جی این کے اردو
3 / جولائی 2022
ڈاکٹر جنتی جہاں
سیاست وصحافت کا المیہ’’لفظوں کا لہو‘‘
سلمان عبدالصمد کا ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ ایک ایسا ناول ہے جس میں ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر صاف نظر آتی ہے۔یہ ناول پہلی بار جولائی2016 میں اور اس کے بعد دوسرا ایڈیشن 2017 میں منظر عام پر آیا اور تیسر ا ایڈیشن 2018 ۔یہ ناول روزگار، آبادی، تہذیبی اور ثقافتی مسائل، میڈیا، سوسائٹی اور فرد کے المیہ پر پورا اترتا ہے۔اس ناول میں فن ناول کی بہت سی خصوصیات موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ معتبر فکشن نگار پیغام آفا قی لکھتے ہیں:
’’ناول میں تم نے کرداروں کی ذہنی دنیا کو مرکز بنایا ہے اور باہری دنیا کو سامان بیان، یہ اس کی خوبی ہے۔ تمھارا ناول شروع کرتے ہی اتنا سمجھ گیا تھا کہ تم نے ناول کے حسن اور تقاضوں کو سمجھتے ہو ۔ اس ناول میں روح اور اس کی اپنی شخصیت ہے۔ ‘‘( بیک کور سے ماخوذ )
ناول کی قرأت کے دوران پیغام کے ان جملوں سے اتفاق کیا جاسکتاہے ۔ کیوں کہ سلمان فقط واقعات کے بیان سے سروکار نہیں رکھا بلکہ کرداروں کے اندرون میں بھی جھانکنے کی بھرپورکوشس کی ہے۔ جس طرح سے ہر ناول نگار ناول کے ذریعہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ویسے ہی ’’لفظوں کا لہو‘‘ بھی اپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔یہ ناول عوام کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ سماج میں رہ کر ہر افراد کا حق ہے کہ وہ حق کے لیے اپنی آواز بلند کرے۔ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو اس طرح پیش کرتا ہے کبھی صحافت کے ذریعہ تو کبھی سوشل میڈیا کے ذریعہ تو کبھی ہسپتالوں میں بڑے بڑے ڈاکٹروں کے ذریعہ۔ اس ناول میں ایسے سبھی لوگوں کو بے نقاب کیا ہے جو کا چولا پہنے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر اپنی ایک گھنونی دنیا بسائے رکھتے ہیں۔
اگر ہمارے سماج کی یہ سب برائیاں ختم ہوجائیں تو ہر ایک فرد کو روزگار کے لیے اور سکون زندگی کے لیے تڑپنا نہیں پڑے گا۔ ہمیں ضرورت ہے ایسی آواز کی جو انصاف کی آواز ہو ان برائیوں کا خاتمہ کرائے۔ جو آج کل اس طرح بڑھ رہی ہیں جس طرح پلک جھپکتے ہیں۔
عصر حاضر میں تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کتنی جھوٹی جھوٹی افواہیں دکھائی جاتی ہیں۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ یہی نہ کہ سیاست کا آج صحافت پر غلبہ ہے ہمیں یہی غور کرنا چاہیے کہ ہمارا ملک آزاد ہے اس لیے ہر فرد کو اپنا آزادانہ خیال رکھنا چاہیے۔ اپنی بات رکھنے کا حق اس ملک میں ہر فرد کو ہے۔ ایسے ہی کچھ لوگ میڈیا میں آج بھی موجود ہیں جو سچائی اور انصاف کی آواز بلند کرتے ہیں۔ کچھ ہی لوگ ہیں جو اپنی نوکریوں کو خطرے میں ڈال کر عوام کو بیدا رکرنا چاہتے ہیں۔ عوام کی آواز کو اپنی آواز بناتے ہیں، لوگوں کو سہی راستہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ ان کو ان کی نوکریوں سے سبک دوش کردیا جاتا ہے۔ یہ بھی فرد کا بہت بڑا المیہ ہے۔ہالینڈ میں مقیم ناول نگار صفدر زیدی نے اس ناول کے متعلق کچھ یوں لکھاہے:
’’سلمان آپ کا ناول پڑھا ۔ آپ کے کردار جاندار ہیں۔ وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ ناول انسانی رشتوں کی ہمہ جہتی کے ساتھ صحافت وسیات کی ناجائز بندھنوں پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔‘‘یہ سچی بات ہے کہ سلمان نے صحافت وسیاست کو بہت ہی قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ انھوں نے طرف جہاں بڑے بڑے صحافیوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا باریک بینی سے معائنہ کیا ، وہیں انھوں نے سیاست وصحافت کے گٹھ جوڑ پر بڑی بات کہنے کی کوشش کی ہے ۔
اس ناول کے مرکزی کردار محسن اور نائلہ ہیں۔ نائلہ اور زنیرا محسن کی دونوں بیویوں ہیں۔ نائلہ کی دوست نیلا ہے جو صحافی ہے۔ محسن بھی صحافی کی نوکری کرتا تھا وہ نوکری چھوڑ کر سعودی چلا جاتا ہے۔ محسن کے والد دائود ہیں اور بہن کہکشاں، حلیم پھوپھا، ناہیدہ، وقاس، نیر محسن کا چچازاد بھائی ہے۔ نائلہ کے والد حنیف ہیں۔ اکمل خاں ایڈیٹر ہے۔ محسن اکمل خاں کے یہاں ملازم تھا۔ نورشیہ، ملہوترا، پناجی، صوفیہ، شبنم دونوں دوست ہیں۔ شمیم صحافی ہے۔ انس، ناظم، صوفیہ ریسرچ اسکالر ہیں۔ فیضی، شانیہ، قمر، عادل، عاطف بی اے فائنل ایر کے طالب علم ہیں۔ گل افشاں جرنلسٹ ہے۔ شفقت کی بڑی بہن زینت، گل افشاں کا بڑا بھائی اسلم، ڈاکٹر رستوگی، ڈائرکٹر، نیلا کے شوہر پر قاتلانہ حملہ کی وجہ سے موت ہوجاتی ہے۔ دوسری شادی نیلا عبید سے کر لیتی ہے۔ پروفیسر ایچ ایس،ودھوڑی شوزیب، اینقہ، شبلی، سفیان، نائلہ کا بیٹا ارسلون ہے۔ رکھوبیر صحافی ہے۔ ان سبھی کرداروں کے ذریعہ کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے۔
محسن بھی کمل خاں کا ملازم تھا وہ ایک صحافی تھا ایسا صحافی جو نہ ذہن اپنا رکھ سکتا تھا اور نہ غلط اور سہی میں فیصلہ کرنے کا حق اس کا تھا۔ جب محسن نے صحافت کی دنیا جھوٹ سے بھری دیکھی تو اس نے نوکری چھوڑ دی اور روزگار کی تلاش میں سعودی چلا گیا۔ سعودی جاکر بھی اس کو کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے کفیل نے جس کام کے لیے اس کو بلایا تھا وہ کام نہ دے کر اس سے کچھ اور ہی کام لیا۔ مصنف نے ایجنٹ کو بھی بے نقاب کیا ہے جو ان بے چارے مزدوروں کا پیسہ کھاتے ہیں جو روزی روٹی کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ یہ کسی ایک فرد کی کہانی نہیں آج بھی نہ جانے کتنے معصوم ایسے ہیں جو اس ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔
ایک کردار فیضی ہے جس کو اپنے باس کی ہر ایک بات ماننی پڑتی ہے۔ فیضی کا یہ ایک ایسا المیہ ہے جو فیضی کو نہ سکون سے سونے دیتا ہے اور نہ کھانے دیتا ہے۔ اس کا سکون ہی چھین لیتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’اب کیا تھا ان کے تیور سخت تھے۔ سخت لہجے میں برسنے لگے۔ میرے ساتھ کی گئی تمام ہمدردیوں کو گنوانا شروع کردیا۔ صرف یہیں تک بس نہیں دھمکی آمیز لہجہ میں کہا— تمہاری سانسوں پر بھی اختیار ہے مجھے، جب چاہوں چھین لوں میری مرضی— دلی میری ہے میری—‘‘ ۱؎
اس اقتباس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر روزگار کی تلاش میں جب کوئی نکلتا ہے تو اس کو اس بات کا گمان تک نہیں ہوتا کہ اس کا ملاک یا باس کیسے مزاج کا ہے لیکن بعد میں وہ اس دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ آج بھی نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنے پاس کی انگلیوں پر ناچنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہے روزگار۔ اگرکوئی باس سے زبان درازی کرتابھی ہے تو وہ نوکری سے نکال دیا جاتا ہے یا تو آپ کو نوکری ملے گی یا پھر بے روزگاری۔ یہ زمانہ کے حالات ہیں۔ فیضی کا باس اس سے سخت لہجہ میں کہتا ہے کہ ایک روزنامہ میں میرا آرٹیکل مسلسل جائے گا۔ اس کی ذمہ داری بھی وہ فیضی کو دیتا ہے جس کو سوچ سوچ کر فیضی کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔
ناول نگار نے میڈیا کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ جتنے بھی صحافی ہوتے ہیں یا تو سیاست دانوں کے ہاتھوں بک جاتے ہیں یا پھر جو انصاف کی یا حق کی بات کرتے ہیں تو ان کو نکال دیا جاتا ہے۔ سیاست کا آج صحافت پر غلبہ ہے جس کی وضاحت محسن نائلہ سے اس طرح کرتا ہے:
’’میں نے اپنے اخبار میں حقائق کو جگہ دی تھی نا۔ بدعنوانیوں کے پردے چاک کیے تھے۔ لوگ ہمارے مخالف ہوگئے جیسے میں ملک کا دشمن ہوں۔ تمہیں تو یہ جملے یاد ہی ہوں گے نا۔ ابے او ایڈیٹرس—!
اگر کوئی آج ایڈیٹر بنتا ہے تو وہ انسان نہیں رہ پاتا وہ صرف ایک ڈھانچہ ہوتا ہے فقط انسانی ڈھانچہ! صحیح معنوں میں وہ کتا بن کاتا ہے۔ لیڈروں اور سرمایہ داروں کا کتا—!‘‘ ۲؎
یہی حقیقت ہے جو انسان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اچھا صحافی وہی ہوگا جس کا ذہن اپنا ہوگا جس کو پوری آزادی ہوگی۔ آج کل ہمیں اپنی رائے خود قائم کرنی چاہیے ہمیں اپنے راستے خود تلاش کرنے چاہئیں۔ کبھی ملازم بن کر ہم حق کی لڑائی نہیں لڑسکتے۔ ملازم بن کر حق کی لڑائی لڑی جاسکتی ہے جب تمہارا مالک حق پرست ہو وہ انصاف کا راستہ دکھائے لیکن زمانہ بدل گیا ہے پیسے کی دنیا ہے لوگ پیسے سے تولے جاتے ہیں اور یہ جو مالک لوگ ہیں آنکھ پر پٹی باندھ لیتے ہیں پھر ان کو کسی غریب کی چیخ یا کسی معصوم یا مظلوم کا درد ان کو دکھائی یا سنائی نہیں دیتا۔ یہ صرف اپنی دولت میں مگن رہتے ہیں۔ ان کو غریب مزدور بے سہارا اور بے بسوں سے پیار یا ہمدردی نہیں ہوتی۔ ان کو صرف پیسے سے پیار ہوتا ہے۔ پیسے سے۔ نائلہ نے محسن سے کہا:
’’محسن سوال آج بھی ہے کہ کیا صحافیوں کی کوئی شناخت ممکن ہے؟
کیا صحافی وہ ہیں جو اخبار یا چینلوں کے مالک ہیں؟ پھر ان کے ملازمین صحافی ہیں؟ اگر کوئی ملازم، صحافی ہوگا تو اس کا ذہن اپنا ہوگا اور نہ ہی اس کا دماغ تو ملازم کیسے صحافی ہوسکتا ہے؟ ۳؎
کوئی بھی صحافی جب تک اچھا صحافی نہیں بن سکتا جب تک اس کو آزادی نہیں ملے ملازم صحافی نہیں ہوسکتا یہ بات درست ہے ملازمت میں آزادی کہاں ملتی ہے۔ آج کل مالک تو یہ سوچتے ہیں کہ ملازم کی سانسوں پر بھی میرا حق ہے۔ وہ جب چاہیں جو چاہیں اپنے ملازم سے کراتے ہیں۔ اب یہ بات غور کرنے کی ہے کہ ایک مالک کسی ایسے لیڈر سے ملا ہوا ہے جو عوام کو تباہ و برباد کررہا ہو تو وہ اپنے ملازم سے وہی جھوٹی تعریفیں عوام کو جھوٹے خواب دکھائے گا۔ کیوں لوگوں کے اندر سے انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے؟ کیوں لوگ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں؟ کیوں لوگ حق کی بات نہیں کرتے؟ کیا انسانوں کے اندر سے انسانیت ختم ہوگئی ہے کیا ان کا ضمیر مرگیا ہے؟
اگر کوئی عورت حق کے لیے آواز بلند کرنا بھی چاہتی ہے تو اس کے شوہر اور والدین کو اس کی فکر لگی رہتی ہے کہ کہیں ہماری عزت کے ساتھ کچھ غلط نہ ہوجائے اس لیے زیادہ تو والدین اور شوہر اپنی بیویوں کو نوکری کرنے سے روکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک شوہر محسن ہے جو سب جانتا ہے کہ عورت کو بھی حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے مرد کے شانہ بہ شانہ چلنا شاہیے لیکن اس گھنونے معاشرے میں پھیلی ہوئی بے شرمی اور بے حیائی کے ڈر سے اپنی بیوی کو سخت لہجہ میں ڈانٹتا ہے اور اس کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ محسن نے نائلہ سے کہا:
’’اچھا۔ یہی آزادی چاہیے تھی تجھے۔ مل گئی نا۔ خوب اٹھا لے فائدہ۔ آج کے میڈیا کے بارے میں کیا نہیں بتایا تجھے۔ معلوم ہے تجھے!
مالکوں کا نہیں، صحافیوں کا مقدر کیسے بنتا ہے پھر مالکوں کا مقدر بنانے والا ہوتا بھی ہے کون؟ بدن کی گرماہٹ کتنی ضروری ہے وہاں بلاعوض ضمیر فروشی کا مطلب کیا ہے۔‘‘ ۴؎
اس سماج میںپھیلی ہوئی گندگی کو کم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قلم کاروں کی ضرورت ہے۔ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی ایک انسان کی کہانی نہیں ہے اس ملک میں رہنے والے ہر اس انسان کی کہانی ہے جو روزی روٹی کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔
ایک کردار نیلا ہے جو نائلہ کی دوست ہے۔ نائلہ نے اس کے اندر ہمت کا جذبہ پیدا کردیا کہ وہ اب حق کے لیے لڑ سکتی ہے۔ نائلہ ہر عورت کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے اس لیے وہ ایک ایڈیٹر کی کمزوری کو پکڑ لیتی ہے اور اس کو بلیک میل کرتی ہے اور اسی ذریعہ وہ ایک آزاد خیال ایڈیٹر بنی اپنا ذہن اور اپنا دماغ اس کے اپنے ساتھ تھا۔ اب وہ کسی کی غلام نہیں تھی کسی کے ذہن سے کام نہیں کرتی تھی۔ اپنی رائے اور اپنی بات کہنے کا اس کو پورا حق تھا۔ نیلا نائلہ سے بتاتی ہے:
’’نائلہ رپورٹر بننے کے بعد میں نے سب سے پہلے اسپتال میں اپنا جال بچھایا وہاں کی نرسوں سے بات چیت کی کہ جب ڈاکٹر رستوگی رنگوں کے کھیل میں الجھے تو مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ ایک بار مجھے پتا چلا اور میں نے پولس والوں کے ساتھ جاکر اسے رنگے ہاتھوں—— نہیں نہیںرنگے بدن—— گرفتار کروایا۔‘‘ ۵؎
اس اقتباس سے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اگر عورت کچھ کرنا چاہے تو مشکل سے مشکل کام آسانی سے کرسکتی ہے جس طرح سے نیلا نے کیا۔ لیکن ہمارے سماج میں نہ جانے آج بھی کتنی عورتیں ایسی ہیں جو اپنے نام کے چکّر میں یا پھر پیسے کے لالچ میں اپنے بدن سے کھیلواڑ کرواتی ہیں۔ کتنی یونیورسٹیوں کی لڑکیاں آج بھی اس گندے کھیل میں شامل ہیںنہ جانے کتنی لڑکیاں نوکری اور شہرت کے چکر میں اپنے جسم کا استعمال کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے ان کا ضمیر مرگیا ہے۔ ایسی شہرت اور ایسے نام سے کیا فائدہ جو زنا کا ٹیگ ان کے لگ جائے اور آخرت میں ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا آج کل لوگوں کے اندر سے خدا کا ڈر کیوں ختم ہوگیا ہے۔ کیا ان کو اس کرائے کے مکان سے اللہ کے پاس نہیں جانا؟ کیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں آگئے ہیں؟ ان کو خدا کا خوف نہیں لگتا۔ اگر آج بھی نیلا اور نائلہ کی طرح ایمانداری سے لڑکیاں محنت اور مشقت کریں تو کامیابی مل سکتی ہے اور یہ جو سماج میں گندگی پھیلی ہوئی ہے یہ بھی کسی حد تک ختم ہوجائے گی۔
ہر وقت نائلہ اور نیلا اسی گندگی کو صاف کرنے کے بارے میں سوچتی رہی ہیں اور طرح طرح سے اپنے ideas لگاتی ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’نائلہ سوچ رہی تھی کہ اگر بی ڈی او کو کوئی کارڈ والے صحافی کی ہی ضرورت ہو تو وہ نیلا کو پیش کردے گی اس کے پاس تو کارڈ تھا— دہلی میں صحافت سے جڑی تھی اور اس نے شہری صحافیوں اور شہری بدنما متعدد دھبوں کو کھرچ کھرچ کر پھینکنے کی کامیاب کوشش بھی کی تھی۔ یہاں چھٹی پر آئی تھی۔‘‘ ۶؎
’’اگر اسے دیہی مسائل حل کروانے میں دلچسپی محسوس ہونے لگے تو وہ یہاں بھی رہ سکتی ہے۔ کیونکہ شہری مسائل سے کہیں زیادہ ایسے پیچیدہ دیہی مسائل ہیں جنہیں صحافت کے آسمان پر تاروں کی طرح جگمگانا چاہیے۔ تاہم صحافت میں دیہی معاملات کے کونپلوں کی بھی گنجائش نہیں۔‘‘ ۷؎
یہ مسائل صرف ایک جگہ کے نہیں ہیں یہ تو دیہات سے لے کر گائوں اور شہروں کے طرح طرح کے مسائل ہیں جو ضرورت ہے ایک ایسے جرنلسٹ کی جو ایماندار ہو نیک خیال ہو، جس کا ضمیر زندہ ہو جو غریب اور مظلوموں کے درد کو اپنا درد سمجھ کر ان پر کام کرے۔
ایک طرف شبنم تھی جو ہمیشہ تمیم کے ساتھ اس کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ وہ غریب گھر سے تھی اس کو پیسے کی سخت ضرورت تھی اس لیے وہ تمیم کی تھیسس لکھ رہی تھی۔ تمیم مضمون انہیں سے لکھواتا تھا۔ کچھ لوگ تمیم اور صوفیہ جیسے بھی ہوتے ہیں کہ دوسرے لوگوں سے اپنے کام کرواتے ہیں اور خود رنگ رلیاں مناتے ہیں۔
’’بڑے بھائی آج کردو نا، زندگی بھر تمہارا احسان مانوں گا۔ جذباتی ہوکر لجاجت کے انداز میں تمیم نے درخواست کی۔ انس نے شام کا وعدہ کیا…… حسب وعدہ انس نے تمیم کے لیے ایک مضمون لکھا…… آج کے مضمون کے بعد تمیم کے ساتھ ساتھ صوفیہ بھی اتنی خوش تھی کہ وہ اپنی خوشی بانٹنے تمیم کے کمرے میں آچکی تھی۔ دونوں نے خوشی کا جشن منانا شروع ہی کیا تھا کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ کون؟‘‘
تمیم کی دھیمی آواز ابھری۔
’’شبنم‘‘ اس وقت یہ نام سن کر جیسے تمیم کے سامنے شعلے لپک آئے۔‘‘ ۸؎
صوفیہ جیسی لڑکیوں نے ہی اس سماج میں گندگی پھیلا رکھی ہے۔ ایسی لڑکیاں ہی مردوں کی ہمت بڑھاتی ہیں جو پھر یہ ان لڑکیوں سے وہی تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں جو لڑکیاں اپنے گھروں سے صرف تعلیم حاصل کرنے آتی ہیں اپنے والدین کے خوابوں کو پورا کرنے آتی ہیں وہ ارمان لے کر آتی ہیں کچھ بن کر دیکھانے کا۔ لیکن ان بے چاری معصوم لڑکیوں کو بھی ان مردوں کی گندی حرکتوں سے گزرنا پڑتا ہے جن کو بڑھاوا صوفیہ جیسی لڑکیاں دیتی ہیں۔
شوزیب، شبلی اور صفیان تینوں دوست ہیں۔ ناول نگار نے بے روزگادی کے بارے میں شوزیب کی زبانی اس طرح بیان کیا ہے:
’’دونوں انٹرویوذ کا رزلٹ اب تک نہیں آیا تھا۔ شوزیب پریشان تھا گھر والوں کی کال مسلسل آرہی تھی۔ بے روزگاری کا طعنہ سن سن کر فرسٹیٹیڈ تھا۔ ماں باپ کے خون پسینے کو برباد کرنے کا کلنک جھیل رہا تھا۔ قرض خواہوں کے مسلسل تقاضے زخم پر نمک مرچ سے کم نہیں تھے۔ پھر ڈھلتی عمر کا معاملہ بھی۔ آج سنڈے تھا۔ کئی دوست شوزیب کے یہاں آئے… انھوں نے مزاحیہ انداز میں حالات سے جڑے کئی مشورے دے ڈالے۔
’’کالج یونیورسٹیز میں پڑھانے کے لیے انٹرویوز کی تیاری سے زیادہ ضروری پروفیسر کی رشتہ داروں پر ڈور… یہ ہے نا آسان نسخہ، ایک تیر دو شکار… پروفیسر ودھوڑی بھی تو یہی کہتے ہیں۔ ٹرائی کرو، کیا جاتا ہے۔‘‘ شبلی نے کہا۔ ’’بھائی یہ زمانہ مکھن کا ہے مکھن کا… پہلے زمانہ تھا تیل مالش کا، پھر مکھن مارنے کا یُگ آیا اور اب مکھن لگانے کا دور ہے۔ سمجھا۔‘‘ ۹؎
ناول نگار نے ان کرداروں کے ذریعہ حقیقت سے روشناس کرایا ہے۔ پڑھے لکھے آج بھی بے روزگار ہیں۔ کچھ تو ایسے غریب گھرانوں کے ہوتے ہیں کہ ان کے والدین قرض لے لے کر ان کی پڑھائی مکمل کراتے ہیںکہ جب نوکری مل جائے گی تو قرضہ واپس دے دیں گے۔ آج بھی نہ جانے کتنے طالب علم ایسے ہیں جو نوکری کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو بے روزگاری کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں کیونکہ ان کو طرح طرح کے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا اتنے پڑھے لکھے پروفیسر بھی بچوں کی ہیلپ ایمانداری سے نہیں کرتے۔ نہ جانے کتنے طالب علم ایسے ہیں جو پڑھائی میں بہت اچھے ہیں لیکن ان کو نوکری نہیں مل رہی اور ان کے مقابلہ میں جو مند بدھی ہوتے ہیں جو اپنا کام دوسرے لوگوں سے کراتے ہیں ان کو نوکریاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ ناول نگار نے اپنے ناول کے ذریعہ ہمیں حقیقت سے روبرو کرایا ہے اور اس سماج کا ایک شفاف آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔اس ناول میں درد ہے اور بے شمار سوالات بھی ۔اس کے علاوہ احتجاج کا رویہ بھی ۔ یہ الگ ہے کہ اس ناول کے کہیں کہیں بیانیہ میں غم وغصہ کا احساس ہوتا ہے، جب کہ تخلیقات میں غم وغصے کا اظہار مناسب نہیں ہے۔ ناول کے اس پہلو توجہ مبذول کرتے ہوئے معروف ناقد عتیق اللہ نے لکھا ہے :
’’سلمان عبدالصمد کا ناول ’’ لفظوں کا لہو‘‘ ایک ایسے نوجوان کا لکھا ہوا ناول ہے جو تخلیقیت سے سرشار ہے اور غم وغصہ جس کے رگ وپے میں رواں دواں ہے۔ ہم سب ایک مسلسل الم ناک دور سے گزر رہے ہیں جس کا اثر اجتماعی طور پر ہماری سائیکی پر بھی ہورہی ہے۔ نوجوان العمر مستقبل سازی کے لیے سرگرداں ہے اور مستقبل کی دہشت زدگی نے اس کے خوابوں کو ملیامیٹ کردیا ہے۔ اس طرح کے نا آہنگیوں سے معمور معاشرے میں اگر ہمارافن کار زندگی کے سیاہ ترین رخوں کو فکشن کی زبان دیتا ہے تو اس کے لفظوں سے روشنیوں کے چشمے نہیں پھوٹ سکتے اور نہ ہی وہ خوش خواب خلق کرسکتا ہے۔ سلمان عبدالصمد کے لفظوں سے لہو کی دھار اگر پھوٹ رہی ہے تو یہ ان کا اور نہ لفظوں کا قصور ہے ۔ قصور ہے ہماری اس سنگدلانہ سیاست کا جو پوری کی پوری بغض وعناد سے بھر ہوئی پاور کے نشے میں اپنا آپا تک بھول گئی۔‘‘
پروفیسر عتیق اللہ ہمارے عہد کے معتبر ناقد ہیں ۔ ان کی معتبریت کے ضمن میں مذکورہ جملے بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں انھوں نے نہ صرف ناول ’’ لفظوں کا لہو‘‘کے متعلق دل چسپ باتیں کہیں بلکہ سماجی تناظر میں تخلیقات کو ہمارے زمانے کے بے شمار مسائل سے جوڑا ہے ۔ اس لیے یہ کہا جاسکتاہے کہ تخلیقات کے تجزیے میں وہی فرد اپنی رائے قائم کرنے میں حق بہ جانب ہوسکتاہے جو جہاں دیدہ ہو ۔ معاشرے کے نشیب وفراز سے واقف ہو۔ جس طرح تخلیق کار فقط بند کمروں میں بیٹھ کر بہتر تخلیق پیش نہیں کرسکتا، اسی طرح ایک بہترین ناقد فقط فن پاروں میں قید رہ کہہ کر اچھی تنقید نہیں لکھ سکتاہے۔ اس کے لیے جہاں دیدہ اور بین العلوم ہونا لازمی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عتیق اللہ کی تنقید انفرادی رویوں سے بھرپور نظر آتی ہے۔ناول ’’ لفظوں کا لہو ‘‘ کے متعلق ایسے ناقد کا اعتراف کم بڑی بات نہیں ہے۔
حواشی
۱۔ لفظوں کا لہو، سلمان عبدالصمد، دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، لکھنؤ،۲۰۱۷ء، ص۶۸
۲۔ لفظوں کا لہو، سلمان عبدالصمد، دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، لکھنؤ،۲۰۱۷ء، ص۱۵۴
۳۔ لفظوں کا لہو، سلمان عبدالصمد، دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، لکھنؤ،۲۰۱۷ء، ص۷۲
۴۔ لفظوں کا لہو، سلمان عبدالصمد، دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، لکھنؤ،۲۰۱۷ء، ص۹۵
۵۔ لفظوں کا لہو، سلمان عبدالصمد، دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، لکھنؤ،۲۰۱۷ء، ص۱۸۴
۶۔ لفظوں کا لہو، سلمان عبدالصمد، دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، لکھنؤ،۲۰۱۷ء، ص۲۱۲
۷۔ لفظوں کا لہو، سلمان عبدالصمد، دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، لکھنؤ،۲۰۱۷ء، ص۲۱۳
۸۔ لفظوں کا لہو، سلمان عبدالصمد، دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، لکھنؤ،۲۰۱۷ء، ص۵۶۔۵۷
۹۔ لفظوں کا لہو، سلمان عبدالصمد، دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی، لکھنؤ،۲۰۱۷ء، ص۱۷۲
۱۰