جی این کے اردو، 10/ فروری 2022
صبر و تحمل ایک عظیم نعمت (فہم و فراست)
بلال احمد پرے
ہاری پاری گام ترال اللہ رب العزت نے انسان کو بہتر سے بہترین تخلیق کردہ صورت دے دی ہے ۔ انسان کے اندر کافی اوصاف سمیٹ کر اس سے ایک منفرد مقام عطا فرمایا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے دائمی معجزہ قرآن کریم میں جا بجا بہت سارے اوصاف کا ذکر بھی فرمایا جو ایک انسان میں پائے جاتے ہیں ، اُنہی میں سے صبر بھی ایک ایسی وصف ہے، جس کی ذکر متعدد آیات مبارکہ کے اندر تاکید کے ساتھ آئی ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر مواقع پہ انسان صبر جیسی اہم اور بڑی خصوصیت کو ہی کھو بیٹھتا ہے، مثلاً کسی خاص اقارب کی حادثاتی موت واقع ہونے پر، وراثتِ تقسیم کے موقع پر، کاروبار میں اُتار چڑھاؤ آنے پر، زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ناکامی کا منہ دیکھنے پر، کسی جھگڑالو آدمی کے ردعمل میں وغیرہ جیسے مواقع پر بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔اس طرح کی حالات کا سامنا کرنے کے وقت انسان بے لگام باغی اور وحشیانہ تشّدد کرنے پر اُبھر آتا ہے ۔ جو اس سے ذرا بھی زیب نہیں دیتا اور نہ ہی دین ِاسلام اس طرح کا طرزِ عمل اختیار کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ۔ حتیٰ کہ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کو بھی بُرا بھلا کہنے لگتا ہے اور کُفریہ الفاظ جیسی نازیبا زبان کا استعمال کرکے بِلا سوچے سمجھے، اللہ رب العالمین کی ناراضگی مول لیتا ہے، جب کہ حقیقی صبر وہ ہے جو کسی بھی غم و پریشانی، مصیبت یا صدمے کی ابتداء میں ہی اختیار کیا جائے (صحیح المسلم) ،حالانکہ اس کٹھن وقت کے بعد تکلیف کی شدت آہستہ آہستہ دور ہو جاتی ہے اور وہی انسان اپنی کی گئی حرکتوں پہ شرمندہ ہو جاتا ہے اور اس سے پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ مولانا یوسف اصلاحی ؒ نے اپنی مشہور و معروف کتاب ” آداب زندگی ” میں اس طرح کے اوقات میں مسلمان کا ردعمل کے طور پر ہی ایک باب ‘ رنج و غم کے آداب ‘ کے زیر عنوان باندھا ہے ۔دیکھا جائے تو صبر ایک ایسا عظیم صفت ہے ،جس سے نبیوں اور رسولوں کی صفت گنوایا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اور اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذاالکفلؑ سب ہی صبر کرنے والوں میں سے تھے اور ہم نے ان سب کو اپنی رحمت میں داخل فرما لیا کہ وہ نیک عمل کرنے والے تھے ‘‘۔ (الانبیاء؛ ۸۵)یہی وجہ ہے کہ اِس عظیم و معروف عمل کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفٰیؐ کو اس کی تاکید فرمائی ہے کہ ’’اور آپ بھی اُسی طرح صبر فرمائے جس طرح حوصلہ ( آپ سے پہلے ) حوصلہ مند رسولوں نے فرمایا‘‘۔ (الاحقاف؛ ۳۵)قرآن مجید کے اندر تقریباً سات سو سے زیادہ آیات مبارکہ میں قدرت کی شاہکار مناظر، تخلیق جان، قوانین فطرت و دیگر ارض و سماء میں موجود تخلیق پر غور و فکر کرنے کی ہدایت دی گئی ہے کیونکہ زندہ معجزہ قرآن ‘ام العلم یعنی تمام علوم کی ماں ہے جو نہ صرف شریعت کی تعلیم کا روادار ہے بلکہ علم فطرت میں بھی کمال پیدا کرنے والی کتاب ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کےلیے اپنی قدرت کی چند نشانیوں میں سے غور و فکر کرنے کے لیے انسان کو بآسانی سمجھانے کے لئے ہمارے ماحول کے مطابق تذکرہ فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ تو کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح پیدا کیا گیا ہے ۔‘‘ (الغاشیة؛ ۱۷)یہاں اونٹ کی تخلیق کو انسان کے لئے تدبر و تفکر کے طور پر بیان کیا گیا ہے ،جس سے ابتدائی مراد صبر ہی ہے۔ اس کے علاوہ اونٹ کی تخلیق آج بھی عقل والوں کے لئے کئی طرح سے تدبر و تفکر کرنے کی زندہ علامت ہے ۔صبر کا لغوی معنی برداشت سے کام لینے یا خود کو کسی بات سے روکنے کے ہے۔ شریعت کی اصطلاح کے مطابق صبر کا مطلب نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب آنے سے باز رکھا جائے اور شرعی حدود سے باہر نہ نکل پانے کے ہے ۔ الغرض خوشی و غم، مصیبت و پریشانی جیسے مواقع پہ خود کو قابو سے باہر نہ جانے دے۔ صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے ۔ یہاں صبر کےلیے اونٹ کی طرف اشارہ کرکے اس بات کو سمجھایا گیا ہے کہ اونٹ کئی دنوں تک بِنا کسی کھانے و پینے کے برداشت کرنے والا جانور ہے ۔ مسکین طبع ایسا کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی بآسانی اس کی مہار پکڑ کر جہاں چاہیے لے جا سکتا ہے ۔ سحرا و بیابانوں میں سے چلنے پر انکار نہیں کرتا ۔ دیگر جانوروں کی طرح ناپسندیدہ آواز بھی نہیں نکالتا ۔ ان ہی جیسے کئی اوصاف کی بنیاد پر اور صبر جیسے اعلیٰ صفت کو حاصل کرنے کےلئے اونٹ کی تخلیق کی طرف غور و فکر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ تاکہ ایک مسلمان بھی بے نیازی و تنگدستی، غم و خوشی، جوانی و ضعیفی، تندرستی و بیماری غرض ہر حال میں صابر ثابت ہو جائے ۔ اسی لئے صبر جیسے اعلیٰ صفت کی اہمیت، فضیلت و افادیت کی اُجاگر پر قرآن کریم میں بے شمار آیتیں نازل ہوئی ہے ۔ قرآن نے کہیں ‘اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ فرمایا تو کہیں ‘اللہ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے تو کہیں انہیں خسارے سے بچنے والے ‘سوائے حق پر اور صبر پر ڈٹے رہنے والوں ‘ کو قرار دیا گیا ہے ۔ کہیں صبر کرنے والوں سے دوہرا اجر کا وعدہ فرمایا گیا تو کہیں دیگر نیکوں کاروں سے صبر کرنے والوں کو بےحساب انداز میں اجر ملنے کا وعدہ فرمایا گیا ہے ۔ سورة الأحزاب کے مطابق صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہوا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دو بار دیا جائے گا، اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی، خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (القص:۵۴:۲۸)صبر کرنے والوں کو قرآن کریم میں جنت کی بشارت (الھود: ۱۱) دی گئی ہے۔ مزید قرآن ہمیں تکلیف و مشکلات کی گھڑی میں برداشت کرنے کا اصل گُر سِکھاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اور رحمٰن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ ناپسندیدہ بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہوئے الگ ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (الفرقان؛ ۶۳)اللہ کے آخری نبی خیر الانام سرور کونین حضرت محمد مصطفٰیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام مبارک زندگی میں اپنے اوپر ہوئے ظلم و جبر اور کسی زیادتی کا بدلہ لئے بغیر ہمیشہ صبر و تحمل اور عفو و درگزر کا معاملہ فرمایا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم تھا کہ ’’ اور آپ صبر کیجئے اور آپ کا صبر سوائے اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ہو نہیں سکتا اور آپ ان لوگوں کے لئے غمزدہ مت ہوں اور نہ ان لوگوں کی مکاریوں کی وجہ سے تنگی میں ہوں ‘‘۔ (النحل؛ ۱۲۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکۃ المکرمہ کے ابتدائی تیرہ سال کی زندگی میں ہر طرح کی اذیتیں برداشت کیں، یہ سب صبر کی صلاحیتوں کا ثمرہ ہی تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے، بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصّے کے وقت خود پر قابو رکھے ۔‘‘ (صحیح المسلم)اسی طرح اللہ رب العالمین نے صبر جیسے عظیم عمل کو اللہ تعالیٰ کی مدد کے حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ (اے ایمان والو) صبر اور نماز کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کرو ۔‘‘ (البقرہ؛ ۴۵)حضرت یعقوبؑ نے بھی اپنے لخت جگر حضرت یوسفؑ اور بنیامین کو کھونے کے بعد اس رنج و غم اور بے قرارگھڑی میں صبر کا دامن ہی تھامے رکھا ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا بیماری کی حالت میں بے انتہا صبر ‘صبر ایوب کے نام سے تا قیامت مثال بن کر رہ گیا ہے ۔ جس کی بارہا مثال ہمیں اپنی زندگی میں بھی سننے کو ملتی ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے سے نصیحت کرنا دور جدید کے شدت پسند انسان کے لئے رہ نما اصول ہیں۔ جس پہ عمل پیرا ہونے سے انسان بلندی کا مقام حاصل کر سکتا ہے اور اللہ کا مقرب بندہ بن سکتا ہے – ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اور تجھ پر جو مصیبت واقع ہو ،اس پر صبر کیا کر، یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔ (لقمان؛ ۱۷)الغرض صبر سے بڑھ کر کوئی دوسری چیز نہیں جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار نعمت، عظمت، رحمت و مغفرت حاصل ہونے کے وعدے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ زندگی کے مختلف مشکلات، غم و مصیبت زدہ حالات اور تنگ دست لمحات میں صبر کرنا سیکھیں ۔ کسی بھی طرح کی غیر شرعی حرکت انجام دینے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ اللہ رب العالمین سے مسلسل دُعا کرنی چاہیے جو ہمیں ہر طرح کی مشکل حالات میں حفاظت یقینی بنائے گا اور ان سے نجات دے گا۔ اِن شاءاللہ ۔*(بشکریہ روزنامہ کشمیر عظمٰی، سرینگر کے آج کے شمارے کا )*