جی این کے اردو
کیا مہر کو نقدی کی شکل میں دینا ضروری ہے؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
کیا لڑکی کو مہر نقد رقم کی صورت میں دینا ضروری ہے ، یا کوئی دوسری چیز مثلا زیور بھی دیا جا سکتا ہے؟ مثال کے طورپر ایک لاکھ روپے مہر طے ہوا ۔ اس صورت میں کیا یہ درست ہے کہ پچاس ہزار روپے نقد دے دیے جائیں اور پچاس ہزار روپے کا زیور دیاجائے ، یا ایک لاکھ روپے نقد دینا ضروری ہے ۔ اگر زیور دینے کا ارادہ ہے تو بیوی کو ایک لاکھ روپے مہر کے علاوہ الگ سے دینا ہوگا ؟
جواب:
مہرعورت کا حق ہے ۔ قرآن مجید میں نکاح کے وقت شوہر کو اس کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً (النساء:4)
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) اداکرو ۔‘‘
مہر کے سلسلے میں شوہر اور بیوی دونوں کی اس پر رضامندی ضروری ہے کہ وہ کتناہو ؟ اور کس شکل میں ادا کیا جائے؟ مہر میں مالیت رکھنے والی کوئی بھی چیز دی جاسکتی ہے ، خواہ اس کی مالیت کتنی بھی کم ہو یا زیادہ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا :
اذھب فالتمس ولو خاتماً من حدیدٍ ۔(بخاری : 5871 ،مسلم:1425)
’’جاؤ ، (مہر میں دینے کے لیے) تلاش کرکے لاؤ ، چاہے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو ۔‘‘
مناسب ہے کہ مہر طے کرتے وقت لڑکی اور اس کے گھر والوں سے استصواب کرلیا جائے ، تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ مہر میں کیا چیز اور کتنی مقدار میں دی جارہی ہے اور ان کی رضابھی حاصل ہوجائے ۔ ویسے بہتر ہے کہ مہر نقد رقم کی شکل میں ادا کیا جائے ، تاکہ لڑکی اس پر آزادانہ تصرف کرسکے اور اس کے ذریعہ اپنی جو ضرورت پوری کرنی چاہے ، کرسکے ۔ اگر زیور بھی دینے کا ارادہ ہو تو اسے مہر سے الگ بہ طور تحفہ دیاجائے ۔
مہر کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں : ایک مہر معجّل ، یعنی جسے نکاح کے بعد فوراً ادا کیا جائے ، دوسری مہر مؤجل ، یعنی جسے بعد میں ادا کیا جائے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ شریعت میں مہر مؤجل پسندیدہ نہیں ہے ۔ مہر کو نکاح کے وقت ہی ادا کرنا چاہیے ، یا بعد میں جلد از جلد اسے اداکرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اگر مہر مؤجل طے کیا جائے تو بہتر ہے کہ اسے نقد رقم کی شکل میں طے کرنے کے بجائے سونے کی متعین مقدار کی شکل میں طے کیا جائے ، تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قدر (Value)میں کمی نہ آئے ، بلکہ اضافہ ہوتا رہے ۔
[ شائع شدہ : ماہ نامہ زندگی نو ، نئی دہلی ، جولائی 2022 ]