جی این کے پبلی کیشنز
شکوہ ۔ جواب شکوہ
ضیا فاروقی
شکوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
سوال یہ ہے کہ بندہ کسے سنائے غزل
تمھارے شہر میں کتنے ہیں آشنائے غزل
کبھی تھا شہر غزل اب کباڑ خانہ ہے
جدھر بھی دیکھئے ہوتی ہے ہائے ہائے غزل
غزل کے نام پہ کرتا ہے جو رفو اشعار
غضب خدا کا وہی شخص ہے خدائے غزل
جسے خبر نہیں فن کیا ہے اس کی ندرت کیآ
تو ایسے شخص کو منھ کس لئے لگائے غزل
جسے بھی دیکھئے الجھا ہوا ہے فردا میں
تو داستان شب غم کسے سنائے غزل
اسے بھی روز کے اخبار ہی سے مطلب ہے
جو پڑھتا رہتا ہے تسبیح من فدائے غزل
یہاں ہیں وہ بھی کباڑی غزل کے میلے میں
کہیں سے شعر اڑایا کہیں سے لائے غزل
غزل سرائے میں اک تم ہو اور تم بھی کیا ؟
فقیر ایسے میں اوڑھے کہ اب بچھائے غزل
جو آنکھ دیکھ رہی ہے وہی کہا ہم نے
جو دل پہ بیت رہی ہے وہ کیا بتائے غزل
جواب شکوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے عزیز ، ذرا آنکھ کھول کر دیکھو
کہ اب بھی چلتی ہے ہر سو یہاں ہوائے غزل
نہ جانے کتنے عزیزان شہر فن ہیں یہاں
جو کہہ رہے ہیں ابھی تک غزل برائے غزل
تمھیں ہے شکوۂ بیجا غزل کے بارے میں
مہک رہے ہیں ازل سے یہ باغہائے غزل
ولی و آبرو و میر و غالب و مومن
جہان فکر میں یہ بھی تھے آبنائے غزل
فراق و جوش و یگانہ و حسرت و سیماب
سخن کی راہ میں یہ بھی تو ہیں نوائے غزل
جگر کا نام مٹانا ادب میں ناممکن
کہ اپنے آپ میں وہ بھی ہیں نا خدائے غزل
غزل کے شہر میں اقبال کا بھی جلوہ تھا
تھے اپنے آپ میں مجدوب بھی فدائے غزل
شکیب و بانی و عرفان و شہریار و زیب
ہے ان کے نام سے روشن ابھی فضائے غزل
نشور و کیف و کلیم و فنا و حق ، مجروح
گزر گئے ہیں جہاں سے یہ نا خدائے غزل
بشیر و فرحت و ستار و شہپر و خالد
سبھی کے پاس ہے اپنی ہی اک ادائے غزل
ابھی ہیں زندہ یہاں پر وہ صاحب اصناف
کہ جن کے واسطے سچ مچ ہے تنگنائے غزل
سمجھ رہا ہے غزل کو جو مملکت اپنی
اسے دکھائیے جا کر کبھی ضیائے غزل