تصوف مضامین

تصوف میں ملاوٹ (6) تحریر از مقبول فیروزی

نیوز ڈسیک

تصّوف میں ملاوٹ


قسط نمبر 6
جیسا کہ پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ قرآن مجید میں واضع طور پر اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے ”لیسَ کمِثلہ شیٸً“۔جب اُس جیسی کوٸی شۓ نہیں ہے تو پھر صوفیوں اور فلسفیوں کو کیا ضرورت پڑی کہ اللہ کے صفات اور اس کی ذات کو از روۓ فلسفہ جاننے کی کوشش کریں۔توحید از روۓ شریعت اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کو کہتے ہیں۔خدا کی ذات و صفات پر فلسفیانہ بحث نے وحدة الوجود کو جن دیا جوکہ در اصل یونانی فلسفہ،ہندو ویدانت اور مانی مذہب کا نظریہ ہے۔اس فلسفے کی وجہ سے مسلمان عبادت الہیٰ کے بجاۓ وصلِ الہیٰ ڈھونڈنے میں لگ گٸے اور یہی ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔وحدة الوجود کے بارے میں صوفیا اور علما نے بہت کچھ لکھا ہے جس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ توحیدِ وجودی اس اعتقاد کا نام ہے کہ خارج میں صرف ایک ہی ذات کا وجود ہے۔اس کے علاوہ اور کوٸی شۓ وجود نہیں رکھتی۔غبار خاطر میں مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ وحدة الوجود کے عقیدے کا سب سے قدیم سرچشمہ ہندوستان ہے۔غالباً یونان اور اسکندریہ میں بھی یہیں سے یہ عقیدہ پہنچا ۔وحدة الوجود یعنی ھمہ اوست کا نظریہ بقول ڈاکٹر محمد عبدالحی انصاری یہ ہے کہ خدا ہی عالم ہے خدا ہی معلوم،وہی قادر ہے اور وہی مقدور،وہی مراد ہے اور وہی مرید،وہی محرک اور وہی متحرک،تمام بُرے اور اچھے اعمال کا صدور اُسی سے ہوتا ہے۔۔ ۔۔۔۔ وجودی صوفیہ خود کو خدا کی ذاتِ کُل میں فنا اور جذب ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ان کے نزدیک روح ایک قطرہ ہے جو سمندر میں مل کر سمندر بن جاتا ہے۔یہ لوگ اپنے آپ کو تمام حدبندیوں سے آزاد سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک عیساٸی،یہودی،ہندو مسلمان میں کوٸی فرق نہیں ہے۔اسلام کی تعلیم بالکل روشن ہے کہ عبادت کے لاٸق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے باقی جو کچھ بھی ہے وہ سب کی سب مخلوق ہے۔اللہ کی ذات اور اس کے صفات کی بحثیں سب بیکار ہیں۔لہذا وجودی صوفیہ کا یہ کہنا کہ ہم سب ایک ہی باغ کے پھول ہیں،مسجد،مندر،گرجا،بُت پرست،نمازی،مسلمان،یہودی ،عیساٸی سب برابر ہیں،بالکل جہالت اور نادانی ہے۔ایسے صوفی کے بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں
عجم کے خیالات میں کھوگیا
یہ سالک مقامات میں کھوگیا
۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔
*مقبول فیروزی *

مصنف کے بارے میں

مقبول فیروزی

ایک تبصرہ چھ