افسانہ افسانوی نثر

خوشبو (افسانہ) از نیلوفر ناز نحوی، افسانہ ایونٹ 2022 زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ نمبر 28

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _28
بینر:- عمران یوسف


افسانہ:-خوشبو


نیلوفر ناز نحوی
اپنے کپڑوں کی گھٹری لیکر وہ بیگم صاحبہ کے گھر کے اندر آئی اور کمرے کو دیکھنے چلی گئی۔اس کو کمرہ کرایہ پر چاہئے تھا۔ ملک صاحب کو کرائے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔مگر اسے ایک ایسی فیملی کی ضرورت تھی جوانکے گھر کی رکھوالی بھی کرتے اور کرایہ بھی دیتے۔رقیہ کو کمرہ پسند آیا اور بیگم صاحبہ نے بھی اسکو بہت کم روپیوں کے عوض میں کرایہ پر دے دیا۔رقیہ کے ساتھ اسکا شوہر اور اس کا ایک بچہ بھی تھا۔وہ ہندوستان کے کسی مسلمان علاقے سے تعلق رکھتی تھی اور اس کا رہن سہن پنجابیوں جیسا تھا۔
رقیہ دن میں ہزار بار بیگم صاحبہ کے پاس آتی۔کبھی روٹی مانگتی،کبھی پلیٹ،کبھی جھاڑو،کبھی یہ کبھی وہ۔ کیونکہ آہستہ آہستہ اس کو گھر بنانا تھا۔اس کو جس چیز کی ضرورت پڑتی تو پہلے بیگم صاحبہ کے پاس پوچھنے کے لئے آتی۔اصل میں بیگم صاحبہ نے ہی اسے یہ ہدایت دی تھی۔کیونکہ اس کے گھر میں اتنی فالتو چیزیں تھیں وہ سوچتی تھی کہ اگر کوئی چیز نکل جائے تو بہتر ہے۔
اسکے اپنے بچے تو باہر کے شہروں میں پڑھتے تھے۔میاں بیوی ماں کو لیکر اکیلے اتنے بڑے بنگلے میں رہتے تھے۔اسی لئے سوچا تھا کہ ان کو اوٹ ہاس میں رکھا جائے۔
رقیہ بھی کیا کم تھی۔وہ ان کا احسان نہیں لیتی تھی۔وہ اپنے کمرے میں کچھ بھی پکاتی تھی تو بیگم صاحبہ کے لئے پلیٹ میں لیکر آتی۔وہ بیگم صاحبہ کو دیدی کہہ کر پکارتی تھی۔حالانکہ وہ اس کی آنٹی کی عمر کی تھی۔مگر دیدی دیدی کہتے کہتے اس کا منہ نہیں تھکتا تھا۔کبھی پلاؤ،کبھی گوشت،کبھی پکوڑیاں،کبھی وہ تو کبھی یہ لیکر آتی۔بیگم صاحبہ اس کو منع کرتی رہتی۔مگر وہ ماننے والوں میں کہاں تھی۔کچھ دنوں پہلے ہی تو بریانی لائی تھی۔اور وہ بھی گوشت کی۔پکاتی بھی تو وہ بڑامزہ دار تھی۔مگر ملک صاحب جونہی اس کو دیکھتا تھاآگ بگولہ ہوجاتا تھا۔یا اس کے ہاتھ کی پکی چیز اپنے گھر میں دیکھتا۔اس کا منہ غصے سے لال پیلا ہوتا۔
”آخر آپ کو غصہ کیوں آتا ہے۔؟“اسکی بیگم اسے پوچھتی۔
اسکی چیزیں نہ لیا کرو بیگم۔اس سے بدبو آتی ہے۔جونہی وہ گھر میں داخل ہوتی ہے سارے گھر میں اسکی بدبو پھیل جاتی ہے۔
مجھے تو اس کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔پلیز بیگم اسے یہاں آنے سے منع کیجئے۔“
”میں ایسا نہیں کر سکتی ہوں۔کیسے کہوں گی تمہارے بدن سے بدبو آتی ہے۔“ اس کی بیگم نے منع کردیا۔
رقیہ کا شوہر کشمیر آکر ترکھانی کا کام کرتا تھا۔صبح سویرے گھر سے نکلتا تھا۔اور شام گئے واپس مڑتا تھا۔رقیہ پاؤں میں پائل پہن کر دن بھر چھم چھم کر کر کے ادھر سے آتی اور ادھر جاتی۔
بیگم صاحبہ کسی سکول میں پرنسپل تھی۔اور ملک صاحب ایک بہت بڑے آفیسرتھے۔بیگم صاحبہ نے رقیہ سے صرف اتنا کہہ دیا کہ”جب صاحب گھر کے اندر ہوں تو تم اندر مت آیا کرو۔اچھا نہیں لگتا۔“ ایسے دونوں کی بات رہ گئی۔
دن گذرتے گئے۔اب تو اس نے ان کے وہاں آنا ہی کم کردیا تھا۔چاہے ملک صاحب گھر میں ہوں یا نہ ہوں۔اس نے اب آہستہ آہستہ چیزیں لانا بھی کم کردیاتھا۔
بیگم صاحبہ کو بھی اچھا لگتا تھا کہ وہ اپنے گھر کا کام اپنے گھر کے اندر کرے۔اور اسے بھی چین سے بیٹھنے دے۔اس کو ملک صاحب کے ساتھ کھِٹ کھِٹ کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔اور نہ ہی وہ مفت میں کچھ مول لینا چاہتی تھی۔
ادھر رقیہ کو بھی اندر ہی اندرکھٹک رہا تھا کہ بیگم صاحبہ نے اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔وہ دروازے سے ہی کبھی سلام دعا کرکے چلی جاتی تھی۔
ملک صاحب بہت شستہ مزاج کے آدمی تھے۔وہ اپنی بیوی کے ہاتھوں کا صاف شفاف،کسا ہو،تلا بُھنا،اچھا اچھا اور لذیذ کھانا کھانے کے عادی ہو چکے تھے۔وہ بھی دن بھر کے کام کاج اور مارا ماری کے بعد سکون کی سانس گھر میں چاہتے تھے۔ماں بچاری ایک کونے میں پڑی رہتی۔کھانے کو کہتے تو آتی،نہ کہتے تو نہ آتی۔۔۔مانگتی نہیں تھی۔گھر میں نوکر چاکر بھی اب نہیں تھے۔بیگم صاحبہ خود پکاتی تھی اور خود گھر کا سارا کام کرتی تھی۔کبھی جب ملک صاحب کے دل میں مروت جاگ جاتی تو وہ دو برتنوں کو ہاتھ لگاتے۔یا کبھی بیگم بیمار ہوتی تو بس مرغا پکا لیتے تھے۔مرغا تو اب خوب پکانا آتا تھا۔کچے پیاز کی چٹنی بھی اب خوب بنا لیتے تھے۔بیگم صاحبہ ان سے کہتی تھی۔
”اب تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔کبھی رات کو میکے جانا ہوا تو آپ تو سب کچھ کر ہی لیں گے۔“
”ہاں ہاں بیگم کیوں نہیں۔اب تو مجھے پریکٹس ہوگئی ہے۔آپ چلی جائیں جہاں جانا چاہتی ہیں۔ہم مرغا پکا کر کھائیں گے۔“
بہت دنوں کے بعد بیگم صاحبہ کے ابا نے ان کو فون کیا۔بیگم صاحبہ فون پر رو پڑی۔وہ کہہ رہی تھی۔
”جی ابا ضرور آؤں گی“۔
”نہیں نہیں۔ماں باپ کو بیٹیاں تھوڑی بھولتی ہیں۔“
”آپ خفا نہ ہوں۔بس ایک دو دن میں حاضرہو جاؤں گی۔“
”جی جی وہ بھی خیریت سے ہیں۔ابا انشاء اللہ“
”جی جی ضرور۔۔دیدار تو ہم آپ کا کریں گے ابا۔۔۔۔“
قبلہ تو آپ ہیں۔۔۔ابا آپ نے مجھے رلا دیا۔“
سارا دن بیگم صاحبہ کے کانوں میں ابا کا یہ جملہ گونج رہا تھا۔”تم آتی تو میں تمہارا دیدار کرتا۔“اور اسکی آنکھوں سے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔
وہ سوچ رہی تھی کہ ابا اب اصل میں عمر رسیدہ ہو چکے ہیں۔اسی لئے وہ بچوں کی طرح حرکتیں کرتے ہیں۔اب ہمارا دھیان انکی طرف زیادہ ہونا چاہئے۔
ملک صاحب کے گھر آتے ہی انہوں نے ابا کے فون کے بارے میں بتا دیا۔ملک صاحب کہنے لگے۔ ”بیگم آپ کو جانا چاہئے تھا۔آپ نے میرا انتطار کیوں کیا۔
”خدا را جائیے۔اپنے والد کو یوں نہ تڑپایئے۔“ بیگم بھی خوشی خوشی اپنے میکے جانے کے لئے تیار ہوئی۔
”اب کی آنکھیں تمہیں دیکھنے کو جیسے ترس گیئں تھیں۔ویسے ابھی ملے ہوئے بہت عرصہ بھی نہیں ہوا تھا۔مگر جب سے امی کی وفات ہوئی ہے تب سے میری نظریں سارا دن دروازے پر رہتی ہے کہ بیٹی کبھی تو دروازے سے اندر آئے گی۔“اباّ نے اندر آتے ہی کہا۔
”بیٹی تو ماں باپ کے لئے راحت اور چین کا سامان ہے۔حالانکہ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی کتنے ہی لوگوں کو ناک بھوں چڑھتی ہے۔مگر بیٹیاں تو بیٹیاں ہیں۔ماں باپ کی راج دلاریاں ہوتی ہیں۔آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون ہوتی ہیں۔“ابا بولتے جا رہے تھے۔
انہوں نے بیٹی کو دیکھ کر ہی من بنا لیا ”آج میں تمہیں جانے نہیں دوں گا۔آج رات تم میرے پاس رُک جاؤ گی۔ملک صاحب ماں کے ساتھ گذار لیں گے۔“
بیٹی نے بھی زیادہ چوں و چرا نہیں کیاملک صاحب سے فون پر اجازت لے لی۔باپ بیٹی میں خوب باتیں ہوئیں۔گلے بھی ہوئے۔ شکوے بھی ہوئے۔اور آخر کار سب اچھا ہوا۔
دوسرے دن بیگم گھر آگئی۔
اس نے گھر کے اندر قدم رکھا بھی نہیں تھا اسے لگا کہ آج اس کا گھر ایک انجانی مگر بہت ہی عمدہ خوشبو سے مہک رہا تھا۔نہ تو وہ اسکے شوہر کی پرفیوم کی خوشبو تھی اور نہ ہی اسکے اپنے پرفیوم کی۔اس کا دماغ اندر آتے ہی معطر ہو گیا۔وہ مستقیم ماں جی کے کمرے میں چلی گئی۔خیر و خبر کے بعد پوچھنے لگی۔
”یہ کیسی خوشبو ہے آج یہاں ماں جی۔“
خوشبو۔۔بیٹی مجھے تو معلوم نہیں۔مجھے تو کوئی خوشبو بھی نہیں آرہی ہے۔“
وہ سوچنے لگی جانے کس نے اپنی تشریف آوری سے میرا سارا گھر مہکا دیا۔وہ ابھی اس مہمان کو ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ کسی کی آہٹ نے اسے چونکا دیا اور۔۔۔۔رقیہ۔۔ دبے پاؤں اسکے گھر سے نکل رہی تھی اور خوشبو کا ریلا اسکے پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔
٭٭٭

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ