کشمیر میں اطفال ادب
کشمیر میں پر تناؤ حالات کی وجہ سے جہاں نوجوان طبقہ ذہنی دباؤ میں ڈوبتا نظر آرہا ہے وہیں چھوٹے بچوں پر بھی اسے کافی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ ان حالات میں جہاں بچوں کے ذہن منتشر رہتے ہیں وہیں ان کی مثبت ذہنی نشونما کی خاطر بھی انفرادی اور اجتماعی سطح پر کارگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے ۔بچوں کو ادب کی طرف راغب کرنا اور بچوں کے لئے ادب لکھنا اور تخلیق کرنا اس ضمن میں ایک خوش آئندہ قدم تصور کیا جاتا ہے ۔ اس سنجیدہ نوعیت کے مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنا عبادت سے کچھ کم نہیں ہے کیونکہ جب ہمارے اطفال ذہنی طور طاقتور بن جائے تب ہی مستقبل میں ہم ایک خوشحال سماج کی تعمیر ممکن بنا سکتے ہیں۔ کشمیر میں جہاں اطفال ادب کا رجحان بہت کم دکھتا ہے اور میڈیا سے جڑے ادارے بھی اس سنگین مسئلے کو غیر سنجیدگی سے لے رہے ہیں تو کالج سطح کے ، یونیورسٹی سطح کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے بالغ زہن رکھنے والے طبقے کو بھی اطفال ادب کے لیے اپنی صلاحیت اور تجربات پیش کرنے چاہیے ۔ بچوں کے لیے میٹھی اور دلچسپ کہانیاں تخلیق کرنا، پہیلیاں لکھنا، نظمیں لکھنا اور کارآمد باتیں آسان زبان اور لفظوں میں پیش کرنا وغیرہ بچوں کی شخصیت نکھارنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہے ۔ ہمارے یہاں شائع ہونے والے روزناموں، ہفت اور پندرہ روزہ اخباروں میں کم سے کم ایک یا دو صفحات ادب اطفال کے لیے مختص ہونے چاہیے تاکہ بچوں کے ادب کو ایک طرف فروغ مل سکے تو دوسری طرف ان کی ذہنی نشونما بھی ممکن بنائی جاسکے گی ۔ جموں کشمیر کلچرل اکاڈیمی اور ریاستی تعلیمی اداروں کو بھی اطفال ادب کے لیے اپنی خدمات میسر رکھ لینی چاہیے تاکہ اطفال ادب کشمیر میں یتیم تصور نہ کیا جائے ۔ اگر ہم ریاست یا وادی سے باہر باقی ریاستوں اور خطوں کی بات کریں تو صورتحال بالکل مختلف نظر آتی ہے ۔ وہاں کے تقریبا” تمام روزناموں اور رسالوں میں اطفال ادب کے لیے نہ صرف کچھ صفات مختص ہوتے ہیں بلکہ ہفتے میں ایک دن ان اخبارات اور رسالوں میں صرف اور صرف اطفال ادب نظر آ رہا ہے ۔ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کی طرف سے ہر مہینے کچھ رسالوں کی اشاعت ہوتی ہے جن میں صرف اطفال ادب پڑھنے کو ملتا ہے ۔ بچوں کے لیے کئی رسالے اور مہانامے جیسے “بچوں کی دنیا” کی اشاعت بھی اسی کی ایک کڑی ہے ۔ اس میں بچوں کی تخلیق کردہ نظمے ، کہانیاں اور پہیلیاں نظر آتی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس رسالے کی آخری دو صفحات پر بچوں کے ذریعے کھینچی گئی کچھ خوبصورت تصاویر بھی دیکھنے والوں کے دل و دماغ پر گہری چھاپ ڈالتے ہیں ۔ مزید اس رسالے میں ملک کے تمام ریاستوں سے تعلق رکھنے والے کئی نامی گرامی ادیبوں کے تخلیقات بھی پڑھنے والوں کے زہن معطر کرنے میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں ۔ کئی نامور اخبارات اور رسالے بھی اطفال ادب کو فروغ دینے میں اپنا رول بخوبی نباتے ہیں۔ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ادیبوں، قلمکاروں، شاعروں اور مصنفوں کو بھی اطفال ادب کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی تخلیقات میں تبدیلی لانی اور بچوں کے لیے مواد تیار کرنا چاہیے جو ان کے لیے موافق بھی ہو اور دلچسپ بھی ۔ ملک کے نامور اطفال ادیب مثلا” ڑاکٹر رئیس صدیقی ، ڑاکٹر حافظ کرناٹکی اور ڑاکٹر پرویز شہریار سے بھی اس ضمن میں رائے طلب کی جا سکتی ہے تاکہ بچوں کے لیے یہاں سے شائع ہونے والے روزناموں اور رسالوں میں اطفال ادب کے لیے مواد تیار کر لیا جائے اور کچھ صفحات ان کی تخلیقات کے لیے ہی مختص رکھی جائے تاکہ ہماری نئی پود ملک کی باقی ریاستوں کے بچوں کے مقابلے میں کسی بھی طرح پیچھے نہ رہ جائے ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کے کئی روزنامے مثلا” روزنامہ سرینگر ٹائمز سوموار کے روز اپنے بھیچ والے صفحات میں صرف بچوں کے لیے ہی کہانیاں، نظمیں اور پہیلیاں قارئین کے لیے پیش رکھتا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ باقی مانندہ روزنامے بھی اس ضمن میں اپنے آپ کو متحرک کریں تاکہ اطفال ادب کو یہاں بھی ایک نئی روح حاصل ہوسکے ۔ کچھ انگریزی روزنامے بھی بچوں کے لیے ایک دن ان کی تخلیقات اور خوبصورت تصاویر چھپواکر اطفال ادب کو فروغ دینے میں اپنا کلیدی رول نبھاتے ہیں ۔ روزنامہ گریٹر کشمیر اس ضمن میں قابل ذکر ہے جس میں سوموار کے دن بچوں کی تخلیق کردہ انگریزی نظمیں، کہانیاں اور خوبصورت تصاویر پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ ہماری وادی کشمیر میں کہنہ مشق شاعروں، تخلیق کاروں اور ادیبوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اطفال ادب کو فروغ دینے میں ایک اچھا اور موثر رول ادا کرسکتے ہیں اور جن کی محنت اور خدمت خلق سے اطفال ادب کو مزید تقویت مل سکے گی ۔ آئے روز ہم پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڑیا کے ذریعے بہت ایسے مصنفوں اور قلمکاروں کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں جن کی عمر بارہ ، چودہ یا پندرہ سال کی ہوتی ہے اور جنہوں نے نئی اور پرمغز کتابیں لکھی ہوتی ہیں ۔ اسے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری وادی اطفال ادب کے لیے بالکل زرخیز ہے اور نئی پود کو اگر واقعی طور پر اچھی رہنمائی حاصل ہو جائے تو مستقبل قریب میں وہ دن ذیادہ دور نہیں جب ہم بھی ملک کی باقی ریاستوں کی طرح اطفال ادب میں ترقی پزیر بن جائے ۔
رئیس احمد کمار قاضی گنڈ کشمیر