تبصرے کتاب شناسی

اربابِ ادب پر کچھ تاثرات از ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی

جی این کے اردو

18 اپریل 2022

اربابِ ادب پر کچھ تاثرات

ڈاکٹرمصباح احمد صدیقی
امروہہ

Dr. Misbah Ahmad Sidiqi

امیر احمد خاں امیر نہٹوری صرف نام کے امیر نہیں بلکہ میدانِ نظم و نثر کے امیرالامراء ہیں۔ 20مارچ 2022ء کوہاشمی ڈگری کالج میں ایک سیمینار بعنوان ”پروفیسر نثار احمد فاروقی: شخصیت وفن“ کے موقع پر نہٹور سے تشریف لائے۔ جناب امیرنہٹوری صاحب نے اپنی تازہ ترین تصنیف ”اربابِ ادب“ احقر کو تحفتاً پیش کی اور ساتھ ہی یہ حکم بھی فرمایا کہ میں اسے پڑھوں اور اپنی رائے بھی دوں یا لکھوں۔
کتاب پڑھنا تو میرا محبوب مشغلہ ہے مگر اس پر کچھ لکھنا میرے بس میں کہاں کیونکہ ایک فارسی محاورے کے مطابق ”من آنم کہ من دانم“ (میں کیا ہوں یہ میں ہی جانتا ہوں) کتاب پڑھنا کوئی مشکل یا دشوار کام نہیں مگر اس پر کچھ لکھنے کے لیے کتاب کو سمجھنا اور اس کی خوبیوں اچھائیوں ادبی باریک بینیوں کو جاننا دوسری بات ہے۔ اس لیے کہ ایک ہیرے کی قدر تو ایک جوہری ہی جان سکتا ہے۔اب میرا جوہری ہونا تو ایک دور کی بات ہے میں تو ایک ادنیٰ سا صراف بھی نہیں۔


اب رہی بات حکم بزرگان ادب ہے، اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے اس حقیر نے محترم امیر نہٹوی صاحب کی کتاب ”اربابِ ادب“ کی ورق گردانی شروع کی تو ابتدائی صفحات میں ان کی تاریخ ولادت پر نظرپڑی تو وہ 20اگست 1968ء تھی یعنی عمر کے حساب سے امیر نہٹوری صاحب میرے بزرگ بھی نہیں بلکہ اس رخش عمر میں وہ مجھ سے آٹھ برس چھوٹے ہیں، اس لیے کہ میری پیدائش 3جنوری 1960ء ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ امیر نہٹوری صاحب لکھنے لکھانے کے میدان میں بھی مجھ سے 9برس بڑے ہیں، ان کا تخلیقی سفر 1983ء سے شروع ہوا ہے اور احقر کی پہلی طفلانہ کوشش 1992ء میں منظر عام پر آئی ہے۔
ا ب رہی غالب کی طرف داری کی بات تو اس کا میں ابتداء سے ہی قائل نہیں مگر ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ حق دار کو اس کا حق ضروردینا چاہیے وہ چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ اس نظریے کے تحت احقر نے بھی ”اربابِ ادب“ کو پڑھنے اور سمجھنے کی سعی کی تو پہلی بات تو یہ عرض کرنی ہے کہ محترم امیر نہٹوری کی نثر، بالخصوص اس کی سادگی و روانی نے جگہ جگہ متاثر کیا۔ دوسری بات یہ کہ امیر نہٹوری صاحب نے ہر موضوع کا مکمل طریقہ پر حق ادا کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ محترم امیر صاحب نے اپنے موضوع کاعمیق مطالعہ کیا تبھی اس پر قلم اٹھایا ہے۔ میں نے اپنی طالب علمانہ دلچسپی کے تحت سب سے پہلے ان کا وہ مقالہ بغور پڑھا جو انھوں نے اپنے وطن عزیز ”بجنور“ کی تاریخی، جغرافیائی، سیاسی، ادبی، صحافتی اور عصر حاضر میں بجنور کے ادباء و شعراء پر مضامین قلم بند کیے ہیں۔ یہ ایک طرح کی حب الوطنی بھی ہے اور ادب شناسی بھی۔ صحافتی میدان میں ضلع بجنور سے شائع ہونے والے جن اردو ہندی رسائل و جرائد اور اخبارات کا تفصیلی تعارف کرایا ہے وہ واقعی خاصے کی چیز ہے، آئندہ اگر بجنور کی صحافتی خدمات پر کوئی ریسرچ ہوگی تو محترم امیر نہٹوری صاحب کا یہ تحقیقی مقالہ خاصہ مددگار ثابت ہوگا۔ انھوں نے 1892ء سے موجودہ دور تک شائع ہونے والے ہفت روزہ،پندرہ روزہ، ماہ ناموں اور روزنامچو پر اچھی معلومات جمع کر دی ہیں۔
”ادب میں عشق کی اہمیت، افادیت و معنویت“ امیر نہٹوری صاحب کا ایک بہترین، دلچسپ مقالہ ہے جس کو پڑھ کر امیر صاحب کے مطالعہ کی گہرائی وگیرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس مقالہ میں عشق کا جو تعارف کرایا ہے وہ بلاشبہ ان کی دقت نظر کا غماز ہے مگر بعض جگہ ان کا فلسفیانہ انداز ابیان سمجھ سے باہر ہے۔ عشق تو صرف ایک پاکیزہ جذبہ ہے جو واقعی بے خطر آتش نمرود میں کود جاتا ہے اور ایک خواب پر پڑھانے میں اپنے فرزند عزیز کو ذبح کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ اگر اس کو کوئی نادان طبیب ”مالیخولیا“ لکھ دے یا کوئی انگریز اپنی ڈکشنری میں اس کا مرادف رومانس بتا دے وہ سب غلط ہے۔ بہرحال امیر نہٹوری صاحب نے عشق سے متعلق جو معلومات جمع کی ہیں وہ بلاشبہ معلومات میں اضافہ کا باعث ہیں۔
امیر نہٹوئی صاحب کا مقالہ ”دانشورانِ نہٹور کی شہرت یافتہ شخصیتیں“ بھی بہت معلومات افزا مقالہ ہے اور دل چسپ بھی۔ احقر کو اس سے کئی اہم جانکاریاں بھی ملیں مثلاً پروفیسر ثریا حسین اور جناب معصوم مرادآبادی بالخصوص شمع افروززیدی صاحبہ کا نہٹوری ہونا وغیرہ وغیرہ۔
جناب امیر احمد امیر نہٹوری کے دوسرے ادبی مضامین بھی خاصے تحقیقی اور دل چسپ ہیں، بالخصوص ان کا مقالہ ”فکر اقبال میں قومی یک جہتی“ بہت ہی عمدہ خوبصورت اور پُرمغز مقالہ ہے۔ انھوں نے سر علامہ اقبال کے بارے میں یہ بڑے ہی پتے کی بات لکھی ہے جو سولہ آنے درست ہے کہ
”علامہ اقبال درحقیقت شاعرِ مشرق یا شاعر اسلام ہی نہیں وہ سارے عالم اور ساری انسانیت کے شاعر ہیں۔“
سند میں محترم امیر نہٹوری صاحب نے اقبال کا جو مندرجہ ذیل شعر نقل کیا ہے، اس میں کتابت کی ایک اہم غلطی درآئی ہے۔ نہٹوری صاحب نے شعر اس طرح نقل کیا ہے
درویش خدامست، نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا دلّی، نہ صفاہا، نہ سمرقند
جبکہ مصرعہ اس طرح ہے:
”گھر میرا نہ دلّی، نہ بخارا نہ سمرقند“
سرعلامہ اقبال غیر منقسم ہندوستان کے فرد تھے اور انھیں اپنے وطن ہندوستان سے ایسی محبت تھی کہ جس کی مثال اردو شاعری میں مشکل سے ملے گی۔ یعنی ان کی نظر میں، خاکِ وطن کا ہر ذرّہ دیوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے عالمی پیغام یعنی قرآن مجید میں دو تین مقامات کے علاوہ ہر جگہ پوری انسانیت کو مخاطب کیا ہے کہ ”یَاَیُّہَاالنَّاس“ (اے انسانو!) اسی سبب قرآن پاک عالمی پیغام قرار پایا۔ اس فقرے میں کسی ملک، کسی مذہب و ملت اور کسی بھی ذات برادری کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اسی طرح سرعلامہ اقبال کے یہاں بھی کچھ مقامات کو چھوڑ کر پوری عالم انسانیت کو مخاطب کیا گیا ہے، اگرچہ کہیں کہیں انھیں مسلمان کے لہو کی سلیقہ مندی و دل نوازی ضرور بھاتی ہے اور یہ کوئی برائی کی بات نہیں، انسانی فطرت ہے۔
بہرحال میں جناب امیر نہٹوری صاحب کو ان کے اتنے عمدہ تحقیقی و ادبی مقالات پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔امیر نہٹوری صاحب کا ایک اور مقالہ ”اردو زبان کا المیہ……!“ ایک بہترین مقالہ ہے جس سے ان کی اردو کے تئیں ہمدردی اور خلوص و محبت ظاہر ہے اس کے ایک ایک لفظ سے اردو کے متعلق ان کا درد و کرب ظاہر ہوتا ہے۔ اسی کے فوراً بعد ایک اور اہم مقالہ نہٹوری صاحب کے قلم معجز رقم کا شاہ کار ”اردو ادب میں خواتین کا کردار“ اچھا تحقیقی مقالہ ہے۔
امیر احمد خاں امیر نہٹوری صاحب کی کتاب ”اربابِ ادب“ (مضامین) میں ایک ادبی و تحقیقی و علمی جہان پوشیدہ ہے مگر احقر نے اپنی کم علمی و ادب ناشناسی اور بے جا مصروفیات کے سبب اپنے پسندیدہ چند ہی مضامین پڑھنے پر اکتفا کیا اور جتنا پڑھا اور سمجھا اس سے اندازہ ضرور ہوا کہ امیر نہٹوری صاحب ایک کہنہ مشق قلم کار اور صاحب مطالعہ انسان ہیں۔
اب ”یارزندہ صحبت باقی“ کے تحت میں اپنی بات کو یہیں ختم کرتا ہوں، اس وعدہ کے ساتھ کہ اگر کبھی فہرست کے کچھ لمحات پائے تو ضرور امیر صاحب کی امیرانہ نثرنگاری کا حق ادا کرنے کی سعی کروں گا۔ خداوند اس انتظار میں انھیں مکمل صحت و سلامتی اور عزت و آبرو کے ساتھ میرے سر پہ سایہ فگن رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔
ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی
گھیر مناف، امروہہ (یو.پی.)

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ