،جی این اردو ڈیسک 28 فروری 2022
پروفیسر ابوذر عثمانی : ایک ممتاز ناقد اور عہد ساز شخصیت۔
انور آفاقی ۔دربھنگہ
اس دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو بلا تردد اپنی ذات میں انجمن اور اپنی فکر و عمل کے اعتبار سے نہ صرف منفرد ہوتی ہیں بلکہ ہردل عزیز بھی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی شخصیتوں میں ایک شخصیت کا نام پروفیسر ابوذر عثمانی ہے۔
یہ صوبہ بہار کے ضلع گیا (اب اورنگ آباد ) کے محلہ/ قصبہ رفیع گنج میں 2 جنوری 1937 کو عالمِ وجود میں آئے ۔ ان کے والد محترم مولانا محمد ایوب عثمانی ایک عالم دین ، خداترس ، دیندار اور نیک انسان تھے ساتھ ہی وہ صاحب طرز مضمون نگار بھی تھے جو سیاسی اور دینی مضامین تواتر سے لکھا کرتے تھے۔ انکی تصنیف و تالیف میں ” سیرت شہیدکربلا ” جو 600 صفحات پر مشتمل ہے اور جو سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت اور سانحہ کربلا پر جامع اور بہترین کتاب ہے ۔ یہ کتاب دراصل علی جلال حسینی کی عربی تالیف” الحسین ” (جو دو جلدوں میں ہے) کا اردو ترجمہ ہے ۔ اسکی دوسری جلد شوال 1359 ھجری مطابق 1940 عیسوی میں برقی مشین پریس، مراد پور پٹنہ میں اشاعت پذیر ہوئی۔
چونکہ گھر کا ماحول بڑا ہی علمی و ادبی تھا لہٰذا ابوذر عثمانی کو طالب علمی کے زمانے سے ہی اردو زبان سے قربت اور مضمون نویسی کا شوق پیدا ہوا ۔ ابھی وہ نو ویں جماعت ہی میں تھے کے بچوں کے رسالہ” غنچہ “میں ان کا مضمون بہ عنوان” استاد کی عزت” شائع ہوا۔ پکے روشنائی میں چھپے اپنے مضمون کو دیکھ کر ان کا یہ شوق ایسا بڑھا کہ پھر بڑھتا ہی رہا ۔کالج کے زمانے میں بھی ان کے مضامین تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ اردو سے انسیت و محبت بڑھتی رہی جو ابوذر عثمانی کی سوچ و فکر کا جزو لاینفک بن گئی اور وہ اردو کی بقا و ترقی کے لیے زمانہ طالب علمی ہی سے کوششیں کرنے لگے ۔ بہار یونیورسٹی مظفر پور سے اردو اور فارسی زبان میں ایم۔ اے کی سندیں حاصل کیں۔ اردو پڑھانے کے لیے رانچی کالج میں ان کی عارضی تقرری 1943 ء میں ہوئی۔
جب 1945 میں اردو کا پوسٹ گریجویٹ شعبہ وجود میں آیا تو بہار پبلک سروس کمیشن کے ذریعے تقرری عمل میں آئی اور پھر 1995 میں وینوبا بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ سے منسلک ہوئے۔ اور جنوری 1997 میں بحیثیت صدر شعبہ اردو کے عہدہ سے با عزت و وقار سبکدوش ہوئے۔
ابوذر عثمانی نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی میں ایک مضمون “بہار میں اردو تنقید کا ارتقاء” لکھا تھا ۔ان کا یہ مضمون پٹنہ سے شائع ہونے والے جریدہ “صنم ” کے بہار نمبر میں شائع کیا ہوا کہ ادبی حلقوں میں ان کے چرچے ہونے لگے۔ اس مضمون کے ساتھ ہی بہار کے ابھرتے ہوئے ناقد میں ان کا شمار ہونے لگا۔
ان کا ایک اور اہم مضمون ” عملی تنقید کیا ہے” پٹنہ سے شائع ہونے والے ماہنامہ “زبان و ادب ” میں 1974ء میں شائع ہوا تھا جس کی بہت پذیرائی ہوئی اور آج بھی اس مضمون کا تذکرہ اہل علم و ادب میں ہوتا ہے۔ اسی مضمون پر معروف ناقد مرتضی حسین خامہ فرسائی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
” میں سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون اپنے مواد اور ہیئت کے اعتبار سے اردو تنقید کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتا ہے ۔ یوں تو اردو میں عملی تنقید کے نمونے مل جاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال جناب کلیم الدین احمد کی تنقید ات ہے لیکن ابوذر عثمانی پہلے ناقد ہیں جنہوں نے عملی تنقید کے فن پر مفصل روشنی ڈالی ہے اور اپنی اس کوشش میں بحیثیت ناقد وہ سوفیصد کامیاب ہیں ۔ (بحوالہ ادب نکھار اپریل 1980صفحہ 49۔)
اسی مضمون کے حوالے سے معروف ناقد و محقق مرحوم پروفیسر وہاب اشرفی اپنی مرتبہ کتاب ” نقوشِ ادب “میں اس کا تذکرہ بنظر تحسین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
تنقید کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن عملی تنقید کے سلسلہ میں اتنا ہی کم مواد موجود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر طلباء عملی تنقید کی روش اور اس کے حدود سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ ابوذر عثمانی کا مضمون ” عملی تنقید کیا ہے؟” اس ضرورت کو پورا کر رہا ہے “۔
ان معروف و ممتاز ناقدین کی آراء سے ابوذر عثمانی کی علمی و فکری بصارت و بصیرت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
“ادبی تنقید کی تدریس کا مسئلہ “بھی ابوذر عثمانی کی ایک عمدہ تحریر ہے جسے معروف و مشہور ناقد و ادیب اختر انصاری نے پسند کرتے ہوئے اپنی مشہور کتاب “غزل اور غزل کی تعلیم “میں شامل کیا ہے۔
مندرجہ بالا مضامین کے علاوہ ابوذر عثمانی کے مضامین میں “غالب کا شعور نقد” ، “اختراورینوی کا اسلوب ” اور پرویز شاہدی کا ” طرز سخن ” وغیرہ قارئین میں بے حد مقبول ہوئے۔
پروفیسر ابوذر عثمانی کی تصنیف” فنکار سے فن تک” 1978میں پٹنہ لیتھو پریس میں طبع ہوئی تھی۔ کتاب کا انتساب موصوف نے پروفیسر اختر انصاری کے نام کیا ہے ۔ اس میں کل 15 مضامین شامل ہیں جن کے عنوانات قارئین کو متوجہ کرتے ہیں ۔ پہلا مضمون ” غالب کی ناقدانہ بصیرت” ہے جس میں غالب کے ادبی کارناموں اور ان کی شاعری کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اور سراغ لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے داخلی اور خارجی عوامل کا ان کے فن پر کس طرح اور کس قدر اثر ہوا ہے۔ پھر علی الترتیب بقیہ مضامین کی فہرست کچھ یوں ہے ۔ “اکبر اور مسئلہ زبان “صفحہ 20 ، “اختر اورینوی کا اسلوب ” صفحہ 35 ، ” پرویز شاہدی کا طرز سخن ” صفحہ 65 ، ” انشائیہ کی ہیئت کے تعین کا مسئلہ” صفحہ 102، ” تدریس ادب کے جدید تقاضے اور اردو نصاب ” صفحہ 114، ” ادبی تنقید کی تدریس کا مسئلہ ” صفحہ 129 ، ” بہار میں اردو تنقید کے ابتدائی کارنامے “صفحہ 155، انجم مانپوری ایک تعارف “صفحہ 172 ، “حدیث اقبال” صفہ 185، ” رام چرت مانس ” صفحہ 195، ” کچھ مضمون کے بارے میں” صفحہ 202 ، ” جدید شاعری میں اظہار و بیان کا پہلو “صفحہ 224 اور اخیر میں “عملی تنقید کیا ہے” صفحہ 231 ۔ اس کتاب میں شامل تقریبا تمام مضامین بڑی عمدگی اور اعتماد کے ساتھ قلم بند کیے گئے ہیں اور ان کی فکر و نظر اور اسلوب کو واضح کرتے ہیں ۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والے ہر اچھے ریسرچ اسکالر کو کم از کم ایک بار اس کتاب کا مطالعہ ضرور کر لینا چاہیے۔
” فنکار سے فون تک ” کے پیش لفظ میں پروفیسر عثمانی فرماتے ہیں :
” اس مجموعے کو ترتیب دیتے ہوئے یہ خیال پیش نظر رہا ہے کہ اس کے مطالعے سے تازگی اور تنوع کا احساس ہوسکے اور اس سے آج کے ادبی مذاق اور مزاج کی بھی نمائندگی ہو سکے ۔ میرے نزدیک اس وقت یہی ان مضامین کی اشاعت کا جواز بھی ہے ۔ اس کا نام ” فنکار سے فن تک ” میرے ادبی و تنقیدی موقف اور نظریے کی ترجمانی کرتا ہے “۔
پروفیسر ابوذر عثمانی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے اپنی تصنیف “کلاسیکی نثر کے اسالیب” اور مرحوم نہال آتش نے اپنی کتاب “عہد حاضر کے دریچے “کا انتساب ان کے نام سے کیا ہے ۔
یہاں تذکرتا یہ بھی بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ پروفیسر عثمانی کے یوں تو شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے مگر میں ذاتی طور پر ان کے دو ایسے لائق و فائق شاگردوں کو جانتا ہوں جو نہ صرف استاد ہوئے بلکہ ادبی دنیا میں بھی اپنا مقام مستحکم کیا۔ ان میں ایک تو پروفیسر منصور عمر مرحوم تھے جو دربھنگہ کے سی ۔ ایم کالج میں اردو کے استاد تھے اور جنہوں نے اپنا مقالہ ان ہی کی سرپرستی میں لکھا اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی سند پائی تھی اور دوسرے پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کا نام گرامی ہے جو سنجیدہ اور ممتاز نقاد و محقق ہیں اور ملک کی قدیم علمی درسگاہ “بنارس ہندو یونیورسٹی ” میں صدر شعبہ اردو ہیں۔انہوں نے اپنی علمی و ادبی کارکردگی کے سبب شعبہ اردو کو فعال بنایااور شناخت قائم کرآئی ہے ۔ پروفیسر ابوذر عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اپنی حیات ہی میں ان علمی پودوں کو ثمر آور ہوتے دیکھا اور استاد الاساتذہ کے لقب سے سرفراز ہوئے۔
اس مرد مجاہد ( پروفیسر عثمانی ) نے اردو زبان کی اشاعت و ترویج کے لیے تن تنہا جس قدر محنت و مشقت کی ہے اس کی مثال جھارکھنڈ میں نہیں ملتی ۔ انکی اردو زبان سے والہانہ عقیدت و محبت اور خدمات اور قربانیوں کو دیکھتے ہوئے 2013 ء میں سحر فاؤنڈیشن رانچی کی جانب سے بابائے اردو جھارکھنڈ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا مگر ان کی اعلی ظرفی دیکھیے کہ انہوں نے ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا کہ ” بابائے اردو کا لقب صرف مولوی عبدالحق کے لیے مخصوص ہے اس پر کسی اور کا حق نہیں” ۔ اس کے علاوہ ان کو دوسرے کئی ایوارڈ و اعزازات سے بھی نوازا گیا جس میں 2013 میں لوک سیوا سمیتی جھارکھنڈ کی طرف سے جھارکھنڈ رتن ایوارڈ اور 2013 ہی میں عمر فرید ایوارڈ فور ایکسلنس منجانب قومی تنظیم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام اعزاز و اکرام کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اب تک پروفیسر ابوذر عثمانی کو اردو دنیا نے وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ مستحق ہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی پروفیسر ابوذر عثمانی کو سلامت رکھے اور وہ تا دیر اردو زبان و ادب کی آبیاری کرتے رہیں ۔آمین ۔
انور آفاقی دربھنگہ پروفیسر ابوذر عثمانی : ایک ممتاز ناقد اور عہد ساز شخصیت۔
انور آفاقی ۔دربھنگہ
اس دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو بلا تردد اپنی ذات میں انجمن اور اپنی فکر و عمل کے اعتبار سے نہ صرف منفرد ہوتی ہیں بلکہ ہردل عزیز بھی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی شخصیتوں میں ایک شخصیت کا نام پروفیسر ابوذر عثمانی ہے۔
یہ صوبہ بہار کے ضلع گیا (اب اورنگ آباد ) کے محلہ/ قصبہ رفیع گنج میں 2 جنوری 1937 کو عالمِ وجود میں آئے ۔ ان کے والد محترم مولانا محمد ایوب عثمانی ایک عالم دین ، خداترس ، دیندار اور نیک انسان تھے ساتھ ہی وہ صاحب طرز مضمون نگار بھی تھے جو سیاسی اور دینی مضامین تواتر سے لکھا کرتے تھے۔ انکی تصنیف و تالیف میں ” سیرت شہیدکربلا ” جو 600 صفحات پر مشتمل ہے اور جو سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت اور سانحہ کربلا پر جامع اور بہترین کتاب ہے ۔ یہ کتاب دراصل علی جلال حسینی کی عربی تالیف” الحسین ” (جو دو جلدوں میں ہے) کا اردو ترجمہ ہے ۔ اسکی دوسری جلد شوال 1359 ھجری مطابق 1940 عیسوی میں برقی مشین پریس، مراد پور پٹنہ میں اشاعت پذیر ہوئی۔
چونکہ گھر کا ماحول بڑا ہی علمی و ادبی تھا لہٰذا ابوذر عثمانی کو طالب علمی کے زمانے سے ہی اردو زبان سے قربت اور مضمون نویسی کا شوق پیدا ہوا ۔ ابھی وہ نو ویں جماعت ہی میں تھے کے بچوں کے رسالہ” غنچہ “میں ان کا مضمون بہ عنوان” استاد کی عزت” شائع ہوا۔ پکے روشنائی میں چھپے اپنے مضمون کو دیکھ کر ان کا یہ شوق ایسا بڑھا کہ پھر بڑھتا ہی رہا ۔کالج کے زمانے میں بھی ان کے مضامین تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ اردو سے انسیت و محبت بڑھتی رہی جو ابوذر عثمانی کی سوچ و فکر کا جزو لاینفک بن گئی اور وہ اردو کی بقا و ترقی کے لیے زمانہ طالب علمی ہی سے کوششیں کرنے لگے ۔ بہار یونیورسٹی مظفر پور سے اردو اور فارسی زبان میں ایم۔ اے کی سندیں حاصل کیں۔ اردو پڑھانے کے لیے رانچی کالج میں ان کی عارضی تقرری 1943 ء میں ہوئی۔
جب 1945 میں اردو کا پوسٹ گریجویٹ شعبہ وجود میں آیا تو بہار پبلک سروس کمیشن کے ذریعے تقرری عمل میں آئی اور پھر 1995 میں وینوبا بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ سے منسلک ہوئے۔ اور جنوری 1997 میں بحیثیت صدر شعبہ اردو کے عہدہ سے با عزت و وقار سبکدوش ہوئے۔
ابوذر عثمانی نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی میں ایک مضمون “بہار میں اردو تنقید کا ارتقاء” لکھا تھا ۔ان کا یہ مضمون پٹنہ سے شائع ہونے والے جریدہ “صنم ” کے بہار نمبر میں شائع کیا ہوا کہ ادبی حلقوں میں ان کے چرچے ہونے لگے۔ اس مضمون کے ساتھ ہی بہار کے ابھرتے ہوئے ناقد میں ان کا شمار ہونے لگا۔
ان کا ایک اور اہم مضمون ” عملی تنقید کیا ہے” پٹنہ سے شائع ہونے والے ماہنامہ “زبان و ادب ” میں 1974ء میں شائع ہوا تھا جس کی بہت پذیرائی ہوئی اور آج بھی اس مضمون کا تذکرہ اہل علم و ادب میں ہوتا ہے۔ اسی مضمون پر معروف ناقد مرتضی حسین خامہ فرسائی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
” میں سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون اپنے مواد اور ہیئت کے اعتبار سے اردو تنقید کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتا ہے ۔ یوں تو اردو میں عملی تنقید کے نمونے مل جاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال جناب کلیم الدین احمد کی تنقید ات ہے لیکن ابوذر عثمانی پہلے ناقد ہیں جنہوں نے عملی تنقید کے فن پر مفصل روشنی ڈالی ہے اور اپنی اس کوشش میں بحیثیت ناقد وہ سوفیصد کامیاب ہیں ۔ (بحوالہ ادب نکھار اپریل 1980صفحہ 49۔)
اسی مضمون کے حوالے سے معروف ناقد و محقق مرحوم پروفیسر وہاب اشرفی اپنی مرتبہ کتاب ” نقوشِ ادب “میں اس کا تذکرہ بنظر تحسین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
تنقید کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن عملی تنقید کے سلسلہ میں اتنا ہی کم مواد موجود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر طلباء عملی تنقید کی روش اور اس کے حدود سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ ابوذر عثمانی کا مضمون ” عملی تنقید کیا ہے؟” اس ضرورت کو پورا کر رہا ہے “۔
ان معروف و ممتاز ناقدین کی آراء سے ابوذر عثمانی کی علمی و فکری بصارت و بصیرت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
“ادبی تنقید کی تدریس کا مسئلہ “بھی ابوذر عثمانی کی ایک عمدہ تحریر ہے جسے معروف و مشہور ناقد و ادیب اختر انصاری نے پسند کرتے ہوئے اپنی مشہور کتاب “غزل اور غزل کی تعلیم “میں شامل کیا ہے۔
مندرجہ بالا مضامین کے علاوہ ابوذر عثمانی کے مضامین میں “غالب کا شعور نقد” ، “اختراورینوی کا اسلوب ” اور پرویز شاہدی کا ” طرز سخن ” وغیرہ قارئین میں بے حد مقبول ہوئے۔
پروفیسر ابوذر عثمانی کی تصنیف” فنکار سے فن تک” 1978میں پٹنہ لیتھو پریس میں طبع ہوئی تھی۔ کتاب کا انتساب موصوف نے پروفیسر اختر انصاری کے نام کیا ہے ۔ اس میں کل 15 مضامین شامل ہیں جن کے عنوانات قارئین کو متوجہ کرتے ہیں ۔ پہلا مضمون ” غالب کی ناقدانہ بصیرت” ہے جس میں غالب کے ادبی کارناموں اور ان کی شاعری کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اور سراغ لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے داخلی اور خارجی عوامل کا ان کے فن پر کس طرح اور کس قدر اثر ہوا ہے۔ پھر علی الترتیب بقیہ مضامین کی فہرست کچھ یوں ہے ۔ “اکبر اور مسئلہ زبان “صفحہ 20 ، “اختر اورینوی کا اسلوب ” صفحہ 35 ، ” پرویز شاہدی کا طرز سخن ” صفحہ 65 ، ” انشائیہ کی ہیئت کے تعین کا مسئلہ” صفحہ 102، ” تدریس ادب کے جدید تقاضے اور اردو نصاب ” صفحہ 114، ” ادبی تنقید کی تدریس کا مسئلہ ” صفحہ 129 ، ” بہار میں اردو تنقید کے ابتدائی کارنامے “صفحہ 155، انجم مانپوری ایک تعارف “صفحہ 172 ، “حدیث اقبال” صفہ 185، ” رام چرت مانس ” صفحہ 195، ” کچھ مضمون کے بارے میں” صفحہ 202 ، ” جدید شاعری میں اظہار و بیان کا پہلو “صفحہ 224 اور اخیر میں “عملی تنقید کیا ہے” صفحہ 231 ۔ اس کتاب میں شامل تقریبا تمام مضامین بڑی عمدگی اور اعتماد کے ساتھ قلم بند کیے گئے ہیں اور ان کی فکر و نظر اور اسلوب کو واضح کرتے ہیں ۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والے ہر اچھے ریسرچ اسکالر کو کم از کم ایک بار اس کتاب کا مطالعہ ضرور کر لینا چاہیے۔
” فنکار سے فون تک ” کے پیش لفظ میں پروفیسر عثمانی فرماتے ہیں :
” اس مجموعے کو ترتیب دیتے ہوئے یہ خیال پیش نظر رہا ہے کہ اس کے مطالعے سے تازگی اور تنوع کا احساس ہوسکے اور اس سے آج کے ادبی مذاق اور مزاج کی بھی نمائندگی ہو سکے ۔ میرے نزدیک اس وقت یہی ان مضامین کی اشاعت کا جواز بھی ہے ۔ اس کا نام ” فنکار سے فن تک ” میرے ادبی و تنقیدی موقف اور نظریے کی ترجمانی کرتا ہے “۔
پروفیسر ابوذر عثمانی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے اپنی تصنیف “کلاسیکی نثر کے اسالیب” اور مرحوم نہال آتش نے اپنی کتاب “عہد حاضر کے دریچے “کا انتساب ان کے نام سے کیا ہے ۔
یہاں تذکرتا یہ بھی بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ پروفیسر عثمانی کے یوں تو شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے مگر میں ذاتی طور پر ان کے دو ایسے لائق و فائق شاگردوں کو جانتا ہوں جو نہ صرف استاد ہوئے بلکہ ادبی دنیا میں بھی اپنا مقام مستحکم کیا۔ ان میں ایک تو پروفیسر منصور عمر مرحوم تھے جو دربھنگہ کے سی ۔ ایم کالج میں اردو کے استاد تھے اور جنہوں نے اپنا مقالہ ان ہی کی سرپرستی میں لکھا اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی سند پائی تھی اور دوسرے پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کا نام گرامی ہے جو سنجیدہ اور ممتاز نقاد و محقق ہیں اور ملک کی قدیم علمی درسگاہ “بنارس ہندو یونیورسٹی ” میں صدر شعبہ اردو ہیں۔انہوں نے اپنی علمی و ادبی کارکردگی کے سبب شعبہ اردو کو فعال بنایااور شناخت قائم کرآئی ہے ۔ پروفیسر ابوذر عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اپنی حیات ہی میں ان علمی پودوں کو ثمر آور ہوتے دیکھا اور استاد الاساتذہ کے لقب سے سرفراز ہوئے۔
اس مرد مجاہد ( پروفیسر عثمانی ) نے اردو زبان کی اشاعت و ترویج کے لیے تن تنہا جس قدر محنت و مشقت کی ہے اس کی مثال جھارکھنڈ میں نہیں ملتی ۔ انکی اردو زبان سے والہانہ عقیدت و محبت اور خدمات اور قربانیوں کو دیکھتے ہوئے 2013 ء میں سحر فاؤنڈیشن رانچی کی جانب سے بابائے اردو جھارکھنڈ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا مگر ان کی اعلی ظرفی دیکھیے کہ انہوں نے ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا کہ ” بابائے اردو کا لقب صرف مولوی عبدالحق کے لیے مخصوص ہے اس پر کسی اور کا حق نہیں” ۔ اس کے علاوہ ان کو دوسرے کئی ایوارڈ و اعزازات سے بھی نوازا گیا جس میں 2013 میں لوک سیوا سمیتی جھارکھنڈ کی طرف سے جھارکھنڈ رتن ایوارڈ اور 2013 ہی میں عمر فرید ایوارڈ فور ایکسلنس منجانب قومی تنظیم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام اعزاز و اکرام کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اب تک پروفیسر ابوذر عثمانی کو اردو دنیا نے وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ مستحق ہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی پروفیسر ابوذر عثمانی کو سلامت رکھے اور وہ تا دیر اردو زبان و ادب کی آبیاری کرتے رہیں ۔آمین ۔
انور آفاقی دربھنگہ