک پہنچی، تب تک اس میں اتنی ملاوٹ ہو چکی تھی کہ یہ مشک خوشبو سے بدبو میں بدل چکا تھا۔ جس وجہ سے بڑی چودھرائن نے مضبوطی سے اپنی ناک بند رکھ دی تھی۔ اس کی بہو حاجرہ چودھرائن ”جسے بڑی چودھرائن سارہ بی بی نے اپنی بہن سے مانگ کر لایا تھا۔“ وہ نازنین کے خلاف بدبودار روئی ساس کی بند ناک کے ساتھ رگڑتی رہتی اوراس کے کانوں میں زہرانڈیلتی رہتی۔ اس نے بڑی چودھرائن سے یہ فیصلہ بھی صادر کروالیا تھاکہ چودھر حیات خان اپنی دوسری بیوی نازنین کو اپنے گھر نہیں لا سکتا۔ البتہ وہ اپنی محبوبہ سے ملنے کے لئے اس کے میکے یعنی سلام کمہار کے گھر جا سکتا تھا اور ہفتہ کی رات اس کے ساتھ گذار سکتا تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھ دی گئی تھی کہ نازنین کسی بچے کو جنم نہیں د ے سکتی۔ اگر وہ کبھی کسی بچے کو جنم دے بھی دے گی۔ وہ بچہ چودھری خاندان کا چشم و چراغ نہیں بن سکتا۔ نہ اسے خاندان کا ورث ہی تصور کیا جاسکتاتھا ۔
گاؤں میں آٹھویں تک اکلوتا اسکول بھی تھا جو چودھری کے ہی ایک مکان میں بنایا گیا تھا۔ یہاں بھی گاؤ ں کے بچے کم اور چودھری کے خاندان کے بچے زیادہ پڑھتے تھے۔ ویسے بھی گاؤں کا کوئی بچہ آٹھویں تک نہیں پڑھ پاتا تھا۔یا اگر کوئی آٹھوین جماعت پاس کر بھی لیتا تھا تو اسے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ گاؤں کے کسی کسان میں اتنی سکت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو مذید پڑھائی کرنے کے لئے شہر بھیجتا ۔ گاؤں سے صرف چودھر حیات خان کے دو بیٹے اوراس کی بیٹی سلماہی پڑھنے کے لئے شہر گئے تھے۔ میں اپنے ماما کے پاس کچھ کام کرنے کے لئے شہر آیا تھا۔ لیکن شہر آکر جب ماما نے میری قابلیت دیکھی تو اس نے مجھے آگے پڑھائی کے لئے شہر کے ایک اچھے اسکول میں داخل کرایا۔کامیابیاں میرے قدم چومتی گئیں اور میرا داخلہ ایم بی اے میں ہوگیا۔ یہاں چاروں طرف میری قابلیت کا ڈنکا بجنے لگا۔ چودھری کی بیٹی سلما بھی یہاں کی طالبہ تھی۔ گاؤں کی یہ خود سر اور ہمیشہ ناک بھنویں چڑھا کر رکھنے والی لڑکی یہاں کسی شمار قطار میں بھی نہیں تھی۔۔۔ جب انسان کو یہ لگتا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تو وہ جھنجلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور اس جھنجلاہٹ میں وہ ایسا کچھ کردیتا ہے جو اس کے اصولوں کے منافی ہوتا ہے۔ سلما بھی جھنجلاہٹ کے ساتھ ساتھ تنہائی کی شکار تھی اور اس تنہائی کو بانٹنے کے لئے و ہ میرے قریب آگئی تھی۔ میرے قریب آنے کا اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ میں اس کے گاؤں کا تھا اور میں اس کے سامنے اسی طرح جھکابھی رہوں گا جس طرح گاؤں والے ان کے سامنے جھکے رہنے کے عادی تھے۔ اس کی تنہائی بھی بٹے گی اور اس کی خود سری اور انا بھی بچی رہے گی۔ لیکن مجھ پر اب کسی کی خود سری اثر انداز نہیں ہوتی تھی کیونکہ میری تعلیمی قابلیت نے مجھے سب سے زیادہ خود سر اور انا پسند بنادیا تھا۔۔۔ سلما کا میرے قریب آنا میری تنہائیوں میں تسکین کا سامان بن سکتا تھا۔ میری خشک راتیں رنگین بن سکتی تھی۔ میں اسے پھانسنے کے لئے اس پر پیار کا جال پھینکتا گیا اور وہ پھنستی چلی گئی۔ یوں تو سلما کو پھانستے وقت میرے لاشعور میں کہیں تھورا سا ڈرا ور خوف بھی موجود تھا کہ اگر کچھ ایسا ویسا ہوگیا تو گاؤں میں میرے ماں باپ کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔وہ ظالم چودھرائن کے عتاب کے شکاربھی ہو سکتے تھے۔ لیکن سلما کا شباب میری سوچ و خرد پر بھاری پڑ رہا تھا اور میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی میں اپنے ہوس کے بدمست ہاتھی کی نوکیل کس نہ سکا۔ اور ایک شام میں سلما کو زیر کرنے کے قریب پہنچ بھی گیاتھا۔ کہ اچانک جیسے اس میں کسی ڈائن چودھراین کی بد روح گھس آئی تھی۔ اس نے ایک زناٹادار تھپڑ میری بائیں گال پر جڑ دیا۔ میں ہکا بکا ہ رہ گیا۔ ا ور جب تک میں سنبھل پاتا تب تک وہ کمر ے سے چلی گئی تھی۔ بات ہم دونوں کے بیچ ہی رہتی تو کو ئی ڈر نہیں تھا۔ لیکن اس کے کمرے سے باہر جاتے جاتے میری رسوائی کی بات ہمارے گاؤں تک پھیل چکی تھی۔ میرے ماں باپ کی زندگی خطرے میں پڑگئی تھی۔ چودھری حیات خان سے زیادہ بڑی چودھرائن سارہ بی بی انہیں سزا دینے کے درپے تھی۔ وہ ان دونوں کو مار ہی ڈالتی، کہ چودھری کی محبوبہ نازنین نے مداخلت کی اوران کی جان بچ گئی۔ لیکن انہیں اپنے گاؤں سے جلائے وطن ہونا پڑا تھا۔ وہ بڑی کسم پرسی میں شہر ماما کے گھرپہنچے تھے۔۔۔ اس دوران ایم بی اے کے امتحانات ختم ہوتے ہی مجھے ایک بڑی کمپنی میں جاب لگ گئی۔اور میں دوسرے شہر منتقل ہوگیا۔میرا ایم بی اے کا رزلٹ آگیاتو میں امتیازی پوزیشن کے ساتھ پاس ہوگیا۔ کمپنی نے میرے پاس ہونے کی خوشی میں مجھے کنفرم کردیا۔ راتوں رات میرا اسٹیٹس بدل گیا۔ کہاں وہ گاؤں کا گھاس پھوس والا گھر، شہرمیں ماما کا وہ سیلن زدہ کمرہ جہاں دم گٹھتا تھا۔۔۔ اب میرے پاس ساری آسائشوں سے آراستہ خوبصورت فلیٹ اور آفس جانے آنے کے لئے ایک بڑی سی گاڑی تھی۔ صرف ایک سال کے بعد کمپنی کے مالک میری صلاحیتوں کے قا ئل ہوچکے تھے۔ وہ میرے سارے دیئے پراپوزلز آنکھ بند کرکے پاس کرتے تھے۔ مجھے اپنی قابلیت پر بڑا ناز ہورہا تھا اور اب میرے چھوٹے سے ایم بی اے دل میں بھی ایک بڑی ملٹی ملینیر خواہش جنم لے رہی تھی کہ کاش میں بھی ایک بڑی کمپنی کا مالک بن سکتا اور اپنے مالکان کی طرح میں بھی سوسائیٹی میں لکھ پتی،کروڑ پتی کہلاتا۔۔۔
آج میرے ایک بڑے پراپوزل کی وجہ سے میرے مالکان بہت زیادہ خوش ہوگئے تھے۔ اس خوشی کو بانٹنے کے لئے وہ مجھے شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں لے آئے۔ یہ میرے لئے ایک دم نئی دنیا تھی۔ یہاں وہ سب کچھ تھا جو میں نے چند ایک فلموں میں دیکھا تھا۔ یہاں عالی شان بار تھا۔رنگین کیبرے تھا۔اور میرے لئے بہت ہی مہنگا سویٹ بک کیا گیاتھا۔ میں شراب میں دھت تھا اور ایک ویٹر کی مدد سے کمرے میں پہنچا۔ شراب سے زیادہ میں اپنی کامیابی کے نشے میں چور تھا اور اس نشے سے شاید میں صبح تک بھی باہر نہ آپاتا کہ اچانک درواز کھلا۔ اور ہوا میں لہراتے بالوں اور ہلکے ریشمی لباس زیب تن کئے ایک اپسرا میرے کمرے میں آگئی۔ اس کے بدن سے اٹھتی خوشبو سے سارا کمرہ معطر ہوگیا تھا۔۔۔ میں اسے دھندلی نظروں سے دیکھنے لگا ۔۔۔
” اوووو ہ ۔۔۔ یہ کون ہے۔۔۔ اپنے چودھری کی بیٹی ۔۔۔ سلما۔۔۔ میرے کمرے میں۔۔۔ یا سلما جیسی کوئی اور اپسرا۔۔ جانے مجھے ہر لڑکی میں سلما ہی کیوں نظر آتی تھی۔۔۔ سلما ۔ ہمارے چودھری حیات خان کی بیٹی جو میرے ذہن و دل پر میری کامیابی کے نشے کی طرح چھائی ہوئی تھی۔۔۔جو میری ہر اک سانس میں رچ بس چکی تھی۔۔۔ جو میری رگ رگ میں شراب کی طرح دوڑ رہی تھی۔۔۔ جو۔۔۔ نا نا۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ کرتے میری باہوں کی مضبوط گرفت سے مچھلی کی طرح پھسلتی نکل گئی تھی اور میرے چہرے پر وہ زناٹے دار تھپڑ رسید کر گئی تھی جس کی گرم گرم تپش آج بھی میں اپنے چہرے پر محسوس کررہا تھا۔ آج بھی جب میں صبح یا شام آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتا، تو اس کے ہاتھ کی وہ قلم ایسی انگلیاں میری گال پر ابھرتی ڈوبتی نظر آتی تھیں۔۔۔ اور بے خودی میں بھی میرا ہاتھ میرا گال سہلاتا رہتا تھا۔۔۔
میں ہرلمحہ ہر وقت سلما کو ہی سوچتا رہتا تھا اور اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ میں سلما کے نام پر روز سلما جیسی کسی نہ کسی لڑکی کو بھنبوڑتا، نوچتا رہتا تھا، جانے پھر بھی سلما کے محبت کی پیاس کیوں نہیں بجھتی تھی۔ سلما میرا پیار۔۔۔ میری محبت۔۔۔ نہیں۔ نہیں سلما میری محبت نہیں۔ وہ میرا پیار نہیں۔ میری ضد تھی۔ ہاں وہ ضد بن کر میرے ذہن و دل میں تلاطم برپا کئے ہوئے تھی۔ میری انا اور میری خود سری کی ضد۔۔۔
آخر میں اپنی ضد کے سامنے ہار گیا اور میں نے اپنے ماں باپ کے سامنے اپنی زندگی کا سب سے بڑا پراپوزل رکھ دیا۔۔۔ پر یہ کیا میرے ماں باپ کے ساتھ ساتھ میرا ماما بھی پریشان ہوگیا۔ تینوں ہکا بکا ہوکر رہ گئے۔۔ وہ حیران و پریشان نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں ان کی حیرانی پر حیران ہوکر انہیں دیکھ رہا تھا۔ آخر میرے ماما نے دوٹوک لفظوں میں میرا لائف پراپوزل مسترد کردیا۔
” نہیں۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔“ میں غصے سے اپنے ماما کو دیکھنے لگا اور غصے میں ہی اپنی نگاہیں اپنے ماں باپ کی طرف پھیر لیں۔ وہ دونوں مجرموں کی طرح نظریں جھکائے ناخنوں سے قالین کھرچ رے تھے۔ میں تھوڑی دیر دونوں کو دیکھتا رہا اور وہ لگاتار مجھ سے نظریں چرا رہے تھے، تو میں نے بڑے اعتماد کے ساتھ ماما سے کہہ دیا۔
”ماما۔۔۔ اگر تم لوگ چودھری حیات خان سے مرعوب ہو تو میں آپ کو بتا دوں۔ اس کی چودھراہٹ اپنے گاؤں تک ہی محدود ہے۔ باقی دنیا میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کے لئے یہ فخر کی بات ہے جو میں اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگ رہا ہوں۔۔۔ ایک بات اور بتا دوں اگر وہ بھی آپ لوگوں کی طرح اسی چودھراہٹ کے زعم میں مبتلاہے۔تو میں اس کی اجازت کے بغیر بھی یہ شادی کرکے رہوں گا۔۔۔
”نہیں بیٹا نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ تم ایسا نہیں کرسکتے“ میری ماں نے روہانسی آواز میں مجھ سے مخاطب ہوکر کہا۔
”کیوں نہیں ماں۔۔۔ میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔ ہماری شادی کیوں نہیں ہوسکتی۔۔۔ ماں بولو۔۔۔ بولو ماں بولو۔۔۔“ میں نے ماں کے دونوں کندھے پکڑلیئے اور اسے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔
”کیونکہ تم چودھری حیات خان کا خون ہو۔ سلام کمہار کی بیٹی نازنین اور چودھری حیات خان کے بیٹے ہو۔ تم بڑی چودھرائن کے حکم کے مطابق ان کے گھر کے وارث نہیں بن سکتے تھے۔ اس لئے بڑی چودھرائن سارہ بی بی نے تجھے میری گود میں ڈال دیا۔ میں بھی بہت خوش تھی۔ کیونکہ میری کوئی اولاد نہیں تھی۔ میں نے دل و جان سے تمہاری پرورش کی۔“
میری ماں میری بھلائیاں لے رہی تھی، میرا باپ بھی کچھ کہہ رہا تھا۔ماما بھی بہت کچھ سمجھا رہا تھا۔۔۔ لیکن میرے ذہن و دل میں ہوائیاں چل رہی تھی۔ میری ایم بی اے والی سوچ کا احاطہ اور وسیع ہوتا جارہا تھا۔ میرے خیالوں میں ملٹی ملینیر کمپنیاں گڈ مڈ ہو رہی تھیں ۔ حیات ندی کے دو نوں کناروں پر آباد حسن پور۔ اوپر تاحد نگاہ سر سبز میدان۔جنگلات ۔ وہاں کی ساری چراگاہیں۔ مال مویشی اور لوگ، سب میری ملکیت۔۔۔
میری انا کی ٹوپی اور اونچی ہوتی جا رہی تھی۔ اور میری خود سری اب سر چڑھ کے بول سکتی تھی۔۔۔ سلما میرا تیز ہتھیار تھی۔جو میں اب چودھری حیات خان اور اس کے خاندان کے گلے پر آرام سے پھیر سکتا تھا۔۔۔ اب مجھے کوئی بھی طاقت لکھ پتی،کروڑ پتی بننے سے نہیں روک سکتا تھا۔۔۔میں ملٹی ملینیر

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ