جی این کے اردو
۲۵ / ستمبر ۲۰۲۲
عدلیہ کا دوہرا معیار
محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل نمبر :=9933598528
جب ہندوستان اپنا 75واں یوم آزادی منا رہا تھا اسی روز ریاست گجرات میں اجتماعی عصمت دری اور سات افراد کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو عام معافی دے کر جیل سے رہا کر دیا گیا۔
جیل سے رہا کئیے جانے والے یہ 11 افراد ریاست گجرات کی گودھرا جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ انہیں سنہ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون “بلقیس بانو” کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کرنے اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کا مرتکب پایا گیا تھا۔
27 فروری 2002 کو گجرات میں اس وقت فسادات پھوٹ پڑے تھے جب ’کار سیوکوں‘ (ہندو رضاکاروں) سے بھری سابرمتی ایکسپریس کے کچھ ڈبوں کو گودھرا کے قریب آگ لگ گئی تھی جس میں 59 افراد ہلاک ہو گئے تھے.
گجرات کے داہود ضلع کے رندھیک پور گاؤں کی رہائشی بلقیس بانو اپنی ساڑھے تین سالہ بیٹی صالحہ اور خاندان کے دیگر 15 افراد کے ساتھ جان بچانے کے لیے گھر سے بھاگ نکلی تھیں۔ وہ اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ بھی تھیں۔ بقرعید کے دن فسادیوں نے داہود اور گرد و نواح میں انسانیت سوز تباہی مچائی تھی اور کئی مکانات کو نذر آتش کر دیا گیا تھا ۔
تین مارچ 2002 کو بلقیس بانو کا خاندان چھپرواڑ گاؤں پہنچا تھا اور کھیتوں میں چھپ گیا تھا ۔ اس معاملے میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ 12 لوگوں سمیت 20-30 لوگوں نے بلقیس اور اس کے اہل خانہ پر لاٹھیوں اور زنجیروں سے حملہ کر دیا تھا.
بلقیس بانو اور چار خواتین کو پہلے مارا پیٹا گیا اور پھر ان کے ساتھ عصمت دری کی گئی ۔ متاثرین میں بلقیس بانو کی والدہ بھی تھیں۔ اس حملے میں رندھیک پور کے 17 مسلمانوں میں سے سات مارے گئے تھے۔ یہ سب بلقیس بانو کے خاندان کے افراد تھے۔ ان میں بلقیس بانو کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔
اس واقعے کے بعد بلقیس بانو کم از کم تین گھنٹے تک بے ہوش رہیں۔ ہوش میں آنے پر انھوں نے ایک قبائلی عورت سے کپڑے مانگے۔ اس کے بعد ان کی ملاقات ایک ہوم گارڈ سے ہوئی جو ان کی شکایت درج کرانے کے لئے لمکھیڑا پولیس اسٹیشن لے گیا۔ وہاں کانسٹیبل سومابھائی گوری نے ان کی شکایت درج کی۔ گوری کو بعد میں مجرموں کو بچانے کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی.
بلقیس کو گودھرا ریلیف کیمپ اور وہاں سے طبی معائنے کے لیے اسپتال لے جایا گیا۔ اس کا معاملہ قومی انسانی حقوق کمیشن تک پہنچا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا تھا ۔
صحافی برکھا دت نے گذشتہ دنوں اس بارے میں ٹویٹ کیا “میں وہ رات نہیں بھول سکتی جس رات میں بلقیس بانو سے ایک ریلیف کیمپ میں ملی تھی، ان کا بازو ایک کاسٹ میں تھا جسے ان لوگون نے توڑ دیا تھا جنھوں سب سے پہلے ان کی ماں، ان کی دو بہنوں کا ریپ کیا، ان کی تین سالہ بیٹی کو قتل کیا اور پھر باری باری حاملہ بلقیس پر حملہ کیا”۔
اجتماعی عصمت دری Bilkis Bano Case کے تمام گیارہ قصورواروں کو گزشتہ دنوں ریاستی حکموت کی جانب سے رہائی کے فیصلے کو ملک کے علاوہ اب بیرون ممالک ميں بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن USCIRF نے اجتماعی عصمت دری کے تمام مجرموں کی رہائی کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس پر سخت نکتہ چینی کی ہے ۔ امریکی کمیشن کے نائب صدر ابراہم کوپر نے کہا کہ “یو ایس سی آئی آر ایف گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون کا ریپ کرنے اور متعدد افراد کا قتل کرنے والے گیارہ افراد کی غیر منصفانہ رہائی کی مذمت کرتا ہے” ۔
یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر “اسٹیفن شنیک نے کہا کہ یہ معاملہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کرکے بچ جانے کے پیٹرن کا ہی حصہ ہے۔ انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ سنہ 2002 کے گجرات فسادات میں جسمانی اور جنسی تشدد میں ملوث قصورواروں کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکامی دراصل انصاف کے ساتھ مذاق ہے، یہ معاملہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کر کے سزا سے بچ جانے کے پیٹرن کا ایک حصہ ہے”
بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی گجرات حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے، ترنمول کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ مہوا موئترا نے کہا کہ” بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کے مجرمین کی رہائی عمل میں لاتے ہوئے گجرات حکومت نے اخلاقی گراوٹ کی تمام حدیں پار کردی ہیں”۔
کرشنا نگر سے ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ محترمہ مہوا موئترا نے بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی پر اپنا شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’قوم نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ بلقیس بانو ایک عورت ہے یامسلمان”.
پروفیسر ڈاکٹر اختر الواسع نے کہا کہ” حکومت گجرات نے یہ فیصلہ آزادی کے” امرت مہوتسو” پر ان لوگوں کے لئے کیا جنہوں نے فرقہ وارانہ منافرت کے نتیجے میں ایسی بہیمانہ اور وحشیانہ حرکتیں کیں، اور ساری دنیا میں وطنِ عزیز کی بدنامی کا سبب بنے تھے۔ سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت گجرات نے یہ بدبختانہ قدم اس دن اٹھایا جب وزیر اعظم شری نریندر مودی، لال قلعہ کی فصیل سے دنیا کو عورتوں کے احترام، توقیر اور قومی تعمیر میں موثر حصہ داری کی تلقین کر رہے تھے۔ اس طرح حکومت گجرات کا یہ فیصلہ خود وزیراعظم کی ہتک اور توہین والا ہے”.
کانگریس کے سینئر لیڈر چدمبرم نے ٹوئٹر پر جیل ایڈوائزری پینل کے کچھ ممبران کی بی جے پی سے مبینہ وابستگی کا سوال بھی اٹھایا۔ انہوں نے لکھا ”گجرات میں اجتماعی عصمت دری کے مجرم 11 افراد کو معافی دینے کی ایک دلچسپ ضمنی کہانی ہے۔ جائزہ پینل میں بی جے پی کے دو ارکان اسمبلی سی کے راولجی اور سمن چوہان بھی شامل تھے “.
انہوں نے مزید لکھا ”ایک دیگر رکن مرلی مولچندانی بھی تھے، جنہوں نے گودھرا میں ٹرین کو نذر آتش کئے جانے کے معاملہ میں گواہی دی تھی۔ کیا یہ جرمیات اور قلمیات کے ماہرین کا ایک غیر جانبدار پینل تھا؟ اس کے سربراہ ضلع کلکٹر تھے”.
تلنگانہ کی حکمران جماعت ٹی آر ایس کی رکن قانون ساز کونسل کے کویتا نے بلقیس بانو عصمت دری معاملہ کے مجرمین کی معافی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ” عصمت دری اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم کے مجرموں کو ملک کی آزادی کے موقع پر رہا کرنایوم آزادی کے مبارک دن کو داغدار کرتا ہے۔یہ قانون وانصاف کی روح اور مکمل طور پر انسانیت کے خلاف ہے۔کویتا نے کہاکہ ایک خاتون ہونے کے ناطے وہ بلقیس بانو کے درد اور خوف کو محسوس کر سکتی ہیں۔ جس طرح عصمت دری کرنے والوں اور قاتلوں کو جیل سے رہا ہونے پر عزت دی گئی وہ مہذب معاشرہ کے منہ پر طمانچہ ہے”۔
انہوں نے مجرموں کی رہائی کے واقعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ گجرات کی بی جے پی حکومت نے پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کی عصمت دری اور اس کی تین سالہ بیٹی کے قاتلوں کو معاف کر کے وحشیانہ سوچ کو فروغ دیا ہے۔
اس خطرناک عمل کو شروع میں ہی روکنا ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ قانون پر سب کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قاتلوں کی معافی کایہ شرمناک فیصلہ واپس لیا جائے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملہ کا اپنے طورپر نوٹس لے اور اس معاملے میں مداخلت کرے”۔
کانگریس نے بلقیس بانو کیس کے خاطیوں کی رہائی پر وزیراعظم نریندر مودی کو نشانہ تنقید بنایا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ” سارا ملک وزیراعظم کی کہنی اور کرنی کا فرق (قول و فعل میں تضاد) دیکھ رہا ہے”۔ کانگریس نے سوال کیا کہ آیا وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے علم میں لائے بغیر اور ان کی منظوری کے بغیر حکومت ِ گجرات کا ان خاطیوں کو رہا کرنا‘ ممکن ہے؟۔
کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی وڈرا نے وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ” دیش کی مہیلائیں (عورتیں) سوال کررہی ہیں کہ آیا ان کا احترام صرف وزیراعظم کی تقاریر میں ہے۔ گجرات کی بی جے پی حکومت نے بلقیس بانو کی عصمت ریزی اور اس کے 7 ارکان خاندان کے قتل کے سلسلہ میں جیل میں بند تمام 11 افراد کو اپنی سزا معافی پالیسی کے تحت رہا کردیا “
راہول گاندھی نے ہندی میں ٹویٹ کیا کہ” 5 ماہ کی حاملہ عورت کی عصمت ریزی اور اس کی 3 سالہ بچی کو ہلاک کرنے والوں کو آزادی کا امرت مہوتسو کے دوران رہا کردیا گیا۔ ملک کی عورتوں کو کیا پیام دیا جارہا ہے۔ پردھان منتری جی سارا ملک آپ کی کہنی اور کرنی میں فرق دیکھ رہا ہے” ۔
پرینکا گاندھی وڈرا نے سوال کیا کہ” بی جے پی حکومت کا ایسے لوگوں کو رہا کرنا اور کیمرہ کے سامنے ان کا خیرمقدم کیا ناانصافی اور بے حسی کی انتہا نہیں ہے؟۔ نریندر مودی جی ناری کا احترام صرف آپ کی تقاریر میں ہوتا ہے؟ یہ مہیلاؤں کا سوال ہے”.
کانگریس کے رہنما اور پارٹی کے ترجمان پون کھیڑا نے اس واقعے پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ’راج دھرم‘ نبھانے کی نصیحت یاد دلائی۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا “اصلی نریندر مودی کون ہیں؟ جو لال قلعے کی فصیل سے جھوٹ پیش کرتے ہیں یا پھر وہ جو اپنی گجرات حکومت سے ریپ کے مرتکبین کو رہا کرواتے ہیں۔ یہ ملک جاننا چاہتا ہے۔”
مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور انڈیا میں مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے والے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے حیدرآباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے رہائی کے عمل کی مذمت کی اور کہا: ’ملک دیکھ رہا ہے کہ بی جے پی کس طرح خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی عزت کرنے کے نام پر صرف زبانی جمع خرچ کرتی ہے۔ لیکن جب بات مسلمان خاتون کی آتی ہے تو وہ یہ سب بھی بھول جاتے ہیں، انھوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ یہ خواتین کو بااختیار بنانے کی مثال ہے۔ انھوں نے بی جے پی پر جانبدار ہونے کا الزام لگایا۔
معروف صحافی راجدیپ سر دیسائی نے دو گینگ ریپ کے واقعات کا موازنہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا: ’رات کو آنے والا خیال: یہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ ایک گینگ ریپ اور قتل (نربھیا) کا معاملہ دوسرے کیس (بلقیس بانو) سے زیادہ گھناؤنا ہے۔ ایک کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کیا جاتا ہے، دوسرے کے لیے نہیں؟ کیا قانون/معاشرے کا اجتماعی ضمیر متاثرہ اور مجرم کی شناخت پر منحصر ہے؟‘
واضح رہے کہ دہلی کی بس میں سنہ 2012 میں ایک طالبہ نربھیا کے ساتھ جب اجتماعی ریپ اور پھر بعد میں اس کی موت کا معاملہ سامنے آيا تھا تو ملک بھر سے ملزمان کے خلاف موت کی سزا کی اپیل کی گئی تھی اور بعد میں انھیں سزائے موت دی بھی گئی۔
بے شرمی کی انتہا اس وقت کھل کر سامنے آئی جب گودھرا کے بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی نے ایک نجی چینل سے ایک انٹر ویو کے دوران ان مجرموں کی دفاع میں کہا کہ” بلقیس بانو کے ساتھ عصمت دری کرنے والے 11 افراد برہمن تھے اور اچھے اخلاق کے مالک تھے”۔
میزان عدل قائم کرنے والے ذات اور برادری کو سامنے رکھ کر پھانسی کی سزا کاٹنے والے مجرموں کی رہائی کا فیصلہ آئین ہند کے کس دفعات کی بنیاد پر صادر فرما رہے ہیں یہ عقل سے پرے ہے.
اس متعصبانہ فیصلے پر بلقیس بانو نے کہا کہ “جب میں نے سنا کہ 15 اگست 2022 کو ان 11 مجرموں کے رہا کیا جا رہا ہے، جنہوں نے میری پوری زندگی تباہ کر دی تو 20 سالہ پرانا صدمہ مجھ پر پھر قہر بن کر ٹوٹا۔ میری آنکھوں کے سامنے میرے پورے خاندان کو ختم کیا۔ میری 3 سالہ بیٹی مجھ سے چھین لی، وہ سب رہا کر دئے گئے۔ اب وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔ یہ سننے کے بعد میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں خاموش ہو گئی ہوں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میں صرف یہ کہہ سکتی ہوں، کیا ایک عورت کو انصاف دئے گئے انصاف کا اختتام یہی ہے؟ میں نے اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر یقین رکھا۔ میں نے اس نظام پر یقین رکھا تھا۔ میں آہستہ آہستہ اپنے صدمے کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی۔ لیکن ان 11 مجرموں کی رہائی نے مجھ سے میرا سکون چھین لیا ہے اور نظام عدل پر میرا اعتماد متزلزل کر دیا ہے”۔
بلقیس بانو نے مزید کہا کہ میرا دکھ اور یہ متزلزل اعتماد اپنے لئے ہی نہیں بلکہ ان تمام خواتین کے لئے ہے، جو انصاف کے لیے عدالتوں میں لڑ رہی ہیں۔ ان مجرموں کی رہائی کے اتنے بڑے اور غیر منصفانہ فیصلے سے پہلے مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا۔ میری حفاظت اور بحالی کے بارے میں نہیں سوچا۔ میں گجرات حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس نقصان دہ فیصلے کو واپس لے اور پرامن طریقے سے، بے خوف ہوکر جینے کا میرا حق واپس کرے۔ میری اور میرے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔‘‘ یہ بیان بلقیس بانو کی جانب سے ایڈوکیٹ شوبھا نے جاری کیا ہے.
گزشتہ آٹھ برسوں سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ذہنیت کیفیت، رویہ، قانون کا احترام، مودی کو سپریم کورٹ کی پھٹکار، بین الاقوامی سطحً پر بے عزتی،کبھی موت کا سوداگر تو کبھی ’یمراج‘ (موت کا فرشتہ) جیسے مختلف وحشیانہ القاب سے نوازا گیا، لیکن ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس سے انہیں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں زبردست فائدہ ہوا اور وہ ہندوستان کے اسٹار سے سپراسٹار بنتے گئے اور گجرات میں مسلمانوں کا ناطقہ بند ہوتا گیا لیکن گجراتی اور ہندوستانی عوام میں مودی کے تئیں کسی طرح کی نفرت تو دور ناراضگی کا عنصر بھی نہیں پایا گیا، انہیں ایک طرح سے بھگوان کا درجہ حاصل ہے.
سپریم کورٹ بلقیس بانو کیس میں قصورواروں کو سزا میں دی گئی چھوٹ کے خلاف دائر پی آئی ایل پر سماعت کے لئے تیار ہو گئی ہے چیف جسٹس پی ایل رمنا کی سربراہی والی بنچ نے سینئر وکیل کپل سبل اور ایڈووکیٹ اپرنا بھٹ کے خصوصی تذکرہ کے دوران جلد سماعت کی درخواست پر منگل کو اتفاق کیا ہے، اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا.
بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی کے خلاف مختلف گوشوں سے تنقیدوں کا سلسلہ جاری ہے تازہ طور پر گجرات حکومت کے فیصلے کے خلاف 130 سے زائد سابق سیول سرونٹس نے ہفتہ کو چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک خط لکھتے ہوۓ بلقیس بانو اجتماعی عصمت ریزی کیس کے 11 خاطیوں کی رہائی کی مخالفت کی اور ان سے درخواست کی کہ اس بدترین فیصلے کی اصلاح کی جاۓ۔ انھوں نے چیف جسٹس آف انڈیا سے کہا کہ وہ حکومت گجرات کی جانب سے جاری رہائی کے حکم کو منسوخ کریں اور 11 خاطیوں کو تاحیات جیل میں رکھا جائے۔ انہوں نے بلقیس کے مجرمین کی رہائی کو بدترین غلطی قرار دیا۔
دہلی کے سابق لیفٹینٹ گورنر نجیب جنگ، سابق معتمد کابینہ چندرشیکھر، شیو شنکر مینن، سجاتا سنگھ، جی کے پلئی اس خط پر دستخط کرنے والی 134 شخصیتوں میں شامل ہیں۔ خط میں کہا گیا کہ ہمیں سپریم کورٹ اس کے حکم پر حیرت ہوئی کہ اس کیس کا موجودہ پالیسی کے تحت نہیں بلکہ 1992ء کی گجرات کی پالیسی کے تحت جائزہ لیا جاۓ۔ مروجہ قانون سے اس انحراف سے حکومت کی موجودہ پالیسی پر عدم عمل آوری اور رہائی کے سنسنی خیز اثرات کے پیش نظر ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ حکومت گجرات کی جانب سے رہائی کے احکامات منسوخ کئے جائیں اور 11 خاطیوں کو پھر سے جیل بھیج دیا جائے.
واضح رہے کہ آئین ہند میں عمر قید کی سزا موت تک ہوتی ہے، لیکن معافی کے تحت مجرم 14 سال بعد جلد رہائی حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اگرچہ تازہ ترین معافی کی پالیسی کہتی ہے کہ عصمت دری اور قتل کے مجرموں کو وقت سے پہلے رہا نہیں کیا جا سکتا، لیکن بلقیس بانو کیس کی پالیسی میں یہ فرق نہیں کیا گیا. ***